صلیب — ثمینہ طاہر بٹ

ادھر قندیل اس سارے معاملے سے لاتعلق بنی اپنی کام یاب ترین نمائش کی مبارک بادیں سمیٹتی پھر رہی تھی۔ بلال کو بھی اس کی کام یابی کی خبر مل چکی تھی، مگر وہ اپنی ٹریننگ کے اس موڑ پر تھا کہ اسے واقعی سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں مل رہی تھی۔ پھر بھی اس نے وقت نکال کر قندیل کے نمبر پر میسج کیے، مگر اب وہ اتنی مصروف ہو چکی تھی کہ اسے میسج دیکھنے کا بھی خیال نہیں رہا تھا، تو رپلائی کیا کرتی۔ بلال اپنی سادگی میں اسے بھی اس کی ناراضی ہی سمجھا اور یہ سوچ کر مسکرا دیا کہ وہ جلد ہی اسے منا لے گا۔ جلد ہی اس کی ٹریننگ ختم ہونے والی تھی اور پھر پوسٹنگ سے پہلے اسے گھر تو جانا ہی تھا۔ سو وہ خود ہی سارے پروگرامز بنا کر مطمئن ہو گیا، مگر کچھ پروگرام اس کی غیر موجودگی اور بے خبری میں بھی بن رہے تھے، جن کا علم اسے نہیں ہو پایا تھا۔




”عالم بیٹا! پھر آپ نے کیا سوچا ہے؟ زریاب کے گھر والے پھر آرہے ہیں جواب طلب کرنے؟” بوا جی نے انہیں جیسے یاد دہانی کروائی، لیکن وہ بھولے ہی کہاں تھے، وہ تو پریشان تھے۔ فکر مند تھے اور بہت اداسی بھی محسوس کر رہے تھے۔ اس وقت انہیں مہک کی کمی بہت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ ہوتیں تو شاید انہیں یہ وقت اتنا مشکل نہ لگتا، مگر اب یہی وقت ٹالنا انہیں محال دکھائی دے رہا تھا۔ وہ تو قندیل اور بلال کے حوالے سے کئی خواب بھی دیکھ چکے تھے اور انہیں شاید یہ تسلی بھی تھی کہ بلال کے ساتھ رشتہ جڑنے کی صورت ان کی بیٹی ہمیشہ ان کے ساتھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہی رہے گی، مگر اب ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔انہوں نے قندیل سے زریاب اور بلال دونوں کے حوالے سے بات کی تھی اور اس کے غیر متوقع جواب نے انہیں ششدر کر کے رکھ دیا تھا۔
”بابا! آپ زریاب کی امو جان کو ہاں کہہ دیں میں بلال کے ساتھ ایسا کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی جس میں میری انا کی تذلیل ہوتی ہو!” قندیل نے ان کی بات پوری سنے بغیر ہی انہیں جواب دے دیا تھا اور اس کے اس جواب نے عالم صاحب کو لاجواب کر دیا تھا۔
”عالم بیٹا! آپ کچھ بولتے کیوں نہیں؟ آپ انہیں منع کر رہے ہیں ناں؟ قندیل بٹیا میرے بلال کی امانت ہیں اور اب میں آپ سے اپنی امانت واپس لینا چاہتی ہوں۔ بلال جیسے ہی واپس آتا ہے، ہمیں انہیں ایک خوب صورت بندھن میں باندھ دینا چاہیے تاکہ ان کی روز روز کی لڑائیاں تو ختم ہوں۔ کیا خیال ہے آپ کا؟” بوا جی نے انہیں گم صم بیٹھے دیکھا، تو ایک بار پھر انہیں مخاطب کرتے ہوئے اپنا اگلا لائحہ عمل بھی ان کے گوش گزار کر دیا۔ عالم صاحب صرف انہیں دیکھ کر رہ گئے۔ ان کی سمجھ میں ابھی تک یہ نہیں آپایا تھا کہ بلال سے شادی کی صورت قندیل کی ”انا” کو ٹھیس کیسے لگ سکتی ہے۔ وہ تو ان دونوں کی بچپن کی دوستی اور آپسی لگاؤ دیکھ کر یہی سمجھتے رہے کہ ان کے درمیان دوستی سے بھی زیادہ ” کچھ” ہے، مگر یہاں تو قندیل نے ایک ہی جملے میں ان کے سب خیالوں کو جھٹلا کر رکھ دیا تھا۔
”بوا جی! میں نے بہت سوچا، اپنے بھائی بہن سے بھی بات کی اور ان سب کی رائے میں زریاب، بلال سے کہیں بہتر آپشن ہے۔ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ میں زریاب کے لیے ہاں کہہ دوں۔ بلال کے لیے ہم کوئی اور لڑکی دیکھ لیں گے جو قندیل سے بھی زیادہ اچھی اور مثبت خیالات رکھتی ہوگی۔ انشااللہ!!” عالم صاحب نے نظریں چراتے ہوئے انہیں بتایا۔
” قندیل سے بھی اچھی؟ کیا میری قندیل سے بھی زیادہ کوئی اچھی ہو سکتی ہے؟ اور میرے بلال میں کیا برائی ہے جو آپ کے خاندان والے اسے داماد کے طور پر قبول نہیں کر سکتے پروفیسر صاحب؟ مہک میری بھتیجی تھی، دور کی ہی سہی مگر تھی تو میرے ہی خاندان کی اور اسے آپ لوگ قبول کر سکتے ہیں، تو پھر بلال کو کیوں نہیں؟” بوا جی نے اپنے پوتے کا دفاع کرتے ہوئے بابا کے سامنے کئی سوال رکھ دیے تھے۔
بابا سر جھکائے ان کی باتیں سننے پر مجبور تھے کہ وہ اپنی بیٹی کی ضد سے بھی اچھی طرح واقف تھے اور بلال کی صلح جو طبیعت کو بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ سو انہوں نے وہی کیا جو انہیں مناسب لگا۔ بلال جب چھٹیوں پر گھر آیا، تو قندیل کی شادی کی تاریخ بھی طے ہو چکی تھی۔اسے کسی نے اس رشتے اور شادی کی خبر ہی نہیں کی تھی۔ شاید سب اسے سرپرائز دینے کے چکر میں تھے، مگر اسے یہ سرپرائز کسی شاک کی طرح لگا تھا۔




