ہم روزانہ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے طفیل، اپنے گرد و نواح میں ہونے والے حالات و واقعات سے آگاہ رہنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے اس سر گرمی کو مزید سہل کر دیا ہے۔ صوفے یا بیڈ پر لیٹے لیٹے، چلتی شکستہ آئینے گاڑی میں سفر کرتے، یہاں تک کہ فٹ پاتھ یا جاگنگ ٹریک پر چلتے چلتے ہی اپنے پسندیدہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم تک صرف ایک کلک سے رسائی حاصل کی اور دنیا جہان کی خبریں ہمارے سامنے حاضر… فیس بک کا باقاعدہ اور مستقل صارف ہونے کی حیثیت سے، میں بھی اب اخبارات سے زیادہ اسی پلیٹ فارم کی وجہ سے زیادہ با خبر رہنے لگا ہوں۔ روزانہ معمول کی کارروائی کی طرح فیس بک کو کھولتے ، مختلف واقعات اور خبروں پر تبصرہ کرتے اور اپنے پرستاروں کو اپنے بارے میں مختلف معلومات پہنچاتے ہوئے میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ کسی دن کوئی ایسی چونکا دینے والی خبر یا پوسٹ میری منتظر ہو گی۔ آپ سب کی طرح ، میں بھی مختلف واقعات یا حادثات کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے ہوئے ، دل ہی دل میں اس خوش گمانی کا شکار رہتا ہوں کہ یہ سب کچھ جو ہمارے اردگرد رو نما ہو رہا ہے۔ یہ میرے ساتھ یا میرے گھر کے کسی فرد کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ میں اور میرے گھر والے محفوظ ہیں اور کیوں نہ ہوں ؟ میں اپنے گھر کے معاملات پر کڑی نظر رکھنے کا عادی ہوں۔ جن لوگوں کے ساتھ حادثات یا معمول سے ہٹ کر کچھ ہو جاتا ہے، اس میں یقینا انہی لوگوں کی کوئی غفلت یا کوتاہی، بنیاد بنتی ہو گی۔
او ہو! آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں اتنی لمبی تمہید باندھنے کیوں بیٹھ گیا اور سیدھی سیدھی بات کیوں نہیں بتا رہا آپ کو ۔ میں ایک ٹی وی آرٹسٹ ہوں اور اگر آپ اسے خود نمائی یا خود پسندی شمار نہ کریں تو میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ میں در اصل ایک اے لسٹر (A-Lister) ٹی وی آرٹسٹ ہوں۔ اپنے تیرہ سالہ فنی کیرئیرمیں ملک کے تقریباً تمام نامور پروڈکشن ہاؤسز اور چینلز کے ساتھ کام کر چکا ہوں۔ میرے پیشہ ورانہ رویے کی وجہ سے جہاں مجھے اس انڈسٹری میں بے پناہ پذیرائی اور ایک کے بعد ایک کامیاب پراجیکٹ کا حصہ بننے کے مواقع ملے، وہیں میرے پرستاروں کی ایک بڑی تعداد مختلف فورمز پر اپنی محبت کا اظہار کرنے میں پیش پیش رہتی ہے۔ اپنے انہی پرستاروں سے محبت کے یہ والہانہ مظاہرے بار بار وصول کرنے کے لیے، میں اپنی تمام تر مصروفیات میں سے کچھ نہ کچھ وقت نکال کر سوشل میڈیا پر بھی فعال رہتا ہوں۔ اس دن، یعنی آج سے تقریباً تین مہینے پہلے اپنے چھے سالہ اکلوتے بیٹے آریان کی سالگرہ کے حوالے سے ہونے والی تیاریوں کا احوال بتانے اور اپنے پرستاروں سے دلچسپ تجاویز جاننے کے لیے میں فیس بک کھول کر بیٹھا تھا اور روز کی طرح اپنے ہوم پیج پر نظر آنے والی سرگرمیوں پر چیدہ چیدہ نظر ڈالنے لگا تھا۔ کوئی تیسری یا غالباًچوتھی پوسٹ کو دیکھتے ہوئے میں ٹھٹک کر رک گیا تھا۔
