بابا تو یہ خبر سنتے ہی خوف زدہ ہو گئے۔ بوا جی بھی گھبرا گئیں۔ انہوں نے بلال کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اپنی پوسٹنگ کسی اور جگہ کرا لے، مگر وہ نہیں مانا۔ بابا کے دل میں اسی بات نے شاید گرہ ڈال دی تھی ۔ پھر جیسے ہی بوا جی نے بلال کی حفاظت کے خیال سے اس کے ساتھ جانے کی حامی بھری بابا نے انہیں ایک بار بھی نہیں روکا اور یوں، ان کی زندگی سے قندیل اور بلال کے ساتھ ساتھ بوا جی بھی شاید ہمیشہ کے لیے نکل گئیں۔
”بابا بابا! مجھے بچا لیں بابا۔ یہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے بابا۔ پلیز ہیلپ می بابا! ” رات کے ڈھائی بجے پروفیسر عالم کے موبائل فون پر آنے والی کال نے تو ویسے ہی ان کی آدھی جان نکال دی تھی، اس پر کال ریسیو کرتے ہی آنے والی چیخیں اور پھر قندیل کی روتی بلکتی آواز نے ان کے پیروں تلے زمین کھینچ لی تھی۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ رات کے اس پہر اپنی بیٹی کی مدد کیسے کریں۔انہیں اس مشکل وقت میں بلال کی یاد شدت سے آئی، مگر وہ اسے بھی نہیں بلا سکتے تھے کہ کافی عرصے سے ان کا آپس میں رابطہ بھی نہیں رہا تھا۔جب سے انہیں یہ پتا چلا تھا کہ بلال نے اپنے باپ کا حصہ اپنے شریکوں سے وصول کر لیا تھا، وہ اس سے اور بھی زیادہ بدزن ہو گئے تھے۔اس لیے اس سے سارے رابطے توڑ بیٹھے ۔ حتیٰ کہ انہوں نے اس کا سیل نمبر بھی ڈیلیٹ کر دیا تھا اور اب اس وقت انہیں یاد ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ بلال سے رابطہ کیسے کریں۔
”پروفیسر عالم صاحب! آپ کی بیٹی اس وقت لیڈی ریڈنگ ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے۔ آپ جتنی جلد ہو سکے یہاں آجائیں۔ ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔” ان کے سیل فون پر آنے والی دوسری کال انہیں ہوش وخرد سے بیگانہ کر گئی تھی۔ وہ تو قندیل کا فون سنتے ہی ڈھے گئے تھے، بڑی مشکلوں سے اپنے چند شاگردوں سے رابطہ کر پائے تھے جو اسی وقت ان کے پاس بھاگے چلے آئے تھے۔
اب وہی انہیں لے کر قندیل کے سسرال جا رہے تھے کہ مرادن کے پاس پہنچتے ہی ان کا سیل فون ایک بار پھر چیخ پڑا اور اس بار جو خبر ان کے کانوں نے سنی وہ انہیں بے ہوش کرنے کے لیے کافی تھی۔ان کے شاگرد بھی اس ساری صورتِ حال سے گھبرا گئے تھے۔ وہ انہیں لے کر قریبی ہسپتال کی طرف بھاگے۔
پروفیسر صاحب کو جیسے ہی ہوش آیا، انہوں نے فوری طور پر لیڈی ریڈنگ جانے کی ضد باندھ لی۔ شاگردوں کو جب ساری صورتِ حال کا علم ہوا، تو وہ بھی پریشان ہوگئے اور پھر انہیں تسلیاں دلاسے دیتے لیڈی ریڈنگ لے آئے۔ وہ سارے راستے دعائیں مانگتے آئے تھے کہ یہ خبر جھوٹی ہو۔ بتانے والے کو غلطی لگی ہو اور اور وہاں ان کی قندیل نہیں، کوئی اور ہی ہو، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔
