دوسرا دوزخ

وہ میرا گال چومے گی تو وہاں موجود آبلے پھوٹ پڑیں گے۔ میں چیخوں گی۔ وہ میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے گی اور میرے جھلسے ہوئے گوشت میں سے خون رسنے لگے گا۔ میں اذیت برداشت نہیں کر پائوں گی… کبھی ماں کے لمس کو آپ نے اولاد کے لیے برچھی بنتے دیکھا ہے…؟ وہ روتی جاتی ہے۔ میرے بستر کے گرد چکر کاٹتی جاتی ہے۔
نو ماہ اس عورت نے اپنے جسم کے اندر مجھے تخلیق کیا ہے۔ سمن کو… میری ہڈیاں، میرا گوشت، میری جلد، میرا خون… سب کچھ اسی کے وجود ہی کا ایک حصہ تھا۔
بیس سال پہلے اس نے ایک مکمل وجود کو جنم دیا تھا، ہنستے کھلکھلاتے، ایک مکمل وجود کو… بیس سال بعد اس مکمل وجود کو جھلسے ہوئے پیپ زدہ گوشت کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے دیکھ کر وہ کیا سوچ رہی ہوگی…؟ اسے قرار کیسے آ سکتا ہے…؟
”بالوں میں تیل لگایا کرو سمن! اس طرح لاپروائی مت برتا کرو…” میں اب بھی اس کی آواز سن سکتی ہوں۔ مگر اب میرے سر پر جھلسی ہوئی جلد کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
اس کے ہاتھوں کا بنایا ہوا کوئی ابٹن اب میرے چہرے کی رنگت کو بدل سکتا ہے نہ اس کی ملائمت میں اضافہ کر سکتا ہے۔
”کتنے کھردرے ہو رہے ہیں تمھارے ہونٹ… بالائی لگائو ان پر۔” وہ اب شاید شناخت بھی نہیں کر سکتی کہ میرے ہونٹ کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کہاں ختم ہو جاتے ہیں؟
اس کا خریدا ہوا کوئی لباس اب میرے جسم کو دوسروں سے ممتاز نہیں کر سکتا تھا۔ بیس سال اس نے جس شاہکار کو تخلیق کرتے اور حفاظت سے رکھتے ہوئے گزار دیے تھے اسے کچھ دوسرے لوگوں نے چند ہی گھنٹوں میں ناقابل شناخت کر دیا تھا…
وہ کس کس کا چہرہ نوچنا چاہتی ہوگی؟ کس کس کو بے شناخت کر دینا چاہتی ہوگی؟ برن یونٹ کے اس بستر پر کس کس کو دیکھنا چاہتی ہوگی؟ پتہ نہیں… پتہ نہیں… نو ماہ اس نے مجھے اس اپنے جسم میں رکھا اور بیس سال اس نے مجھے اپنے گھر میں رکھا اور مجھے اس حال میں دیکھ کر وہ پاگلوں کی طرح میرے بستر کے گرد چکر کاٹ رہی ہے۔
میں سوچ رہی ہوں اللہ! آپ مجھے اس حال میں دیکھ کر کیا محسوس کر رہے ہوں گے۔ تخلیق تو مجھے آپ نے ہی کیا ہے۔ کئی صدیاں تو مجھے آپ نے بھی اپنے پاس رکھا ہے۔ میری آنکھیں، ناک ہونٹ… سب کچھ آپ نے ہی بنایا تھا۔ اب اس جھلسے ہوئے جسم کو دیکھ کر آپ کیا سوچ رہے ہوں گے، جس چیز کو آپ نے بنایا… انسان نے اسے بگاڑ دیا، جلا دیا، مسخ کر دیا… آپ مجھے دیکھتے ہوئے کس اذیت سے گزر رہے ہوں گے؟ میری ماں کی طرح کیا آپ بھی بہت سے لوگوں کو…
”کب…؟”
”کب…؟”





