ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان

“آپ نے کچھ زیادہ نہیں کرنا۔ بس اپنی زندگی کو وہیں سے شروع کرنا ہے کہ جہاں وہ امروز سے آخری ملاقات کے بعد تھم گئی تھی۔ اگر میں کہوں کہ امروز واپس آسکتا ہے تو آپ کیا کہیں گی؟” شامیر کی بات سُن کر سجل کی بے نور آنکھیں چمک اٹھیں۔۔ اور اس نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے پلٹ کر شاہ میر کو دیکھا جو اس کی پشت پر کھڑا تھا۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے امروز اس آخری ملاقات میں بک شیلف کے پاس اس کی پشت پر کھڑا تھا۔۔۔۔۔
“کوئی خاص مشکل نہیں، بہت آسان ہے ۔۔ مجھے یقین ہے کہ اب آپ ایسا کر لیں گی”
” لیکن مجھے کرنا کیا ہوگا”۔۔۔۔ سجل نے عجلت بھرے انداز میں اپنا سوال دوبارہ دہرایا۔۔ شاہ میر جو اب تک سجل کی کرسی کے پیچھے کھڑا تھا۔ واپس چل کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ میز پر اپنی کُہنیاں ٹکا کر وہ آگے کی جانب جھکا اور سجل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہا:
“سجل آپ جب تک آگ کو مٹی کے باٹ سے تولتی رہیں گی، اُسے بے وزن پائیں گی۔ایک ہی وقت میں سب کو خوش نہیں رکھا جاسکتا ۔ اگر ایسا ہوسکتا تو اس دنیا میں موجود ہر شخص ایک مطمئن اور خوش و خرم زندگی گذار رہا ہوتا۔ جب اس دنیا بنانے والے نے آسودگی یکساں تقسیم نہیں کی تو پھر آپ خود کو کیوں سزا دے رہی ہیں۔ سجل یہ جو زندگی کا تحفہ آپ کو ملا ہے اس پر سب سے زیادہ حق آپ کا اپنا ہے۔ اسے کیسے گذارنا چاہیے یہ فیصلہ آپ کا اپنا ہونا چاہیے۔۔۔” شاہ میر بولتا رہا اور وہ سنتی رہی، وہ اسے سمجھاتا رہا اور سجل سمجھتی چلی گئی۔۔۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھوں کی پتلیوں کے گرد تنے جالے جھڑتے چلے گئے۔۔۔۔ اس کی آنکھیں اب پہلے سے زیادہ روشن تھیں۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر نے سجل کی ہسٹری فائل کھولی اور اس میں سے کچھ پڑھ کر اسے واپس بند کردیا اور سجل کی طرف دیکھ کر اس سے مخاطب ہوا۔۔۔
“سجل آپ نے مجھے بتایا تھا کہ اس دن امروز سے آخری ملاقات میں وہ آپ سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔ کوئی اسی بات کہ آیندہ آنے والی زندگی ایک بہتر انداز میں آگے بڑھا ئی جا سکتی تھی۔”
” جی ڈاکٹرشاہ میر مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ لیکن میں اس وقت اتنی الجھی ہوئی تھی کہ اس طرف دھیان ہی نہ دے سکی۔ لیکن اب کیا ہو سکتا ہے”
” اب بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ آپ کو امروز سے بات کرنی چاہیے۔ شاید اس کے پاس موجودہ پریشانیوں کا کوئی حل موجود ہو۔”
” لیکن ڈاکٹر صاحب امروز نہ جانے کہاں ہوگا ۔ وہ کبھی پلٹ کر نہیں آیا۔ اب میں اسے کہاں ڈھونڈوں۔”
” آپ کو خدا ڈھونڈنے کی قطعاً ضرورت نہیں، بس سچا ارادہ کیجئے خدا خود آپ کو ڈھونڈتا ہوا آپ کے پاس آجائے گا۔ میرا مطلب ہے آپ کو ایک سچی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ ہوسکتا ہے آپ کو امروز وہیں مل جائے جہاں آپ نے اسے کھویا تھا”
٭٭٭٭





