صراطِ مستقیم — نوریہ مدثر

’’رول نمبرچار! عمر صدیق ۔۔کہو آج کیا نیا بہانہ ہے ؟ ‘‘
’’استاد جی! ابھی چوہدری صاحب نے کٹائی کی رقم نہیں دی۔جیسے ہی پیسے ملتے ہیں، میں آپ کو فیس دے دوں گا۔‘‘ عمر نے کانپتی آواز میں کہا۔
’’واہ بھئی! کیا بہانہ ہے۔ ارے تم لوگ معمولی سی فیس تک دے نہیں سکتے، تو پڑھنے کا شوق ہی کیوں پالتے ہو؟‘‘ پیر میں پھٹے ہوئے جوتے ہیں اور آئے ہیں پڑھنے۔ خوب۔‘‘
ماسٹر جی نے حسب معمول عمر کی ذات پہ اپنے طنز کے تیر برسانا شروع کر دئے۔عمر سر جھکائے ان کی ڈانٹ پھٹکار سنتا رہا اورجماعت ہفتم کے بچوں ہنسنے کے بھرپور موقع سے فائدہ اٹھاتے رہے۔یہ روز کی بات تھی۔ ہر ماہ فیس کے معاملے پر ماسٹر جی ایسا ہی گرم رویہ رکھتے تھے۔جو بچے آٹھ تاریخ کے بعد فیس دیتے، وہ ایسے ہی ماسٹر جی کی ڈانٹ ڈپٹ سنتے اور اپنی قسمت کو کوستے۔
آج چھے تاریخ تھی اور ماسٹر جی کا قہر عمر پہ برس رہا تھا۔ کیونکہ عمر اس ماہ بھی فیس وقت پہ نہیں ادا کر سکا تھا۔ یہ تو اس کی ذہانت تھی کہ وہ ہر امتحان میںامتیازی کامیابی حاصل کرتا، اسی وجہ سے وہ سکول میں ٹکا ہوا تھا۔ جوں ہی چھٹی ہوئی، وہ سیدھا چچا کے پاس آیا اور ان سے دبے دبے لفظوں میں فیس کا کہا۔
’’میاں جب تک تمہارے باوا پیسے نہیں بھیجتے، تب تک چپ رہو۔ میں تو کہتا ہوں تو پڑھائی چھوڑ اور اپنے باوا کے ساتھ زمین پہ کام کر۔پا صدیقے کا خیال کر۔کل کو بھی تو تو نے یہی کام کرنا ہے۔‘‘
چچا پان کی پچکاری مارتے اپنی سنا کے چلے گئے۔اور عمر کی آنکھوں میں کل پھر سے سکول میں ہونے والی بے عزتی کا منظر سامنے آگیا۔ وہ یہاں اپنے چچا کے پاس شہر میں تھا۔ کیوں کہ گائوں میں سکول صرف پرائمری تک تھا اور اس کے دل میں علم حاصل کرنے کا جذبہ تھا اوراس کے ہاتھوں کو کھردری زمین سے چھالے جمع کرنے سے بچانے کے لئے ہی گائوں سے یہاں شہر بھیجا گیا تھا۔اور اب اسے سکول میں داخلہ لئے دوسرا سال تھا۔
’’پتر! علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پہ فرض ہے۔اللہ سوہناعلم والوں کو پسند کرتا ہے۔یاد رکھ! تو نے پڑھ لکھ کے اپنے گائوں کی خدمت کرنی ہے۔وعدہ کرتو کبھی اپنے قدم بھٹکنے نہیں دے گا۔وعدہ کر۔‘‘ ابا اسے شہر چھوڑتے ہوئے کہہ رہا تھا۔اور اس نے پکا وعدہ کیا تھا۔
٭…٭…٭
’’عمر کہاں ہو تم ؟سکول نہیں جانا کیا؟پھر دیر ہو گئی تو جرمانہ ہوگا اور تمہارے چچا کے پیسے فالتو نہیں جو برباد کرو۔‘‘ چچی نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا
’’وہ میں نے آج سکول نہیں جانا۔ماسٹر جی نے فیس کا کہا تھا اور۔۔۔‘‘
ابھی میری بات جاری تھی کہ ٹوکتے ہوئے کہا چچی
’’چلو اچھا ہے۔ ویسے بھی آج مجھے بازار جانا ہے۔تم بھی میرے ساتھ چلنا اب میں کہاں اتنی گرمی میں سامان اٹھاتی پھروں گی۔یہ پیسے رکھو۔بازار جا کے لوں گی تم سے۔‘‘