میں اب ڈاکٹر کی آواز اپنے قریب سن رہی ہوں۔ وہ ایک بار مجھے دیکھنے آیا ہے۔ میں اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے اس کے قریب کھڑے اپنے باپ کو دیکھ رہی ہوں۔ اس کے چہرے پر اب بھی وہی بے یقینی ہے جو پچھلے چوبیس گھنٹوں سے جیسے اس کے چہرے پر کندہ ہو گئی ہے۔ اسے یقینا اب تک یقین نہیں آیا ہوگا کہ یہ سب کچھ اس کی اپنی بیٹی کے ساتھ ہوا ہے…
اخبار میں چھپی ہوئی سرخی پڑھنے اور اسے اپنے سامنے مجسم حالت میں دیکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ”پھر اگر آپ اس ”سرخی” سے خونی رشتہ رکھتے ہوں تو…؟”
پچھلے چوبیس گھنٹوں میں، میں نے اس کے ہاتھوں میں انجکشنز کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا وہ انجکشنز لاتا ہے۔ نرس ان انجکشنز کو ڈرپ میں منتقل کر دیتی ہے۔ اس کے جھریوں زدہ ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ڈاکٹر کے نسخے اب کچھ بھی واپس نہیں لا سکتے… نہ میرا چہرہ… نہ اس کے نقش… نہ میرا بے داغ جسم… نہ میری… نہ میری زندگی… ہاں ان ہاتھوں سے وہ اگر کچھ روپے زیادہ کما لیتا تو آج میرا وجود جلے ہوئے گوشت کے اس ڈھیر میں تبدیل نہ ہوا ہوتا۔ اس کے چہرے کی بے یقینی اب شکست خوردگی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ کبھی نہ کبھی انسان ہار مان ہی لیتا ہے۔ ہار ماننی ہی پڑتی ہے۔ اور بیٹیوں کے مقدر سے بڑھ کر کوئی دوسری چیز باپ کے کندھوں کو نہیں جھکا سکتی۔
دوسری بیٹی کو بیاہنے کا حوصلہ کہاں سے لائے گا وہ… مہوش کو…
”میرے جیسے بھائیوں کو موت آ جانی چاہیے، جو بہنوں کو ٹرک بھر کر جہیز نہیں دے سکتے۔”
”سجاد… سجاد… کہاں ہے…؟” میں نے اسے پچھلے چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک بار دیکھا ہے۔ تب جب کل رات کو وہ حیدر آباد سے میرے جلنے کی خبر سن کر آیا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ اور کپڑے بے ترتیب تھے۔ میں تب ہوش میں تھی اس نے آگے بڑھ کر صرف ایک نظر مجھے دیکھا تھا، میری اور اس کی نظر ملی پھر وہ کچھ کہے بغیر الٹے قدموں وارڈ سے بھاگ گیا۔ مگر بلند آواز میں رونے کی آواز اندر تک آتی رہی، وہ بار بار ایک ہی بات دہرا رہا تھا۔
”میرے جیسے بھائیوں کو موت آ جانی چاہیے جو بہنوں کو ٹرک بھر کر جہیز نہیں دے سکتے…” پھر آہستہ آہستہ اس کی آواز غائب ہوئی۔ اور اس کے بعد وہ دوبارہ اندر نہیں آیا۔
شاید وہ میرا سامنا کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتا… شاید کوئی بھی میرا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ پھر بھی سب کو میرے سامنے آنا پڑ رہا ہے۔ کیا ان میں سے کبھی کسی نے یہ سوچا ہوگا کہ زندگی میں ایک بار وہ بھی اخبار کی ایک خبر کا حصہ بن جائیں گے… یہ تو میں نے بھی نہیں سوچا تھا کہ میں… میں اخبار کی ایک خبر بن جائوں گی۔
”کم جہیز لانے پر ایک لڑکی کو زندہ جلا دیا گیا۔”
”سسرال کے ہاتھوں بہو کا قتل…”
”جہیز نے ایک اور لڑکی کو برن یونٹ پہنچا دیا۔”
”ایک سال کے بیٹے کی ماں کھانا پکاتے ہوئے جل گئی۔” پتہ نہیں اخبار کی سرخی کس طرح لگی ہوگی؟
ایک سال کا بیٹا…؟
”عثمان…؟”
