دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

”تو پھر تم اس مہر کی طرح بن جاؤ… مجھے ایسے ہی رہنے دو۔” میں نے لاپرواہی سے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
”میں بن سکتی تو ضرور بن جاتی… مگر میں دنیا اس طرح نہیں چھوڑ سکتی جس طرح تم چھوڑ سکتی ہو مہر۔” اس بار وہ بہت سنجیدہ تھی۔ میں ہنس پڑی۔ سگریٹ کا اَدھ جلا ٹکڑا دور پھینکتے ہوئے میں نے کہا۔
”اور میں اب دنیا چھوڑنا نہیں چاہتی… گھر چلیں۔” میں اُٹھ کر گاڑی میں آ بیٹھی۔ صوبیہ اُلجھی نظروں سے ونڈ سکرین سے کچھ دیر پلٹ کر مجھے دیکھتی رہی پھر خود بھی گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی۔
میں کیا بتاتی اپنی فرینڈز کو کہ میں زندگی میں کیا کر بیٹھی تھی… اور جو کر بیٹھی تھی اس کا اعتراف ان کے سامنے کرنے کے لیے مجھے سمندر جیسا حوصلہ چاہیے تھا۔ اعتراف کا لمحہ عذاب کا لمحہ ہوتا ہے۔
تین سالوں نے مجھے بڑے عجیب طریقے سے بدلا تھا… پتہ نہیں تین سالوں نے بدلا تھا… یا اس حادثے نے… یا پھر اس حقیقت نے کہ مومی نے دوبارہ کبھی مجھ سے رابطہ نہیں کیا… مجھے بعض دفعہ حیرانی ہوتی کہ ان چند ہفتوں میں میں نے ایک بار بھی مومی سے اس کا نمبر جاننے یا لینے کی کوشش کیوں نہیں کی… آخر ایک بار بھی مجھے یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ میرے پاس بھی اس کا نمبر ہونا چاہیے… ہر بار وہ ہی مجھے فون کرتا تھا اور مجھے جیسے یقین تھا کہ وہ اسی طرح ہمیشہ فون کرتا رہے گا… مجھے کبھی اسے فون کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی… مگر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ مجھے تب کبھی اس خدشے یا خیال نے تنگ کیوں نہیں کیا کہ کبھی اگر اس نے مجھے کال نہ کی تو؟… کبھی اگر مجھے ایمرجنسی میں اس سے رابطے کی ضرورت پڑ گئی تو…؟ کبھی اگر مجھ سے ناراض ہو کر اس نے مجھے فون کرنا بند کر دیا تو اسے منانے کے لیے ہی مجھے اسے کال کرنی پڑ سکتی ہے… پتہ نہیں کیوں مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ میرے پاس بھی مومی کا نمبر ہونا چاہیے…
ان دنوں تو پچھتاووں کا ایک ڈھیر اکٹھا ہو گیا تھا۔ میرے پاس… کبھی میں ایک بات پر پچھتا رہی ہوتی کبھی دوسری پر۔
خیابان شمشیر پر دوبارہ کبھی جانے کی جرأت بھی مجھ سے نہیں ہو سکی تھی… اور رات کو سونا میرے لیے دنیا کا دشوار ترین کام ہو گیا تھا… میں نے فرینڈز کے ساتھ فون پر لمبی لمبی گفتگو کرنا بھی بند کر دیا… اور کیا کیا چھوڑ دیا میں نے… اس کی صحیح فہرست میں نہیں بنا سکتی تھی… البتہ دوسرے بتا دیا کرتے تھے۔
