دوسرا دوزخ

مگر میں نے تو وہ لباس مجاہد کے لیے پہنا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ میں وہ کپڑے پہنوں… اس نے کہا تھا وہ مجھے میری امی کے گھر لے کر جائے گا… ہم شام تک وہیں رہیں گے۔
لیکن پھر… لیکن پھر… مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ یہ سب اس نے میرے ساتھ کیا ہے… اس نے… میرے شوہر نے… اس شخص نے جس نے قرآن کی آیات پر میرا کفیل بننے کا عہد کیا ہے۔ آپ کے سامنے اس نے میری حفاظت کا ذمہ لیا تھا… دو سال… پورے دو سال میں نے اس کے ساتھ گزارے تھے… دو سال میں نے اسے مقدور بھر آرام پہنچانے کی کوشش کی… اس کو سلوٹ زدہ لباس سے بچانے کے لیے میں اپنے کئی کئی گھنٹے صرف کر دیتی۔ اور اس نے… اس نے میرے پورے وجود کو سلوٹ زدہ کر دیا…
”مجھے یقین نہیں آتا، مجھے یقین نہیں آتا… مجاہد میرے ساتھ یہ سب کیسے کر سکتا ہے۔ وہ تو میرا شوہر ہے… مجھ سے محبت کرتا ہے، اس نے مجھے کیسے جلا دیا؟ اس نے مجھے کیوں جلا دیا؟”
مگر ہو سکتا ہے اس نے مجھے نہ جلایا ہو۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس نے مجھے نہیں جلایا… سب کچھ ایک حادثہ تھا… حادثہ؟… ہو سکتا ہے سب کچھ ایک حادثہ ہی ہو…
”مگر… مگر وہ دروازہ… وہ دروازہ کیوں بند تھا؟
مجاہد میری چیخوں کی آواز پر کیوں نہیں آیا؟”
کوئی مجھے بچانے کیوں نہیں آیا؟ اور وہ جھلک… وہ جھلک… کھڑکی… مجاہد۔
”میرے خدا… میرا سانس پھر اکھڑ رہا ہے۔ کیا میں مر رہی ہوں؟ کیا موت کی تکلیف ایسی ہی ہوتی ہہے۔ جیسی میں اس وقت پچھلے چوبیس گھنٹوں سے برداشت کر رہی ہوں، اتنی لمبی موت…؟ اتنی مختصر زندگی؟ آپ نے مجھے کیا دیا؟ کیوں دیا؟





