سنی کا خوف — نورالسعد

صیان
اگلے کئی دن جب بھی اس نے و ہ واقعہ یاد کیا، اسے اپنی بہادری پر خوشی بھی ہوتی، مرجان پر غصہ بھی آتااور ساتھ ساتھ مرجان کے بے پناہ ہنسنے کو یاد کر کر کے ہنسی بھی آتی۔ ایسے ہی وہ ایک دن بیٹھا مسکرا رہا تھا کہ ماں سے رہا نہ گیا اور وہ پوچھ بیٹھی۔ جواباً سنی نے وہ سارا واقعہ ماں کو سنا دیا۔ ماں کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اسے مرجان پر ٹوٹ کر پیار آیا جس نے اس کے گاؤ دی بچے کو یہ اعتماد دیا تھا۔ تو کیا ہوا اگر وہ ان کی ذات سے نہ تھی؟ وہ ان کے لیے ایک فرشتہ ثابت ہوئی تھی۔
اور یہ فرشتہ ہمارے ہیرو کو لیے دنیا کی سیر کراتا رہا اور دنیا داری سکھاتا رہا۔ اب مسئلہ بس ایک تھا۔
”تو یہ بن گیا تمہارا گوگل اکاؤنٹ اور اب میں تمہیں فیس بک پر بھی رجسٹر کرتی ہوں۔ ہیلو کیا ہوا؟” مرجان اُسے لیے ساحلِ سمندر پر بیٹھی تھی اور لہروں اور سمندری ہواؤں کے شور میں اونچا بول رہی تھی، جب سنی کے تاثرات دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی۔ بجائے موبائل کے وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔ مرجان کے اس طرح پوچھنے پر وہ گڑبڑا گیا۔
”نہیں وہ… میں کہہ رہا تھا کہ… تمہارا یہ لال بالوں والا بہروپ بہت اچھا ہے۔” اس نے جلدی سے بات بنائی۔ مرجان ہنس دی۔
”بہروپ؟ کسی انسان کو اس طرح بہروپ بدلتے دیکھا ہے تم نے اب تک؟”اس نے پوچھا۔
”آ آ…نہیں تو…” سنی نے اپنی پچھلے چھے ماہ کی معلومات کو کھنگالا۔
”کیوں پوچھا؟” اسے اس سوال کا سیاق و سباق سمجھ نہیں آیا تھا۔
”رہو گے تم بدھو ہی۔” مرجان نے گہری سانس لے کر سر جھٹکا۔
”میں نے بال ڈائی کیے ہیں۔” سنی کو لگا اس دفعہ مرجان نے بات بنائی ہے۔
”مگر ایسے کیوں پوچھا تم نے؟” اس کا تجسس اور بڑھ گیا تھا۔
مرجان نے سر اٹھا کے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
”اس لیے کہ یہ میرے اصلی۔” وہ کہہ ہی رہی تھی کہ اس کا موبائل بج اٹھا۔ سنی کو چپ رہنے کا اشارہ کرتے اس نے کال پک کر لی۔
”جی سر؟ جی بالکل میں اویل ایبل ہوں۔ جی جی سر میں بھی اُسی بارے میں بات کرنا چاہتی تھی۔” ایک ترچھی نظر سنی پر ڈالی۔
”جی اس مشکوک جگہ کی سرویلنس میں نے کی ہے کافی، مگر مجھے اپنے بندے پر ابھی بھروسا نہیں ہے۔ پہلے اُسے پوری طرح ٹرین کروں گی اور ہمارا ٹارگٹ بہت چالاک لگتاہے۔ خاص طور سے اکیلے مجھے کافی مشکل پیش آ سکتی ہے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا میری بات؟” اس نے ایک اور نظر سنی پر ڈالی جو بے چینی سے کال ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔
”ٹھیک ہے سر میں پھر اس جمعرات کا پلان کر رہی ہوں۔ آپ ابھی ٹیم کو مت بتائیے گا، میں ابھی سولو کرنا چاہتی ہوں۔”
اور چند الوداعی کلمات کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔
”کیا ہوا؟ کون تھا؟”سنی نے کال کٹتے ہی پوچھا، تو وہ جو اپنا نچلا ہونٹ کاٹ رہی تھی، چونک گئی۔
”ہمم؟ ہاں وہ میرے شو کے پروڈیوسر تھے۔ میرا اگلا شو ایک خطرناک موضوع پر ہے۔ کم سے کم میرے لیے تو ہے۔”
”کس موضوع پر؟”
مرجان نے اس کے سوال پر اس کے چہرے پر نظریں مرکوزکیں۔ چند ثانیے اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے گہری سانس بھری۔
”ابھی نہیں سنی۔ میں تمہیں بتا دوں گی، شاید تمہاری مدد کی بھی ضرورت ہو، مگر ابھی نہیں۔”
”مگر کیوں؟ کچھ تو بتاؤ…” وہ بے چینی سے آگے ہوا۔
”ابھی نہیں۔” مرجان نے زور دے کر کہا۔
”جمعرات کے بعد۔”یہ کہتے ہی وہ اٹھ گئی۔
”میں چلتی ہوں، مجھے اپنے کام کے لیے تیاری کرنی ہے۔”
سنی حیرت سے اُسے جاتے دیکھتا رہ گیا۔
مرجان کا رویہ بدل سا کیوں گیا؟
٭…٭…٭





