بہت پرانی بات ہے ایک دیو کا ایک بستی پر سے گزر ہوا۔ اس کی نظر اک گھر کے باغ میں کھڑی خوب صورت لڑکی پر پڑی۔
لڑکی کیا تھی پری تھی۔ شہزادیوں کی سی آن بان والی۔ دیو نے خوب صورت لڑکی کو پانے کا فیصلہ کر لیا۔ دیو ایک خوبصورت شہزادے کا روپ دھار کر گھوڑے پر سوار اس گھر کے آگے جا پہنچا۔
دروازے پر دستک دی اور کہا کہ شہزادہ راستہ بھول بیٹھا ہے مسافر ہے کیا پناہ مل سکتی ہے؟
شہزادی جیسی لڑکی اور اس کے ماں باپ تو اس شہزادے کا رنگ روپ، آن بان اور شان و شوکت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ انہوں نے اسے گھر آنے کی اجازت دے دی۔ وہ ان کے گھر آیا اور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ کچھ ہی عرصے میں لڑکی کے گھر والوں کو سبز باغ دکھا کر اپنی دولت کے قصے سنا کر اور اپنی باتوں میں الجھا کر ایسا ہوش سے بے گانہ کیا کہ وہ اپنی بیٹی دینے پر راضی ہو گئے۔
اس لڑکی کا نام پری تھا، لگتی بھی پریوں جیسی تھی۔ وہ تو خود شہزادے پر دل و جان سے گرویدہ ہو گئی لیکن مشرقی شرم و حیا کے باعث بول نہ سکی۔ دل ہی دل میں مستقبل کے خواب سجائے، وہ خاموشی سے اپنے سپنوں کے راجا کے سنگ رخصت ہو گئی۔
اس کے ماں باپ بہت خوش تھے کہ دور دیس کا راجا صرف ان کی بیٹی کو لینے اتنی دور کا سفر کر کے آیا۔
دیو شہزادے نے پری کو گھوڑے پر بٹھایا اور گھوڑا ہوا سے باتیں کرتا دوڑتا چلا گیا۔
پری اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی اچانک اسے لگا گھوڑا سچ میں آسمان سے باتیں کرتا اوپر کی طرف جا رہا ہے۔ آہستہ آہستہ گھوڑا بادلوں میں گم ہوتا گیا۔ دیو کا محل بادلوں کے اوپر تھا۔
دیو کا محل آگیا تھا۔ دیو جو ابھی شہزادے کے ہی روپ میں تھا اپنی دلہن کا ہاتھ پکڑ ے اپنے محل لے گیا۔ وہ حیران و پریشان تھی کہ یہ کہاں آگئی؟………
شہزادے نے کہا: ”پری میں زمین پر سیر کرنے گیا تھا جب تم پر نظر پڑی۔ مجھے لگا کہ تمہارے بغیر میری زندگی ادھوری ہے تمہارے آنے سے میرا گھر مکمل ہو گیا۔ اب یہ تمہارا گھر ہے ہمیشہ کے لئے۔”
پری کچھ گھبرائی اور بولی: ”لیکن میر ے ماں باپ؟ کیا میں ان سے کبھی مل نہ سکوں گی۔”
”نہیں نہیں اب ایسا بھی نہیں کچھ سال تو انتظار کرنا پڑے گا نا… کیوںکہ بار بار زمین پر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔”
پری اب کیا کرتی شادی تو ہو گئی تھی۔ شہزادہ اسے لے کر بادلوں کی سیر کرتا، محل کا ایک ایک گوشہ گھماتا پھراتا رہا۔
کئی ہفتے اسی طرح گزر گئے۔ دیو اپنی اصلیت چھپاتے چھپاتے تنگ آگیا تھا۔ دیو نے ایک دن پری سے کہا: ”بہت دن گزر گئے اب تم اپنے گھر کو سنبھالو۔ مثلاً کھانا پکانا صفائی ستھرائی وغیرہ۔ پری پریشان ہوئی اور بولی:” تم مجھے ماسی بنا کر لائے ہو کیا؟”
دیو شہزادہ بولا: ”نہیں مجھے باورچی کے ہاتھ کے کھانے نہیں پسند۔ تم دل سے میرے لئے پکائو گی تو مجھے اچھا لگے گا۔”
پری بولی: ”لیکن میرے ماں باپ نے مجھے کھانا بنانا نہیں سِکھایا۔ شادی بھی اتنی جلدی میں ہوئی کہ کچھ سیکھنے کا موقع ہی نہ ملا۔”
شہزادہ بولا: ”باورچی سے سیکھ لو آہستہ آہستہ سب آجائے گا۔”
پری شہزادے کی محبت میں راضی ہو گئی۔ باورچی محل کا ایک ہی ملازم تھا۔ وہ ایک جن تھا مگر اس نے اپنی اصلیت نہیں بتائی۔ وہ ایک عام انسان کے روپ میں تھا۔ باورچی نے اسے بتایا: ”پری بی بی! شہزادے صاحب کا کھانا بنانا آسان بات نہیں۔ دراصل ان کے نخرے بہت زیادہ ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی بات کا برا مان جاتے ہیں۔ شہزادے کی پسندیدہ چیز تیار کرنا جان جوکھم کا کام ہے۔”
