عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

مرد

میں ایک مرد ہوں اور میری شناخت کے لیے بس اتنا حوالہ ہی کافی ہے۔ بعض دفعہ مجھے رشتوں کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ مثلاً باپ، بیٹا، بھائی، شوہر، داماد وغیرہ وغیرہ مگر میری بنیادی شناخت ان تمام رشتوں پر حاوی رہتی ہے اور میری بنیادی شناخت میرا مرد ہونا ہی ہے۔
بہت سال پہلے زمین پر مجھے اتارتے ہوئے اللہ نے مجھے اپنا نائب اپنا خلیفہ بنایا تھا۔ باقی تمام چیزوں کی نگہبانی کا کام اس نے مجھے سونپ دیا۔ چیزوں سے مراد جانور، پودے کیڑے اور عورت ہے اس وقت میں نے یہ کام بڑی خوشی سے اپنے ذمہ لیا تھا۔ میں جذبات سے مغلوب ہو گیا تھا کہ اللہ نے مجھے اتنا بہتر سمجھا ہے کہ میرے ذمہ وہ کام لگا دیے جو پہلے اس نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے تھے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ کام آسان نہیں تھا یہ کام بہت مشکل تھا اور مجھے اللہ سے یہ ہی شکوہ ہے کہ اس نے سب سے مشکل کام میرے ذمہ کیوں لگایا۔ پودوں کو صرف اپنی نشوونما سے غرض ہے جانوروں کو صرف اپنی پرواہ ہے کیڑوں اور عورت پر بھی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی مگر مجھے… مجھے تو صرف اپنا ہی نہیں ہر ایک کا خیال رکھنا ہے۔ مخلوقات کی دیکھ بھال کرنی ہے عورت کی نگہبانی کرنی ہے دنیا میں حکومت کرنی ہے پھر لوگوں کو اللہ کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق بھی چلانا ہے اور اس کے بعد… اس کے بعد پھر ہر ایک کی نفرت حاصل کرنی ہے چاہے وہ جانور ہوں دوسرے لوگ ہوں یا پھر عورت کم از کم مرد سے تو کوئی بھی خوش نہیں ہے۔ ہر ایک کو شکایت ہے اور ان شکایتوں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ میں چاہوں بھی تو انھیں دہرا نہیں سکتا۔
دنیا کی خلافت تو خیر کیا کرنی تھی میں تو نگہبانی جیسے چھوٹے سے کام سے کسی کو خوش نہیں کر سکا۔
اللہ نے پہلے مجھے زمین پر نہیں اتارا تھا۔ بنانے کے بہت عرصہ بعد تک مجھے اپنے پاس ہی بے جان رکھا پھر جان بخش دی اور فرشتوں کو سجدہ کرنے کے لیے کہا۔ فرشتوں کا خیال تھا کہ مجھ میں ایسی کوئی خوبی نہیں ہے جس کی بناء پر وہ مجھے خود سے برتر سمجھیں پھر اللہ نے مجھے اپنے علم کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہا۔ آپ علم کی طاقت کو تو جانتے ہی ہیں۔ بہرحال یہ وہ تحفہ تھا جو مجھے جنت میں ہی عطا کر دیا گیا۔ خیر میں نے اللہ کی ہدایات کے مطابق ان چیزوں کے نام بتائے جن کے نام اس نے پوچھے تھے۔ فرشتے مجھ سے مرعوب ہو گئے اور پھر اللہ کے کہنے پر انھوں نے مجھے سجدہ کیا ماسوائے ایک کے جو ابلیس تھا۔
اس کا خیال تھا کہ مجھے مٹی سے بنایا گیا ہے اور وہ خود کو مجھ سے برتر سمجھتا تھا اس لیے اس نے مجھے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے دنیا کے قائم رہنے تک مجھے بھٹکانے اور گمراہ کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔
اللہ نے مجھے جنت کے باغوں میں آزاد چھوڑ دیا اور میرے لیے آسائشات کے انبار لگا دیے ہاں بس مجھ پر ایک پابندی لگائی کہ ایک خاص درخت کے پاس جاؤں نہ ہی اس کا پھل استعمال کروں۔ میں جسے خدا نے علم کی طاقت سے آراستہ کیا تھا ایسی طاقت جس کے سامنے فرشتے بھی ٹھہر نہیں سکے تھے۔ وہ یقینا اتنی چھوٹی سی پابندی کا تو خیال ضرور رکھتا مجھے ضرورت ہی کیا تھی کہ میں جنت کی ڈھیروں ڈھیر آسائشیں چھوڑکر ایک ایسے معمولی سے درخت کے پیچھے پڑ جاتا جس کے پاس جانے سے اللہ نے میرے خالق نے مجھے خاص طور پر منع کیا تھا میں یقینا ایسا کبھی نہ کرتا مگر میں نے کیا اور کیوں کیا اس کی بہت زیادہ تفصیل میں جانے کی تو خیر ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ سب جانتے ہی ہیں کہ میں نے ایسا کیوں کیا عورت کے کہنے پر…





میں نے آپ کو بتایا تھا کہ مجھے سجدہ نہ کر کے شیطان نے خدا کی نافرمانی کی اور پھر رہتی دنیا تک مجھے بھٹکانے کا ذمہ اپنے سر لے لیا مگر مجھے بھٹکانے کے لیے جو ہتھیار اس نے استعمال کیا وہ عورت کا ہتھیار تھا اور تب سے وہ یہی ہتھیار استعمال کرتا آ رہا ہے۔ اکثر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتا ہے مگر بعض دفعہ یہ ہتھیار کند بھی ہو جاتا ہے یا آپ یہ سمجھ لیں کہ کند کرنا پڑتا ہے۔ میں نے آپ کو بتایا ہے ناکہ مجھے علم جیسی طاقت خدا نے جنت میں ہی عطا کر دی تھی اور ظاہر ہے۔ اس طاقت کے ہوتے ہوئے مجھ پر قبضہ پانا شیطان کے لیے آسان کام نہیں تھا مگر عورت پر قبضہ پانا اس کے لیے بہت آسان کام ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں تمام مخلوقات میں سے عورت ہی سب سے زیادہ کمزور اور بے عقل ہے پھر شعور سے بھی عاری ہے۔ تو خیر شیطان نے عورت کو اپنا ازلی آلہ کار بنا لیا… مجھے عورت کا تعارف کروانا تو یاد ہی نہیں رہا اب میں اس کے بارے میں بتاؤں گا نہیں تو آپ کیسے جانیں گے کہ عورت کیا ہوتی ہے۔
میں آپ کو بتا رہا تھا ناکہ مجھے خدا نے سب سے پہلے تخلیق کیا پھر بہت سی چیزوں کو میرے لیے تخلیق کیا ان میں سے ہی ایک عورت بھی ہے تو یہ بھی ان بہت سی چیزوں میں سے ایک چیز ہے جسے میرے استعمال اور آرام کے لیے بنایا گیا مگر عورت نے اپنی اوقات بھولنے کے بعد زمین میں وہ قیامتیں اٹھائیں جن کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ خیر اس کا بھی زیادہ قصور نہیں ہے میں نے آپ کو بتایا ہے ناکہ اس پر ہمیشہ شیطان کا غلبہ رہتا ہے۔ وہ وہی کچھ کرتی ہے جو شیطان چاہتا ہے۔ اسی عورت کی وجہ سے مجھے جنت سے نکالا گیا… مرد کو جنت سے نکال دیا گیا۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے اس تکلیف اور ذلت کا جو مجھے خدا کی نظروں سے گر کر ہوئی اور اس تکلیف اور ذلت کا باعث عورت تھی۔ وہ مجھے نہ بہکاتی تو میں اس درخت کا پھل کبھی استعمال نہ کرتا لیکن اس نے تو مجھے بہکانا ہی تھا کیونکہ اس کے اندر شیطان تھا اور شیطان مجھے آسمان سے زمین پر لے آنا چاہتا تھا۔