اٹھارہ سال میں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ گزارے… میں خوش تھی، پھر دو سال میں نے… میں نے کہاں گزارے، ہاں شادی ہو گئی تھی میری… ایف اے کے بعد… مجاہد سے… میں مٹھیوں میں خواب لے کر اس کے گھر آئی تھی۔ ہر لڑکی یہی کرتی ہے… میں بھی خواب لے کر ایک سراب میں داخل ہو گئی تھی۔ میرا خیال تھا مجھے چاہا جائے گا۔ سب لوگ یہی کہتے تھے مجھ میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ خوبصورتی، اخلاق، ایثار، خوش مزاجی، نرم خوئی، برداشت، تحمل، سمجھداری، سلیقہ…
گنتی ان سے شروع نہیں ہوئی تھی۔ گنتی کہیں اور سے شروع ہوئی تھی، ٹی وی، وی سی آر، فریج، زیور، موٹر سائیکل، میں شاکڈ رہ گئی، خوف نے مجھے اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا۔ پہلی بار مجھے احساس ہوا، میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ جو تھا وہ بے مول تھا… ساس، سسر، نندیں، شوہر، ہر ایک کی زبان پر ایک جیسے لفظ تھے… وہ تلخ تھے، زہریلے تھے۔ کانٹے تھے۔
”وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا…” میں ہر بار خود کو یہی کہہ کر تسلی دیتی۔
”سسرال والے ایسی باتیں کرتے ہی ہیں۔” میں سوچتی ”میں اپنی خدمت سے ان کے دل جیت لوں گی۔”
”ہاں خدمت سے، دلوں کو جیتا جا سکتا ہے۔ مگر جن لوگوں کے وجود کے اندر دلوں کے بجائے ہوس اور لالچ کے بت پیوست ہوں ان کو… ان کو…”
دو سال میں نے سب کچھ برداشت کیا… سب کچھ بد سے بدتر ہوتا گیا۔ عثمان کی پیدائش نے بھی کچھ تبدیل نہیں کیا۔ لیکن میں پھر بھی مطمئن تھی… میرا گھر قائم تھا، شادی ختم نہیں ہوئی تھی۔
”سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا… سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا…” میری زبان پر ایک ہی ورد رہتا تھا۔ مجاہد کے مارنے پر بھی، ساس کے گالیاں دینے پر بھی، نندوں کے بے عزتی کرنے پر بھی…
”سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا…” میں خوش تھی، میرا گھر قائم تھا۔ میں ماں باپ پر بوجھ نہیں بن سکتی تھی۔ وہ مجھے سہارا نہیں دے سکتے تھے… نہ معاشی طور پر نہ معاشرتی طور پر… اس گھر سے نکل جانے کی صورت میں معاشرہ مجھے کھا جاتا، میں وہاں سے نہیں نکلی اور آج میں یہاں ہوں۔
”پھر… پھر… سب کچھ ٹھیک ہونا شروع ہو گیا، میری دعائیں رنگ لانے لگیں۔ مجاہد نے مجھ سے اپنے رویے کی معافی مانگی… میں نے اسے معاف کر دیا۔ میری ساس، سسر، نندیں سب کا سلوک میرے ساتھ بدل گیا… میں خوش تھی۔ میں نے اپنے ماں باپ کو بھی بتا دیا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے سب کچھ… وہ خوش تھے۔ پرُسکون تھے۔ میری وجہ سے ہونے والی اذیت ختم جو ہو گئی تھی۔
وہ چند ہفتے میری زندگی کے سب سے بہترین دن تھے۔ دو سال لگے مجھے سب کچھ ٹھیک کرتے۔ مگر سب کچھ ٹھیک ہو ہی گیا۔ آپ کو کیوں بتا رہی ہوں میں؟ آپ تو سب کچھ جانتے ہی ہیں… میری خوشی اور اطمینان کا اندازہ آپ سے بڑھ کر کس کو ہو سکتا ہے۔
کل بھی تو یہی ہوا تھا، مجاہد نے کہا تھا وہ مجھے میرے گھر لے کر جائے گا۔ ہم شام وہیں گزاریں گے۔ میرے لیے لباس کا انتخاب بھی اسی نے کیا۔ سلک کا سفید لباس، وہ اتوار کا دن تھا اتوار کو مجاہد گھر ہی پر ہوتا تھا۔ اتوار کو سب لوگ ہی گھر پر ہوتے تھے۔ مگر اس دن میرے سسر دوپہر سے کچھ دیر پہلے کہیں چلے گئے۔ میری دونوں نندیں بھی کہیں چلی گئیں، گھر میں صرف مجاہد اور میری ساس تھیں۔ میں صبح ناشتے کے بعد سے کچن میں نہیں جا سکی تھی۔ عثمان کے لیے فیڈر بھی مجاہد ہی تیار کر کے لایا۔ مجھے حیرانی ہوئی مگر اس کا موڈ بہت اچھا تھا۔
دوپہر کے قریب اس نے مجھے تیار ہونے کے لیے کہا، میں دوپہر کا کھانا پکا کر تیار ہونا چاہتی تھی مگر اس نے روک دیا۔
