میرے پیارے اللہ!
”آپ کے نام یہ میرا پہلا اور آخری خط ہے، بچپن میں ایک بار ایک کہانی پڑھی تھی… ایک یتیم بچے کی کہانی، جسے اپنی کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے کچھ رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اللہ کے نام ایک چٹھی لکھتا ہے، وہ چٹھی ڈاک خانے والے کھول لیتے ہیں اور پھر اس بچے پر ترس کھاتے ہوئے کچھ رقم اکٹھی کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بھیج دیتے ہیں۔
تب وہ کہانی پڑھتے ہوئے مجھے ترس سے زیادہ اس بچے پر رشک آیا تھا، جس پر دنیا نے ترس کھا لیا…
مگر میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی میں ایک وقت ایسا آئے گا ،جب مجھے بھی اللہ کے نام ایسا ہی ایک خط لکھنا پڑے گا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا اس خط کو کھول کر پڑھنے کے بعد بھی کبھی مجھ پر ترس نہیں کھائے گی… یا شاید لوگ کبھی اس خط کو پڑھ ہی نہیں پائیں گے…”
”نہیں کیا یہ کہوں کہ پڑھنا نہیں چاہیں گے۔”
”نہیں… کیا… کہوں کہ یہ خط ان تک پہنچ ہی نہیں پائے گا…”
کاغذ پر سیاہی سے لکھی ہوئی تحریر دیکھی جا سکتی ہے۔ پڑھی جا سکتی ہے… سوچ کی لہروں پر بھیجی جانے والی تحریر کتنے لوگ پڑھ سکتے ہیں… لکھنے والے اور اللہ کے سوا…؟ میری خواہش تھی، میں بھی اس بچے کی طرح ایک کاغذ پر یہ تحریر لکھتی اور پھر اسی طرح لفافے پر اللہ کے نام لکھ کر ڈاک کے سپرد کر دیتی، مگر میں ایسا کرنے کے قابل نہیں ہوں۔
لکھنے کے لیے ہاتھ میں قلم اور کاغذ ہونا چاہیے، میں دونوں چیزیں تھامنے کے قابل نہیں ہوں۔ میں اپنا ہاتھ بستر سے اٹھا نہیں سکتی۔ ہاتھ ہلانے کی کوشش کروں گی تو میرے جسم پر موجود زخموں سے خون رسنا شروع ہو جائے گا۔ قلم ہاتھ میں تھاموں گی تو ہتھیلی کا ماس قلم کے ساتھ چپک جائے گا۔ انگلیاں موڑوں گی تو میرے Knuckles (انگلیوں کے جوڑ) پر پڑنے والی دراڑیں ہاتھوں کے باقی ماندہ گوشت کو برہنہ کر دیں گی۔ آنکھیں مسلسل کھلی رکھنا بھی میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ درد کم کرنے کی دوائیں، مجھے ہوش میں رہنے نہیں دے رہیں۔ درد مجھے ہوش کھونے نہیں دے رہا۔
میں بول کر کسی دوسرے کو بھی خط نہیں لکھوا سکتی، میں الفاظ اکٹھے کرنے کے قابل نہیں رہی میرا ذہن درد اور اذیت سے مائوف ہو رہا ہے، میرے منہ سے کرا ہوں کے علاوہ اور کچھ نہیں نکل پا رہا۔ اور تکلیف اتنی ہے کہ میں… میں کراہ بھی نہیں پا رہی۔ منہ کھولنے کی کوشش میں میرے چہرے کی جلی ہوئی جلد اور گوشت چٹخنے لگتا ہے۔ خون اور پیپ رسنے لگتی ہے۔ لفظ کراہ بن جاتا ہے۔
میوہاسپٹل کے برن یونٹ میں ایک بستر پر میں اپنی زندگی کے آخری گھنٹے گزار رہی ہوں، میرا ستر فیصد جسم جل چکا ہے۔ پچھلے چوبیس گھنٹے سے میں زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہوں۔ کیونکہ ڈاکٹر نے مجھے لاعلاج قرار دے دیا ہے۔
”یہ اگلے ایک دو گھنٹوں میں مر جائیں گی۔” میں نے اپنے بستر سے کچھ فاصلے پر ڈاکٹر کو کچھ دیر پہلے کہتے سنا تھا۔ وہ پتا نہیں کس سے مخاطب تھا۔
”امی سے… ابو سے… مہوش سے… سجاد سے… لئیق سے پتہ نہیں کس سے…؟”
مگر اس نے یہ کہا ضرور تھا، میں نے اپنے کانوں سے سنا تھا… کان…؟ پتہ نہیں انھیں کان کہنا اب ٹھیک ہوگا یا نہیں… جلنے کے بعد چیزوں کو کوئلہ کہتے ہیں یا راکھ… جلی ہوئی عورت کو کیا کہتے ہیں؟ پچھلے چوبیس گھنٹوں سے میں جن سوالوں کے جواب تلاش کر رہی ہوں ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔
میری ناک میں لگی ہوئی آکسیجن کی نالی دنیا میں میری آخری سانسوں کو ممکن بنا رہی ہے۔ میرے دائیں ہاتھ کی آبلہ بنی ہوئی پشت میں پیوست ایک ڈرپ قطرہ قطرہ کر کے میرے اندر وہ نمی پہنچا رہی ہے جو میرے وجود کو اس ہولناک اذیت سے چھٹکارا پانے بھی نہیں دے رہی۔ میں گردن سے پیروں تک ایک سلاخ دار پنجرے میں ہوں جس کو سفید رنگ کی ایک چادر سے ڈھانپا گیا ہے۔ ایسا اس لیے کیا گیا ہے تاکہ کپڑا میرے جسم سے نہ چھوئے۔ میرے جسم پر موجود گوشت، چربی، کھال سب کچھ جل کر صرف خون آلودہ اور پیپ زدہ ایک ڈھیر رہ گیا ہے۔ اور ڈاکٹر اس ڈھیر کو مزید کسی تکلیف سے بچانے کے لیے اس پر کپڑا چھونے نہیں دے رہے۔