مجھے دوسرے بتانے لگے تھے کہ اب میں کیا کیا نہیں کرتی تھی… اور کیا کیا کرنے لگی تھی… اور مجھے کسی کی کوئی بات چونکاتی نہیں تھی… اس سے کیا فرق پڑتا تھا کہ پہلے میں کیا کرتی تھی اور اب کیا نہیں کرتی تھی… مگر شاید دوسروں کو بہت فرق پڑتا تھا… لوگوں کو دوسروں کی ذات میں اور زندگی میں آنے والی ہر چھوٹی بڑی تبدیلی میں دلچسپی ہوتی ہے… چاہے اس تبدیلی سے ان کا کوئی تعلق کوئی واسطہ ہو یا نہ ہو۔
تین سالوں نے میری زندگی سے ”امید” اور ”یقین” نام کی چیزوں کو جڑ سے اُکھاڑ کر نکال دیا تھا… میں تصویر کا صرف تاریک رخ ہی دیکھا کرتی تھی… ہر چیز کے بارے میں بد سے بدترین انداز میں سوچتی… اور مجھے کسی بھی چیز پر یقین نہیں رہا تھا… بے یقینی کے علاوہ کسی دوسری چیز پر یقین نہیں رہا تھا۔





اگر میں Painter ہوتی اور میرے ہاتھ میں کوئی برش ہوتا تو میں اپنی زندگی کی تصویر کو سیاہ رنگ سے بناتی… صرف اتنا نہیں… بلکہ میں دنیا کی ہر شے کو سیاہ رنگ سے چھپا دیتی… تاریکی اور سیاہ رنگ ایک عجیب سی رہائی اور فرار دیتے تھے مجھے… کسی نہ کسی حد تک سکون بھی… اور روشنی… وہ تو بے پناہ اذیت کا باعث بن جاتی تھی میرے لیے… میں چمگادڑ کی طرح روشنی سے بھاگتی تھی… اور میں پتہ نہیں کس کس چیز سے بھاگنے لگی تھی۔
تین سال میں میرے پیرنٹس نے دو تین مرتبہ مجھے سائیکالوجسٹ کو دکھایا… ہر بار جب میرا رویہ ضرورت سے زیادہ عجیب اور ان کے لیے زیادہ پریشان کن ہونے لگتا تو وہ مجھے سائیکالوجسٹ کے پاس لے جاتے۔ پھر اگلے کچھ ہفتے میرے سیشنز چلتے رہتے… سائیکالوجسٹ مجھ سے وہ سب کچھ اگلوانے کی بہترین کوشش کرتا جو میں اپنے اندر کہاں دفن کر چکی تھی مجھے خود بھی پتہ نہیں تھا۔
ہر بار وہ میری خاموشی کا تجزیہ کرتا… میرے موڈ Swings پر رائے دیتا… اور ان ممکنہ وجوہات کے بارے میں بات کرتا جو میری Personality میں ہونے والے اس Disorder کا باعث ہو سکتے ہیں۔ ہر بار اس کی رائے غلط ہوتی… اور یہ صرف میں جانتی تھی… ورنہ بابا اور امی تو اس کی بات پر یقین لاتے ہوئے وہ سب کچھ کرتے جو وہ کہتا۔
سائیکالوجسٹ کا خیال تھا کہ میں اکلوتی اولاد ہوں شاید اس وجہ سے میں ڈپریشن کا شکار ہوں… اس کا یہ بھی خیال تھا کہ میں گھٹن زدہ ماحول میں رہ رہی ہوں اس لیے اس طرح کے ردعمل کا اظہار کر رہی ہوں… وہ اس کے علاوہ بھی میرے بارے میں بہت سی باتیں کہتا رہتا… بہت سے قیاس اور مفروضات… یہاں تک کہ وہ میرے ساتھ ساتھ میرے پیرنٹس کی Personality کا بھی تجزیہ کرنے لگا… کیونکہ اسے شبہ تھا کہ میرے ڈپریشن کی وجہ میرے ماں باپ کے باہمی تعلقات یا ان کے میرے ساتھ تعلقات بھی ہو سکتے ہیں۔