احسن رحیم نامی ایک فیس بک صارف نے جو میرے دوستوں کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔ ایک مختصر پوسٹ میں دو تصاویر لگا رکھی تھیں۔ ایک شکستہ آئینے تصویر میں ایک گاڑی اور اس کے پس منظر میں شہر کا ایک معروف مال نظر آرہا تھا جبکہ دوسری تصویر، گاڑی کی نمبر پلیٹ کو قریب سے فوکس کرتے ہوئے کھینچی گئی تھی جس کی وجہ سے گاڑی کا نمبر بالکل واضح طور پر پڑھا جا سکتا تھا۔ پوسٹ کا وقت گزشتہ رات کا تھا اور اس پوسٹ کو چار ہزار سے زیادہ مرتبہ شیئر کیا جا چکا تھا۔ اس طرح کی پوسٹس، میں اور آپ روزانہ فیس بک پر دیکھتے رہتے ہیں اور آپ کے لیے یقینا اس میں کوئی نئی یا اچنبھے والی بات بھی نہیں ہونی چاہیے، لیکن میرے لیے تھی۔ گاڑی کی نمبر پلیٹ پر لکھے ہوئے نمبر میں شامل تینوں انگریزی حروف تہجی اور چاروں ہندسوں کو پانچ دفعہ مختلف ترتیب سے پڑھنے کے بعد شک کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی کہ وہ تصاویر میری گاڑی کی تھیں ۔ میرے اور سارہ (میری بیوی) کے زیراستعمال رہنے والی دو گاڑیوں کے علاوہ میں نے یہ تیسری گاڑی گھر کے مختلف چھوٹے موٹے کاموں کے لیے مختص کر رکھی تھی۔ تصویر کے نیچے انگریزی میں ایک مختصر عبارت لکھی ہوئی تھی جس میں گاڑی کے مالک سے جلد از جلد رابطہ کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ اپنے دل میں امڈتے درجنوں اندیشوں اور وسوسوں کو جھٹکتے ہوئے میں نے احسن رحیم کا نمبر ڈائل کیا تھا۔
”میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اس قدر نمک حرام بھی ہو سکتے ہو۔” ظفر شرمندگی سے سر جھکائے میرے سامنے کھڑا تھا اور میں غصے کی شدت میں آپے سے باہر ہو چکا تھا اور جس قدر چیخ کر اسے ڈانٹ سکتا تھا ، ڈانٹ رہا تھا۔
”بھول گئے میرے وہ تمام احسانات جو میں نے تم پر کیے تھے گھٹیا انسان؟ جب سے تم میرے پاس آئے ہو، ایک بار بھی تمہاری تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر نہیں کی میں نے۔ پچھلے سال تمہاری بہن کی شادی پر جو بن سکا کیا ، تمہاری امداد کی، تمہارے بیمار باپ کے علاج کے لیے جو خرچ کیا وہ الگ اور تم ؟ تم نے یہ بدلہ دیا میری مہربانیوں کا؟” میرا غصہ کسی طور ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا اور ہوتا بھی کیسے ؟ ظفر کا قصور تھا ہی نا قابل معافی۔ میرے چیخنے چلانے کے دوران، پچھلے پندرہ منٹ میں، اس نے مجھ سے دو تین دفعہ منمنا کر عاجزی سے معاف کر دینے کی التجا ضرور کی تھی، تا ہم اپنے جرم سے انکار نہیں کیا تھا۔ میں نے کبھی کسی ملازم پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا، لیکن ظفر کو پے در پے تھپڑ رسید کر چکا تھا۔ پھر بھی اندر کی آگ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میرے ہاتھ اٹھانے پر اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ اس کی ندامت سے جھکی گردن اور بار بار معافی کی درخواست اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہے، لیکن میں اسے دوسرا موقع نہیں دے سکتا تھا۔
”ابھی کے ابھی دفعہ ہو جاؤ اور اپنا سامان اٹھا کر نکل جاؤ میرے گھر سے۔ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا غلیظ انسان۔” میں نے گرجدار آواز میں اسے حکم دیتے ہوئے نفرت سے بھرپور ایک نگاہ اس پر ڈال کر منہ پھیر لیا تھا۔
اس نے کچھ کہنے کے لیے یا غالباً معافی مانگنے کے لیے منہ کھولنے کی کوشش کی تھی، لیکن میرے قطعیت بھرے انداز کو دیکھ کر خاموش ہو گیا تھا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ میں کبھی اسے معاف نہیں کروں گا۔ وہ مایوسی سے سر جھکائے ڈرائنگ روم سے باہر نکل گیا تھا۔
