”معطر دیوانی ہو گئی۔” بات صرف گھر سے نہیں نکلی تھی بلکہ کوٹھے چڑھ گئی تھی۔بہ ظاہر افسوس اور ہمدردی کے رنگ میں دُہرا یا جانے والا جملہ ‘معطر دیوانی ہو گئی، کسی قدر لذید اور چٹخارے دار تھا۔یہ تو کوئی ان ہمسایوں اور رشتہ داروں سے پوچھتا جن کا اٹھتے بیٹھتے آج کل یہ ‘جملہ’دہرانا کام تھا۔
٭…٭…٭
”معطر صادق ولد صادق احمد آپ کو اپنا نکاح ہمراہ حزیم شاہد ولد شاہد احمد ایک لاکھ روپیہ مہر معجل سکہ رائج الوقت قبول ہے۔”
”قبول ہے، قبول ہے،قبول ہے۔”
دن رات کی بے شمار ساعتوں میں لاتعداد مرتبہ اس خوبصورت قبولیت کا اقرار ہوتا ہے۔بس ایک دھن ،ایک سمت،صرف ایک خیال،ایک لگن… یہ عشق ہے۔سربستہ راز عشق۔
کہنیوں تک سرخ و سبز چوڑیاں پہنے،بیلے اور موتیے کے گجرے سجائے، مہندی رچائے،سرخ لہنگا،سنہری اوڑھنی،زیورات اور حیاکے بار سے جھکی ہوئی معطر۔
٭…٭…٭
”ہمارا رب ایک ہے،ہماراخالق،ہمارا رازق ،ہمارا مالک،ہمارا حقیقی رشتہ اسی سے ہے۔ ہماری روحوں کا پیوند اسی سے ہے۔”
”باقی سب فانی۔دوام بس اس کی ذات کو ہے۔”قاعدے کا پہلا نقطہ پڑھاتے ہوئے دادی نے پہلا سبق دیا تھا معطر کو۔گھور سیاہ آنکھوں کوپھیلائے حیرانی سے معطر نے یہ سبق سنا اور دل و دماغ میں بٹھا لیا۔ دادی اٹھتے بیٹھتے یہ بات معطر کے کانوں میں ڈالتی تھیں۔وہ جانتی تھیں کہ کچی عمر کا نقش بڑا پائیدار ہوتا ہے۔حرف بہ حرف کندہ ہو جاتا ہے اس عمر میں۔ معطر دو بھائیوں سے بڑ ی تھی۔ دادی کی لاڈلی۔ صادق حسین کپڑوں کی مل میں سپر وائزر تھے۔بیوی اور ماں دونوں جی بھر کے سگھڑ تھیں۔ گزر بسر اچھی ہو جاتی تھی۔
معطر اسکول جانے لگی تھی۔ نیلی قمیص سفید شلوار میں بالوں کی کس کس کر دو چوٹیاں بنائے اپنی بڑی بڑی حیران آنکھوں سے دنیا کو دیکھتی،اپنے ہم عمر بچوں سے با لکل مختلف نظر آتی تھی۔ یوں جیسے اس کے ننھے سے وجود میں کوئی بوڑھا وجود قید ہو۔اسے دوسری بچیوں کی طرح کھلونوں،گڑیوں سے کھیلنے سے بالکل رغبت نہ تھی۔اس کو تو بس اپنی دادی کی صحبت میں مزہ آتا تھا۔دادی کی کہی ہوئی باتوں کو دل ہی دل میں دہراتی معطر نے ان کے پیچھے پیچھے گھومتے ہوئے بہت جلد وہ سارے کام سیکھ لیے تھے جو وہ کرتی تھیں۔
٭…٭…٭
حنا و عطر کی خوشبوؤں میں بس رہا ہے اس کا صندلیں وجود،سیاہ آنکھوں پر گھنی پلکوں کی باڑھ لرز رہی ہے،سرخ یاقوت سے لب کپکپا رہے ہیں۔کسی نے گھونگٹ آگے تک کھینچ دیا۔
”معطر صادق بنت صادق احمد آپ کو اپنا نکاح حزیم شاہد ولد شاہد احمد سے قبول ہے؟”
خوب صورت سعید ساعت ہے۔ نہ جانے کیوں یہ لوگ دیر کر رہے ہیں ۔ہلکی ہلکی آوازیں ماحول سے مختلف کیوں ہیں؟ سب کچھ طے ہے۔ایجاب و قبول بھی ہو چکا۔ کب ابا اس کا ہاتھ حزیم کے ہاتھ میںتھمائیں گے۔ وہ بھی کتنا بے قرار ہو گا دل ہی دل میں۔ مسکراہٹ جدا نہیں ہوتی معطر کے لبوں سے۔
