سٹیفن کنگ ۔ شاہکار سے پہلے

سٹیفن کنگ کی ہمت، بہادری اور یقین کی داستان یہاں ختم نہیں ہوتی۔ بروکن فیملی کاشکار یہ بچہ ساری زندگی مختلف طرح کے خوف اور وسوسوں سے لڑتا رہا ہے۔
 اپنی ماں کو محنت کرتے دیکھ کر وہ اکثر سوچتا کہ ایک دن ان کی ماں بھی انہیں چھوڑ کر چلی جائے گی۔ تحفظ کے ہر احساس سے عاری یہ بچہ مختلف طرح کی خامیوں کا شکار تھا۔ وہ اکثر خواب میں اپنی ماں کو مرا ہو ادیکھتا۔ کبھی دیکھتا کہ وہ خود پھانسی سے لٹکا ہوا ہے اور پرندے اسے نوچ کے کھا رہے ہیں۔ موت، جسمانی بد نمائی، اپاہج پن، حتیٰ کہ جوکرز (clowns) تک سے خوف زدہ یہ بچہ صرف ایک ہی طریقے سے ان تمام خوف ناک چیزوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتا تھا اور وہ طریقہ تھا ان سب کے بارے میں کہانیاں لکھنا۔
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے خوف اور پیچیدہ ہوتے گئے اور فرار کی کوششیں اسے ایک عادی شراب نوش بناتی گئیں۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب اسے لگنے لگا کہ وہ پیے بغیر لکھ ہی نہیں سکے گا۔ یہ خوف اسے اور زیادہ اس نشے کا عادی بناتا گیا اور پھر یہ نشہ کچھ اور خطرناک نشوں کی طرف کی راہ کھولتا گیا۔ جیسے جیسے اسے شہرت ملتی گئی، وہ نشے کا اور عادی ہوتا گیا۔ لکھنا چھن جانے کے خوف نے اسے بری طرح ان سب برائیوں کا عادی بنا دیا تھا۔ اور Tabithaاکثر اسے بے ہوشی کی حالت میں اس کے کمرے سے نکالتی۔
یہاں ایک بار پھر اس کی ہمت نے اس کا ساتھ دیا اور اس نے تینوں بچوں اور چند قریبی دوستوں کو بلا کر سٹیفن کے سامنے اس کے نشے کے تمام لوازمات رکھے۔ اپنے بچوں اور دوستوں کے سامنے اپنی کمزوری کے یہ ثبوت دیکھنا سٹیفن کی زندگی کے درد ناک ترین لمحوں میں سے ایک تھا ۔ اور جب Tabitha نے اسے یہ کہا کہ اگر اس نے نشے سے جان نہ چھڑائی تو وہ اسے خود سے اور بچوں سے الگ کر دے گی، تو سٹیفن کے لیے یہ ٹرین کی زور دار سیٹی تھی۔ وہ جیسے ہوش میں آگیا تھا۔ اس نے اسی وقت اس عادت سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا اور Tabitha کی مدد سے واپس زندگی کی طرف آنے لگا۔
وہ لکھاری جس نے کئی لاتعداد ہارر اور مسٹری کہانیاں لکھی ہیں، جس کے لیے لوگوں کو خوف میں مبتلا کرنا اور ان کا خون سرد کر دینا بائیں ہاتھ کاکھیل ہے، اور جس کی کتابیں، پڑھنے والوں کی راتوں کی نیندیں حرام کر دیتی ہیں، اسی سٹیفن کنگ نے نشے کی اس دھند اور خوف سے باہر آنے کے بعد Green Mile اور The Hearts In Atlantis جیسی حساس، خوب صورت اور دلوں کو گرفت میں لے لینے والی کہانیاں لکھیں۔
اپنے سفر پر پلٹ کر سٹیفن کنگ ایک دلچسپ نظر ہوئے کہتا ہے:
”جب میں Carrie کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ کسی بھی کہانی کو اس لیے چھوڑ دینا کہ وہ مشکل ہے، چاہے جذباتی یا تخیلاتی طور پر، ایک انتہائی برا خیال ہے۔ اکثر ہمیں بس یقین کرنا پڑتا ہے اور دل چاہے نہ چاہے سفر جاری رکھنا ہوتا ہے۔ کئی بار ہم بہت اچھا کام کر رہے ہوتے ہیں، لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے کہ بس بیٹھ کر مٹی کھود رہے ہیں۔ یہ ہمت نہ ہارنے کا وقت ہوتا ہے!“
اور اب سٹیفن کنگ کے پاس کئی سو انعامات اور ایوارڈز ہیں۔ وہ امریکی تاریخ کے بیسٹ سیلرز مصنفین میں سے انیسویں نمبر پر ہے، اور اس کی پچاسیوں کہانیاں ہالی ووڈ فلمز کے لیے منتخب ہوئی ہیں۔
چند سال پہلے سٹیفن کنگ کو National Book Awards کی تقریب میں خطاب کے لیے بلایا گیا۔ وہاں یہ شان دار، کامیاب اور قابل مصنف بس اس عورت کے بارے میں بات کرتا رہا جس نے Carrie کو کچر ے دان سے نکال کر ایک بین الاقوامی کامیابی بنا دیا۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا:
© ©”اکثر لکھاریوں کی زندگی میں ایک مقام آتا ہے جب وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں، جب ان کے بچپن کے روشن خواب زندگی کی آنکھیں چندھیا دینے والی دھوپ میں پھیکے پڑنے لگتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب زندگی کوئی بھی کروٹ لے سکتی ہے۔ میرے لیے یہ وقت 1971 ءسے 1973ءکے دوران آیا۔ اگر اس وقت میری بیوی مجھے ، چاہے محبت سے ہی سہی، کہہ دیتی کہ وقت آ گیا ہے کہ میں اب اپنے خوابوں کا پیچھا چھوڑ کر باقی لوگوں کی طرح اپنی فیملی کو سپورٹ کروں ، تو میں ایک لمحے کی بھی دیر اور ہر طرح کی شکایت کے بغیر اس کی بات مان لیتا۔ لیکن اس کے ذہن میں ایسا کوئی خیال کبھی داخل تک نہیں ہوا۔ اور آج آپ Carrie کا کوئی بھی ایڈیشن نکال کر دیکھ لیں ، آپ کو dedication کے خانے میں ایک ہی سطر دیکھنے کو ملے گی۔
”یہ Tabby کے لیے ہے، جو مجھے یہاں تک لائی اور بہ حفاظت واپس نکالا۔ “
سٹیفن کنگ ابھی بھی لکھ رہے ہیں۔ ان کی بیوی اور دونوں بیٹے بھی ناول نگار ہیں۔ بس ان کی بیٹی اس خاندانی پیشے کا حصہ نہیں۔ سٹیفن کے اپنے تمام بچوں سے نہایت صحت مندانہ تعلقات ہیں اور پورا خاندان ایک دوسرے کی کامیابیوں اور ناکامیوں میں یک جا ہوتا ہے۔ تینوں بچے اکثر اپنے ماں باپ کو چھیڑتے ہیں کہ انہوں نے اس لیے ہماری ماں سے شادی کی کیوں کہ ان کے پاس ایک ٹائپ رائٹر تھا۔ سٹیفن اس بات کا ہنستے ہوئے لطف لیتے ہیں:
”میں نے Tabby سے اس لیے شادی کی کیوں کہ میں اسے پسند کرتا تھا اور اس سے پیار کرتا تھا، لیکن ہاں، ٹائپ رائٹر بھی ایک اہم وجہ تھی۔“

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Loading

Read Previous

مایا اینجلو ۔ شاہکار سے پہلے

Read Next

ساغر صدیقی ۔ شاہکار سے پہلے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!