شکستہ آئینے — عمران لیاقت

”صاب )صاحب (جی ! میں یہ گاڑی کی چابی آپ کو واپس دینے آیا تھا۔” اپنے مختصر سے سامان کو جس میں چند کپڑے شامل تھے ، سمیٹنے میں ظفر کو زیادہ وقت نہیں لگا تھا۔ وہ ایک بار پھر میرے سامنے کھڑا، اپنے دائیں ہاتھ میں موجود گاڑی کی چابی میری طرف بڑھا رہا تھا۔ میری اجنبیت اور نفرت بھری نظر کے بعد اس نے خود آگے بڑھ کر چابی میرے سامنے موجود ، گلاس ٹیبل پر رکھ دی تھی۔ چابی رکھ کر وہ چند لمحے خاموشی سے میری طرف دیکھتے رہنے کے بعد آہستگی سے چلتا ہوا میرے سامنے فرش پر بیٹھ گیا تھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ میرے پاؤں پر رکھے، تو میں نے بے اختیار اپنے پاؤں پیچھے کرنے چاہے، لیکن اس نے اپنے ہاتھوں کا دباؤ بڑھا کر میرے دونوں پاؤں سختی سے تھام لیے تھے۔
”صاب جی ! آپ کے بڑے احسانات ہیں مجھ کم ذات پر۔ میں معافی کے قابل تو نہیں، لیکن اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں مجھے معاف کر دیں۔ صرف ایک بار۔ آج کے بعد کبھی آپ کو اپنی شکل نہیں دکھاؤں گا۔ جہاں اتنی مہربانیاں کی ہیں اس احسان فراموش پر ، وہاں ایک اور کر دیں ، دل پر پتھر رکھ کر ہی سہی۔” اس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا تھا، لیکن میرے دل نے پگھلنے سے انکار کر دیا تھا۔
”اگر تمہیں میرے احسانات یاد ہوتے تو تم کبھی بھی میری سب سے قیمتی چیز، میرے آریان پر بری نظر نہ ڈالتے، لیکن تم نے تو کسی بات کا پاس نہیں رکھا۔ تمہیں ذرا رحم نہیں آیا اس معصوم پر ؟” میرے لہجے میں تنفر تھا۔
”آیا تھا، رحم بھی آیا تھا اور آپ کے احسانات بھی یاد تھے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا، تو میں یہ گناہ چھے مہینے پہلے کر چکا ہوتا۔ چھے مہینے لگے مجھے اپنے آپ کو روکتے اور سمجھاتے، لیکن پھر میں ہمت ہار گیا ۔ میں اپنے آپ سے ، اپنے نفس سے ، لڑتے لڑتے تھک گیا تھا۔” اس کے ہاتھ ابھی تک میرے پاؤں پر دھرے تھے لیکن ان کی گرفت پہلے سے کچھ ڈھیلی ہو گئی تھی۔




