دیو اور پری — سارہ عمر

یہ قید ہی تو ہے۔ ہاں قید اور کسے کہتے ہیں ؟ رشتے کی قید، کاموں کی قید، گھر میں رہنے کی قید، ماں باپ سے نہ ملنے کی قید۔ ان سے فرار ممکن ہی نہیں تھا۔
آپ کو کیا لگا پری دیو کی قید سے آزاد ہو جائے گی؟ فرار ہو جائے گی۔ یا دیو پھر سے اس کے ساتھ پہلے دن کی طرح ہو جائے گا۔ یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ کیوںکہ یہ ماورائی کہانی نہیں ہے بلکہ زندگی کی داستان ہے۔ یہ ہر اس لڑکی کی داستان ہے جس کے ماں باپ پھولوں کی طرح اپنی بیٹی کو رکھتے ہیں اور اس پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتے مگر اس کا نصیب پتھروں سے زیادہ بھاری بوجھ اس پر دھر دیتا ہے۔ ہر اس لڑکی کی جو سوچتی ہے کوئی ِشہزادہ آئے گا اوراسے لے جائے گا اور وہ اپنی زندگی ہنسی خوشی زندگی گزاریں گے۔
ہر اس لڑکی کی جس کی آنکھوں میں چھوٹے چھوٹے خواب ہوتے ہیں اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ ہر چھوٹی بات پر میری محبت اور مان کی خاطر میری تعریف کی جائے گی۔ یہ ہر اس لڑکی کی کہانی ہے جو بڑے بڑے دُکھ دیکھ کر صرف اس لیے اس رشتے کو نبھاتی ہے کہ اب تو شادی ہو ہی گئی ہے میری قسمت میں یہ ہی لکھا تھا۔ ہر اس لڑکی کی کہانی جس کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ اس کا حسن ساری زندگی اس کے شوہر کو اس کے ساتھ باندھے رکھے گا اور وہ پہلے دن سے آخری دن تک اس کے ساتھ باوفا رہے گا۔
یہ کہانی نہیں حقیقت ہے ان سب کی جو آنکھیں بند کر کے اپنا سب سے قیمتی خزانہ اس شخص کو سونپ دیتے ہیں، جسے وہ جانتے تک نہیں۔ ان سب والدین کی جو ہر آنے والے کو اپنی ہی طرح شریف سمجھتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ اگلا بھی ان کی بیٹی سے وہی سلوک کرے گا، جو انہوں نے ساری زندگی اپنی بیٹی سے کیا۔ ان سب والدین کی جو ترستے رہتے ہیں، تڑپتے رہتے ہیں لیکن اپنی بیٹی سے مل نہیں پاتے۔ ان سب ماں باپ کی جو اپنی بیٹی کی حالت کو سدھارنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اُن سب والدین کی جو اپنی ایک غلطی پر زندگی بھر شرمندہ رہتے ہیں۔ ان سب والدین کی جن کی ایک غلطی ان کی بیٹی کی زندگی کا روگ بن جاتی ہے۔





