اگلی رات پھر وہی مانوس سی خوشبو پورے کمرے میں پھیل گئی۔ شاید سجل کو اسی لمحے کا انتظار بھی تھا۔ کرسی کے گرد دھوئیں کا ہالہ بنا اورلمحے بھر میں غائب ہوگیا۔ سجل کے سامنے امروز شیشم سے بنی کرسی پر ایسے براجمان تھا کہ جیسے کوئی راجپوت شہزادہ آن و بان کے ساتھ اپنے آسن پر آبیٹھا ہو۔
“امروز تم یہاں کیوں آتے ہو ۔۔۔؟”
“میرے یہاں آنے کی وجہ صرف اور صرف تم ہو سجل۔ میں اگر چاہوں بھی تو خود کو تمہارے قریب آنے سے نہیں روک سکتا۔ مجھے تم سے محبت ہے، ہر اس چیز سے بڑھ کر جو تمہیں دیکھنے سے پہلے مجھے سب سے زیادہ عزیز تھی۔ تم مجسمِ عشق ہو، تم لائقِ محبت ہو سجل۔ سر کے بالوں سے لے کرپاؤں تک تم خدا کا وہ شاہکار ہو کہ جس کے ہر رنگ پہ محبت کی دیوی بازو پھیلائے بیٹھی ہے۔ اب تم ہی کہو سجل کوئی تم سے پیار کیے بنا کیسے رہ سکتا ہے؟” امروز کی زبانی اپنی تعریف سننا سجل کو اچھا لگ رہا تھا، لیکن اس نے اپنے اس جذبے کا اظہار نہ کرتے ہوئے کہا:
“مطلب یہ کہتمہیں میرے جسم سے پیار ہے۔۔” سجل کے اس سوال پر امروز چند لمحے خاموش رہا اور پھر بولا:
“سجل جسے خدا نے اتنا اجلا بدن دیا ہو۔ وہ بھلا کیوں اس میں سیاہ دل دھڑکا ئے گا۔ میری محبت لمحاتی نہیں۔ میں ٹکڑوں میں عشق کرنے کا قائل نہیں۔ ہاں مجھے تمھارے ظاہری حسن سے بھی عشق ہے لیکن میں تمھارے باطن میں نہاں معصوم ادائوں سے بھی اتنا ہی پیار کرتا ہوں۔ میں ہر اس چیز سے عشق کرتا ہوں کہ جسے تم سے نسبت حاصل ہے۔ خواہ وہ تمھارے سینے میں موجود سیاہ دل ہی کیوں نہ ہو اور پھر ایک دن تمھیں چھت پر سوتا دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا ۔ تمھارے گھنے ریشمی بالوں میں ایسا الجھا کہ پھر ان سے نکل نہ سکا۔۔ مجھے عشق نے اتنا بے ادب بنا دیا کہ میں کسی بات کی پرواہ کئے بغیر تمہارے کمرے تک آپہنچا۔۔ میرا یقین کرو سجل! اس دن تمھیں خوف زدہ دیکھ کرمیں خود پربہت نادم تھا۔ میں نے تمھارے چہرے پر دمکتی ہنسی کو مسخ کردیا۔۔ آہ۔۔۔ میں بھی کتنا بدنصیب ہوں کہ میں جس سے عشق کرتا ہوں اس کے نزدیک میں کسی عفریت سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں۔”
یہ کہہ کر امروز کی سرخ دہکتی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ اپنے آنسو چھپانے کے لئے اس نے منہ دوسری جانب کرلیا۔ سجل سے امروز کی حالت دیکھی نہ گئی۔ وہ آگے بڑھ کر امروز کا ہاتھ تھامنا چاہتی تھی۔ لیکن امروز دھواں بن کر غائب ہوگیا۔
دانیہ مجھے یقین ہے امروز اس دن بہت رویا ہوگا۔۔۔۔ بہت تڑپا ہوگا۔۔۔ صرف سجل کی وجہ سے۔
“ہائے شاہ میر نا جانے کیوں مجھے امروز سے ہمدردی محسوس ہو رہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کے میں اس کے ہر عمل کو صائب قرار دوں۔ عشق کا بھوت اس جن کے سر پر سوار تھا تو تکلیف سجل کو کیوں اٹھانی پڑی۔ ” دانیہ کے عشق کے بھوت کو جن کے سر پر سوار ہونے والی بات پر شاہ میر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔
“تم ٹھیک کہتی ہو دانیہ، عشق امروز نے کیا تھا ۔ تو کڑے امتحان سے سجل کیوں گذرے۔ شاید وہ بھی ایسا ہی سوچتا تھا۔ اس لئے وہ منظر نامے سے یکسر غائب ہوگیا۔”
“کیا امروز کہیں چلا گیا، کیا اس نے سجل کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا ؟” دانیہ نے تجسس بھرے لہجے میں استفسار کیا۔
