سوئٹو کا محافظ — عمارہ خان

میری دن رات یہ کوشش رہی کہ اپنے محبوب کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کروں تاکہ امی یا باجی سے بات کروں تو پورے اعتماد اور یقین سے ۔ایسا نہ ہو وہ پہلے ہی منگنی شدہ ہو ۔۔ہائے اللہ۔۔یہ سوچ کر ہی ایک جھٹکا سا لگتا تھا مجھے۔۔
بس مجھ سے مزید انتظار نہیں ہورہا تھا ،پڑھائی کا کیا ہے ہوتی رہے گی۔۔میری بھی اور اُس کی بھی۔۔بلکہ اچھا ہی ہے ہم دونوں ساتھ ہی یونی ورسٹی میں ایڈمیشن لے لیں ،تو مجال ہے کسی کی مجھے کوئی تنگ کرے ۔۔آخری سال ہی توہے میرا ۔۔یہ خوب صورت خواب بنتے بنتے کب عشق کی منزلیں طے ہوتی گئیں معلوم ہی نہ ہوسکا۔
اب میری کیفیت اکثر ہی گم صم والی رہنے لگی، سنا ہے کہ عشق مُشک چھپائے نہیں چھپتے تو ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ میری پیاری امی کو معلوم نہ ہوتا۔انہوں نے باجی سے فون پر کہا کہ وہ مجھ سے اس سلسلے میں بات کریں۔۔وہ تو فوراً دوڑی بھاگی چلی آئیں اور صاف صاف مجھ سے پوچھ لیا۔اُن کی تفتیش پر میں نے شرماتے جھجکتے اعتراف کرلیا۔پہلے تو باجی کو یقین ہی نہ آیا ۔۔سوئٹو اور پسند کی شادی۔۔؟۔۔پھر جب میں نے انہیں اُن کی ہی قسم کھا کر یقین دلایا تو اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا۔
باجی نے امی تک میری بات پہنچائی اور امی کو بھی میری پسند پر راضی کر لیا ۔میں تو تھی ہی لاڈلی اولاد۔۔سو امی کا دل جلدی پگھل گیا۔۔اور اُن کی آنکھوں میں نمی آگئی ۔۔کہ میں اُن کی پیاری اولاد۔ جس کی کبھی کوئی بات رد نہیں کی گئی ۔ پھر بھی مجھے تو یقین نہیں آرہا تھا۔۔سب کُچھ اتنا سکون اور آرام سے ہو جائے گا۔۔اب امی جانیں اور ابا جی۔والدین کی طرف سے تسلی پاکر اب مجھے فکر تھی تو یہ کہ میرے محبوب کے گھر والے کُچھ مسئلہ نہ کھڑا کر دیں ۔
امی ابا جی کے کسی خوش گوار موڈ کے انتظار میں تھیں۔میں امی کی لاڈلی اولاد ہوں ویسے ہی بھائی ابا جی کی۔۔بھائی بڑے تھے تو یقینا ابا جی کو اچھا نہ لگتا کیوں کہ پہلے بھائی کی باری تھی ۔لیکن اللہ نے میرے حال پر خاص کرم نوازی کی کہ باجی اپنی نند یعنی ہماری تایا زاد بہن کا رشتہ لے آئیں ۔بھائی کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا لہٰذا رشتہ پکا ہوگیا۔اب میری بات کرتے ہوئے امی کو کوئی جھجک نہ تھی ۔امی نے برابر والوں کے گھر بھائی کے رشتے کی مٹھائی بھی بھجوائی تاکہ تعلقات بڑھا سکیں۔
امی دو چار بار بہانے سے اُن کے گھر گئیں ، وہاں سے واپسی پر اُن کا چہرہ خوش ہی دکھائی دیتا لیکن مارے شرم کے مجھے کچھ پوچھنے کی جسارت نہ ہوتی ۔ایسے ہی آنے جانے میں کُچھ اور باتیں کھلیں تو گویا میری خوش قسمتی کے دروازے کھل گئے ۔ میرا نیا محافظ۔۔وہ تو بلیک بیلٹ نکلا۔۔میں نے دل ہی دل میں خود کو تنگ کرنے والے بدمعاش لڑکوں کی فہرست بنانا شروع کر دی ۔خوابوں میں اُن کی دُرگت بنتے دیکھنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ایک دن امی نے انہیں کھانے پر بُلایا۔۔اندازہ تو ہو ہی گیا تھا اُن لوگوں کو کہ یہ آنا جانا یقینا کسی خاص مقصد کے لئے ہے۔
دعوت میں صرف انکل اور آنٹی ہی آئے اور میرے ارمانوں پر گھڑوں پانی ڈال گئے۔بہت ارمانوں سے صابن رگڑ رگڑ کر منہ دھویا ،نیا جوڑا پہنا ،حسین بالوں کو شیمپو کیا (کیونکہ تازہ شیمپو کی وجہ سے بال جب ایک ادا سے میرے ماتھے پہ آتے تو میری خوب صورتی میں مزید اضافہ کر جاتے ۔لیکن افسوس ساری محنت ہی ضائع گئی)۔