سجل اپنے کمرے میں رکھی شیشم سے بنی کرسی کو دیکھنے لگی کہ جس پر اکثر امروز بیٹھا کرتا تھا۔ آج وہ گرد سے اٹی ہوئی تھی۔ وہ آگے بڑھی اور اسے اپنے دوپٹے سے صاف کیا اور اس پر بیٹھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ آج ڈاکٹر شاہ میر سے بات کرنے کے بعد وہ خود کو پہلے سے بہتر اور مضبوط تصور کر رہی تھی۔ سجل آنکھیں بند کئے ان لمحات کو یاد کررہی تھی جو اس نے امروز کے ساتھ اسی کمرے میں بتائے۔ ایک کرکے تمام واقعات سجل کی بند آنکھوں میں گھوم رہے تھے کہ اچانک اس کو اپنے پاس وہی مانوس سی خوشبو محسوس ہوئی جو امروز کی موجودگی میں آیا کرتی تھی۔ سجل کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی لیکن اس نے اپنی آنکھیں نہیں کھولیں۔
“تو تم واپس آہی گئے۔ اگر واپس ہی آنا تھا تو گئے کیوں تھے۔ ؟”
“میں کہیں نہیں گیا تھا، یہیں تھا تمھارے آس پاس۔ مجھے معلوم تھا کہ تم میرے بغیر زیادہ عرصہ نہیں رہ پائو گی۔”۔۔۔۔ امروز کا جواب سُن کر سجل نے بند آنکھیں کھول لیں اور اسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
“جب تمہیں یہ معلوم تھا۔۔ تو آخر تم گئے ہی کیوں؟ تم اتنے سنگ دل کیسے ہوگئے؟ کیا تمہیں مجھ پر ذرا بھی ترس نہ آیا؟ تمہاری جدائی نے دیوانہ بنا دیا تھا مجھے۔ لوگ مجھے پاگل سمجھنے لگے تھے اور ایک تم تھے جو دور کھڑے یہ سب تماشا دیکھتے رہے۔ تمہیں ایک پل بھی یہ خیال نہ آیا کہ اس مشکل وقت میں تمہارا ساتھ میرے لئے کتنا ضروری تھا۔”
“۔۔۔۔۔ تمہیں روتا دیکھ کر میری ہمت ٹوٹنے لگتی تو دل چاہتا تھا کہ جھٹ سے تمہارے سامنے آجائوں۔۔ لیکن تمہارے کمزور فیصلے میرے سامنے ایک مضبوط دیوار بن کر میرا رستہ روکتے رہے۔۔۔”
“پھر بھی تمہیں ایک کوشش تو ضرور کرنی چاہیے تھی”
“اچھا یہ بتائو کے اس دن تم مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہے تھے، شاید تم اس روز کچھ بتانا چاہ رہے تھے”۔۔۔ اس کے بعد وہ بہت دیر تک ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے۔
٭٭٭٭
سجل جب ڈاکٹر چیمبر میں داخل ہوئی تو ڈاکٹر شاہ میر اسے دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔ سجل نے ہلکے گلابی رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ لائٹ سا میک اپ سجل کے حسن میں خاطر خواہ اضافہ کررہا تھا۔ شاہ میر نے اسے اپنے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔۔
“ڈاکٹر شاہ میر میں بس آج آپ سے آخری بار مل کر آپ کا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں اور یہ کہنے کے لئے بھی کہ شائد اب میں آپ سے دوبارہ کبھی نہ مل سکوں۔”
اس نے میرے چہرے پر آتے جاتے سوالات پڑھ لئے اور بولی: “نہیں ڈاکٹر صاحب میں خود کشی نہیں کروں گی، میں اتنی کمزور نہیں ہوں”۔۔۔۔ یہ کہہ کر سجل میرے کلینک سے اُٹھی اور چلی گئی۔
٭٭٭٭