”اے دیوانی!کب سے آوازیں دے رہی ہوں ۔چھت پر سے اتارکر لے آکپڑے۔تیرے ابا آنے والے ہیں۔”
”معطر ہے میرا نا م دادی دیوانی نہیں ۔لا رہی ہوں کپڑے۔”
”اے ہاں مجھے کیوں بھولے گا تیرا نام۔میں نے ہی تو رکھا تھا۔” ان کی آواز لرز گئی۔ گہری سانس بھر کر آنگن میں چلی آئیں۔جہاں صادق احمد آکر بیٹھ چکے تھے۔
٭…٭…٭
آنگن میں بچھی چارپائیوں پر پنکھے کے آگے پہلی چارپائی پر معطر سورہی تھی۔ وہ سوتے میں بھی مسکرا رہی تھی۔
سب کے سو جانے کی تسلی کر کے دادی بولیں۔ ”صادق احمد معطر کی بے چینی دیکھی نہیں جاتی۔”
”جی اماں!” وہ ٹھنڈی سانس کھینچ کر چپ ہو رہے تھے۔
”تم کچھ کرو اس کے لیے۔ کیا ساری عمر اس ناہنجار کے نام پر بٹھائے رکھو گے۔ ایک بار شادی ہو جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ابھی بھی خرابی کہاں ہے۔بس!”ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
”اماں آپ معطر کی فکر چھوڑ کیوں نہیں دیتیں۔آپ ہی کی فکروں نے یہ دن دکھایا ہے۔” فاطمہ سوئی نہیں تھی۔
”تم خاموش رہو فاطمہ۔” صادق احمد نے انہیں ٹوک دیا۔
”کیوں خاموش رہوں۔غلط کہتی ہوں؟”نہ اماں پوتے کی محبت میں اندھی ہو کر میری بچی کے کانوں میں بچپن سے یہ بات ڈالتیں نہ یوں میری بچی دیوانی ہوتی۔”غم و غصے سے فاطمہ کی آواز رندھی ہوئی تھی۔
دادی کا قصور اتنا تھا کہ دادی نے ”ایک اللہ ہمارا حقیقی دوست” کا سبق پڑھانے کے ساتھ ساتھ معطر کو سمجھا دیا تھا کہ اس دنیا میں اس کا نا خدا حزیم شاہد ہے جو کہ معطر کے تایا کا بیٹا تھا۔دو ہی بھائی تھے صادق احمد اور شاہد احمد۔صادق احمد چھوٹے تھے ان کے تین بچے تھے۔فراز،ارسلان اور معطر۔ بڑے شاہد احمد کا ایک ہی بیٹا تھا ”حزیم احمد” معطر کی پیدائش پر تایا اور دادی دونوں نے کہہ دیا تھا کہ معطر ‘حزیم’ کی دولہن بنے گی۔ معطر نے جہاں دادی کی دیگر باتوں کو دل و دماغ میں بٹھایا وہاں حزیم کی دولہن بننے کی بات بھی اپنے دل کے نہاں خانوں میں گاڑلی تھی۔
حزیم نے ایم بی اے مکمل کر نے کے بعد آسڑیلیا جانے کا فیصلہ کیا تو دونوں گھروں نے معطر اور اس کے نکاح کا پرو گرام بنالیا۔سب سے بڑھ کر دادی کی خواہش تھی کہ حزیم نکاح کے بعد آسٹریلیا جائے۔چند دنوں میں نکاح کی تیاری کر لی گئی اور وہ سعید اور روپہلی سی ساعت سات اکتوبر کی شام معطر کے آنگن میں اتر آئی۔