” نہیں ہمیشہ کے لئے نہیں، امروز شاید خود کو سجل کا گناہ گار تصور کرنے لگا تھا۔ وہ کہیں نہیں گیا تھا۔ وہ وہیں کہیں موجود تھا۔ لیکن سجل کے سامنے آنے سے کترا رہاتھا۔”
سجل بھی امروز کی کمی شدت کے ساتھ محسوس کر نے لگی تھی۔ وہ اپنے گرد امروز کے جسم سے پھوٹتی اس پُراسرار مہک کو محسوس کرسکتی تھی ۔ لیکن جب وہ اسے پکارتی تو جواب میں سوائے خاموشی کے کچھ نہیں پاتی۔ امروز کی کمی سجل کے لئے ایک پیچیدہ نفسیاتی مسئلہ بنتا چلا جارہا تھا ۔اس کی بے چینی دیوانگی کی حدوں کو چھونے لگی تھی۔ وہ رات بھر بغیر پلک جھپکائے اپنے بیڈ کے سامنے رکھی کرسی کو دیکھا کرتی اور اسی حالت میں کئی گھنٹے بیت جاتے۔
“دانیہ جب کسی کی یاد میں دیوانگی حد سے زیادہ بڑھ جائے تو عشق کو معراج نصیب ہوتی ہے۔ وہ مجذوب بن کر مزاروں میں بھٹکنے لگتا ہے یا پھر صحراوں کے نہ ختم ہونے والے طویل سفر پر نکل پڑتا ہے۔ ایسا طویل سفر کہ جسم اگر مر بھی جائے تو روح کا سفر ختم نہیں ہوتا۔”
” امروز اتنا سنگدل بھی ہوسکتا ہے، یہاں سجل کی جان پر بنی ہے اور وہ سات پردوں میں چُھپا سجل کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہا ہے۔ “دانیہ جو اب سے کچھ دیر پہلے امروز کے لئے ہمدردی کا جذبہ رکھتی تھی اس کے تاثرات یک لخت بدل گئے۔ اس نے اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا کافی کا مگ زمین پر رکھا۔۔ “محبت کی شروعات امروز نے خود کی اور اب تڑپنے کے لئے سجل کو اکیلا چھوڑ دیا۔ اگر وہ میرے سامنے آجائے تو میں اس کا گلا دبا دوں” دانیہ نے یہ جملہ اس شدت کے ساتھ ادا کیا کہ شاہ میر کو دانیہ کے ہاتھ اپنی گردن پر محسوس ہوئے۔ شاہ میر نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کرسی پر پہلو بدلا اور اپنی کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا:
” دانیہ! امروز سنگدل نہیں تھا۔ فرقت کا جو عذاب سجل جھیل رہی تھی۔ وہی لمحات کانٹے بن کر امروز کی روح کو بھی چھلنی کر رہے تھے۔”
پھر ایک شام امروز کے صبر کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور وہ ظاہر ہوگیا۔ امروز کو سامنے دیکھ کر سجل سے رہا نہیں گیا۔ وہ دوڑتی ہوئی اس کے قریب آئی اور امروز کے کندھے سے سرٹکا کر رونے لگی۔ روتے روتے سجل کی ہچکیاں بندھ گئی۔ آنسو اس کی آنکھ سے بہ کر امروز کے کندھے پر گرتے اور بھاپ بن کر اُڑجاتے۔ امروز نے سجل کے بالوں کو اپنی انگلیوں سے سلجھاتے ہوئے کہا:
“سجل! اتنے آنسو نہ بہائو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آگ تمہارے آنسوئوں سے ہمیشہ کے لئے بُجھ جائے” امروز کا یہ جملہ سجل کو واپس اصل دنیا میں کھینچ لایا اور وہ جھینپ کر امروز سے الگ ہو گئی۔
“واہ! کتنے حسین لمحات ہوتے ہیں۔ جب محبت اپنی تکمیل کے سارے مراحل طے کر لیتی ہے۔۔۔۔”
دانیہ نے اپنی دونوں ہتھیلیاں آپس میں بھینچ کر ہوا میں لہراتے ہوئے ایسے کہا کہ جیسے اس نے آگ اور مٹی پر محبت کی بارش خود پر برستی محسوس کی ہوں۔۔۔ لیکن پھر ایک خیال آتے ہی اس کے ہوا میں لہراتے ہاتھ واپس اس کے گھٹنوں سے آ لگے۔ دانیہ نے شاہ میر کی جانب دیکھا اور کہا:
” شاہ میر ان دونوں میں سے ایک آگ ہے اور ایک مٹی۔ وہ بھلا کیسے ایک ساتھ پوری زندگی گذار سکتے ہیں۔ کیا ان کا ملن ادھورا رہ جائے گا ؟۔۔۔۔ زندگی گذارنے کے لئے صرف محبت ہی تو کافی نہیں۔
