سجل کی حالت ایک بار پھر بگڑنے لگی۔ پچھلی بار سجل کی والدہ نے اتنے سارے پیروں اور فقیروں کا در کھٹکھٹایا تھا کہ اب انہیں یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کہ کس فقیر کی دعا یا کس ڈاکٹر کی دوا نے سجل کی بگڑی حالت سنبھالی تھی۔ کسی عزیز نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی بیٹی کو کسی سائکاٹرسٹ کے پاس لے کر جائیں۔۔۔۔ اور یوں سجل لاتعداد پیروں، فقیروں اور مزاروں سے ہوتی ہوئی شاہ میر کے کلینک تک آپہنچی۔۔۔
دانیہ کا سارا دھیان کہانی کی جانب تھا وہ بہت غور سے شاہ میر کی باتیں سن رہی تھی۔ شاہ میر نے کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
“کلینک میں سجل سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ میں نے سجل کو ایگزامینیشن ٹیبل کی جانب بڑھنے کا اشارہ کیا تو وہ بوجھل قدموں کے ساتھ آگے بڑھی اور اس پر لیٹ گئی۔۔ میں ٹیبل کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔ سجل میرے سامنے زندہ لاش بن کر لیٹی ہوئی تھی۔ ہسٹری فائل پر سجل کا نام اور ضروری کوائف کا اندراج کرنے کے بعد میں نے سجل سے متعلق اس کی موجودہ زندگی کا احوال جاننے کے لئے چند سوالات کئے تو اس نے بتایا:
” سب مجھے ذہنی مریضہ یا آسیب زدہ سمجھتے ہیں۔ محبت خود ایک آسیب ہے ایک بار روح سے چمٹ جائے تو عمر بھر کا روگ لگ جاتا ہے۔ شاید آپ کوبھی میری باتوں پر یقین نہ آئے اور آپ اسے کسی بیماری کانام دے کر عمر بھر کے لئے میرا رشتہ کڑوی گولیوں سے جوڑ دیں۔”
“وہ ایسی کون سی بات ہے سجل کہ جس کا لوگ یقین نہیں کرتے ؟” شاہ میر نے ایک اور کُھلا سوال کیا۔۔۔۔۔
“ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔! وہ میرا واہمہ نہیں ہے۔ وہ ایک حقیقت ہے۔جب تک میں نے اسے نہیں دیکھا تھا میں اس سے ڈرتی تھی۔ لیکن جب اسے پہلی بار دیکھا تودل میں کنڈلی مار کر بیٹھا خوف جھاڑیوں میں کہیں گُم ہوگیا۔ اس سے بات کرتے کرتے میں کب اس کی محبت میں گرفتار ہوگئی مجھے پتا ہی نہیں چلا۔۔۔ پہلے مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے حاصل کرنے کے لئے میری جان بھی لے سکتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر۔۔۔ اب مجھے لگتا ہے، اگر وہ مجھے نہ ملا تو میں خود اپنی جان لے لوں گی۔۔۔۔ ڈاکٹر شاہ میر میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ پائوں گی۔ یہ کہہ کر وہ اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھے گھٹی گھٹی آواز میں روتی رہی۔۔۔”
دانیہ سجل کے بہتے آنسووں سے خوف نہیں بلکہ بے بسی ٹپک رہی تھی۔۔۔ ۔۔۔ کچھ دیر رولینے کے بعد سجل خاموش ہوگئی اور خالی آنکھوں سے چھت کو گھورنے لگی۔۔۔۔ ذرا توقف کے بعد سجل دوبارہ گویا ہوئی۔۔۔
“ڈاکٹر شاہ میر۔۔۔ کوئی جن مجھ پر عاشق ہے یہ میرا مسئلہ نہیں بلکہ میری الجھن یہ ہے کہ میں بھی اس سے محبت کرتی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب ۔۔ میں اسے بھول جانے کا اختیار کھو چکی ہوں۔ مصیبت یہ ہے کہ اسے پا لینے کا کوئی رستہ بھی سجھائی نہیں دیتا۔ ڈاکٹر شاہ میر۔۔۔ خوف میں پوری زندگی گزاری جاسکتی ہے لیکن ادھوری محبت ہم سے مرنے کا حق بھی چھین لیتی ہے۔”
“دانیہ میرے لئے وہ لمحے بڑے عجیب تھے ۔اب تک میں یہ سُنتا آیا تھا کہ جنات لڑکی پر عاشق ہوتے ہیں لیکن یہاں معاملہ تھوڑا مختلف تھا۔۔ میرے سامنے بیٹھی لڑکی کسی مافوق الفطرت سائے کے عشق میں گرفتار ہونے کا دعویٰ کر رہی تھی۔ میں نے ابتدائی تشخیص میں خطائے حس (hallucination) لکھا اور اپنے چیمبر سے باہر نکل آیا۔ سامنے صوفے پر بیٹھی سجل کی والدہ بے چینی کے عالم میں اٹھ کھڑی ہوئیں اور میرے قریب آکر پوچھا:
“ڈاکٹر صاحب میری بیٹی ٹھیک تو ہوجائے گی نا ۔۔؟” اس سوال کا جواب فی الوقت میرے پاس موجود نہیں تھا لیکن ایک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے ان کو تسلی دینا اور اچھے وقت کی امید دلانا میرا فرض تھا، سو میں نے ایسا ہی کیا۔۔۔۔ انہیں کچھ دوائیں پرچے پر لکھ کر دیں اور ایک ہفتہ بعد سجل کو دوبارہ ساتھ لانے کا کہا۔۔۔۔۔
“دانیہ۔۔۔۔ سجل کو کڑوی گولیاں لاتے ہوئے شاید میں بھی انہیں لوگوں میں شامل تھا، جو سجل کی باتوں پر یقین نہیں کیا کرتے تھے۔”
” تو کیا سجل دوبارہ آئی۔۔۔ ” دانیہ کی دلچسپی اب کہانی میں بڑھتی جارہی تھی۔
“ہاں وہ دوبارہ آئی تھی ۔۔۔ دوسری ملاقات میں بھی سجل شدید ذہنی تناو کا شکار تھی۔ لیکن ایک ماہرِ نفسیات کے نزدیک یہ کوئی اتنی بُری چیز بھی نہیں۔ بامقصد زندگی کے حصول کے لئے ذہنی تناو بڑا کارگر ثابت ہوتا ہے اور سجل بھی ایک مقصد کی کھوج میں تھی۔۔۔۔۔ میں کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچنے سے پہلے سجل کے بارے میں کچھ اور بھی جاننا چاہتا تھا۔۔ سجل نے اپنی زبانی تو مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔ لیکن میں اس کے ماضی میں بھی جھانک کر کڑیوں سے کڑیاں ملانا چاہتا تھا اور اس کا واحد حل ہپناٹزم تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
“تو کیا پھر آپ نے اسے ہپناٹائز کیا؟”
“ہاں میں نے ایسا ہی کیا۔۔۔۔۔۔”
“پھر تو یقینا آپ جان گئے ہونگے کہ سجل خطائے حس کی ایسی مریضہ تھی، جو اپنے کسی تراشیدہ تصوراتی جن کے عشق میں گرفتار ہے” شاہ میر نے دانیہ کی طرف مُسکرا کر دیکھا اور کہا: “نہیں ایسا ہرگز نہیں تھا۔ سجل کسی بھی قسم کے نفسیاتی مسائل سے دو چار نہیں تھی۔۔۔۔” میرا جواب سن کر دانیہ چونک اٹھی اور مجھے حیرت سے دیکھتے ہوئے بولی:
“اگر وہ بیمار نہیں تھی تو۔۔۔۔؟؟؟؟ کیا۔۔۔ آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر واقعی کسی جن کا سایہ تھا۔۔” یہ کہتے ہوئے سجل کے بدن میں جُھرجُھری آگئی اور وہ خوف اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ مجھے دیکھنے لگی اور کھسک کر میرے کچھ اور قریب آگئی اور سہمے ہوئے انداز میں کہا: “شاہ میر لیکن آپ ایک ڈاکٹر ہیں۔ بھلا آپ کیسے ان جن اور بھوتوں کی کہانیوں پر یقین کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔”
“دانیہ! میں مشاہدات کو تجربات کے کڑے اصولوں پر پرکھنے کے بعد اس کی حقیقت تسلیم کرتا ہوں۔ تم صحیح کہتی ہو جو کتابیں میں نے پڑھ رکھی ہیں وہ مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں کس جن یا بھوت کے قصے کا یقین کروں۔ میرا پروفیشن مجھے پابند کرتا ہے کہ میں نفسیاتی الجھنوں کا علاج انہیں کتابوں میں تلاش کروں ۔ میں نے سجل کے دماغ کی ہر پرت کو کھول کر پڑھا۔ اس کا کہا ایک ایک لفظ سچا تھا ۔ میرے پاس صرف دو راستے بچے تھے پہلا یہ کہ میں سجل کو دوبارہ ہپناٹائز کروں اور اس کی یاداشت میں محفوظ وہ تمام باتیں مٹا دوں کہ جن کا کوئی بھی تعلق امروز سے ہو اور وہ ماضی کے ان واقعات کو یکسر بھلا دے یا پھر میں سجل کو اس کے دکھ اور کڑوی گولیوں کے ساتھ زندہ رہنے کے لئے چھوڑ دوں۔
“تو پھر شاہ میر آپ نے کیا کیا؟”
“دانیہ میں جسم کا نہیں روح کا علاج کرتا ہوں۔ اپنے ہی ہاتھوں سے سچائی کا گلا کیسے گھونٹ سکتا تھا ۔۔۔ سجل کی محبت تصوارتی نہیں تھی ایک ٹھوس حقیقت تھی ہاں بس وہ الجھن کا شکار تھی۔ شاید وہ کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے معذور تھی۔۔۔ دانیہ میں نے ان دونوں آپشن میں سے کسی کو اختیار نہیں۔ میں نے تیسرا رستہ چنا”
“تیسرا راستہ لیکن وہ کیا!”