”ہاں وہ کہاں ہے؟ عثمان کہاں ہے؟ پچھلے چوبیس گھنٹوں سے میں نے اسے بھی نہیں دیکھا۔ پتا نہیں اس نے کچھ کھایا ہوگا یا نہیں؟ دو دن سے اسے بخار تھا۔ پتا نہیں آج اسے کوئی ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا ہوگا یا نہیں…؟ میں اس کو ایک بار دیکھنا چاہتی ہوں۔ آخری بار… دوبارہ تو کبھی…”
آنکھیں کھولنا میرے لیے مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آکسیجن کی نالی کے ساتھ بھی سانس لینا مشکل ہو رہا ہے۔ مگر میرا ذہن، میرا ذہن ابھی… ابھی بھی مائوف نہیں ہوا… چہرے، آوازیں اور چیزیں گڈمڈ ضرور ہو رہی ہیں مگر میں… میں کچھ بھی بھولی نہیں ہوں، سوائے اس سوال کے۔ اس سوال کے بس وہ… وہ یاد نہیں آ رہا… ورنہ… ورنہ باقی تو سب کچھ یاد ہے مجھے… سب کچھ…
یہ بھی کہ چوبیس گھنٹوں سے پہلے میں نے ہونٹوں پہ کون سی لپ اسٹک لگائی تھی۔ اسکارلٹ ہاں یہی، یہی رنگ تھا۔ مجاہد کہتا تھا یہ… یہ رنگ مجھ پر بہت اچھا لگتا ہے۔ اور چوڑیاں… ہاں چوڑیاں بھی پہنی ہوئی تھیں میں نے… گہری سبز رنگ کی چوڑیاں… آگ کی لپٹوں میں آ کر شاید وہ بھی پگھل گئی ہوں گی۔ میرے وجود کی طرح۔
بچپن میں چوڑیوں کی چین بنایا کرتی تھی میں۔ موم بتی جلا کر چوڑی کے ایک سرے کو اس پر گرم کیا کرتی تھی۔ موم بتی کا شعلہ سیکنڈز میں ہی کانچ کو پگھلانے لگتا۔ پھر میں آرام سے اس پگھلے ہوئے حصے کو الگ کر دیتی اور اس جگہ سے برق رفتاری سے ایک چوڑی اس چوڑی کے اندر ڈال دیتی، پھر اتنی ہی تیزی سے پگھلے ہوئے سروں کو دوبارہ آپس میں زور سے دبا دیتی۔ کانچ ٹھنڈا ہو کر پھر آپس میں جڑ جاتا…، چین بنتی جاتی، یا پھر چوڑی کے ٹوٹے ٹکڑوں کو اسی طرح موم بتی کے شعلے پر گرم کرتی اور جب ٹکڑے کا درمیانی حصہ نرم ہو جاتا تو میں دونوں اطراف سے ٹکڑے کو پکڑ کر موڑ دیتی… بیضوی شکل کے ان حصوں کو چین کی صورت لہراتی میں سارے گھر میں پھرتی۔
میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی خود میرے وجود سے اٹھنے والے شعلوں کی لپٹیں میرے ہاتھوں میں کھنکتی ان چوڑیوں کے کانچ کو پگھلائیں گی اور اس بار کانچ پگھلنے اور نرم ہونے کے بعد میری ہی کلائیوں کو زنجیر کی مانند اپنی گرفت میں لے لے گا۔
اسکارلٹ لپ اسٹک، سبز چوڑیاں… اور کپڑے… کپڑوں کا رنگ کیا تھا؟ سفید… ہاں سفید تھا… سلک کا سفید کڑھائی والا سوٹ۔
ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس سوٹ کی وجہ سے میرا جسم زیادہ بری طرح جلا، وہ سفید کپڑا… سیاہی ہو کر اب بھی میرے جسم کے بہت سے حصوں پر چپکا ہوا ہے یوں جیسے وہ میری کھال کا ایک حصہ ہی بن گیا ہے۔ میرے جسم سے ان ٹکڑوں کو اتارنے کی کوشش کی جاتی، تو… تو میرے جسم پر موجود آبلے پھوٹ پڑتے۔ کھال اتر جاتی۔ پھر شاید وہ زخم مجھے زندہ رہنے کے لیے چوبیس گھنٹے بھی نہ دیتے… پھر شاید یہ اذیت چوبیس گھنٹے پہلے ہی ختم ہو جاتی۔




Loading

Read Previous

ناک — محمد نوید اکرم

Read Next

زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Nice story

  • آخری سطریں کچھ صحیح نہیں کہ مجھے آپ کے دوزخ سے خوف نہیں آرہا۔۔۔ ان کی جگہ کچھ مناسب الفاظ کا چناؤ ہونا چاہیے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!