چچی مجھے پیسے پکڑا کے چلی گئی۔پر آدھے گھنٹے بعد ہی چچی کی طبعیت خراب ہونے لگی۔انہیں گردے کی پرانی تکلیف تھی۔ اسی روز چچی کو اسپتال میں داخل کیا گیا۔صبح سے اسپتال میں چچی کی عیادت کے لئے آئے مہمانوں کی خدمت کر کر کے میری کمر ٹوٹ رہی تھی۔ شام کو گھر آتے ہی میں بستر پہ ڈھیر ہوگیا۔
اچانک ہی مجھے چچی کے دیئے روپیوں کا خیال آیا۔ وہ شاید بھول گئی تھی، اسی لئے ابھی تک انہوں نے پیسوں کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔ورنہ مجھے ان کی فطرت و مزاج کا خوب اندازہ تھا۔
اور میں ان پیسوں سے اپنی فیس دینے کا ارادہ کر چکا تھا۔اگلے روز جمعہ تھا اور ماسٹر جی چھٹی پہ تھے۔چچی واقعی ہی پیسوں کو بھول چکی تھی۔
میں سکول سے آکے قریبی مسجد چلا گیا۔جمعہ کا خطبہ جاری تھا اور امام صاحب کہہ رہے تھے کہ
’’اور ہجرت کے وقت بھی حضورپاکﷺ کو امانتوں کی فکر تھی۔انہیں اپنی جان سے زیادہ ان امانتوں کی پر واہ تھی۔ آخر کو وہ صادق و امین تھے۔زرا سوچئے! کیسا منظر ہو گا جب رسول پاکﷺ مسلسل دو دن تک ایک جگہ پہ کھڑے اس شخص کے منتظر رہے جس سے آپﷺ نے وعدہ کیا تھا کہ اس کے آنے تک آپﷺ یہیں اس کا انتظار کریں گے پر وہ شخص یہ بھول گیا اور جب دو روز بعد وہ اس راہ سے گزرا تو آپﷺ کو اپنا منتظر پا کے اپنے بولے وعدے پہ شرمسار ہوا کہ اس کی وجہ سے رسول پاکﷺ کو اٹھانی پڑی۔ میں قربان جائوں رسول پاکﷺ کے! شاہ عرب ہونے کے باوجود نہ چہرے پہ غصہ، نہ مزاج میں برہمی۔
’’الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ۔‘‘
میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا اور مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ میری جیب میںچچی کے روپے مجھے بچھو کی طرح ڈنک مار رہے تھے۔
’’بھائیو! آج ہمیں زراسی بھی تکلیف آئے تو شکوے شکایت کرتے ہم غلط راہ پہ جاکے اپنی آخرت تباہ کرنے کا سامان کرتے ہیں۔ارے اللہ رب العالمین اپنے پیاروں کو ہی تو آزماتا ہے۔رسول پاکﷺ کے اسوہ کی پیروی ہی ہمیں دونوں جہانوں میںسرفراز کر سکتی ہے۔‘‘
میری آنکھوں سے بہتا پانی میری لغزش پہ ندامت کا گواہ تھا۔میں نے بھی تو ابا سے وعدہ کیا تھا کہ میں ڈگمگائوں گا نہیں۔شیطانی بہکاوے میں آکے میں گناہ کرنے جا رہا تھا کہ اللہ نے بچا لیا۔
میرے لب پہ درود پاک جاری تھا اورمسجد سے باہر نکلتے وقت میرا دل پرسکون تھا۔مجھے معلوم تھا کہ چچی ان پیسوں کو دیکھ کے میری کیسی دھنائی کریں گی اور کل ماسٹر جی بھی خوب بے عزتی کریں گے۔پر میںمطمئن تھا کیوں کہ میں صراط المستقیم کی جانب پہلا قدم اٹھا چکا تھا۔۔۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اے ابنِ آدم — طیبہ عنصر مغل

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!