اور یہ کہانی ہے ہر گھر میں موجود ایک دیو کی۔ ایک ایسا دیو جو شہزادے کا روپ دھارتا ہے تو دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ہر چمکتی ہوئی چیز ہیرا ہے۔ ایسا دیو جو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں سب کو پھانس لیتا ہے۔ چناں چہ اتنے سالوں کا تجربہ رکھنے والے بزرگ بھی اس کی عیاری اور مکاری کو بھانپ نہیں سکتے۔ ایسا دیو جو جب تک لڑکی کو حاصل نہیں کر لیتا چین سے نہیں بیٹھتا۔ ایسا دیو جو شادی کے بعد کچھ عرصے تک خوب صورت لبادہ اوڑھے رکھتا ہے۔ لیکن شادی کے کچھ ماہ بعد ہی اپنے اصلی لبادے میں واپس آجاتا ہے۔ ایسا دیو جو پری کو اپنی قید میں رکھتا اور اس کے ماں باپ سے دور رکھتا ہے۔ ایسا دیو جو پری کو اس کے ماں باپ سے ملنے بھی نہیں دیتا۔ ایسا دیو جو یہ سوچتا ہے کہ اب یہ میری ملکیت ہے میں اس کے ساتھ جو مرضی سلوک کروں کیوںکہ نکاح مجھے ہر طرح کا حق دے دیتا ہے۔
اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھیں۔ آپ کو کتنی پریاں، کتنے دیو اور کتنے ہی ایسے ماں باپ ملیں گے۔ یہ قید تو پری کے لئے بہت پرانی ہے صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ ہر دیو کی قید میں ایک پری جو راہِ فرار کے لئے کوشش کرتی نظر آتی ہے اور پھر تھک ہار کر وہیں بیٹھ جاتی ہے۔
دیو اور پری کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی یہ تو تمام عمر چلتی رہے گی۔ کئی ہفتوں کے بعد پری کو پتا چلا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ ہاں اس ظالم دیو کے بچے کی ماں۔ اس خبر نے دیو کو دوبارہ پہلے جیسا کر دیا۔ اس نے سارے محل میں چراغاں کیا۔ پری کے لئے ڈھیروں پھول اور پھل لایا۔ پری کا خیال رکھنا شروع کر دیا۔ پری کے حصے کے کچھ کاموں میں ہاتھ بٹانے لگا۔ لیکن آخر کب تک؟ کچھ دن کا نشہ، کچھ دن کا خمار مختصر مدت میں ہی اُتر گیا۔ پری جو آسمان پر تھی پھر سے زمین پر آگری۔ نوماہ بہت طویل تھے بھلا اتنے دن کوئی کیسے اپنے اوپر خول چڑھائے رکھتا؟ اکثر ہی چھوٹی موٹی باتوں پر لڑائیاں ہو ہی جاتیں۔ پری سوچتی کیا یہ میرا بچہ ہے؟ صرف میرا؟ کیا اس کے باپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں؟” لیکن فطرت نے قربانی ماں کے لئے ہی لکھی ہے۔
پری سارا دن کام کرتی اور فرصت کے لمحات میں کبھی اپنے بچے کو دیکھ کر سوچتی رہتی اور کبھی اپنے ماں باپ کو۔ اسے سب باتیں بہت یاد آتی تھیں۔ گھر، ماں باپ، دوستیاں اور رشتے دار سب۔ وقت گزرتا گیا اور بالآخر ایک دن وہ ایک پیاری سی بیٹی کی ماں بن گئی۔ اسے اس وقت صرف اپنی ماں یاد آرہی تھی۔ جو خودکتنی تکلیف سے گزر کر اس مرحلے تک پہنچی ہو گی اور پھر پری نے جنم دیا۔ بیٹی کو دیکھ کر جہاں پری خوش ہوئی۔ وہاں دُکھ بھی ہوا کہ بیٹی کے نصیب سے تو ہر ماں باپ کو ڈر لگتا ہی ہے۔ دیو نے اپنی بیٹی کو گود میں لے کر چوما اور کہا:”میری پریشے”۔ پری حیران ہوئی کہ نہ پوچھا نہ مشورہ کیا اور نام بھی رکھ دیا۔ ہر تکلیف برداشت کرنے کے بعد کتنے آرام سے اس ظالم نے نام بھی رکھ لیا۔ کم از کم پوچھا تو ہوتا۔
دن گزرتے گئے، پریشے بڑی ہوتی گئی۔ دیو کو اپنی بیٹی سے بہت پیار تھا لیکن اب پری کی شامت اس کی بیٹی کی وجہ سے بھی آتی۔ ذرا سی غفلت یا کوتاہی ہوتی تو دیو پری کو ایسے ڈانٹتا کہ جیسے پریشے صرف اسی کی بیٹی ہو۔
ایک دن پرانا باورچی دیو سے ملنے آیا۔ پری نے چپکے سے پوچھا: ”بھائی! ہر دیو کی جان کسی نہ کسی چیز میں ہوتی ہے، اب یہ بتائو اس دیو کی جان کس میں ہے؟ تاکہ میں اس کی گردن مروڑ دوں اور یہاں سے چلی جائوں۔”
باورچی پری سے ہمدردی رکھتا تھا۔ وہ بولا: ”بہن! تمہیں سن کر دکھ ہو گا لیکن ہمارے بڑوں نے بتایا ہے کہ دیو کی ساری جان اس کے ماں باپ اور اولاد میں ہوتی ہے۔ اب اس کے ماں باپ تو ہیں نہیں اس لئے اس کی ساری جان اس کی بیٹی میں ہے۔”
پری کو یہ سُن کر بہت دکھ ہوا۔ پری کی تو اپنی جان ہی اس کی بیٹی میں تھی پھر کیسے وہ اس کی گردن مروڑتی؟ ”آخر کار اپنی بیٹی کی خاطر اس نے دل سے ہار مان لی کہ یہ زنجیر اب ساری زندگی نہیں توڑے گی۔
بالآخر ایک دن دیو کو پری پر رحم آہی گیا اور اتنے سالوں بعد دیو نے پری کو ماں باپ سے ملنے کی اجازت دے دی لیکن صرف کچھ دن کے لئے۔
پری اپنی بیٹی اور ڈھیروں تحائف کے ساتھ اپنے ماں باپ کے گھر پہنچی۔ اس کے ماں باپ خوشی سے بے قابو ہو گئے۔ وہ پری اور پریشے کو دیکھ کر بے تحاشا خوش تھے۔
پری سے رسمی باتوں کے بعد اس کے ماں باپ نے فوراً وہ سوال کیا جو ہر ماں باپ اپنے بیٹی سے پوچھتے ہیں۔
”بیٹی کیا تم اپنے گھر میں خوش ہو؟ تمہارا شوہر کیسا ہے؟”
اور جانتے ہیں پری نے کیا جواب دیا؟ وہی جو ہر لڑکی ٹوٹے دل کے ساتھ چہرے پر مسکراہٹ سجا کر کھکھلا کر کہتی ہے۔
”امی ابو میں بے حد خوش ہوں۔میرے شوہر بھی بہت اچھے ہیں مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور اپنی بیٹی میں تو ان کی جان ہے۔”
اور اس وقت ماں باپ کے دل میں ڈھیروں اطمینان اتر جاتا ہے۔ دیکھا آپ نے۔ میں نے کہا تھا ناں۔ پری اور لڑکی میں کوئی فرق نہیں۔

٭٭٭٭




Loading

Read Previous

شہزادی شرف النساء — خالد محی الدین

Read Next

پل بھر — وجیہہ الطاف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!