ظفر، میرے دیرینہ دوست شاویز ملک کے ڈرائیور کا چچا زاد بھائی ہے۔ تین سال پہلے مجھے ڈرائیور کی ضرورت تھی اور ظفر کو ملازمت کی۔ تب وہ گاؤں سے نیا نیا لاہور آیا تھا۔ شاویز کے ڈرائیور نے مجھ سے ظفر کو ملازمت دینے کی سفارش کی تھی جسے میں نے کچھ تامل کے بعد منظور کر لیا تھا۔ سادہ اور بے ریا سا ظفر جواس وقت تک لاہور جیسے بڑے شہر کی مکاریوں سے نا بلد تھا ، اپنے دل میں اپنے گھر کے حالات بدلنے کا خواب سجائے یہاں آیا تھا۔ اپنی ملازمت کے پہلے ہی مہینے میں اس نے، اس لمحے اپنی سچائی اور ایمان داری سے میرا بھروسا جیت لیا تھا۔ جب غلطی سے اس کو دیا گیا پانچ ہزار کا اضافی نوٹ ، اس نے سارہ کو واپس کر دیا تھا۔ مجھے غربت کی چکی میں پسے ہوئے انسان سے ایسی دیانت داری کی توقع نہیں تھی۔ اس کے اس رویے سے خوش ہو کر میں نے خود سے اس کا خیال رکھنا شروع کر دیا تھا۔ اس کی اور اس کے گھر کی بہت سی چھوٹی موٹی ضرورتیں ، بنا سوال کیے پوری ہونے لگی تھیں ۔ اس کی ایمان داری سے مطمئن ہو کر میری بیوی نے ماہانہ گروسری کی ذمہ داری تک اسے سونپ دی تھی جس کے حساب کتاب میں ظفر نے کبھی کوئی بے ایمانی نہیں کی۔ حالانکہ اگر وہ کبھی کبھار سو پچاس یا پانچ سات سو کی ڈنڈی مار بھی لیتا، تو اس سے بھلا میرے بینک بیلنس پر کون سا فرق پڑ جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ میرے لیے اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل تھا کہ ظفر ایسی گری ہوئی بلکہ گھناؤنی حرکت بھی کر سکتا ہے۔
احسن رحیم سے رابطہ ہونے پر جو انکشاف مجھ پر ہوا تھا اس نے محا ورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً میرے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی تھی۔ گزشتہ شام ظفر، آریان کو لے کر جس شاپنگ مال میں کچھ گروسری کرنے گیا تھا، احسن بھی وہیں موجود تھا ۔ ظفر، آریان کو مال کے ایک نسبتاً الگ تھلگ کونے میں لیے بیٹھا اس بات کی ترغیب دے رہا تھا کہ اس ویک اینڈ پر وہ اپنے والدین کے ساتھ ایک فیملی گیدرنگ میں جانے کے بجائے، ظفر کے ساتھ پارک چلے ۔ ظفر اسے پارک کے بعد پلے لینڈ لے جانے کی پیشکش بھی کر رہا تھا۔
لیکن جس بات نے احسن رحیم کو چونکایا تھا، وہ ظفر کا آریان کو بار بار گود میں بٹھانا اور عجیب انداز میں چومنا تھا۔ ظفر کے تاثرات غیرمعمولی تھے اور اس کی آنکھوں سے ٹپکتی جنسی ہوس، احسن نے بہت آسانی سے بھانپ لی تھی جس سے معصوم آریان یقینا بے خبر تھا۔ ظفر اور آریان کے ظاہری حلیوں کے فرق سے احسن کے لیے اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں تھا کہ وہ باپ بیٹا نہیں تھے۔ احسن کی مداخلت اور ہلکی پھلکی پوچھ گچھ سے ظفر نے بھی اعتراف کر لیا تھا کہ وہ آریان کے گھر کا ڈرائیور ہے، لیکن آریان اسے انکل کہتا اور سمجھتا ہے۔ اس کے مذموم ارادے احسن پر آشکار ہو چکے تھے۔ احسن کا خیال تھا کہ ظفر کو نصیحت کرنا اور کم سن آریان کو معاملے کی نزاکت سمجھانا، دونوں ہی بے سود تھے۔ اسی لیے اس نے ظفر کو تنبیہ کرنے کے بجائے اس کا پیچھا کرتے ہوئے ، پارکنگ لاٹ میں کھڑی میری گاڑی کی تصاویر بنا کر فیس بک پہ وہ پوسٹ اپ لوڈ کی تھی تا کہ آریان کے گھر سے کوئی رابطہ کرے اور اسے ظفر کے ارادوں سے بر وقت آگاہ کیا جا سکے ۔ احسن سے بات ہونے کے بعد میں نے ظفر کو بلایا تھا اور اس سے سختی سے پوچھ گچھ کی تھی ۔ اس نے بڑی جلدی اقبال جرم کر لیا تھا کہ وہ آنے والے چند دنوں میں آریان کے ساتھ گھر پر اکیلا رک کر اس کی معصومیت سے فائدہ اٹھانے کا غلیظ منصوبہ بنائے بیٹھا تھا۔ یہ سوچ سوچ کر میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا کہ اس نے اپنے نفسانی جذبات کی تسکین کے لیے میرے معصوم آریان کا انتخاب کیا تھا۔ اگر خدا نخواستہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جاتا تو ؟
اس سے آگے کا تصور کرنے سے ہی مجھے جھر جھری آ گئی تھی۔