میں اپنا ہاتھ اٹھا کر چہرہ چھو نہیں سکتی۔ مگر میں پھر بھی جانتی ہوں وہاں اب کچھ بھی نہیں ہوگا۔ میرے چہرے کے سارے نقوش مسخ ہو چکے ہوں گے…
”ہاں… ہاں مگر آنکھیں… آنکھیں اب بھی باقی ہیں۔ آنکھیں اب بھی دیکھ سکتی ہیں… اور… اور دکھا بھی سکتی ہیں… میں پچھلے چوبیس گھنٹوں سے خود پر نظریں ڈالنے والے ہر شخص کی آنکھ کی پتلی میں اپنی شبیہہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ ہر شخص نظریں چرا جاتا ہے۔ مجھے اپنی شبیہہ نظر نہیں آتی…
چوبیس گھنٹے…
چوبیس گھنٹے…
چوبیس گھنٹے…
صرف چوبیس گھنٹے ہی تو گزرے ہیں، مجھے گوشت پوست کے ایک نارمل انسان سے جھلسے ہوئے اس بے شناخت ڈھیر میں تبدیل ہوئے۔ چوبیس گھنٹے پہلے میں اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے چہرے کے ہر نقش کو محسوس کر سکتی تھی۔ ناک کی باریک اٹھی ہوئی نوک، ہونٹوں کی مخصوص ساخت، گالوں کی ملائم جلد، بھنوئوں کے بال، دراز خمدار پلکیں، تھوڑی کا گڑھا، مسکرانے پر گالوں میں پڑنے والے ڈمپل، کانوں کی نرم لو اور اس میں لٹکتی ہوئی بالیاں، کمر تک لمبے سیاہ گھنے اور ملائم بال جو بہت اچھی طرح باندھے جانے کے باوجود میرے ماتھے اور گالوں پر بکھرے رہتے تھے اور جنھیں میں ہر وقت کانوں کے پیچھے اڑستی رہتی… اور… دراز خمدار پلکوں والی سیاہ ہنستی ہوئی آنکھیں۔
اب وہاں کیا ہے؟ میں جانتی ہوں… میں نہیں جانتی۔
مجھے آپ کو تو یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ تو سب کچھ جانتے ہیں۔ میں آپ کو یہ سب کچھ بتانے کے لیے تو خط نہیں لکھ رہی، میں تو آپ سے کچھ پوچھنا چاہ رہی تھی۔
”کیا پوچھنا چاہ رہی تھی؟ کیا پوچھنا چاہ رہی تھی؟ کیا پوچھنا چاہ رہی تھی…؟ آہ… مجھے یاد نہیں آ رہا۔
درد ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ نرس میری ناک میں لگی ہوئی نالی کو ٹھیک کر رہی ہے۔ اس نے آکسیجن کے پریشر میں کچھ تبدیلی کی ہے۔ میں محسوس کر سکتی ہوں۔ میرے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں رحم ہے، ترس ہے؟ خوف ہے؟ کیا ہے؟ میری آنکھیں ایک بار پھر بند ہو رہی ہیں۔
میرے بستر کے پاس کھڑے لوگ میری سانسیں گن رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے میں مر جائوں… میں جانتی ہوں، وہ چاہتے ہیں میں اس اذیت سے چھٹکارا پا جائوں، مجھے علم ہے… میری بھی یہی خواہش ہے، میں بھی یہی چاہتی ہوں… مگر… مگر… وہ سوال جو میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں… وہ یاد نہیں آ رہا… پتہ نہیں کیوں… کیوں یاد نہیں آ رہا… میں وہ سوال پوچھے بغیر… پوچھے بغیر مرنا بھی نہیں چاہتی۔ کیسے مر جائوں؟ مگر سوال… مگر سوال…
میں یاد کر رہی ہوں، مجھے یاد آ جائے گا۔ کوئی میرے بستر کے پاس رو رہا ہے۔ میں آنکھیں کھولے بغیر بھی آواز پہچان سکتی ہوں… آخری سانسیں لیتے ہوئے بھی ان سسکیوں کو شناخت کر سکتی ہوں…
وہ میری ماں ہے… پچھلے چوبیس گھنٹوں سے میں اسے اسی طرح اپنے سرہانے دیکھ رہی ہوں۔ جلے پیر کی بلی کی طرح وہ… میرے بستر کے گرد پھر رہی ہے… میرے دائیں جانب… پھر میرے بائیں جانب… دائیں جانب… بائیں جانب… وہ روتی ہے… چپ ہو جاتی ہے… ہاتھ میں پکڑے ہوئے پنج سورة سے آیات اور دعائیں پڑھتی ہے۔ مجھ پر پھونکتی ہے… مجھے دیکھتی ہے۔ پھر رونے لگتی ہے۔ وہ پھر کچھ پڑھتی ہے… پھر پھونکتی ہے… وہ مجھے ہاتھ نہیں لگا سکتی۔ تسلی دینے کے لیے نا محبت جتانے کے لیے…
وہ میرا ماتھا چھوئے گی تو میرے ماتھے کی جھلسی ہوئی جلد اپنی جگہ چھوڑنے لگے گی… میں اور کراہوں گی…
2 Comments
Nice story
آخری سطریں کچھ صحیح نہیں کہ مجھے آپ کے دوزخ سے خوف نہیں آرہا۔۔۔ ان کی جگہ کچھ مناسب الفاظ کا چناؤ ہونا چاہیے۔