خیر عورت کے بہکاوے میں آنے کی وجہ سے مجھے سزا کے طور پر زمین پر بھیج دیا گیا اور سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عورت کو بھی میرے ساتھ ہی زمین پر بھیجا گیا یعنی اللہ چاہتا تھا کہ ازل تک میں شیطان کا سامنا کرتا رہوں۔ زمین پر آ کر میں سنبھل گیا میں نے اپنے گناہ پر اللہ سے معافی چاہی اور اللہ نے مجھے معاف کر دیا۔ مجھے نہیں پتہ عورت نے اللہ سے معافی مانگی یا نہیں اور اگر مانگی بھی تو کیا اللہ نے اسے معاف کیا یا نہیں لیکن بہرحال مجھے اللہ نے معاف کر دیا۔ پھر میں بڑے سکون اور آرام سے زندگی گزارنے لگا۔ زمین پر جنت جیسی آسائشیں نہیں تھیں مگر ہو کیا سکتا تھا واپس جنت میں تو میں جا نہیں سکتا تھا۔ رہنا تو زمین پر ہی تھا اور جب زمین پر رہنا تھا تو پھر صبر شکر کے ساتھ ہی رہنا تھا۔ میں بھی صبر شکر کے ساتھ رہ رہا تھا۔ مگر پھر وہی عورت… وہی شیطان میرا آرام اور سکون کہاں دیکھ سکتا تھا مجھے اللہ کی عبادت کرتے کہاں برداشت کر سکتا تھا اور اس بار اس نے پہلے سے بھی سنگین وار کیا۔
بہکانے کا سبب پھر عورت ہی تھی مگر اس بار اس نے مجھے زمین سے دربدر نہیں کیا اس بار اس نے میرے ہاتھوں ایک دوسرا مرد قتل کروا دیا۔ ایک بار پھر میں اللہ کی نظروں سے گر گیا۔ جتنا عرصہ مجھے پہلی غلطی کی تلافی کرتے ہوئے لگا تھا اتنے عرصہ کے بعد میں نے اس سے بھی بھیانک کام کیا۔ اگر عورت تنازعہ کی وجہ نہ ہوتی تو میں یہ قتل کبھی نہ کرتا۔ میں ایک دوسرے مرد کو قتل کیسے کر سکتا تھا اور پھر اس مرد کو جو میرا اپنا بھائی تھا مگر عورت نے مجھ سے یہ گھناؤنا کام بھی کروایا۔ اب تو آپ کو اندازہ ہو ہی رہا ہوگا کہ مجھے عورت سے اتنی نفرت اور چڑ کیوں ہے۔
ہمیشہ ہر بار جب بھی میں نے خدا کے قریب ہونے کی کوشش کی ہے یہ کسی نہ کسی طرح بیچ میں آتی رہی ہے کبھی یہ میری محبت کا رخ اپنی طرف موڑ لیتی ہے اور کبھی مجھ سے کوئی ایسا گناہ کروا دیتی ہے جس کے بعد میں خدا کی نظروں سے گر جاتا ہوں… معتوب ٹھہرتا ہوں اور یہ سب ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے۔
خیر یہ تو ایسے ہی درمیان میں عورت کے تعارف کی ضرورت پڑی تو مجھے یہ چند لائنیں لکھنی پڑیں بہرحال میں تو آپ کو اپنے بارے میں بتا رہا تھا۔ قتل کے بعد ایک بار پھر میں نے توبہ کی پھر یہ سلسلہ چلتا ہی رہا۔ عورت مجھ سے گناہ کرواتی۔ میں اپنے علم کی طاقت کو استعمال کرتا اور توبہ کر لیتا نہ وہ مجھے ہمیشہ کے لیے خدا کی نظروں سے گرا پائی نہ میں ہمیشہ کے لیے خدا کی نظروں میں قابل توجہ رہا۔ گرنے اور اٹھنے کا یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔
یہ تو تھا میری شاندار تاریخ کا ایک چھوٹا مختصر سا جائزہ۔ زمین پر کسی دوسری مخلوق کی تاریخ اتنی شاندار نہیں ہے۔ کسی دوسری مخلوق سے اللہ نے اتنی محبت نہیں کی۔ کسی دوسری مخلوق پر اتنی عنایات نہیں کیں اور کسی دوسری مخلوق پر اتنی ذمہ داریاں نہیں ڈالیں جتنی اس نے مجھ پر یعنی ”انسان”… یعنی ”مرد” پر عائد کی ہیں اور میں ہمیشہ سے ان ذمہ داریوں کا بوجھ احسن طریقے سے اٹھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