” دادو! آپ توسب جانتی تھیں ناں؟ پھر آپ نے ایسا کیوں ہونے دیا؟ آپ قندیل سے بات کرتیں بابا کو سمجھانے کی کوشش کرتیں، کچھ بھی کرتیں، مگر یہ تو نہ ہونے دیتیں جو ہو رہا ہے۔” بلال یاسیت سے شکست خوردہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”میں نے تو پوری کوشش کی تھی بیٹا کہ تمہارے دل کی نگری نہ اجڑنے پائے، مگر بیٹا میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائی۔ یہاں کسی کو ہماری بات کی سمجھ ہی نہیں آئی یا پھر شاید کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا، تو میں کیا کر سکتی تھی بھلا؟” بوا جی کا ملال تھا کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا۔ بلال نے قندیل سے بھی بات کرنے کی کوشش کی، مگر پھر اس کی زریاب میں بڑھتی دل چسپی اور مصروفیت کو دیکھتے ہوئے خود پر بند باندھ لیے۔ اس نے بوا جی اور بابا کو بھی راضی کر لیا اور وہ جو افسردگی سے اس شادی کی تیاریاں کر رہے تھے، اب پوری دل چسپی اور لگن کے ساتھ مصروف ہوگئے۔
”بابا! میری پوسٹنگ اندرونِ سندھ ہو گئی ہے۔ میں کل یہاں سے چلا جاؤں گا۔ وہاں سیٹ ہوتے ہی آپ کو اور دادو کو بھی بلوا لوں گا۔اب آپ یہاں اکیلے نہیں رہیں گے۔ میرے ساتھ رہیں گے۔” اس نے بابا کے شانوں کے گرد بازو لپیٹتے ہوئے کہا، تو وہ ہولے سے مسکرا دیے۔ بلال کے لیے ان کی یہ مسکراہٹ آکسیجن کی طرح تھی ۔ وہ ان سے اپنے پاس آنے کا وعدہ لے کر خوشاب چلا گیا۔ بابا نے اس کی ترقی اور کام یابی کے لیے بہت سے دعائیں اس کے ساتھ کر دی تھیں۔ بوا جی نے بھی اپنے دل کا درد چھپائے اسے مسکرا کررخصت کیا۔ اب ان دو بوڑھوں کے لبوں پر ان دو پردیسیوں کے لیے سلامتی کی دعائیں ہوتیں اور دل میں ان سے ملنے کی آس۔
قندیل کی شادی بہ خیر وخوبی انجام پائی اور وہ زریاب کے ساتھ اس کے آبائی گاؤں شفٹ ہو چکی تھی۔ زریاب کا گاؤں پشاور کے نواح میں واقع تھا۔یہ ایک روایت پرست پختونوں کا روایتی علاقہ تھا اور یہاں کے اصول اور ضابطے شہروں سے بالکل الگ تھے۔ پردے کی سخت پابندی کی جاتی تھی اور عورتوں کو گھر تک ہی محدود رکھا جاتا تھا۔ قندیل کے لیے یہ ماحول بالکل اجنبی تھا۔ پہلے پہل تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ یہاں کیا کرے؟ زریاب نے شادی سے پہلے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے لاہور میں ہی رکھے گا اور اس کی پینٹنگز اور گرافک ڈیزائیننگ پر بھی کوئی پابندی نہیں ہوگی بلکہ وہ جس طرح چاہے اپنی زندگی گزارنے کی مجاز ہوگی، مگر اب شادی کے بعد اس کے سارے وعدے ہی ریت کی دیوار ثابت ہوئے تھے۔ اس کے بابا جان ایک سخت گیر انسان تھے تو امو جان بھی کسی سے کم نہ تھیں۔ قندیل اس حویلی میںآکر محصور سی ہو گئی تھی۔ اس کی شخصی آزادی اس کے لیے اب کسی دیوانے کا خواب بن کر رہ گئی تھی۔ وہ اب قندیل عالم نہیں بلکہ قندیل زریاب خان تھی۔ بڑے خان بابا کی بہو، زریاب خاناں کی بیوی۔ اس کے لیے ان سب روایتوں کو نبھانا بہت ضروری تھا، مگر وہ اپنے دل کا کیا کرتی کہ جو اسے ہر وقت بغاوت پر اکساتا رہتا تھا۔
”زریاب! ہم واپس شہر کب جائیں گے؟” جب ایک عرصہ وہ گھٹ گھٹ کر گزار چکی، تو ایک دن جانے اسے کیا ہوا کہ وہ بیٹھے بیٹھے زریاب کو اس کے بھولے وعدے یاد کرانے بیٹھ گئی۔