پری کو لگا کہ باورچی خواہ مخواہ اپنی اہمیت جتا رہاہے۔ کچھ شادی کا نشہ تھا اور کچھ اپنے حسن کا غرور جن کا شکار تو شہزادہ ایک ہی وار میں ہو گیا تھا۔ پری دل لگا کر سیکھنے کی کوشش کرتی رہی۔ اس نے باورچی کے ساتھ مل کر بہت محنت سے کھانا بنایا۔ مصالحے وغیرہ اپنے ہاتھ سے ڈالے تا کہ اس کا شوہر اس کی محنت و محبت کا حترام کرے ۔
کھانا میز پر لگایا گیا۔ شہزادے نے جیسے ہی کھانا چکھا اس کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ وہ غصے سے چلایا: ”اتنا نمک اور اتنی مرچ کتنا بد مزہ کھانا بنا کر رکھا ہے میرے آگے۔ ”
وہ ایک شیر کی طرح دھاڑا اور اسی وقت اس کا شہزادے والا روپ ختم ہوا اور لبادہ اُتر گیا۔ اس کی جگہ ایک دیو نے لی۔ معصوم پری اس صورتِ حال سے گھبرا کر چلاتی ہوئی سیڑھوں سے اوپر کی جانب بھاگی اور اپنے کمرے میں کنڈی لگا کر بے تحاشا روئی۔ روتے روتے وہ کمرے کی واحد کھڑکی کے پاس آگئی اور باہر دیکھتے ہوئے رونے لگی اور اس کے آنسو قطار در قطار بادلوں پر گرنے لگے۔ ننھے ننھے موتیوں نے پانی کے ڈھیر سارے قطروں کی شکل اختیار کر لی اور بادل بہت زور سے کڑکے اور برش برسنے لگے گئی۔ پری روتی جاتی تھی اور بارش کی جھڑی رکنے کا نام نہ لیتی تھی۔
پری کا دل بہت بری طرح ٹوٹا تھا۔ کہاں وہ نازک پری شیشے جیسی کانچ جیسی آبگینے کی طرح اور کہاں وہ ظالم دھاڑتا ہوا دیو۔ اوپر سے اس کے سامنے اس کی بنائی ہوئی چیز کی برائی۔ بھلا گھر میں اس کے ساتھ کبھی ایسا سلوک ہوا تھا۔ اب ماں باپ کی یاد نے اس کا دل اپنی مٹھی میں لے لیا۔ دھیان دیو سے ہٹ کر اپنے گھر کی طرف چلا گیا تھا۔ اپنے ماں باپ کے پاس۔ ناجانے کس حال میں ہوں گے۔
موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ کتنے عرصے بعد بارش ہوئی تھی۔ پری کی ماں نے ہاتھ کھڑکی سے باہر نکالا تاکہ بارش کے کچھ قطرے سمیٹ لے۔ لیکن پانی کے یہ قطرے جیسے ہی اس کے ہاتھ پر پڑے۔ اسے لگا یہ قطر ے نہیں پری کے آنسو ہیں۔
اس کا دل بہت بری طرح بے قرار تھا۔ وہ پریشانی سے پری کے باپ سے بولی: ”کتنے دن ہو گئے پری کی کوئی خیر خبر نہیں۔ کیا تمہارے پاس اس کا پتا تک نہیں؟” پری کا باپ بھی اداس تھا۔ وہ اپنی کم عقلی پر حیران ہوا کہ واقعی مجھے اس کا پتا پوچھنے کی فرصت نہ ملی اور یوں انجان شخص کے ساتھ اپنی پھول سی بیٹی بھیج دی۔ نہ جانے کس حال میں ہو گی۔ دونوں ماں باپ اب پری کے لئے بے چین اور مضطرب سے ہو گئے۔
پری نے آہستہ آہستہ حالات کے ساتھ سمجھوتا کر لیا تھا۔ کیا کرتی شادی جو ہو گئی تھی۔ اس نے کھانا پکانا بھی سیکھ لیا تھا۔ وہ سارا سارا دن محل کی صفائی کرتی، کھانا پکاتی ،برتن دھوتی اور کپڑے دھوتی۔ حالاںکہ دیو چاہتا تو اسے کچھ نہ کرنا پڑتا۔ لیکن وہ چاہتا تھا کہ وہ اتنا تھک جائے کہ اسے اپنے گھر کی یاد نہ ستائے۔ اپنے ماں باپ سے ملنے کی خواہش نہ ہو کیوںکہ اگر وہ زمین پر چلی گئی اور میری اصلیت بتا دی تو بھلا اس کے ماں باپ اسے دوبارہ کب آنے دیں گے۔ اس سوچ نے دیو کو خود غرض بنا دیا۔
پری کو ہر وقت غم رہتا کہ اس کے ماں باپ نے اس کی شادی جس انسان سے کی وہ کیا نکلا؟ سب پیار، محبت، عزت واحترام کے وعدے ہوا ہو گئے اور بس کچھ ہی مہینوں میں اس کی اہمیت ختم ہو گئی۔
پری دن رات وہاں سے نکلنے کے منصوبے بناتی۔ لیکن کیسے؟ کیا کرے؟ کھڑکی سے چھلانگ لگا دے؟ بادلوں پر گرے گی تو کہاں جائے گی؟ اسے لگتا کہ دیو اس کو قید میں ڈال کر بھول گیا ہے۔