” تم صحیح کہہ رہی ہو دانیہ! زندگی صرف محبت کے سہارے آگے نہیں بڑھائی جاسکتی۔ محبت اندھی نہیں ہوتی بلکہ وہ اندھا کردیتی ہے۔ محبت کی عینک لگا کر صرف قریب کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ دور کی نظر کمزور ہوجایا کرتی ہے۔۔۔۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ شعور گہری نیند سے جاگ جاتا ہے۔ اسے بہت جلد عقل کی آنکھیں لگ جاتی ہیں۔۔ وہ پے درپے محبت سے ان گنت سوال کرنے لگتا ہے۔ محبت ان سوالوں سے تنگ آکر وحشت میں بدل کر ایسا گدھ بن جاتی ہے، جو اپنے شکار کے مرنے کا انتظار نہیں کرتا بلکہ اسے زندہ نوچنے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔۔ سجل کے عشق کو عقل زندہ نگل گئی۔۔۔۔”
” لیکن شاہ میر سجل کے سوالات سچے تھے۔” دانیہ نے واضح طور پر اختلاف رائے کا اظہار کیا۔ دانیہ کی بات سن کر شاہ میر کے ماتھے پر سلوٹیں پڑ گئیں اور وہ انتہائی کرخت اور تیز لہجے میں بولا: “اگر سجل کے سوال سچے تھے تو کیا میں یہ سمجھوں کہ اس کی محبت جھوٹی تھی؟” دانیہ کے لئے شاہ میر کا یہ روپ نیا تھا۔ اس نے آج سے پہلے شاہ میر کو اتنے غصّے میں نہیں دیکھا۔ وہ سہم گئی۔۔ شاہ میر کو بھی احساس ہوا کہ اس کا رویہ نامناسب تھا اس نے جھک کر دانیہ کے بائیں ہاتھ کو اپنی دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھا اور اسے پیار سے چمکارتے ہوکہا:
” مجھے معاف کرنا دانیہ میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا ہرگز نہ تھا۔ سجل نے جو سوال امروز سے کئے وہ فطری تھے اور ہاں اس کی محبت بھی جھوٹی نہیں تھی۔”
٭٭٭٭
سجل اپنے بیڈ پر بیٹھی خلا میں گھور رہی تھی۔۔۔۔۔ تب ہی امروز سامنے رکھی کرسی پر ظاہر ہوا۔۔ وہ بہت دیر تک سامنے بیٹھا سجل کو اس کیفیت میں مبتلا دیکھتا رہا۔ ایسا شاید پہلی بار ہوا تھا کہ امروز کمرے میں موجود تھا لیکن سجل کو اس کے آنے کی خبر ہی نہ ہوئی۔ جب کافی دیر تک امروز کوئی توجہ حاصل نہیں کر سکا تو اس نے اپنا گلا کھنکھارا کہ جس پر سجل نے چونک کر اس کی جانب دیکھا اور کہا:
” تم کب آئے؟”
” میں بہت دیر سے یہاں موجود ہوں، اور تمہیں دنیا سے بیگانہ کسی سوچ میں گم سم پریشان دیکھ رہا ہوں۔ کیا بات ہے تم اتنی پریشان کیوں ہو۔”
” امروز میں آج صبح سے ایک الجھن کا شکار ہوں۔ کئی سوالات ایسے ہیں کہ جنہیں سوچ کر پریشان ہوجاتی ہوں۔”
” کون سے سوالات”۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر امروز کرسی سے اُٹھا اور سنگھار میز سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ سجل کچھ کہنے سے پہلے رُکی اور پھر اٹک اٹک کر بولنا شروع کیا۔۔۔۔
“امروز۔۔۔ امروز میں۔۔۔ امروز میں اس حقیقت کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتی ہوں کہ تم۔۔۔ تم انسان نہیں ہو۔ مطلب ۔۔ مطلب یہ۔۔ کہ تم آگ ہو۔۔۔ اور میں۔۔ میں مٹی۔ “یہ جملہ ادا کرتے ہوئے جو کرب سجل کے چہرے پر تھا ا س سے صاف ظاہر تھا کہ اس کے ذہن و دل میں ایک گھمسان جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ امروز سنگھار میز سے ہٹا اور مسہری پر بیٹھ گیا۔ سجل کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں تھاما اور کہا:
“سجل! محبت میں کیا آگ اور کیا مٹی۔۔۔۔ اس آگ اور مٹی نے مل کر ہی تو اس کائنات کا وجود برپا کیا۔ ذرا سوچو! جب یہ آگ اور مٹی آپس میں مل کر اس دنیا کو وجود میں لاسکتی ہیں تو محبت کی تکمیل کیوں نہیں کرسکتیں۔ آگ تو مٹی میں بھی ہے۔۔۔۔۔
عشق کی آگ۔۔۔۔! نفرت کی آگ۔۔۔ حسد کی آگ۔۔۔! ہاں سجل میں آگ ہوں لیکن میں نے تمہارے لئے اپنے وجود کے اندر مٹی کے کھلونے ایک ترتیب کے ساتھ سجا رکھے ۔ جو تمہیں کبھی تنہائی کا احساس نہیں دیں گے۔ “سجل نے اپنا ہاتھ ایک جھٹکے سے کھینچ لیا۔۔ اور مسہری سے نیچے اتر کر بک شیلف کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ اس کی پشت امروز کی جانب پشت کرکے کھڑی ہوگئی اور کہا:
“نہیں امروز یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ میرا دل انہیں تسلیم نہیں کرتا۔ مٹی کے کھلونے صرف مٹی سے ہی بنائے جاسکتے ہیں آگ سے نہیں۔۔۔ امروز شاید تم میری الجھن کو نہیں سمجھ سکتے۔ تم مٹی سے پیار تو کرسکتے ہو لیکن تم اس کے لئے خاک نہیں ہوسکتے۔” سجل نے اپنی بات پوری کی اور بک شیلف کی جانب منہ کئے ہچکیوں سے رونے لگی۔ امروز یہ برداشت نہ ہوا ۔ وہ بیڈ سے اٹھا اور پشت کی جانب سے سجل کے بائیں کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا:
” اس آگ اور مٹی کی کوئی حقیقت نہیں۔ سجل مجھے یقین ہے کہ میں تمہیں خوش رکھ سکتا ہوں۔ میں تمہارے لئے وہ سب کرسکتا ہوں کہ جیسا تم چاہو۔” اپنے پشت پر کھڑے امروز کی بات سن کر سجل نے اس کے ہاتھ کو اپنے کاندھے سے جھٹک کرتیزی سے پلٹی اور امروز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ تقریبا چلاتے ہوئے بولی:
“تم کچھ نہیں کرسکتے امروز۔ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔جھوٹی تسلیاں مت دو مجھے۔ اور خود کو بھی دھوکے میں نہ رکھو۔ تم بھی میری طرح مجبور ہو۔ خود کو طاقتور اور مضبوط اعصاب کا مالک ثابت کرنا چھوڑ کر حقیقت کو تسلیم کرو۔ بالکل ایسے ہی کہ جیسا میں کرنے لگی ہوں۔” یہ کہہ کر سجل پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔ آنسو بہ جانے سے جب اس کی حالت سنبھلی تو اس امروز کی طرف نظر اٹھا کر کہا:
“تم چاہے جو کچھ کر لو۔۔۔ لیکن تم حقیقت نہیں بدل سکتے۔ امروز تم اپنے جسم پر چاہے جتنی مٹی مل لو۔ لیکن تم انسان نہیں بن سکتے۔۔۔ مجھے ڈر ہے امروز یہ الجھن مجھے تمہارا نہیں ہونے دے گی۔۔۔ کبھی نہیں ہونے دے گی۔۔۔۔” امروز نے سجل کی بات سنی اور دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے کبھی پیار سے کبھی غصہ سے اور کبھی دلیلوں سے آگ اور مٹی کا رشتہ جوڑنا چاہا لیکن وہ سجل کو قائل نہیں کرسکا۔ امروز نے ہار مان لی اس نے آخری بار سجل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا:
سجل۔۔ میں آگ ہوں اس لئے شاید مٹی کی نفسیاتی گھمن گھیریاں کبھی سمجھ نہ پائوں۔ میں اب تمہیں اور مجبور نہیں کروں گا۔۔تم آج جس دوراہے پر کھڑی ہو۔ تمھارے لئے کوئی بھی فیصلہ کرنا آسان نہیں۔ اس لئے شاید میرا چلا جانا ہی بہتر ہوگا۔ لیکن تم میری یہ بات یاد رکھنا میں ایک دن لوٹ کر ضرور آئوں گا اور تمھیں تمھاری اپنی مرضی سے اس مٹی کے پنجرے سے آزاد کرا کے لے جاؤں گا اور تمہیں کوئی اعتراض بھی نہ ہوگا۔”۔۔۔ یہ کہہ کر امروز منظر سے پھر غائب ہوگیا۔۔۔ اور چاند ایک بار پھر گہنا گیا۔
٭٭٭٭