دو دن بعد شاہ میر کو سیل فون پر سجل کی والدہ کی کال ریسیو ہوئی۔ انہوں نے روتے ہوئے مجھے بتایا کہ سجل کی حالت بہت خراب ہے۔۔۔۔ چوں کہ سجل ڈاکٹر شاہ میر کے انڈر ٹریٹمنٹ تھی اس لئے اس کا وہاں اسپتال میں موجود ہونا ضروری تھا تاکہ وہ اسپتال کے عملے سے کیس ہسٹری شئیر کر سکے۔۔۔۔۔ لیکن جب وہ اسپتال پہنچا تو سجل کی سانسیں تھم چکی تھیں۔ شاہ میر اسپتال کے مردہ خانے میں موجود تھا۔سجل کو مرے ہوئے چھے گھنٹے بیت چکے تھے لیکن اس کے چہرے پُر سرخی اب بھی موجود تھی۔ اس نے وہاں موجود فزیشن سے ڈیتھ سرٹیفیکٹ لیا اور cause of death کا کالم دیکھا جہاں واضح طور پر لکھا تھا “ہارٹ فیل ہونے کی وجہ سے اچانک موت” وہ وہاں زیادہ دیر نہیں ٹہرسکا۔۔۔ سجل کو آخری بار نظر بھر کر دیکھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
٭٭٭٭
شاہ میر نے پہلو بدلا اور کہا: “سجل سب کو روتا چھوڑ کر چلی گئی۔”
“بے چاری سجل۔۔۔ مجھے شروع سے ہی اندازہ تھا کہ یہ کہانی ایسے ہی کسی دردناک انجام کو پہنچے گی۔۔۔۔ دانیہ نے چائے کا خالی کپ میز سے اٹھایا اور اسے کچن میں رکھنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔
“نہیں دانیہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔۔۔۔”
“کیا کہا آپ نے۔۔ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔۔۔!!! “۔۔۔۔ لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔ سجل تو مر چکی تھی۔۔۔۔! آپ نے خود اس کے ڈیٹھ سرٹیفیکٹ پر دستخط کئے تھے”۔۔۔۔۔۔ دانیہ نے ایک ہی سانس میں پورا جملہ ادا کیا اور ہاتھ میں خالی چائے کا کپ تھامے دوبارہ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔
“دانیہ موت انجام نہیں ہوتی بلکہ زندگی تو بس ایک تمہید ہے جو موت سے پہلے باندھی جاتی ہے۔”
اس روز سجل سے پوچھنے کے لئے میرے پاس کئی سوالات تھے۔ لیکن جواب دینے والے لب خاموش ہوچکے تھے۔ سجل اسپتال کے مردہ خانے میں سینکڑوں بے جان لاشوں کے درمیان کہیں موجود تھی۔ سجل کے ڈیتھ سرٹیفیکٹ پر دستخط کرنے کے بعد میں فوری طور پر ہسپتال کے کمرے سے باہر نکل آیا ۔ طبیعت اتنی بوجھل تھی کہ میں اس کی آخری رسومات میں بھی شریک نہ ہوسکا۔ اپنے کلینک پہنچنے کے بعد طبیعت میں بوجھل پن اور بے چینی کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ایسا لگتا تھا کہ میرے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی۔ میرے اعصاب شل ہوچکے تھے حالاں کہ میں اس انجام سے باخبر تھا۔ کیوں کہ اسے بغاوت پر میں نے ہی اُکسایا تھا۔ میں اپنے کمرے میں بے چینی کے عالم میں ٹہلنے لگا۔ دل چاہتا تھا کہ کوئی مجھے ہپناٹائز کرے اور میرے دماغ سے سجل کو کھرچ کر کہیں دفن کردے۔ مجھ سے رہا نہیں گیا میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور سیدھا قبرستان پہنچ گیا۔۔۔۔ گورکن کی مدد سے سجل کی قبر ڈھونڈی اور بہت دیر تک اس کی قبر پر بیٹھا سجل کی باتوں کو یاد کرکے اپنا جی ہلکا کرتا رہا۔۔۔ پھر میں وہاں سے اٹھا اور اپنے گھر آگیا۔۔۔پوری رات میں سکون سے سو نہیں پایا۔۔۔ اس رات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک بُری خبر میرا انتظار کررہی ہے۔۔۔”
” سجل کے مر جانے کی خبر سے اور کیا بُرا ہوسکتا ہے” دانی نے دبے لفظوں میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔۔۔
٭٭٭٭
اگلی صبح شاہ میر کو تھانے سے فون کال رسیو ہوئی اور اسے تھانے طلب کیا گیا۔ شاہ میر جب تھانے پہنچا تو سجل کے رشتہ دار اور قبرستان کا گورکن وہاں پہلے سے موجود تھے۔ شاہ میر نے تھانے پہنچ کر اپنا تعارف کرایا تو تھانیدار نے شاہ میر کی جانب چھڑی سے اشارہ کرتے ہوئے گورکن سے پوچھا۔۔۔