ایجاب و قبول کے بعد حزیم نے دادی کو بلا کر کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ نکاح کے ساتھ رخصتی بھی کر دی جائے۔ بات کوئی ایسی نا جائز نہ تھی مگر پریشان کن ضرور تھی۔ معطر کے والدین نے اس حوالے سے کوئی تیاری نہیں کی ہوئی تھی۔ لیکن حزیم نے رخصتی پر بے حد اصرار کیا تو صادق احمد کو غصہ آگیا۔ انہوں نے انکا ر کر دیا۔ بات دونوں کے والدین سے نکل کر دیگر مدعو رشتہ داروں میں پھیل گئی۔ بیشتر نے یہی مشورہ دیا کہ ساتھ ہی رخصتی کر دی جائے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر صادق احمد تیار نہ ہوئے۔ بات نے سنگین صورت اختیار کرلی۔ صادق احمد نے اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور جہاں انا ڈیرے ڈال لے وہاں سے خوشی اور امید اٹھ جاتی ہے۔معطر کی امی فاطمہ نے معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے صادق احمد کو بہت سمجھایا کہ نکاح ہو چکا ہے اب رخصتی کر دینی چاہیے۔ اب معطر حزیم کی بیوی ہے وہ اس کو ساتھ لے جانے کا اختیار رکھتا ہے۔ رخصتی کی الگ تقریب ایک معاشرتی تقریب ضرور ہے لیکن شرعی لحاظ سے اصل چیز نکاح ہی ہے۔لیکن صادق احمد کی ‘نہ’ ‘ہاں’ میں نہیں بدلی۔ مدعو مہمانوں نے بھی سمجھانے کی بہت کوشش کی، لیکن صادق احمدنے اپنی ضد نہ چھوڑی تو دوسری طرف حزیم بھی اڑا رہا کہ وہ رخصتی آج کروائے گا یا کبھی نہیں۔
روپہلی شام نے تاریک اوڑھنی اوڑھ لی۔ رنگ،خوشبو،گیت سب خاموش ہو گئے۔دو مردوں کی ناعاقبت اندیش ضد سے ایک معصوم لڑکی کی زندگی کے سارے رنگ اڑ گئے۔ حزیم اور اس کے گھر والے بد دل ہو کر لوٹ گئے۔ حیران حیران معطر نے دادی کے کہنے پر زیور اتار دیے، کپڑ ے بدل لیے مگر اس کا ذہن اس حادثے کو قبول نہ کر سکا۔نہ وہ روئی ،نہ چلائی ،نہ کوئی شکوہ کیا نہ شکایت کی۔بس اس کی روح اس ساعت میں قید ہو گئی۔ وہ اپنی دنیا میں مگن ہو گئی جس میں اس کا دولہا،اس کا حزیم اس کے ساتھ تھا۔
دادی کہتیں، معطر آٹا گوندھ دو۔وہ آٹا گوندھتی مسکرائے جاتی۔دادی پراٹھے بنانے کو کہتیں وہ گرم خستہ پراٹھے اتارتی چلی جاتی،یہاں تک کہ ان کو کہنا پڑتا۔ ”بس کردو معطر سب نے ناشتا کر لیااب یہ پراٹھا تم لے لو۔”
وہ اپنا پراٹھا لے کر بیٹھتی تو جیسے سامنے موجود وجود سے زیر لب باتیں کیے جاتی۔ اماں کی آواز واپس کھینچ لاتی تو دوسرے کام میں منہمک ہو جاتی۔
معطر کی سب سنگی،ساتھی بیاہی گئیں۔بچوں والیاں ہو گئیں۔ دونوں چھوٹے بھائیوں کی بھی شادیاں ہو گئیں۔ دولہنیں گھر آگئیں لیکن معطر کو کوئی فرق نہ پڑا۔ بڑے فراز کے گھر پلوٹھی کا بیٹا ہوا، تو جیسے معطر کے ہاتھ کھلونا آگیا۔ دن رات اسے اٹھائے، زیر لب باتیں کیے جاتی۔ بچے کی ماں کو دھڑ کا لگا رہتا دیوانی کہیں گرانہ دے،کہیں کچھ کر نہ بیٹھے مگر وہ بڑی سمجھ داری سے اسے سنبھالتی۔دھیرے دھیرے خود کلامی بڑھ رہی تھی۔گلی محلے والے، گھر والے ،رشتہ دار اور دور دراز رہنے والے سبھی رشتہ داروں کو خبر ہو گئی کہ معطر دیوانی ہو گئی ہے۔اپنے آپ سے باتیں کرتی ہے۔ہمارے معاشرے میں تو ایسی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے ۔لوگوں کے ہاتھ بات کا نیا موضوع تھا۔
٭…٭…٭