”گھر میں امی کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں ہے تو کھانا کون کھائے گا؟ ہم تو ویسے بھی جا رہے ہیں۔ امی کہہ رہی تھیں کہ وہ دوپہر کا کھانا نہیں کھائیں گی تم بس جلدی سے تیار ہو جائو تاکہ ہم لوگ جا سکیں۔” اس نے مجھ سے کہا۔
میں اس کی بات مانتے ہوئے تیار ہونے لگی۔ اس نے مجھ سے اصرار کیا کہ میں اپنے لمبے بال کھلے چھوڑ دوں۔ میں گرمی میں سلک کا سوٹ پہننا نہیں چاہتی تھی، مگر وہ بضد تھا کہ میں وہی کپڑے پہنوں میں تیار ہو گئی تھی جب اس نے مجھ سے چائے کی فرمائش کی۔ میں اپنے کمرے سے نکل کر صحن میں آ گئی، اسی وقت میں نے اپنے کمرے میں پڑے ہوئے ڈیک کو بلند آواز میں بجتے سنا۔ مجھے حیرت ہوئی مجاہد کبھی اتنی بلند آواز میں ڈیک نہیں سنتا تھا مگر اس وقت…
کچن کے دروازے سے بہت دور ہی میں نے سوئی گیس کی تیز بو محسوس کر لی۔ یقینا کچن میں کہیں سے گیس لیک ہو رہی تھی یا پھر چولہے کا والو کھلا رہ گیا ہوگا۔ میں کچھ فکر مندی سے اندر آئی، کچن میں گیس کی تیز بو پھیلی ہوئی تھی، میں سانس روکتے ہوئے چولہے کے پاس آ گئی۔ دونوں برنرز کے والو پوری طرح کھلے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں انھیں بند کرتی۔ میں نے اپنی پشت پر کچن کے دروازے کو ایک جھٹکے سے بند ہوتے سنا۔ میں بے اختیار پلٹی، میں دروازے کی طرف جانا چاہتی تھی مگر میں قدم اٹھا نہیں سکی۔ کچن کی کھلی کھڑکی سے ایک جلتی ہوئی دیا سلائی کو میں نے اڑ کر اندر آتے دیکھا۔ پھر ایک… ایک دھماکہ ہوا تھا۔ مجھے سب کچھ سمجھنے میں بہت دیر ہو گئی تھی۔ میں آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں چیخ رہی تھی۔ میں نے دروازے کی طرف بھاگ کر اسے کھولنے کی کوشش کی۔ دروازہ بند تھا، وہ نہیں کھلا، میں نے اس کو پوری قوت سے بجایا، وہ نہیں کھلا میں چیختی ہوئی کچن میں موجود پانی کے نل کی طرف بھاگی، اس میں پانی نہیں آ رہا تھا۔ ٹھنڈے اور گرم دونوں والوز کو گھمانے سے پانی نہیں آیا۔ آگ کے شعلے بڑھتے جا رہے تھے۔
باہر ڈیک بلند آواز سے بج رہا تھا، اندر میں چیخ رہی تھی۔ پھر میں کھڑکی کی طرف گئی اور تب… تب… آگ کی اٹھتی ہوئی لپٹوں سے میں نے کھڑکی کے باہر صحن میں مجاہد اور اپنی ساس کو دیکھا… ایک لمحے کے لیے… ایک لحظے کے لیے… بلند آواز میں چیختے ہوئے میں نے انھیں پکارا… وہ برق رفتاری سے اندر کمرے میں چلے گئے۔
میرا ذہن مائوف ہو گیا… وہ میری طرف کیوں نہیں آئے؟ کیا انھوں نے خود مجھے؟ سب کچھ ختم ہونے لگا… کیا انھوں نے خود میرے ساتھ یہ سب کچھ کیا…؟ مجھے تب بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔ کھڑکی سے باہر دھواں جا رہا تھا۔ میں اب اپنے گوشت کے جلنے کی بو کو محسوس کر سکتی تھی۔ میری چیخیں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی تھیں۔ میں اس کھڑکی کے سامنے گر رہی تھی۔ ڈیک اب بھی بج رہا تھا۔ سامنے میرے کمرے کا دروازہ بند تھا… اندر میرا بیٹا تھا۔ میرا شوہر تھا، میری ساس تھی، کچن میں میرے چاروں جانب آگ تھی… مجھے اس وقت صرف آپ یاد آئے تھے، صرف آپ یاد آ رہے تھے… کیوں یاد آ رہے تھے آپ…؟
زمین پر گرتے ہوئے میرے کانوں نے بیرونی دروازے کو دھڑ دھڑاتے اور بہت سے لوگوں کو بولتے سنا… اس کے بعد پھر مجھے کچھ بھی یاد نہیں رہا… شاید کسی نے کچن کا دروازہ کھولا تھا… شاید کسی نے مجھ پر پانی پھینکا تھا۔ شاید کسی نے میرے گرد کوئی کمبل لپیٹا تھا… اس کے بعد میرے لیے ہر چیز شاید بن کر رہ گئی تھی۔
دوبارہ آنکھیں میں نے ہاسپٹل کے اسی بستر پر کھولی تھیں۔ میرے دائیں طرف ایک کرسی پر وہی تھا… مجاہد میرا شوہر…




Loading

Read Previous

ناک — محمد نوید اکرم

Read Next

زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Nice story

  • آخری سطریں کچھ صحیح نہیں کہ مجھے آپ کے دوزخ سے خوف نہیں آرہا۔۔۔ ان کی جگہ کچھ مناسب الفاظ کا چناؤ ہونا چاہیے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!