زمین پر موجود کسی مخلوق نے اتنی محنت، دیانتداری، محبت اور خلوص کے ساتھ اپنے کام نہیں کیے جتنے خلوص، دیانتداری، محنت اور محبت کے ساتھ میں نے اپنا کام کیا ہے۔ آج زمین پر جتنی ترقی آپ دیکھتے ہیں یہ سب میری کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔ خدا نے اگر خلافت کی ذمہ داری مجھے سونپی تھی تو لاکھ آزمائشوں اور مشکلات کے باوجود میں نے اس ذمہ داری کو سرانجام دینے کی کوشش کی ہے۔ مگر اس سب کے باوجود مجھے پسند نہیں کیا جاتا۔ میرے ہر کام پر اعتراضات کیے جاتے ہیں میری نیت پر شبہ کیا جاتا ہے۔ میرے راستے میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں اور سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کوئی بھی مجھ سے خوش نہیں ہے حتیٰ کہ… اللہ بھی۔
میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ اس کی بنیادی وجہ عورت ہے پتا نہیں کیوں اس نے ہمیشہ سے مجھے گمراہ کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لی ہوئی ہے۔ ٹھیک ہے مانتا ہوں کہ اس پر شیطان حاوی ہو جاتا ہے ابلیس کا قبضہ ہے اس لیے وہ ایسے کام کرتی ہے یہ بھی مانتا ہوں کہ وہ ہر لحاظ سے کمزور ہے اس لیے بڑی آسانی سے ابلیس کے ہاتھ کا ہتھیار بن جاتی ہے مگر ان سب باتوں کے باوجود مجھے غصہ اس لیے آتا ہے کہ وہ شیطان کے سامنے مدافعت کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی اس نے کیوں خود کو مکمل طور پر شیطان کے قبضہ میں دے دیا ہے۔ مرد بھی تو ہے۔ وہ بھی تو شیطان کے سامنے مدافعت کی کوشش کرتا ہے۔ اس پر تو شیطان اتنی آسانی سے حاوی نہیں ہو پاتا آخر عورت ہی ہر بار اس کا شکار کیوں بنتی ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ مظلومیت کا ڈرامہ کرتی ہے۔ مکاری اور چلتر میں تو آپ جانتے ہی ہیں عورت کا کوئی جواب نہیں۔ وہ ہمیشہ میری (Authority) کو چیلنج کرتی رہتی ہے ہر چیز میں میرے مقابل آنے کی کوشش کرتی ہے اور یہ بات بالکل بھول جاتی ہے کہ مجھے خدا نے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔
زمین پر بھیجے جانے کے بعد میں نے اپنے ہر رول کو بڑی ذمہ داری سے ادا کرنا شروع کیا چاہے وہ حکمران کا ہو باپ کا ہو بیٹے کا ہو یا پھر بھائی کا میں نے اپنی ذمہ داریاں ہمیشہ احسن طریقے سے ادا کرنی شروع کیں مگر عورت نے پھر بھی واویلا مچانا جاری رکھا کبھی اسے میرے حکمران کے کردار پر اعتراض ہوتا اس کا خیال تھا کہ مرد کی حکومت اسے اس کے حقوق سے محروم کر دیتی ہے اس پر ظلم کیا جاتا ہے اس کی فریاد نہیں سنی جاتی اس کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہری کا سلوک کیا جاتا ہے یہ سارے الزامات غلط ہیں۔ عورت کو جتنے حقوق دینا ضروری ہیں وہ دیے جاتے ہیں کیا اس کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے اس کی کفالت کا ذمہ ہمیشہ کسی مرد کے سر ہوتا ہے اسے ہر چیز گھر بیٹھے بٹھائے مل جاتی ہے پھر اسے اور کیا چاہیے زمین پر دوسری کوئی مخلوق ایسی نہیں اتاری گئی جسے عورت جتنی آسانیاں دی گئی ہوں مگر پھر بھی عورت خوش نہیں ہے۔ وہ چاہتی ہے اسے مرد جتنی آزادی دی جائے اسے مردوں جتنے حقوق دیے جائیں آپ خود ہی سوچیں کہ یہ انصاف ہے کہ عورت جو زمین پر کچھ نہیں کرتی اسے وہ سارے حقوق دے دیے جائیں جو مرد جس نے زمین پر ذمہ داریوں کا سارا بوجھ اٹھایا ہوا ہے کو حاصل ہیں یقینا یہ انصاف نہیں ہے اس لیے عورت کو چند حقوق سے محروم رکھنا ہی بہتر ہے۔ پھر عورت حکمران پر الزام عائد کرتی ہے کہ اسے کام کرنے اور اعلیٰ ملازمتوں کے حصولوں میں آزادی نہیں ہے۔
مجھے تو یہ سوچ کر ہنسی آتی ہے کہ عورت کیا کام کرے گی۔ عورت کو باتیں کرنے، فساد ڈلوانے اور مرد کو بہکانے کے علاوہ اور کون سا کام آتا ہے۔ اب کیا ان کاموں کے لیے حکومت باقاعدہ طور پر سرکاری ملازم بھرتی کر لے۔ پہلے عورت کا فتنہ گھر تک محدود ہے اسے سڑکوں پر آنے دیا جائے تو یہ اپنے فتنہ کو اور پھیلا دے گی اس کی وجہ سے مرد اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ٹھیک طریقے سے انجام نہیں دے سکے گا اس لیے حکمران اگر عورت کو گھر کے اندر بند رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو ٹھیک کرتا ہے۔ گھر سے باہر اسے آنے بھی دیا جائے تو پھر اس کے مطالبات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پھر وہ شکایت کرتی ہے کہ مرد اسے تنگ کرتا ہے مرد اس کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے آپ ذرا خود سوچیں کہ مرد جس کے پاس علم جیسی طاقت ہے اور جسے زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے کیا وہ ایسی حرکت کر سکتا ہے۔ میں نے تو آپ کو پہلے ہی بتا دیا ہے کہ بہکانے کا کام ہمیشہ عورت سرانجام دیتی ہے اور گھروں سے باہر آنے کی خواہش بھی وہ اسی لیے کرتی ہے تاکہ مرد کو گمراہی میں مبتلا کر دے ورنہ وہ خوشی خوشی گھر کے اندر کیوں نہیں رہتی۔
یہی نہیں عورت کو مرد کے باپ کے رول پر بھی اعتراض ہے اسے ہمیشہ یہی خوش فہمی رہتی ہے کہ وہ بیٹی کے روپ میں باپ کی جتنی اطاعت کرتی ہے مرد بیٹے کے روپ میں نہیں کر سکتا اور پھر اسے یہ شکایت ہو جاتی ہے کہ مرد باپ ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ ایک دوسرے مرد یعنی بیٹے کو اس پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ آپ خود سوچیں کیا ایک باپ اپنی اولاد میں تفریق کر سکتا ہے یقینا نہیں لیکن ظاہر ہے بیٹیوں کو وہ سب کچھ تو نہیں دیا جا سکتا جو بیٹے کو دیا جا سکتا ہے کیونکہ جو کچھ بیٹے باپ کے لیے کر سکتے ہیں وہ بیٹیاں نہیں کر سکتیں مگر عورت اس بنیادی فرق کو سمجھ نہیں پاتی اور پھر مرد پر الزام تراشی شروع کر دیتی ہے۔
پھر یہی شکایت اسے بیٹے اور بھائی سے بھی ہوتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ بیٹے اور بھائی بھی باپ کی طرح بہت روک ٹوک کرتے ہیں بہت پابندیاں لگاتے ہیں۔ میں نے آپ کو بتایا ہے ناکہ مرد کو نگہبان بنا کر بھیجا گیا ہے اور نگہبان کا ایک کام پابندیاں لگانا بھی ہے۔ عورت جیسی ناقص العقل مخلوق اپنے اچھے برے سے کیسے واقف ہو سکتی ہے اس پر پابندیاں نہ لگائی جائیں تو وہ مرد کے لیے رسوائی کا باعث بنتی ہے۔