”پچھلے ایک سال سے میں اپنے گھر والوں سے کہہ رہا تھا کہ میری شادی کر دو ۔ میں یہاں گھر سے دور اکیلا رہ رہا تھا، لیکن کسی کو میری پروا نہیں تھی۔” اس کا انداز خود کلامی جیسا اور لہجے میں تھکن تھی یا پھر شاید وہ سب بھی اپنی اپنی جگہ مجبور تھے۔
”اماں کو ڈر تھا کہ شادی کے بعد میں انہیں گھر کا خرچہ تو شاید دیتا رہوں، لیکن بہن کی رخصتی کی وجہ سے سود پر لیا گیا قرضہ نہیں چکا سکوں گا۔ اماں کو مجھ سے محبت تو ہے صاب جی، لیکن وہ اپنے بڑھاپے کا واحد سہارا گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ اماں کو لگتا ہے کہ بہو کے آتے ہی میں منہ پھیر لوں گا ۔ اسی لیے اماں، اپنی سگی بہن کو بھی آنے بہانے سے کئی سالوں سے ٹال رہی ہے جس کی بیٹی سے میرا رشتہ طے ہوا تھا۔”
میں ظفر کو ٹوکنا چاہتا تھا کہ وہ اپنی رام کہانی کسی اور کو جا کر سنائے۔ بھلا مجھ جیسے مصروف انسان کے پاس اتنا وقت ہی کہاں تھا کہ میں ایک غریب ڈرائیور کے گھر کے مسائل سنتا پھرتا، لیکن اس کی باتوں سے شدید الجھن محسوس کرنے کے باوجود میں اسے ٹوک نہیں سکا۔
”بوڑھے اور غریب ماں باپ کی طرف سے مایوس ہو کر میں نے اپنی شادی شدہ بہن سے مدد مانگی کہ وہ انہیں سمجھائے۔ اس نے میرا ساتھ دینے کے بجائے الٹا ایک اور فرمائش پکڑا دی۔ اس کی جیٹھانی کے بھائی نے اپنی شادی پر اپنی بہن کو سونے کی پہنا و نیاں چڑھائی تھیں۔ اب اگر میری بہن کو میری شادی پر اتنے ہی وزن کے جھمکے نہ ملتے تو سسرال میں اس کی ناک کٹ جاتی۔ میری بہن نے صاف صاف کہہ دیا کہ جب تک میں اس کے لیے سونے کی پہناو نیوں کا انتظام نہیں کر لیتا ، شادی کے بارے میں سوچوں بھی نہ۔ ورنہ وہ مجھ سمیت اپنے میکے سے ہر تعلق توڑ لے گی۔” ظفر کے چہرے پر انتہا کی بے بسی تھی۔ وہ گناہ کی طرف مائل نہیں ہوا تھا بلکہ مجبور کر دیا گیا تھا۔
”اچھا ! تو جب تمہاری شادی نہیں ہوئی تو تم نے اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے ایک بچے کے ساتھ یہ مکروہ کھیل کھیلنا چاہا۔ اپنے گھر والوں کی بے حسی اور خود غرضی کی سزا تم میرے بیٹے کو دینا چاہتے تھے؟” میں اسے اتنی جلدی معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
”آپ جو بھی کہنا چاہیں ، کہہ سکتے ہیں ، کیوں کہ غلطی تو میری ہے۔ مجھے گھر والوں کی مرضی کے خلاف جا کر اپنا حق استعمال کرنا چاہیے تھا، لیکن میں ماں باپ اور بہن کی ناراضی کے ڈر سے ایسا نہ کر سکا۔ مجھے کوئی اور راستہ نہ ملا، تو میں نے آریان کے بارے میں…” اس نے اٹک اٹک کر بولتے ہوئے آخر میں اپنی بات ادھوری چھوڑ کر سر جھکا لیا تھا۔
”میں اپنی خواہشات سے لڑتے لڑتے تھک گیا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو بڑی ملامت کی کہ جس شخص نے میرے لیے اتنا کچھ کیا، میں اسی کے بیٹے کی زندگی برباد کرنے لگا ہوں، لیکن شیطان کے بہکاوے نے آہستہ آہستہ میرے ضمیر کی آواز کو دبا دیا ۔ میں ہوس میں اندھا ہو گیا تھا۔”
ظفر کی پوری بات سن کر میرے ذہن میں ایک نیا خیال آیا تھا۔ اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ جس شخص کو میں اپنا اگلا ڈرائیور رکھوں گا ، وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا اور اس کی موجودگی میں آریان محفوظ رہے گا ؟ ظفر تو پھر بھی ایک ایمان دار انسان تھا۔ اس نے اپنی اس غلطی کے علاوہ کبھی کسی حوالے سے شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔
”کتنا قرض ہے تمہارے ذمے ؟” میں خود نہیں جانتا تھا کہ میں نے ظفر سے یہ سوال کیوں پوچھا تھا۔ میرا ذہن ابھی تک ایک کش مکش میں تھا۔