ہسپتال کے برن یونٹ میں گونجنے والی چیخیں ان کی قندیل ہی کی تھیں۔ وہ اپنی بیٹی کی بے بسی اور لا چاری کو پوری طرح محسوس کر رہے تھے، مگر وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے کہ نہ وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھے اور نہ ہی ان کی بیٹی کی حالت ایسی تھی کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور طرف توجہ دے سکتے۔ اس پر ڈاکٹرز کا مایوس کن رویہ، کوئی بھی انہیں ہلکی سی امید بھی دلانے پر راضی نہیں تھا۔ وہ سوائے رونے کے اور کر بھی کیا سکتے تھے اور اس وقت بھی وہ کاریڈور میں بیٹھے یہی کام کر رہے تھے کہ ان کا بلال S.P بلال کے روپ میں ان کے درد کا درماں بن کر ان کے پاس چلا آیا۔
”بابا! آپ بالکل پریشان مت ہوں۔ میں ہوں ناں آپ کے ساتھ۔ ہم مل کر سارے حالات کا مقابلہ کریں گے اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ قندیل کو اس حالت تک پہنچانے والوں کو چین سے نہیں جینے دوں گا۔ میں اس پر ڈھائے گئے ایک ایک ظلم کا حساب لوں گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے بابا۔” بلال نے انہیں ساتھ لگاتے ہوئے مضبوط انداز سے کہا، تو وہ اس کے شانے پر سر ٹکا کر بلک بلک کر رو پڑے۔
”عالم بیٹا! بھول جاؤ سب پرانی باتیں۔ میں ایک بار پھر اپنے بلال کی امانت آپ سے جھولی پھیلا کر مانگ رہی ہوں۔ خدارا اس بار مجھے مایوس مت لوٹانا۔ میری قندیل میری جھولی میں ڈال دو بیٹا۔” بوا جی نے ایک بار پھر ان سے قندیل کا ہاتھ مانگا تو وہ مارے شرمساری سے رو ہی پڑے۔
”بوا جی! میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے پہلے ہی قندیل کی بات نہیں ماننی چاہیے تھی۔ میں نے اس کی بات مان کر بہت بڑی غلطی کی جس کی سزا ہمیں تو ملی ہی، خود وہ موت کے دہانے تک جا پہنچی۔” انہوں نے شرمندگی سے سر ہلاتے ہوئے کہا، تو بوا جی بھی گزرے واقعات یاد کرتے ہوئے افسردہ ہو گئیں۔
قندیل کا ساٹھ فیصد جسم جل چکا تھا۔ خوش قسمتی سے اس کے چہرے پر سوائے چند خراشوں کے اور کوئی زخم نہیں آیا تھا، مگر جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں بچا تھا جو زریاب کی درندگی اور اس کے ظلم کا نشانہ نہ بنا ہو۔ وہ کافی عرصہ ہسپتال میں رہی۔ بلال نے اس سارے معاملے کو اپنے طور پر ہینڈل کیا تھا۔ اس نے زریاب اور اس کے باپ کے خلاف ایکشن لیا، تو کئی طرح کے ہول ناک انکشافات ہوئے۔
زریاب کا کام ہی یہی تھا۔ خان بابا نہ تو اس کے باپ تھے اور نہ ہی امو جان اس کی سگی ماں۔ وہ پورا گروہ تھا، انسانی اسمگلروں کا خوف ناک گروہ جس کے ہر کارندے کے ذمے مختلف قسم کے کام تھے۔ زریاب کا یہی کام تھا کہ وہ خوب صورت لڑکیوں کو ورغلاتے ہوئے انہیں اپنے جال میں پھنساتا اور پھر انہیں علاقہ غیر میں لے جاتا۔ پھر ان پر اپنے گھر والوں سے ملنے پر پابندیاں لگائی جاتیں اور پھر ایک دن ان لڑکیوں کو دیارِ غیر میں فروخت کر دیا جاتا، جہاں وہ ساری زندگی کسی نہ کسی کی غلام بن کر گزار دیتیں۔
