دوسرا دوزخ

”یہ سب ایک حادثہ تھا، تمھیں احتیاط کرنی چاہیے تھی۔ میں نے ہمیشہ تم سے کہا تھا کہ احتیاط کیا کرو…” میری کھلی ہوئی آنکھوں کے سامنے وہ کہہ رہا تھا۔ اور میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
دو سال کسی جانور کو پاس رکھنے پر بھی اس سے محبت ہو جاتی ہے۔ اسے ٹھوکر مارنے کے لیے بھی قدم اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیا اس شخص کو دو سال میں مجھ سے اتنی سی محبت بھی نہیں ہوئی تھی؟ مجھے آگ میں جھونکتے ہوئے اس نے مجھے انسان کے بجائے ایندھن کیوں سمجھا…؟ دو سال میں اس شخص کو پہنچنے والی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف پر میں تڑپ اٹھتی تھی… معمولی سی کھانسی ہوتی یا انگلی پر لگنے والی خراش… وہ جب تک ٹھیک نہ ہو جاتا مجھے چین نہ آتا… اور… اور… اس شخص نے مجھے اپنے ہاتھوں سے جلا دیا…
میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی اور وہ مجھ سے آنکھیں نہیں ملا رہا تھا۔ مگر اس کے چہرے پر اطمینان تھا… ٹی وی، فریج، وی سی آر، زیور، موٹر سائیکل، کیا اس نے مجھے صرف ان چیزوں کی وجہ سے جلا دیا تھا۔ کیا صرف یہ چیزیں نہ لانے کی وجہ سے اس کے دل میں میرے لیے اتنی نفرت بیٹھ گئی تھی۔ کہ میری دو سال کی خدمت اور اولاد بھی اس نفرت کو کم نہیں کر سکی۔
”ابھی پولیس آئے گی… تم انھیں بتا دینا کہ یہ حادثہ تھا…” وہ اب مجھ سے کہہ رہا تھا۔
”حادثہ نہیں تھا… تم لوگوں نے مجھے جلایا…” میں نے کراہتے ہوئے اس سے کہا۔
وہ کچھ لمحوں کے لیے بالکل خاموش ہو گیا اور میرے چہرے پر نظریں گاڑے رہا۔
”تم پولیس کو یہ کہو گی؟” اس بار اس کی آواز میں اشتعال تھا۔
”ہاں…”
”پھر کیا ہو گا؟ تم نے سوچا ہے… تم مر جائو گی۔ میں جیل چلا جائوں گا… عثمان کا کیا ہو گا…؟ وہ کہاں جائے گا؟ مجھ سے ایک غلطی ہو گئی ہے۔ مجھے معاف کر دو تم پولیس سے یہی کہنا کہ یہ ایک حادثہ تھا، اپنے بیٹے کے لیے… تم میری بات سمجھ رہی ہونا؟” وہ اب مدہم آواز میں مجھ سے کہہ رہا تھا۔
”ہاں! میں نے عثمان کے بارے میں تو سوچا ہی نہیں تھا… اس کا کیا ہوگا… پولیس اس شخص کو پکڑ لے گی تو کیا ہوگا…؟ مقدمے کی پیروی کون کرے گا؟ یہ رہا ہو گیا تو کیا ہوگا؟ اسے سزا ہو گئی تو عثمان کا کیا ہوگا…؟” میں خاموش ہو گئی۔
میرے پاس لفظ ختم ہو گئے۔ صرف زندگی باقی رہ گئی۔ عورت کے پاس صرف زندگی ہوتی ہے اور کچھ نہیں ہوتا…
میں نے اپنی ساس کو دیکھا، ان کے ساتھ محلے کی کچھ اور عورتیں تھیں، وہ رو رہی تھیں غش کھا رہی تھیں۔
”کاش میں سوئی نہ ہوتی… کیوں نیند آ گئی مجھے… مجھے کیا پتا تھا میری بہو کے ساتھ یہ ہو جائے گا… اس کے بجائے میرے ساتھ یہ ہو جاتا…” وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔





میں انھیں دیکھ رہی تھی، میں نے اپنی ماں میں رحم کے علاوہ اور کوئی صفت نہیں دیکھی تھی۔ مائوں میں رحم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا یہ میری خوش فہمی تھی۔ دو سال میں نے اس عورت میں بھی یہی صفت تلاش کرنے کی کوشش کی تھی کبھی نہ کبھی تو اس کی زبان کے کانٹے ختم ہوں گے۔ کبھی تو اس کے لفظوں کا زہر کم ہوگا… کبھی تو… لیکن سب کچھ بڑھتا گیا۔ انھیں مجھ پر رحم نہیں آیا۔ ٹی وی، فریج، وی سی آر اور موٹر سائیکل نہ لانے والی بہو پر رحم کیسے کیا جا سکتا ہے…؟ کیا انھیں احساس ہے کہ جلتے ہوئے جسم کی تکلیف کیسی ہوتی ہے…؟ جب پورا جسم موم بتی کی طرح پگھل رہا ہو۔ جلد، کھال، چربی، گوشت، سب کچھ جل رہا ہو اور انسان چاہنے کے باوجود شعلوں کو بجھا نہ سکتا ہو… تو… تو…؟
میں اب اپنی نندوں کو دیکھ رہی تھی جو میری ساس کی طرح رو رہی تھیں۔ مجھے جلاتے ہوئے کیا انھوں نے یہ کبھی سوچا کہ اگر انھیں خود کبھی میری طرح جلنا پڑا… ان کو… یا کبھی آج سے کئی سال بعد ان کی بیٹیوں میں سے کسی کو…
دو سال میں نے کئی بار انھیں ڈائجسٹوں میں شائع ہونے والی تحریروں کے کرداروں کے لیے آنسو بہاتے دیکھا ہے… کیا صرف رحم اور ہمدردی ان کے لیے ہونی چاہیے؟ جو زندہ نہ ہوں فرضی کردار ہوں… میرے جیسے حقیقی کرداروں کے لیے ان کے پاس… کیا میرے کم جہیز لانے کے ”گناہ” کو وہ معاف نہیں کر سکتی تھیں؟ کیا کبھی ایک بار وہ میری ساس سے یہ نہیں کہہ سکتی تھیں کہ میرے ساتھ سب کچھ نہ کریں… مجھے تکلیف نہ دیں، کیا وہ مجاہد سے یہ سب نہیں کہہ سکتی تھیں… کیا وہ…”
پھر کچھ دیر بعد میرے گھر والے آ گئے… پھر پولیس آ گئی، مجاہد اور اس کے گھر والے غائب ہو گئے تھے… میں نے اس کے بعد انھیں نہیں دیکھا۔ میرے گھر والے انھیں الزام دے رہے تھے، محلے کے بہت سے لوگ بھی یہی کہہ رہے تھے… پولیس کے ایک انسپکٹر نے مجھ سے بیان لینے کی کوشش کی۔
”کیا یہ حادثہ تھا؟ کیا مجھے میرے سسرال والوں نے جلایا؟ سب کچھ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا…؟ کچن کا دروازہ باہر سے کس نے بند کیا؟ کیا میں نے خودکشی کی کوشش کی ہے؟ کیا مجھے کسی پر شک ہے؟ میرے سسرال والوں کا رویہ میرے ساتھ کیسا تھا؟ میرے شوہر کا سلوک کیسا تھا؟”
وہ مجھ سے ایک کے بعد ایک سوال پوچھتا رہا، خاموشی اور کراہوں کے علاوہ میرے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
”سچ بتا دیں بی بی ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔” وہ مجھ سے کہہ رہا تھا۔
بستر مرگ پر پڑی اب میں کس سے ڈر سکتی ہوں…؟ مگر سچ… سچ بتانے کی ہمت میرے اندر نہیں ہے۔ وہ معاشرے نے چھین لی ہے۔
وہ بہت دیر مجھے بولنے پر مجبور کرتا رہا پھر میری سانس اکھڑنے لگی تو ڈاکٹر نے اسے باہر بھیج دیا۔
”تم اسے بتا دو کہ یہ سب کچھ… یہ سب کچھ…” اس کے جانے کے بعد میری امی نے کہا اور پھر بات ادھوری چھوڑ کر رونے لگیں۔ میں ایک بار پھر غشی میں چلی گئی۔
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میری تکلیف بڑھتی جا رہی تھی۔ اور اب… اب جب ڈاکٹر میرے گھر والوں کو بتا چکے ہیں کہ میں کسی بھی لمحے مر جائوں گی… تو… تو… وہ سوال مجھے مرنے نہیں دے رہا… وہی سوال جو… جو مجھے یاد نہیں آ رہا…
”اوہ میرے اللہ…”
میری تکلیف… میری تکلیف…
میرا ذہن…
آنکھیں… آنکھیں نہیں کھل رہی۔
سانس… سانس…
میرا جسم بے جان…
سب کچھ ختم…
میرا بیٹا…
کیا… کیا یہ موت…
وہ سوال…
ہاں… ہاں یاد… یاد… آ… رہا ہے۔
میں… میں آپ سے… پوچھنا… پوچھنا چاہتی ہوں…
آپ نے کہا تھا… آگ کا عذاب صرف…
صرف اللہ… اللہ دے سکتا ہے… آپ دے سکتے ہیں…
اور کوئی نہیں… انسان نہیں… مگر مجھے… مجھے تو انسانوں… انسانوں نے آگ کا عذاب دے دیا ہے…
میں نے… میں… اسی دنیا میں دوزخ کے عذاب سے گزر رہی ہوں… بس فرق یہ ہے کہ یہ دوزخ انسان نے دہکایا ہے…
میں پوچھنا چاہتی ہوں اب… اب… جب میں مر جائوں گی… تو… تو کیا آپ… آپ مجھے دوبارہ دوزخ… میں پھینکیں گے؟
دوسرے دوزخ میں… کیا آپ میرے لیے… دوبارہ دوزخ دہکائیں گے؟ دوبارہ مجھے اس میں پھینکیں گے؟
میں آپ کو بتانا… بتانا چاہتی ہوں… مجھے… انسانوں کے دوزخ… سے گزرنے… گزرنے کے بعد آپ کے دوزخ سے خوف نہیں آ رہا… دوسرے دوزخ سے… اللہ کیا… کیا آپ… مجھے…
دوسرا… دوسرا دوزخ دیں گے؟ میں… آپ… سانس… میں… اندھیرا… گھٹن…

***…***…***




Loading

Read Previous

ناک — محمد نوید اکرم

Read Next

زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Nice story

  • آخری سطریں کچھ صحیح نہیں کہ مجھے آپ کے دوزخ سے خوف نہیں آرہا۔۔۔ ان کی جگہ کچھ مناسب الفاظ کا چناؤ ہونا چاہیے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!