”ساٹھ ہزار ۔ میں قرضے کی ایک بھی قسط واپس نہیں کر سکا۔ بس سود ہی چکا رہا ہوں آج تک۔” ظفر کے لہجے میں مایوسی تھی۔ ساٹھ ہزار جیسی معمولی رقم نے اس کی زندگی مفلوج کر رکھی تھی۔ وہ انجام سے بے پروا ہو کر ایک گھناوؑنے جرم کا مرتکب ہونے چلا تھا۔ کم از کم میرے لیے تو یہ ایک معمولی رقم ہی تھی۔ آریان کی دو ہفتوں بعد ہونے والی سالگرہ پر میں نے خرچ کا تخمینہ چھے سے سات لاکھ روپے لگا رکھا تھا۔ شو بز سے وابستہ بہت سے افراد کو مدعو کرنے کے ساتھ ساتھ، میرے ، سارہ اور آریان کے دوست مع اہل و عیال میرے مہمانوں کی فہرست میں شامل تھے۔ آریان کے سب کلاس میٹس کو سرپرائز گفٹ دیے جانے تھے کیوں کہ حال ہی میں اس کے ایک کلاس میٹ نے یہ نئی روایت ڈالی تھی۔ ان تحائف کی خریداری کے لیے کریڈٹ کارڈ سے ادا کیے گئے ، پچانوے ہزار روپے کے بل کی رسید میرے کوٹ کی جیب میں پڑی تھی۔ ڈنر ، کیٹرنگ اور آرائش کے اخراجات اس کے علاوہ تھے۔ ساٹھ ہزار جیسی معمولی رقم کسی کے لیے حلال اور حرام یا جائز اور نا جائز کی حدود روندنے کا محرک بھی بن سکتی تھی ، اس کا ادراک مجھے چند لمحے قبل ہوا تھا۔
”سنو ! اگر میں تمہارا قرض ادا کر دوں اور تمہاری شادی کے ضروری اخراجات اپنے ذمے لے کر تمہاری شادی بھی کروا دوں تو ؟ تب تو تم دوبارہ کبھی اس طرح کی غلط حرکت کے بارے میں نہیں سوچو گے نا؟” میرا ذہن کچھ دیر کش مکش میں رہنے کے بعد اب ایک فیصلے پر پہنچ چکا تھا۔ ظفر کی آنکھوں میں استعجاب تھا۔ حیرت تھی ۔ اس کے لیے اس بات پر یقین کرنا مشکل تھا کہ تھوڑی دیر پہلے نفرت سے منہ پھیرنے والا انسان ، اس کے لیے مسیحا بننے والا ہے۔ اس نے میرے پاؤں چھوڑ کر میرے گھٹنے پکڑ لیے تھے اور ہچکیاں لے کر رونے لگا تھا۔
آریان کی سالگرہ سے چار دن پہلے ، ظفر کی شادی ہو گئی تھی۔ میں نے حسب وعدہ اس کے سودی قرض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کے سادگی سے ہونے والے نکاح کے تمام اخراجات بھی اپنے ذمے لے لیے تھے۔ نکاح کے بعد میں نے خوشدلی سے اسے بیوی کو اپنے ساتھ لانے اور سرونٹ کوارٹر میں رکھنے کی اجازت بھی دے دی تھی جس کے بعد وہ میرا مزید ممنون رہنے لگا تھا۔ اب بھی کبھی کبھار آریان ، ظفر کے ساتھ پارک یا گروسری اسٹور تک چلا جاتا ہے، لیکن اب میرے دل میں کسی قسم کا کوئی خدشہ یا اندیشہ نہیں ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ ظفر فطرتاً برا انسان نہیں تھا۔
بس حالات نے اسے اس نہج پر لا کھڑا کیا تھا کہ وقتی طور پر جائز اور نا جائز کا فرق اس کی بصیرت سے اوجھل ہو گیا تھا۔ اب تک وہ کئی بار مجھ سے اپنے اس ارادے کی معافی مانگ چکا ہے جس کو وہ عملی جامہ بھی نہیں پہنا سکا تھا۔
اس دن ، ظفر کی سستی سی مجبوریوں کی مختصر، مگر ہولناک داستان سننے کے بعد مجھے اندازہ ہوا تھا کہ میرے جیسے بہت سے لوگ جو اپنی زندگی میں اس حد تک مگن ہو جاتے ہیں کہ انہیں دوسروں کی محرومیاں نظر ہی نہیں آتیں ، وہ بھی معاشرے میں ہونے والے ان جرائم میں کسی نہ کسی حد تک شریک ہیں، جو وسائل کی کمی اور بعض دفعہ معاشرتی نا انصافیوں کے باعث وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ میری زندگی کی رنگینیوں اور آسائشات کی بے جا فراہمی نے میری ظاہری آنکھ پر خود غرضی کی پٹی چڑھا رکھی تھی۔ میں اپنے ارد گرد رہنے والے انسانوں کے مسائل اور دکھ سکھ سے بے نیاز ہو چکا تھا۔
اس کے باوجود میرے نیم مردہ ضمیر نے میرے باطن کے شکستہ آئینے میں مجھے انسانیت اور ہمدردی کی ایک دھندلی سی جھلک دکھا دی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

باپ — (تحریر بجورنسٹرین بجورنسن – مترجم ایس چغتائی)

Read Next

جنگی وردی کا قیدی — نجیب محفوظ — مترجم محمود رحیم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!