عورت کہتی ہے کہ مرد اسے تعلیم حاصل کرنے سے روکتا ہے۔ دراصل عورت تعلیم حاصل کر کے مرد کی برابری کرنا چاہتی ہے۔ اس کے شانہ بہ شانہ چلنا چاہتی ہے مگر میں اتنا احمق تو کبھی نہیں کہ عورت کو تعلیم یا دوسرے معنوں میں علم جیسی نعمت حاصل کرنے دوں میں نے آپ کو بتایا تھا ناکہ یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر مجھے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا اور اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا تھا اب یہ نعمت عورت بھی حاصل کر لے گی تو وہ تو میرے لیے اور بھی خطرناک ہو جائے گی اس لیے میں عورت کو تعلیم حاصل کرنے سے روکتا ہوں اور میرا خیال ہے ایسا کرنا ضروری بھی ہے۔
باپ، بیٹے، بھائی اور شوہر کے روپ میں جتنی محنت کرتا ہوں آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ اپنے خاندان کے لیے روزی کمانا سب سے مشکل کام ہوتا ہے اور یہ مشکل کام اللہ نے میرے ذمہ لگا دیا ہے کڑکڑاتی سردی ہو یا چلچلاتی گرمی مجھے صبح سے رات تک گھر سے باہر رزق کی تلاش کرنی ہوتی ہے۔ کبھی مزدور بن کر کبھی کسان بن کر اور کبھی کسی اور روپ میں مگر ہر روپ میں محنت مرد کو ہی کرنی پڑتی ہے اور مرد یہ سب اپنے خاندان کے لیے کرتا ہے۔ بیوی اور بچوں کے لیے یا پھر ماں اور بہن بھائیوں کے لیے یا پھر خود سے متعلقہ دوسرے لوگوں کے لیے اور اس کی ساری عمر اسی محنت میں گزر جاتی ہے۔ وہ جوانی سے بڑھاپے کا سفر طے کر لیتا ہے مگر محنت اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی نہ اس کی اولاد اس سے خوش ہوتی ہے نہ ماں باپ اور بہن بھائی اور نہ ہی بیوی۔ ہر ایک کی شکایتیں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں۔
اولاد کو باپ کی قربانیاں نظر نہیں آتیں نظر آتا ہے تو صرف ماں کا ایثار۔ بہنوں کو بھائی کی مشقت کا احساس نہیں ہوتا احساس اگر ہوتا ہے تو صرف بہنوں کی وسعت قلبی کا۔ ماں کو بیٹے کی جدوجہد یاد نہیں رہتی یاد رہتی ہے تو صرف بیٹیوں کی خدمت۔
دنیا میں خدا نے مجھے جتنے کردار ادا کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ وہ سب کردار ادا کرنے کے باوجود میں کسی کو خوش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بعض دفعہ یوں لگتا ہے جیسے میں نے اپنی زندگی کو ضائع کیا ہے اور وہ بھی ان لوگوں کے لیے جنھیں میری پرواہ ہے نہ میری ضرورت بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مجھے عورت پر بے تحاشہ رشک آتا ہے زمین پر کچھ نہ کرنے کے باوجود وہ کتنی مطمئن، پرُسکون اور خوش ہے۔
اولاد اس کی، ماں باپ اس کے، بہن بھائی اس کے، حتیٰ کہ سڑکوں پر وہ کسی سے مدد مانگے تو وہ بھی اسے فوراً صرف اس لیے مل جاتی ہے کہ وہ عورت ہے اور ایسا اگر مرد کرے تو…