جادوگر
اگلا دن بدھ کا تھا۔ سنی کا سارا دن اسی بات پر تعجب کرتے گزرا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ مرجان کو آخر کس خطرناک مشن پر جانا ہے جس کے بارے میں اس نے بتایا نہیں؟ اور وہ بھی اکیلے؟ یہ سب سوچتے سوچتے اُسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔ اسے اعتراف کرنا پڑا کہ اسے مرجان اچھی لگنے لگی ہے۔ اس کا پُراعتماد انداز، اس کے بولنے کاطریقہ، اس کا ببل پھوڑنے کا انداز اور سب سے بڑھ کر اس کا بات بے بات ہنسنے کا انداز۔ اس نے تو اپنی برادری کی عورتوں کو ہر وقت منہ بنائے ڈراؤنی شکلیں بنائے رکھے ہی دیکھا تھا اور ایک مرجان تھی، پتا نہیں خوبصورت تھی کہ نہیں مگر پیاری بڑی لگتی تھی اُسے۔ بس…اور یہ ایک بس اس کا دل ڈبونے کو کافی تھا کہ… وہ انسان تھی۔کبھی نہ کبھی تو ان کی دوستی ختم ہونی ہی تھی۔انسان تو کچھ ہی سال زندہ رہ پاتے ہیں۔
اس کی فکرمندی یوں ہی جاری رہتی اگر اسے ماں کی فکر مندی کا احساس نہ ہو جاتا۔ وہ جانے کیوں پریشان پریشان سی تھیں۔ سارا دن گزر گیا وہ باہر بھی نہ نکلی تھیں۔ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی وہ کبھی اس شاخ سے اور کبھی اس شاخ سے پارک کے کونے کونے میں جھانکتی رہتیں۔
”کیا ہوا ماں؟ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تو آج میں چلا جاتا ہوں کھانا لینے؟” اس نے پیشکش کی۔وہ اس کی بات پرچونک گئیں۔
”تو؟ نہیں تو نہیں۔” انہوں نے اس کے قریب آکر کہا۔ ”گھر میں رہ۔ آج اس مرجان سے ملنے بھی نہ جانا۔”
”مگر کیوں؟” سنی منمنایا۔ وہ کتنا بھی بہادر ہو جاتا، ماں سے بحث کی ہمت کبھی نہیں آنی تھی اس میں۔
”بس کہہ دیا نا۔” ماں نے آنکھیں دکھائیں۔
”بلکہ ایسا کر کہ کچھ دن کے لیے اپنے بھائی کی طرف چلا جا۔”
”کیا؟” سنی نے احتجاج کیا۔
”بھابھی کی شکل دیکھنے سے بہتر ہے کہ میں کسی جادوگر کے گھر رہ جاؤں!”
”جادوگر؟تجھے کیسے پتا؟” ماں کے منہ سے نکلا پھر جیسے انہوں نے زبان روک لی۔
”کیسے کیا پتا ماں؟” اب کے سنی بھی چونک گیا۔
”کچھ نہیں! بس تو گھر میں رہ۔” ماں نے اپنی بے بسی کو غصے میں چھپایا۔
”ماں!” سنی ان کے قریب ہوا۔
”اب میں وہ نہیں رہا ماں۔ میں بدل گیا ہوں۔ تو سلائی مشین چھوڑ دے ماں…آآ میرا مطلب اب میں بہت سی چیزیں سیکھ گیا ہوں۔مرجان نے مجھے یہ ٹیبلیٹ بھی لا کر دیا ہے۔ ” ماں نے حیرت سے اس کے ہاتھ میں پکڑی تختی کو دیکھا۔