“سجل کے دماغ سے سچ مٹا دینا کسی دھوکے سے کم نہ ہوتا اور اس کو عمر بھر اپنی ادھوری محبت کڑوی گولیوں کے سہارے بے یارو مددگار چھوڑ دینا بھی زیادتی ہوتی۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ میں سجل کو اس کے درون میں جاری دل اور دماغ کی جنگ سے پیدا شدہ تناؤ کو ختم کروں اور سجل کو وہ فیصلہ کرنے میں مدد کروں کہ جس سے وہ ہچکچا رہی ہے۔۔۔”
“کیا مطلب شاہ میر، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ ایک معصوم لڑکی کو کسی امروز نامی جن کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔”
“دانیہ۔۔۔ یہ خواہش میری نہیں بلکہ سجل کی تھی۔ غم ہی دشمن ہے میرا اور غم کو ہی دل ڈھونڈتا ہے۔ اک لمحے کی جدائی بھی اگر ہوتی تو سالوں کی جدائی لگتی ہے۔ اس نے کبھی اس کا اظہار تو نہیں کیا لیکن میں اس کی ذات میں موجود ادھورا پن محسوس کرسکتا تھا۔ اگر وہ واقعی امروز سے تعلق ختم کرنا چاہتی تو عملا ایسا ہو چکا تھا۔ امروز سجل کی زندگی سے دور جا چکا تھا۔ دانیہ یہ فیصلہ میرا نہیں تھا۔ اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچو تومیں صرف سجل کی ادھوری خواہش کی تکمیل چاہتا تھا اور یہ وہ صحیح وقت تھا کہ جب میں ایک بہتر فیصلہ کرنے میں سجل کی مدد کروں۔ پچھلے تین وزٹ میں صرف اس کو سنا تھا۔۔۔۔ لیکن میں جان گیا تھا کہ اگر اب میں نہ بولا تو سجل کی شخصیت میں جاری شکست و ریخت اسے مرنے کے بعد بھی چین سے نہیں رہنے دے گی۔۔۔”
آج سجل کا چوتھا وزٹ تھا کلینک میں۔۔۔ وہ ڈاکٹر شاہ میر سے بات کرکے خود کو پہلے سے بہتر محسوس کررہی تھی۔ کبھی شاہ میر جب بات کرتا تو اس کی آواز میں سجل کو امروز کا گرج دار مگر خوب صورت لہجہ سنائی دیتا۔۔۔ اور یہ وہ عجیب سی بات تھی جو سجل کو ہر بار وزٹ کرنے پر مجبور کرتی۔ سجل ڈاکٹر شاہ میر کے سامنے بیٹھی اُس کے بات شروع کیے جانے کا انتظار کرنے لگی۔ شاہ میر نے سجل کی فائل اپنے سامنے کھول کر رکھی اور اس کا سرسری مطالعہ کرنے لگا۔ شاہ میر کے سامنے والی کرسی پر بیٹھی سجل میز پر رکھے گلوب کو اپنی انگلی سے گول گول گھمانے لگی۔ شاہ میر نے تین چار منٹ فائل پر درج نوٹس پڑھے اور پھر فائل بند کردی اور سامنے بیٹھی سجل کو میز پر رکھا گلوب گھماتے ہوئے دیکھنے لگا۔ شاہ میر کو اپنی جانب متوجہ پا کر گول گھومتے ہوئے گلوب کو اپنے ہاتھ سے روکا اور مسکراتے ہوئے کرسی پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور جھینپ کر کہا: “معافی چاہتی ہوں ۔۔۔ وہ آپ پڑھنے میں مصروف تھے، تو بس یونہی میں اسے گھمانے لگی۔”
“کوئی بات نہیں، جب انسان عدم توجہ کا شکار ہو تو اپنے لئے دوسری مصروفیات ڈھونڈ لیتا ہے اور آپ نے بھی ایسا ہی کیا۔ خیر پچھلے تین وزٹ میں آپ سے ملاقات اور اس میں کی جانے والی بات چیت سے میں یہی اندازہ لگا پایا ہوں کہ آپ کسی بھی قسم کی نفسیاتی بیماری کا شکار نہیں۔ ہاں میں اسے نفسیاتی الجھن ضرورکہوں گا۔ سجل آپ نے مجھے جو کچھ بتایا وہ سب سچ ہے۔ ۔ آپ کو علاج کی نہیں بلکہ ایک مضبوط ارادے کی ضرورت ہے۔ سجل آپ اپنے سینے میں ایک محبت بھرا دل رکھتی ہیں۔ آپ خود غرض نہیں اس لئے آپ نے اپنی خواہشات اور محبت کو قربانی کی بھینٹ چڑھا دیا اور اپنے لیے ایک ایسی زندگی چن لی جو کسی موت سے کم نہیں۔”