وہ روئے تو لوگوں کو فوراً اس پر ترس آنے لگتا ہے حالانکہ وہ مکر کر رہی ہوتی ہے میں روؤں تو کسی کو ترس نہیں آتا اور لوگ سمجھتے ہیں کہ میں مکر کر رہا ہوں حالانکہ مرد تو بڑی مجبوری میں ہی روتا ہے۔ وہ حقوق نہ ملنے کا واویلا کرتی رہتی ہے پھر بھی اسے کسی قطار میں کھڑا نہیں ہونا پڑتا۔ سارے مردوں کو چھوڑ کر سب سے پہلے اسی کا کام کیا جاتا ہے۔ میں کتنا ہی مجبور کیوں نہ ہوں قطار میں کھڑا ہوا کوئی شخص مجھے اپنی باری کے بغیر آگے بڑھ کر اپنا کام نہیں کرنے دے گا۔ وہ سفر کر رہی ہو تو اسے کھڑا نہیں ہونا پڑتا کوئی نہ کوئی اس کو جگہ دے ہی دیتا ہے۔ مگر میرے ساتھ یہ نہیں ہوتا۔ مجھے بعض دفعہ کرایہ دے کر بھی کھڑے ہو کر ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔
ایسی رعایات اور مراعات کی ایک لمبی فہرست ہے جو عورت کو میسر ہیں اور پھر بھی ان کا واویلا ختم ہی نہیں ہوتا اور آپ ذرا یہ سوچیں کہ اسے زمین پر فساد ڈالنے مرد کو گمراہ کرنے اور شیطان کا آلہ کار بننے کے باوجود یہ سب کچھ حاصل ہے اور میں… زمین پر سب کچھ صحیح طریقے سے کرنے کے باوجود میں مشکل میں گرفتار ہوں اور رشک کی یہ کیفیت پھر حسد میں نہ بدلے تو اور کیا ہو۔ ہاں ٹھیک ہے میں عورت سے حسد کرتا ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے اسے بہت سی ایسی چیزیں حاصل ہیں جن کی وہ مستحق نہیں ہے اور بہت سی ایسی چیزوں کے لیے اسے سزا نہیں مل رہی جس کے لیے اسے سزا ملنی چاہیے اور میں چونکہ خدا کا نائب اور خلیفہ ہوں اس لیے میں اسے سزا دینے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ عورت کے بغیر زمین پر کون سے کام رک جاتے ہیں کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ خدا عورت کو نہ بناتا اس کی بجائے اس سے بہتر کوئی دوسری مخلوق بنا دیتا۔ ایسی مخلوق جو زمین پر میرے بوجھ کو کم کرتی اور میری مدد کرتی۔ پھر یہ زمین بھی جنت کا ایک ٹکڑا بن سکتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا اللہ نے عورت کو ہی بنایا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین جہنم بن گئی اور صرف زمین ہی نہیں بلکہ میری زندگی بھی۔
عورت نے میرے ہر احسان کو فراموش کر دیا میری کسی عنایت کو یاد نہیں رکھا۔ وہ اپنی پوری زندگی صرف ایک کام پر صرف کرتی ہے اور وہ کام اپنے سے وابستہ مردوں کو نیچا دکھانا اور ذلیل کرنا ہے چاہے وہ مرد اس کا باپ ہو، بیٹا ہو، بھائی ہو یا پھر شوہر وہ سب کے ساتھ ایک ہی سلوک کرتی ہے اور یہ کام وہ بڑے کمال اور مہارت کے ساتھ کرتی ہے۔
اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بعض دفعہ تو میں بھی دھوکا کھا جاتا ہوں۔ مجھے بھی اس کی مظلومیت پر ترس آنے لگتا ہے۔ مجھے بھی اس کے لفظوں پر اعتبار آنے لگتا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ شیطان کی آلہ کار ہے اس سے اپنے کام میں اس کی مہارت کا اندازہ کیجئے۔