قندیل کے ساتھ بھی یہی سب ہونے لگا، تو اس نے شور مچا دیا۔ وہ کسی بھی طرح بکنے اور لٹنے کو تیار نہیں ہوئی تو ظالم زریاب نے اس پر تیل پھینک کر اسے زندہ جلا ڈالا۔ یہ تو اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ حویلی میں اپنے کچھ ہم درد بنا چکی تھی اور یہ ان ہم دردوں نے ہی نہ صرف اس کی بات بابا سے کروائی تھی، بلکہ اسے بروقت ہسپتال پہنچانے کا کام بھی سر انجام دیا تھا۔
اور پھر بلال کے چھاپے کے وقت یہی زریاب کے ملازم اسے اس عقوبت خانے تک بھی لے گئے جس میں وہ اپنے باغیوں کو ٹارچر کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ زریاب اور اس کے ساتھیوں پر لمبا کیس بنا تھا، لہٰذا انہیں سزا بھی اسی حساب سے ملنے کی امید تھی اور اس سارے وقت میں بلال ایک لمحے کے لیے بھی قندیل سے غافل نہیں رہا تھا۔ اس کا علاج جاری تھا اور اب وہ گھر آ چکی تھی۔ زریاب سے اس نے خلع لے لیا اور اب زندگی کو نئے سرے سے گزارنے کی کوشش کر رہی تھی کہ بوا جی ایک بار پھر اپنا پرانا سوال لیے ان کے سامنے آن کھڑی ہوئیں۔بابا نے اس بار قندیل سے کچھ نہیں پوچھا اور انہیں ہاں کر دی۔
”بلال! تم بابا کو منع کر دو۔ میں تمہارے ساتھ شادی نہیں کر سکتی، میں تمہارے قابل نہیں رہی بلال۔ تم بہت اچھی لڑکی ڈیزرو کرتے ہو جبکہ میں تو…!!”
”تم سے اچھا اس دنیا میں میرے لیے نہ تو کوئی پہلے تھا اور نہ ہی آیندہ ہو سکتا ہے۔ تم چاہے کچھ بھی کہہ لو قندیل، چاہے کتنا ہی مجھے ریجیکٹ کر لو، مگر اب میں تمہاری ایک نہیں سننے والا۔ اب میں تمہیں اپنی زندگی میں شامل کر کے رہوں گا۔ پہلے ہی تمہاری بات مان کر تمہیں کھو چکا ہوں، اب ایسی غلطی بھول کر بھی نہیں کروں گا۔ سنا تم نے؟” بلال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے قطعیت سے کہا، تو وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی۔
”تم جانتے تھے ناں کہ میں اندھے کنوئیں کی طرف جا رہی ہوں، تو پھر تم نے مجھے روکا کیوں نہیں؟ تم جانتے تھے ناں بلال۔” وہ اس کے سامنے رو پڑی تھی اور اس کی آنسو سیدھا اس کے دل پر گر رہے تھے۔ وہ خود کو بھی مجرم سمجھ رہا تھا کہ اس نے جانتے بوجھتے اسے زریاب جیسے بھیڑیے کے ہتھے چڑھنے دیا۔
”میں نے تمہیں روکنے کی کوشش کی تھی، مگر تم کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھی۔ جانے تمہیں کیا ہو گیا تھا؟ یاد کرو ذرا، میں نے تمہیں کتنے میسج بھی کیے اور کتنی کالز بھی کیں، مگر تم تو…!!! ”