سامنے بیٹھی سجل ڈاکٹر شاہ میر کی باتیں بڑے انہماک سے سُن رہی، اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس کے سامنے امروز بیٹھا اسے سمجھا رہا ہو۔۔۔۔۔
” سجل آپ ایک جن سے ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ آپ امروز سے محبت کرتی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آج کے اس مشینی دور میں یہ بات تسلیم نہ کی جائے ۔ لیکن ماضی میں کہی جانے والی داستانیں ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ آپ کی زندگی پر دوسروں کا حق ہے یہ سوچ کر آپ اپنے جائز حق سے دست بردار ہوگئیں۔ یہ ایک احسن عمل ہے۔ اس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ لیکن ایک مسئلہ ہے۔ آپ کی یہ ادھوری نیکی کسی کام کی نہیں۔۔۔۔
“ادھوری نیکی”۔۔۔ سجل کے لئے سوچ کا نیا زاویہ تھا کہ جسے سن کر وہ چونکی اور اسے دُہرا دیا۔۔۔
” جی سجل۔۔ ادھوری نیکی۔۔۔ ایسی قربانی کا کیا فائدہ کہ جس میں آپ نے اپنی محبت تیاگ دی لیکن آپ کے گھر والوں کو بھی آپ کی محبت مکمل طور پر دستیاب نہیں۔ سجل میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ دُہری محبت میں مبتلا ہیں۔۔۔” دہری محبت ” ۔۔۔سجل نے ایک بار پھر داکٹر شاہ میر کے کہے ہوئے الفاظ دہرائے۔
” جی۔۔۔ دہری محبت ۔۔ اگر آپ کے دل پر سماجی رویوں اور رشتوں کا بار نہ ہو تو آپ آج بھی امروز کے ساتھ باقی زندگی گزارنا چاہیں گی۔ میں نے ٹھیک کہا نا سجل۔۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔۔۔”
“شاید آپ ٹھیک کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب” ۔۔۔سجل ڈاکٹر شاہ میر کی باتیں سُن کر مزید الجھن کا شکار ہوگئی۔ وہ غیرارادی طور پر میز پر اپنے سامنے رکھے گلوب کو اپنی انگلی سے گول گول گھمانے لگی۔ وہ گلوب کو گھومتے ہوئے بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔ ہر چکر اس کے شخصیت میں پڑی گرہیں ایک ایک کرکے کھول رہا تھا۔ ڈاکٹر شاہ میر نے اس وقت کچھ بولنے کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ وہ اس لئے کہ شاید سجل کوئی بھی فیصلہ کرنے کے بہت نزدیک تھی۔ سجل گلوب کو تیز تیز چکر دینے لگی اور پھر اچانک اس نے اپنے ہاتھ کے شکنجے سے گھومتے ہوئے گلوب کو روک دیا۔ ایک گہری سانس لی اور کرسی کی پشت سے اپنی کمر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔ چند سیکنڈوں بعد سجل نے آنکھیں کھولیں اور شاہ میر کی جانب دیکھتے ہوئے کہا:
” مجھے کیا کرنا چاہیے ڈاکٹر صاحب؟”۔۔۔۔۔۔ سجل کے اس جملے سے واضح تھا کہ، جو جمود ایک عرصے سے سجل کی زندگی پر طاری تھا۔۔ وہ ٹوٹ گیا۔۔۔۔۔ ڈاکٹر شاہ میر کے چہرے پر ایک خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔ وہ اپنی کرسی سے اُٹھا اور چلتے ہوئے اس کرسی کی پشت پر کھڑا ہوگیا کہ جس پر سجل بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