اور تب مجھے اللہ سے بڑا شکوہ ہوتا ہے کہ اس نے مجھ پر ذمہ داریوں کے اتنے پہاڑ کیوں لاد دیے اور اگر اس نے مجھ پر اتنی ذمہ داریاں عائد کرنا ہی تھیں تو پھر کم از کم مجھے زمین پر ہی اس کا اجر دیتا اور تب ہی میں سوچتا ہوں کہ شاید میں بھی بے کار زندگی گزار رہا ہوں۔ شاید میری زندگی کا بھی کوئی مقصد نہیں ہے شاید میرے ہونے یا نہ ہونے سے اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا شاید اللہ کو میری کبھی ضرورت ہی نہیں تھی اور جب میں یہ سب سوچتا ہوں تو پھر مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر اللہ کو میری ضرورت نہیں تھی تو اس نے مجھے تخلیق کیوں کیا۔ اگر میرے بغیر بھی دنیا کے سارے کام بخوبی ہو سکتے تھے تو پھر اللہ کو مجھے زمین پر بھیجنا نہیں چاہیے تھا مگر پھر میں سوچتا ہوں کہ زمین پر تو میں اپنی غلطی سے آیا تھا ورنہ تو خدا نے مجھے جنت میں رکھا ہوا تھا اور پھر مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہو سکتا ہے اگر میں عورت کے بہکاوے میں آ کر غلطی نہ کرتا تو آج تک جنت میں ہی ہوتا اور یہ بھی ممکن ہے میرا اصلی رول وہیں ہوتا۔
لیکن تب مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر میں زمین پر نہ آتا تو پھر زمین کا انتظام کیسے چلتا۔ کون آ کر وہ ساری ذمہ داریاں پوری کرتا جو میں کر رہا ہوں پھر میرے ذہن میں خیال آتا ہے کہ عورت تو… اور آپ یقین مانیں میں اس کے آگے کچھ نہیں سوچتا۔ میں اس کے آگے کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ حسد کی آگ اتنی بلند ہو جاتی ہے کہ اس کے شعلوں میں مجھے عورت نظر ہی نہیں آتی صرف اس کا ہیولہ نظر آتا ہے اور ہیولوں کا کوئی نام نہیں ہوتا نہ ہی کوئی انھیں پہچانتا ہے۔
اور میں یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتا ہوں کہ عورت جیسی کمزور اور ناقص العقل مخلوق خدا حکمرانی اور اپنی خلافت سونپنے کے لیے کبھی منتخب نہیں کر سکتا مگر آپ جانتے ہیں خدشات تو خدشات ہی ہوتے ہیں نا میں انھی خدشات کی وجہ سے عورت کو اس طرح محکوم بنا کر رکھتا ہوں۔ اسے ذلیل کرتا رہتا ہوں اس کی تحقیر کرتا ہوں مگر یہ سب کرنے کے بعد بھی مجھے سکون اور قرار نہیں ملتا مجھے یہی لگتا ہے کہ عورت کا پلڑا اب بھی بھاری ہے اور تب ہی میں سوچتا ہوں کہ میری زندگی کا کیا مقصد ہے کیا میری زندگی کا مقصد عورت سے ایک ازلی اور ابدی جنگ ہے اور اگر ایسا ہے تو کیا میں نے اپنے رول کو بہت محدود نہیں کر لیا تو پھر میرا مستقبل کیا ہے۔ مستقبل ہے بھی یا نہیں یہ سوال میں پہلی بار اللہ سے نہیں آپ سے پوچھ رہا ہوں یہ جاننے کے باوجود کہ میری طرح آپ کے پاس بھی اس کا جواب نہیں ہے۔
*…*…*




Loading

Read Previous

زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

Read Next

میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

4 Comments

  • ?Iska 2nd part bhi hai kiya

  • you represented the absolute truth

  • Bohat hi umdah tehrer hai

  • Awesome
    Effort

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!