صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

خالد بھائی ایک سرکاری محکمے میں اچھی پوسٹ پر تھے اورپہلی بیوی سے علیحدگی کے بعد اکیلے رہتے تھے۔ ان کی دو بیٹیاں جو کہ اپنی دادی کے پاس رہتی تھیں وہ کبھی کبھار ان کے پاس رہنے آتی تھیں ۔ آپی دیکھنے میں ٹھیک ٹھاک تھیںلیکن خالد بھائی مجھے ان کے لیے مناسب نہیں لگے۔ جب یہی بات میںنے آپی سے کہی اور ساتھ ہی انہیں انکار کرنے کا مشورہ بھی دیا، تو وہ اپنی مخصوص خاموشی سے میری بات سنتی رہیں اور پھر قہقہے لگاکر ہنسنے لگیں، تو میں ڈر گئی۔ پھر وہ نارمل ہوگئیں اور میرا گال تھپکتے ہوئے بولیں:
”میرے بارے میں اتنا مت سوچا کرو گڑیا، تمہارے سوچنے سے میری قسمت نہیں بدل سکتی۔”اور انہوں نے ہاں کردی۔ میں پھر حیران رہ گئی کہ صبر کی وہ کون سی معراج تھی جس پر وہ فائز ہونا چاہتی تھیں۔ میرا یقین اور پختہ ہوگیا کہ میری بہن کو اس صبر کا ثمر ضرور ملے گا۔ وہ میرے لیے ایک مثالی شخصیتبنتی جارہی تھیں۔
ان کی شادی ہوگئی اور میرا یڈمیشن حیدرآباد کے میڈیکل کالج میں ہوگیا ۔ یوں میرے اور ان جھمیلوں کے درمیان ایک فاصلہ پیدا ہوگیا۔ میرے خالد بھائی کے بارے میں ممکنہ خدشات صرف وہم ہی رہے۔ وہ بہت مناسب آدمی تھے۔ شادی کے بعد بھی آپی کی چپ تو نہ ٹوٹی، لیکن ان کی زندگی بہتر ہوگئی۔ دو بچے بھی ہوگئے اور مجھے لگا جیسے اُنہیں ان کی ریاضتوں کا صلہ مل گیا، وہ میری خام خیالی تھی۔ میں پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ہاؤس جاب کررہی تھی جب ایک دن امی کی کال آئی۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ آپی کو پولیس نے گرفتار کرلیا تھا ۔ یہ خبر سُن کر میرا وجود سن ہوگیا۔ میں نے بے یقینی سے امی کی بات سنی جو مجھے فوری طور پر گھر پہنچنے کی ہدایت کررہی تھیں۔
٭…٭…٭