”اس میں ایک چیز ہوتی ہے انٹرنیٹ، اس سے میں اور بھی بہت کچھ سیکھ رہا ہوں۔ اب تو مجھے بچہ سمجھنا چھوڑ دے۔ آخر بھائی بھی تو مجھ سے کچھ ہی سال بڑا تھا نا جب اس نے شادی کی تھی۔”
ماں نے اسے بے بسی سے دیکھا۔ پھر اس کا سر اپنے کندھے سے لگایا۔
”ہاں! شاید تو ٹھیک کہتا ہے۔ میں نے ہمیشہ تیرے ڈرنے کے خیال سے تجھ سے باتیں چھپائیں۔ بات یہ ہے بیٹا۔ ” ماں نے آواز دھیمی کی۔
”یہاں کچھ خبریں آرہی ہیں۔ یہاں کوئی بڑا جادوگر آگیاہے۔ اس کے پاس ایسا علم ہے کہ ہمارے جیسے اس کے دام میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔ اس کے پاس نئے نئے منتر ہیں جن کے ذریعے وہ ہمارے لوگوں کو اپنے بس میں کر لیتا ہے۔وہ جو بابا فراست نہیں تھا؟ اسے بھی لے گیا ہے۔ بوڑھا بابا اس کے نجانے کس کام کا، مگر اسے بھی پکڑ لیا۔ یہاں بہت خطرہ ہے۔ ”
ہاں واقعی! بابا فراست کا مسکن تو کل سے خالی پڑا تھا۔ سنی نے اپنی غائب دماغی میں اس پر غور ہی نہیں کیا تھا۔
”تو پھر ہم کیا کریں؟” سنی نے خوفزدہ ہو کر پوچھا۔
”میں چاہتی ہوں ہم یہ مسکن چھوڑ دیں۔ کچھ دن تیرے بھائی کے ساتھ رہ لیں ، پھر کہیں اورجگہ تلاش کرتے ہیں۔” ماں نے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھ کر کہا۔
”یہ جگہ چھوڑ دیں؟ بھائی کے گھر رہیں؟ یہ کیسا حل نکالا ہے ماں؟” سنی نے برا سا منہ بنایا۔
”اس عامل نے ہم پہ حملہ نہیں کیا اس کا مطلب وہ ہم سے یا کم سے کم تم سے تو ڈرتا ہی ہے۔ کیا معلوم وہ چچا فراست کو اغوا کرنے کے بعد چلا گیا ہو۔”
”نہیں! وہ ہے۔ میں نے اور بھی ذرائع سے خبریں سنی ہیں۔ وہ یقیناہماری طرف بھی آئے گا۔ بس تو نے ڈرنا نہیں ہے۔ ہم مغرب ہوتے ہی نکل جائیں گے تاکہ رات رات میں تیرے بھائی کے گھر پہنچ جائیں۔ کمبخت رہتا بھی تو چرنا جزیرے پر ہے۔ اس کی بیوی کو شہر کی رونقیں پسند نہیں ہیں۔”
”شہر بھی چھوڑ دیں گے تو میں مرجان سے کیسے ملوں گا؟” سنی کا دل یا دل جیسا جو بھی تھا اس کے پاس، وہ ڈوبنے لگا۔ مگر ماں نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ وہ اپنے آپ سے بڑبڑاتی کسی اور طرف نکل گئیں۔
رات ڈھلنے سے پہلے تک سنی مرجان کا انتظار کرتا رہا اور اس انتظار میں وہ ماں کو مصروف دیکھ کر اپنے درخت سے کچھ آگے نکل آیا۔ مرجان کہیں نہ تھی۔
اورمایوس ہو کر جب وہ واپس آیا تو ماں وہاں سے غائب تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

کنکر — عمیرہ احمد

Read Next

بل ہے کہ مانتا نہیں — سید محسن علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!