“یہی وہ بندہ ہے جو کل شام سب سے آخر میں قبر پر آیا تھا۔ گورکن نے شاہ میر کو اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا اور تھانے دار کی جانب دیکھ کر اپنی گردن ہلا ئی اور کہا:
“جی تھانیدار صاحب ۔ یہ وہی صاحب جی ہیں۔ جو مردہ دفنانے کے بعد اکیلے قبر پر آئے تھے۔۔۔”
شاہ میر ہر بات سے بے خبر کبھی سجل کے والد کو دیکھتا اور پھر تھانے دار کو۔۔۔ تھانے دار نے اس کی بے چینی بھانپ لی اور شاہ میر سے مخاطب ہوکر بولا۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، لیکن بات تو پریشانی والی ہے۔۔ آپ پڑھے لکھے شریف آدمی ہو ۔۔ ہم نے آپ کی پوری انکوئری نکلوا لی ہے ۔لیکن کیا کریں تفتیش میں تو سبھی پر شک کیا جاتا ہے۔۔۔۔
“لیکن آخر ہوا کیا ہے۔۔؟” اب بات شاہ میر کی برداشت سے باہر ہوتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔
انسپکٹر نے گورکن کو جھڑکی پلاتے ہوئے کہا: “اوئے چل ذرا کھل کر بیان لکھوا تاکہ ڈاکٹر صاحب کو بھی پتا چلے کے کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔” ساتھ کھڑا گورگن تھانے دار کی بات سُن کر کسی ٹیپ ریکارڈ کی طرح دوبارہ شروع ہوگیا:
“تھانیدار صاحب جب بڑے صاحب اپنا مردہ دفنا کر چلے گئے تو اس کے چند گھنٹوں بعد ڈاکٹر صاحب آئے اور مجھ سے بڑے صاحب کی بیٹی کی قبر کا پتا پوچھا۔ میں نے دل میں سوچا کہ شاید کسی وجہ سے ان کو یہاں پہنچنے میں دیر ہوگئی ہوگی اور اب فاتحہ خوانی کے لئے آئے ہوں گے۔ بخشش ملنے کی امید پر میں ڈاکٹر صاحب کو قبر کے پاس چھوڑ کر دوسرے مردے کی قبر تیار کرنے چلا گیا لیکن جب میں اپنی بخشش لینے واپس قبر پر پہنچا تو ڈاکٹر صاحب جا چکے تھے ۔ میں بخشش نہ ملنے پر اپنی قسمت کو ابھی کوس ہی رہا تھا کہ اچانک بہت سارے مرد بڑے صاحب کی بیٹی کی قبر کے چاروں جانب اکھٹے ہونے لگے۔” ابھی گورکن کی بات جاری تھی کہ تھانیدار نے ڈانٹتے ہوئے بات کے بیچ میں لقمہ دیا۔۔۔
” اوئے تو نے شکل دیکھی ان لوگوں کی۔۔ اگر وہ سامنے آئیں تو پہچان لے گا۔”
” نہیں صاحب۔ سورج ڈوب چکا تھا اس لئے اندھیرے میں ان کی شکلیں واضح دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ لیکن صاحب سب کے سب سفید اور اجلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔۔۔ ”
” شکلیں نہیں دیکھی تو نے۔۔ اندھا ہوگیا تھا تو۔۔۔ اب تیرے بیان پر سب سفید کپڑے والوں کو لائن حاضر کروں۔” تھانیدار نے تقریبا چلاتے ہوئے گورکن کو ٹوکا۔۔ ساتھ کھڑے حوالدار نے تھانیدار کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔۔۔
” سر جی مینو تو اے لاگے کہ اے آپ نوں۔۔ میرا مطبل ہے کہ ہم سب جنوں کو بے بقوف (بے وقوف) بنا ریا اے۔ مے تو بولوں۔۔ اے مردہ چوری کا پکا کیس لاگے ہے مارے کو”
اوئے تو۔۔ تو اپنی بکواس بند کر جب دیکھو فلمی پالش مارتا رہتا ہے۔۔۔۔ تھانے دار نے حوالدار کو جھڑکا تو وہ نظریں نیچی کر کے کھڑا ہوگیا۔۔ اور گورکن کی طرف دیکھ کر بولا:
“چل شروع ہوجا دوبارہ۔۔۔۔۔۔۔” گورکن نے ہاتھ جوڑ کر ایس ایچ او کی صاب دیکھ کر کہا:
” جناب میں سچ کہتا ہوں میں نے ان کی شکلیں نہیں دیکھیں۔ پھر ان میں سے چند لوگوں نے قبر کھودنی شروع کردی، میں نے جب انہیں اس کام سے روکا تو ایک لمبا اور چوڑی چھاتی والا شخص اور میری جانب آیا اور بولا:
“یہ مردہ ہماری امانت ہے سو ہم اسے واپس لے جا رہے ہیں۔ تم سونے کے یہ سات سکّے اپنے پاس رکھو اور ہمیں ہمارا کام کرنے دو۔”
تھانیدار صاحب اس آدمی نے اپنی بات مکمل کی اورسونے کے سات سکّے میری جانب اچھال دئیے، سارے سکّے زمین پر اِدھر اُدھربکھر گئے۔ سر جی میں زمین پر گرے ہوئے سکّوں کو گن گن کر اٹھاتا رہا۔۔۔ چھے سکّے تو مجھے مل گئے لیکن ساتواں سکّہ مجھے کہیں نظر نہ آیا۔۔۔ میں نے چھے سکّوں کو ہی غنیمت جانا اور اسے اپنی عمر بھر کی محنت سمجھ کر اپنی مٹھی میں دبا لیے۔۔۔ جب میں نے پلٹ کر دیکھا تو قبر کھلی ہوئی تھی اور وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔ میں نے فوراً قبر میں جھانکا تو وہ خالی تھی۔ تھانے دار صاحب میں تھوڑی دیر کے لئے لالچ میں ضرور آگیا تھا۔ لیکن صاحب میں مُردہ چور نہیں ہوں۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر گورکن ایس ایچ اوکے قدموں میں بیٹھ گیا اور بات جاری رکھتے ہوئے کہا لیکن صاحب آپ سب کو ایک بات بولوں ۔۔۔ ہم مردے دفنانے کا کام اپنے باپ دادا کے زمانے سے کرتے آئے ہیں۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ انسان نہیں تھے۔ بس اس کے بعد میں نے بڑے صاحب کا نمبر اپنے رجسٹر سے نکالا اور انہیں تمام باتوں کی اطلاع کردی کیوں کہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں مجھ پر مُردہ چوری کا الزم نہ لگ جائے۔۔۔ اور اب آپ کے سامنے ہوں۔۔۔۔ گورکن نے پوری بات ایک ہی سانس میں کہہ ڈالی اور ایس ایچ او کے قدموں میں بیٹھا رونے لگا۔۔۔ پولیس انسپکٹر نے ضابطے کی کارروائی کی۔ شاہ میر اور گورکن کو شخصی ضمانت پر رہا کردیا لیکن شک کے دائرے سے خارج نہیں کیا۔ وہ کلینک اور قبرستان کے چکر لگاتا رہا۔۔۔ سُناگیا کہ اس ایس ایچ او نے خود کو گولی مار کر خود کشی کرلی۔۔۔ اور اس کے بعد جس پولیس آفیسر نے اس کیس پر تفتیش شروع کی وہ کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہوگیا۔۔۔
٭٭٭٭
کہانی میں یہ ٹوئسٹ سننے کے بعد دانیہ کا گلابی چہرہ خوف سے سفید ہوگیا ۔ وہ کھسک کر شاہ میر کے نزدیک آگئی اور اپنا سر اس کے گھٹنوں پر رکھ کر پیروں کو اپنی بانہوں میں مضبوطی سے جکڑ لیا۔ شاہ میر دانیہ کے جسم کی کپکپاہٹ محسوس کرسکتا تھا۔ وہ زیر لب مُسکرایا اور سامنے لگی پینٹنگ کو پھر سے گھورنے لگا۔ شاہ میر کی آنکھیں سرخ انگارہ بن کر دہکنے لگیں۔۔۔۔۔ اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر سونے کا “ساتواں” سکّہ نکالا اور ہوا میں اچھال دیا۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ نیچے بیٹھی دانیہ کے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ دانیہ کا جوڑا ایک بار پھر کھل گیا اور اس کے لمبے گھنے بال زمین سے ٹکرانے لگے۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!