وہ میری بہن تھیں، میرے دل کے قریب تھیں، لیکن مجھے ایسا لگا کہ میں ان کے قریب نہیں تھی، اسی لیے تو ان کی محرومیوں اور اذیتوں کو کبھی سمجھ نہیں پائی ۔وہ مجھ سے نظریں نہیں چرارہی تھیں اور اس کا مطلب تھا کہ وہ اپنے کیے پر بالکل بھی شرمندہ نہیں تھیں ۔
انہوں نے اپنی مرحومہ نند کی بیٹی کو بری طرح زدوکوب کیا تھا ۔میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کو بری طرح مارا پیٹا گیا ہے۔ اب بھی کسی کو آپی پر یقین نہیں آرہا تھا جس عورت کی ساری زندگی صبر سے عبارت تھی وہ، کانٹے دار زہریلی جھاڑیاں کیسے اپنے وجود کے اندر اُگا سکتی ہے ؟ میرے بہنوئی اس بچی کے سرپرست کی حیثیت سے مقدمہ ختم کروا کر آپی کو گھر لے آئے تھے۔ ویسے بھی ابھی باقاعدہ ایف آئی آر درج نہیں ہوئی تھی۔ ان کے ایک پڑوسی نے تھانے میں درخواست دی تھی کہ ا ن کے پڑوس میں ایک کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کیا جاتا ہے۔ وہ اس بچی کو ملازمہ سمجھے تھے۔ ایک این جی او نے بھی اس کیس کو بہت اچھالا تھا، لیکن غنیمت یہ کہ خبر پریس تک نہیں گئی۔ آپی ابھی چند منٹ قبل تھانے سے آئی تھیںاور خالدبھائی انہیں گھر ڈراپ کرکے واپس تھانے چلے گئے تھے۔ وہ سرکاری آفیسر تھے اور اتنی زیادہ بدنامی کے باعث اس کے تباہ کن اثرات کو کچھ دے دلا کر کم کرنا لازمی تھا ۔میری نظریں ہنوز آپی کے چہرے پر تھیں۔
”یہ آپ نے کیا کردیا آپی؟’ ‘میں نے انہیں تاسف بھرے لہجے میں شرم دلانے کی کوشش کی تھی، اگرچہ یہ سب کچھ بے کار تھا۔
”میںنے تو کچھ بھی نہیں کیا، بلکہ میں نے تو بہت کچھ ہونے سے بچایاہے۔”میں ان کی بات سن کر دنگ رہ گئی کیوں کہ وہ اپنا جرم ماننے پر تیار ہی نہیں تھیں۔ ان کی وحشت زدہ متحیر آنکھیں مجھ پر جمی تھیں۔
تمہیں بھی یہی لگتا ہے کہ میں نے اس کے ساتھ غلط کیا ؟ ایسا ہرگز نہیںہے۔
”دیکھو! اگر میں اس لڑکی کو اوقات میں نہ رکھتی تو میری اولاد کو بھی صبر کی اسی بھٹی میں جلنا پڑتا جس میں جھلستے ہوئے میں نے اپنی عمر ، وقت اور خوشیاں سب کچھ برباد کردیا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ میں اپنی اولاد کو صبر نہیں کرنے دوں گی۔ میں اس لڑکی کو اس کی اوقات میں رکھوں گی اور اپنی اولاد کواس کی ماں کی طرح سسکنے نہیں دوں گی۔ ”
”آپ نے بہت غلط کیا ۔”وہ جیسے میری بات پر کان دھرے بغیر رک رک کر بولے جارہی تھیں۔
” خالدکی آنکھیں، ان کی باتیں، سب بدل گئی تھیں اس چڑیل کے آجانے سے ۔ وہ میرے بچوں کی ہر چیز میں اسے حصے دار بنارہے تھے ۔ میں شکوہ کرتی تو کہتے، صبر کرو بس! یہ میری حد تھی۔ تمہیں یاد ہے نا، میںتمہاری وہی بہن ہوں جس نے ساری عمر صبر کیا، ہر برے وقت میں، میں نے صبر کیا۔ عنایہ اورصبر کرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔” ان کا لہجہ بھینچا ہوا اور آواز رندھی ہوئی تھی۔یہ سن کر میں نے وہ سب کہنے کے لیے منہ کھولا جو میرے لیے کہنا اور ان کے لیے سننا واقعی تکلیف دہ تھا ۔
”صبر ؟ برا وقت ؟آپی آپ پر کبھی برا وقت آیا ہی نہیں بلکہ آپ اپنے اوپر برا وقت خود لے کر آئی تھیں۔ آپی وہ صبر نہیں تھا، صبرکبھی ہمارے اندر وحشتوں اور دراڑوں کو جنم نہیں دیتا بلکہ سکون اور اخلاص پیدا کرتا ہے۔ و ہ صرف اور صرف برداشت تھی۔ آپی آ پ ساری عمر صبر کی آڑ میں سب کچھ برداشت کرتی رہیں، بغض پالتی رہیں۔ آپ کو اپنے لیے آواز اٹھانی چاہیے تھی، آپ اپنے لیے آواز اٹھا سکتی تھیں۔ جب اس گھر میں آپ کے بہن بھائیوں کی سنی جارہی تھی تو آپ کی بھی سنی جاسکتی تھی، لیکن آپ گونگی بن گئیں۔ آپ نے اپنی کم زوری چھپالی مگر آپی، جہاں ہماری برداشت کی حد ختم ہوجائے وہاں پر ہمیں اپنے لیے آواز اٹھانی چاہیے اپنے لیے آواز اٹھانا کوئی جرم نہیں۔”
وہ اب بھی چپ تھیں۔
”ایک بات بتاؤں آپی، یہ جو مشکل وقت میں کیا گیا صبر ہے نا، یہ اچھے وقتوں میں شکر میں تبدیل ہوتا ہے اور نہ خوف اور عدم تحفظ میں۔ آپ اگر اپنے اس اچھے وقت میں شکر میں مبتلا نہیں ہوسکیں، تو اس کامطلب یہ ہے کہ آپ نے کبھی صبر کیا ہی نہیں۔” ایک آنسو ان کی پلکوں کی باڑ سے لڑھک کر گالوں تک آگیا۔میرا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا اور الفاظ کہیں گم ہوگئے۔
میں کچھ اور کہتے کہتے رک گئی۔
مجھے اچانک ہی اس کہانی میں اپنا کردار سمجھ آنا شروع ہوگیا۔ اپنے ماں باپ کی بے پروائی ، بہن بھائیوں کی خودغرضی نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ میں انہیں ایسے ہی وحشت زدہ چھوڑ کر واپس چلی آئی۔آخر ہم سب نے انہیں فرشتہ کیوں سمجھا؟ کیوں ہر ایک اتنا خودغرض ہوگیا کہ انہیں انسان تک نہ سمجھا۔ سب نے اُنہیں استعمال کی ایک چیز سمجھا۔ وہ ساری عمر اپنی برداشت سے زیادہ بوجھ اٹھاتی رہیں، خود اذیتی کا شکار ہوتے ہوتے ان کی یہ حالت ہوگئی اور ہم سارے گھر والے ان کا تماشا دیکھتے رہے۔ کوئی ان کی مدد کو آگے نہ آیا۔
ہم سب ایسا ہی کرتے ہیں۔ کسی ایک انسان کی اچھائی اور خلوص کا اتنا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں کہ اس کی پہچان ہی کہیں کھو جاتی ہے۔ وہ اپنی استطاعت سے زیادہ بوجھ اٹھاتی رہیں اور ہم سب ان کی اس کم زوری کافائدہ اٹھاتے رہے اور اب، جب یہ بات خاندان میں پھیلے گی، تو کوئی بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔
اب میں یہ سوچ رہی ہوں کہ میں کیا کروں ؟ اس قدرمصیبت کی اس گھڑی میں، میں اپنی بہن کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ صبر کی دعا بھی نہیں ۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Read Next

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!