”شہر؟ کون سے شہر؟ بھول جاؤ شہر وہر کو۔ اب یہیں تمہیں جینا ہے یہ گاؤں، یہ حویلی ہی تمہارے مرنے کا مقام بننے والے ہیں۔ ہمارے خاندان کی بہو بیٹیاں کبھی کھلے سر آسمان کی نیچے نہیں آئیں اور تم چلی ہو شہر بسانے؟ بھول جاؤ بی بی، اپنا پچھلا ماضی سب بھول جاؤ۔ حال میں رہنا سیکھو،یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔” زریاب تو شاید اسے پھر سے کوئی نیا لارا لگا دیتا، مگر اس کی امو جان نے اس کے خوابوں کے پر کچھ اس طرح نوچے کہ وہ یک لخت زمین پر آن گری۔
”زریاب! یہ… یہ امو جان کیا کہہ رہی ہیں؟ تم نے توکچھ اور ہی کہا تھا۔ تم بتاؤ ناں انہیں کہ تم مجھے بہت جلد واپس لے جاؤ گے شہر، جہاں میرا اپنا آرٹ اسٹوڈیو بنوانے کا وعدہ کیا ہے تم نے مجھ سے۔ تم انہیں بتاؤ ناں کہ!”
”امو جان ٹھیک کہہ رہی ہیں قندیل۔ تم جتنی جلدی اس بات کو سمجھ لو، تمہارے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا اور ہاں! آج کے بعد میرا نام اس طرح سرعام لینے کی جرأت مت کرنا۔ یہ بات تمہارے شہروں میں تو اچھی سمجھی جاتی ہوگی، مگر ہمارے علاقے میں اسے بہت معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ بات میرے لیے کسی طعنے سے کم نہیں کہ میری بیوی سب کے سامنے مجھے نام لے کر پکارتی پھرے۔” ابھی تو اس کی بات بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ زریاب نے اسے اس بری طرح سے ڈانٹا کہ وہ لرز کر رہ گئی۔
وہ حویلی واقعی اس کے لیے زندان بن گئی تھی۔ عالم صاحب اور بوا سے بھی اس کی بات کئی کئی ماہ بعد ہوتی تھی۔ وہ لوگ اس سے ملنے کا اصرار کرتے تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ٹال جاتی۔ زریاب کے چہرے سے سارے نقاب ایک ایک کر کے اتر چکے تھے۔ اب وہ بھی اس قبائلی علاقے کی ایک عام سی کم فہم عورت کا روپ دھار چکی تھی۔ اس کی ساری بولڈنیس، سارا اعتماد ہوا ہو چکا تھا۔ حویلی میں ملازماؤں کی کوئی کمی نہ تھی۔ بعض اوقات تو اسے خود پر بھی کسی ملازمہ کا گمان ہی ہونے لگتا تھا۔پہلے پہل وہ زریاب کے ساتھ بلال کی باتیں شیئر کیا کرتا تھی، مگر اب اس کے لیے بلال بھی ایک خواب بن چکا تھا۔ ایک ڈراؤنا خواب اور اسے ڈراؤنا بنانے والا بھی زریاب ہی تھا۔ جیسے جیسے اس کے اوصاف قندیل پر کھلنے لگے تھے ویسے ویسے وہ محتاط ہوتی جا رہی تھی کیوں کہ اب وہ اس کے مُنہ سے بلال تو کیا اس کے بابا کا نام سننے کا بھی روادار نہیں ہوتا تھا، تو ایسے میں وہ بلال کو کیسے یاد رکھ سکتی تھی۔
بلال کی پوسٹنگ مختلف علاقوں میں ہوتی رہتی تھی۔بابا چاہ کر بھی اس کے پاس نہیں جا پاتے تھے۔ بوا جی کا بھی یہی حال تھا۔ وہ لوگ درپردہ قندیل کے منتظر رہتے تھے کہ جانے وہ کسی روز اچانک آجائے اور انہیں وہاں موجود نہ پا کر کہیں مایوس واپس نہ لوٹ جائے اور انہیں یہی احساس اپنے گھر، اپنے علاقے سے ہلنے ہی نہیں دیتا تھا اور پھر ایک دن انہیں خبر ملی کہ بلال کی پوسٹنگ اس کے آبائی علاقے میں ہو رہی تھی۔




Loading

Read Previous

سلامی — امینہ خان سعد

Read Next

عکس — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!