”میں نے کوئی رپلائی نہیں کیا، تو تم نے بھی مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ میں تم سے ناراض کیوں تھی؟ تم نے بعد میں بھی، تو اپنے بابا کی جائیداد حاصل کر ہی لی تھی ناں، تو میرے کہنے سے اگر یہ قدم اٹھا لیتے، تو میرا دل بھی بڑھ جاتا ناں اس وقت تو بابا کے ایک بار کہنے پر ہی تم اپنے سارے حقوق سے دست بردار ہوگئے تھے، بلکہ سب کے سامنے مجھے بھی نیچا دکھا دیا تھا، تو پھر میں کیوں تم سے خفا نہ ہوتی؟ بتاؤ ذرا مجھے۔” اس کی بات تیزی سے کاٹتے ہوئے وہ بولی تو بلال اسے دیکھتا رہ گیا۔
”قندیل! اب میں تمہیں کیا کہوں؟ تم نے ایک ذرا سی بات کے پیچھے اپنی پوری زندگی داؤ پر لگا دی۔ ایک بار بھی تمہیں میرا یا بابا کا خیال نہیں آیا کہ ہم تمہارے بغیر کیسے رہیں گے؟ ثابت ہو گیا کہ تم انتہائی درجے کی بیوقوف ہو۔ ” بلال کا ملال کسی طرح کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔
” اور تم خود کیا ہو؟ تم نے ایک بار بھی میری فیلنگز سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے تمہیں چڑانے کے لیے زریاب کے ساتھ روابط بڑھائے، اس کا رشتہ قبول کیا، تمہیں اکسانے کے لیے اس کے ساتھ گھومتی پھرتی رہی اور تم بجائے مجھے روکنے کے الٹا بابا اور بوا کو منانے بیٹھ گئے کہ میں زریاب کے ساتھ بہت خوش رہوں گی۔ اب دیکھ لیا ناں تم نے کہ میں اس کے ساتھ کس قدر خوش تھی۔” وہ اپنے اوپر بیتے اذیت بھرے لمحے یاد کر کے ایک بار پھر رو پڑی تھی۔ بلال کے لیے قندیل کے آنسو سہنا کسی بھی دور میں آسان نہیں رہا تھا، مگر اب تو یہ ناممکن بات تھی کہ وہ اس کے سامنے بیٹھی روتی رہے اور وہ کچھ کر نہ پائے۔
اس نے بوا پر دباؤ ڈالا اور پھر جلد ہی وہ دونوں ایک خوب صورت رشتے میں بندھ گئے۔ بابا کو اب جا کے کہیں سکون ملا تھا۔ انہیں اب پورا یقین ہو گیا تھا کہ اب ان کی قندیل ہمیشہ روشن رہے گی۔ بلال اس کا بہت خیال رکھے گا اور اس کی ہر خواہش بنا کہے پوری کرے گا کہ اس کی محبت کا اندازہ انہیں ہسپتال میں گزارے دنوں میں ہی اچھی طرح سے ہو گیا تھا۔
اور کہتے ہیں ناں کہ جب ہمارے دکھوں کی صلیب بہت بوجھل ہو جائے اور ہمارے دکھ ہماری جھولی سے باہر جھانکنے لگیں، تو اللہ رب العزت کوئی نہ کوئی سہارا ایسا ضرور پیدا کر دیتا ہے جو ہمیں گرتے گرتے تھام لیتا ہے۔ ہمارے سارے دکھ چن لیتا ہے اور ہماری بھاری بوجھل صلیب اس طرح اٹھاتا ہے کہ اس کا بوجھ پھولوں کی ڈالی میں بدل جاتا ہے۔ یہ اللہ کی شان ہے اور اس کا وعدہ بھی کہ وہ اپنے بندوں پر ان کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، تو پروفیسر عالم صاحب اور قندیل عالم کے دکھوں کا بوجھ بانٹنے کے لیے ہی انہیں بلال کا سہارا عطا کیا گیا۔ وہ پہلے بھی ان کے لیے سہارا تھا اور بعد میں بھی ان کا سہارا بنا۔ مگر قندیل نے اس کی چھوٹی سی بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا، تو پروفیسر صاحب نے زمانے کے رسم ورواج اور لوگوں کی باتوں کے خوف سے اسے خود سے دور کر دیا، مگر آخر کار انہیں اس کا ہی سہارا لینا پڑا ۔ یہ ابنِ آدم کی فطرت ہے اور فطرت سے انحراف کوئی آسان کام نہیں۔
٭…٭…٭