خوشی کی بات یہ تھی کہ اُن کی آنکھوں میں میرے لئے پسندیدگی کے جذبات تھے ۔ امی کی سخت نگاہی نے مجھے بت کی طرح بٹھا رکھا تھا۔توبہ! کتنا عجیب لگتا ہے کوئی آپ کو سامنے بٹھائے نظر وں سے جانچ رہا ہو ۔یقینا قربانی کے جانور کو بھی ایساہی لگتا ہوگا جب اُس کی خرید و فروخت کے لئے اُس کا معائنہ کیا جاتا ہوگا۔
خیر امی نے ڈھکے چھپے لفظوں میں میرے رشتے کی بات کر دی ۔انھوں نے میری کم عمری کا تذکرہ تو کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اُن کا ارادہ دونوں بچوں کی شادی ایک ساتھ کرنے کا ہے۔ظاہر ہے مابدولت اور بھائی کی۔۔۔جاتے جاتے وہ لوگ امی اور خاص طور پر مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دے گئے ،جس سے ان کی رضامندی ظاہر ہو رہی تھی ۔
میں نے اُن کے جاتے ہی اپنی الماری کھولی تو کوئی جوڑا اس قابل نہ لگا ،جو زندگی کے اس اہم موقع پر پہنا جائے ۔ا ف اللہ۔۔! اب کیا کروں۔۔پریشانی سی پریشانی۔۔میں نے فوراً باجی کو فون کیا کہ رشتے کے لئے جانا ہے اور کوئی اچھا جوڑا ہی نہیں اور میری پیاری باجی میری روہانسی آواز سُن کر اپنے سب کام چھوڑ کر مجھے بازار لے جانے کے لئے آگئیں۔
کافی دیر گھومنے کے بعد ایک بہت پیارا سا بادامی رنگ کا شلوارقمیص دلایا اور ساتھ بہت ہی پیاری سی پشاوری شال۔میں نے بتایا نا کہ میرا قد کاٹھ اچھا ہے تو مجھ پہ یہ مشرقی لباس بہت جچتا ہے ۔ خنک موسم کے پیشِ نظر شال بہت مناسب تھی۔
ہم تھکے ہارے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ ابا جی نے میرے رشتے کا پیغام بھجوا دیا ہے کل دعوت پر وہ جواب دے دیں گے ۔یہ سُن کر میری تو سانسیں ہی تھم گئیں ۔ایک دم باجی سے شرم آگئی۔۔کیوں کہ وہ مجھے شرارتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں اور میرے قدم فوراً اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
اب صرف ہاں یا ناں والا مرحلہ باقی تھا۔میں نے زندگی میں پہلی بارپورے دل کے ساتھ نماز پڑھی اور خوب دعا کی ۔۔”یا اللہ میری قسمت کھل جائے۔۔وہاں سے ”ناں” نہ ہو”۔
دعا کے بعد دل کو جیسے سکون مل گیا۔اللہ اللہ کر کے صبح ہوئی تو بے تابی سے تیار ہوکر امی کے ساتھ ابا جی کا انتظار شروع ہوگیا تھا۔ابا جی کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ہاں ہوگی ہم شادی کی تاریخ بھی پکی کردیں گے کیوں کہ بھائی کا تو گھر کا ہی معاملہ تھا۔
اب دھک دھک کرتے دل کے ساتھ ہم گھر سے نکلے ۔باجی نے آنے سے معذرت کر لی تھی کیوں کہ ان کی طبیعت کُچھ ٹھیک نہیں تھی اور سہیل بھائی ابا جی کی جگہ دُکان پہ تھے۔سو ہم تینوں ہی مٹھائی کے ہمراہ اُن کے گھر جا پہنچے۔
٭٭٭
آج میری شادی ہے۔۔جی ہاں میری۔۔یعنی سوئٹو کی۔۔سوئٹو کی زندگی میں ایک نیا محافظ آگیاہے جو بلیک بیلٹ بھی ہے۔۔اور جو ہمیشہ کے لئے میرا ہے ۔۔اب مجھے کسی کا ڈر نہیں کیوں کہ میرے محافظ نے مجھ سے وعدہ لیا ہے کہ مجھے بھی بلیک بیلٹ نہ سہی براؤن بیلٹ تک رسائی حاصل کرنی ہے۔
خیر جب تک میں لال ،نیلی اورپیلی بیلٹ تک رسائی حاصل کروں ،اُس وقت تک مجھے امید ہے میرا محبوب محافظ ہر اُس بندے کا حشر نشر کر دے ”گی” جو مجھے چھیڑے گا ۔۔آخر کو ”میری دلہن” بلیک بیلٹ ہے کوئی مذاق نہیں۔۔آپ لوگ میری کامیاب زندگی کے لئے دعا کیجئے گاکیوں کہ اب یقینا مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ۔میری دلہن میری دوست بھی ہے اور محافظ بھی ۔۔سو اللہ حافظ۔۔
میں ۔۔سوئٹو عُرف ملک سمیر علی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۴

Read Next

داستانِ حیات — علی فاروق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!