مجھے بعض دفعہ سائیکالوجسٹ پر ترس آتا بعض دفعہ اپنے پیرنٹس پر… میں اس تکلیف کا اندازہ کر سکتی تھی جو میرے روّیے سے انھیں پہنچتی تھی… مگر میں اس تکلیف کا مداوا نہیں کر سکتی تھی… میں Self-control کھو چکی تھی… ایک عجیب سی بے حِسی کا شکار ہو گئی تھی… چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے بھی مجھے خود کو بہت مجبور کرنا پڑتا… اور پھر وہ مسکراہٹ بھی مسکراہٹ نہیں ہوتی تھی… پتہ نہیں میرے چہرے کے ہر تاثر نے میرے دلی جذبات کا ساتھ دینا کب چھوڑ دیا تھا… وہ بس ہر ایک تک ایک ہی تاثر پہنچانے لگے تھے… ٹھنڈک اور سرد مہری کا…
**…**…**
میں نہیں جانتا تھا میری خوشی کا دورانیہ اتنا کم تھا۔ مہر کے گھر کے گیٹ سے گاڑی باہر نکالتے ہی ممی نے کہا۔ ”یہ لڑکی اس قابل نہیں ہے کہ میری بہو بن سکے۔” میرا پاؤں بے اختیار بریک پر پڑا۔
”آرام سے… ایسی کیا آفت ٹوٹی ہے تم پر؟” ممی کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا۔
”آپ مجھے اس لڑکی کے گھر صرف اس لیے لے کر گئی تھیں کہ بعد میں یہ کہہ سکیں؟” میں بے یقینی سے ان کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
”کم از کم گاڑی تو چلاؤ… بات تو گاڑی چلانے کے دوران بھی ہو سکتی ہے۔” ممی کی آواز میں بلا کی مٹھاس تھی اور میرے کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی تھیں… میں اچھی طرح جانتا تھا۔ آواز سے یک دم ٹپکنے والی شیرینی کا مطلب اور مقصد کیا ہوتا ہے اور خاص طور پر وہ اگر ماں کی آواز سے ٹپک رہی ہو تو… تو اس کا کسی بھی زبان Accent اور dialect میں ایک ہی مطلب ہوتا ہے۔ ”میں وہ نہیں ہونے دوں گی جو تم چاہتے ہو۔” میں نے برق رفتاری سے اس مٹھاس کو ڈی کوڈ کیا اور کار آگے بڑھا دی۔ واقعی بات تو گاڑی چلانے کے دوران بھی ہو سکتی تھی۔
”ہاں تو ہم کیا بات کر رہے تھے؟” ممی نے بے نیازی اور لاپرواہی کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے یوں ظاہر کیا جیسے ہم چند لمحے پہلے تک کسی انتہائی غیر اہم موضوع پر بات کر رہے تھے جو بات کرتے کرتے ان کے ذہن سے نکل گیا ہو۔
”میں آپ کو بتا رہا تھا کہ مجھے یہ لڑکی پسند ہے آپ اس سے میری شادی کر سکتی ہیں۔” میں نے ان کی بے نیازی کا جواب ویسی ہی بے نیازی سے دیتے ہوئے کہا۔ ممی کی یادداشت یک دم واپس آ گئی۔
”میں تم سے کہہ رہی تھی کہ یہ لڑکی کسی بھی صورت میری بہو بننے کے قابل نہیں ہے۔” انھوں نے کہا… بلکہ کہا نہیں… اعلان کیا۔
”مگر اس لڑکی میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو میں اپنی بیوی میں چاہتا ہوں۔” میں نے بڑے تحمل سے کہا۔
”اور نہ بھی ہوتیں تب بھی میں اس سے شادی کر لیتا کیونکہ پچھلے تین سال سے…” ممی نے میرے جھوٹ پر تاؤ کھاتے ہوئے میری بات کاٹی۔
”تین سال پہلے جب میں نے تم سے اس کا ذکر کیا تھا تب تو تم نے کہرام مچا دیا تھا۔”
”ہاں مگر بعد میں مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور Canada میں اپنے قیام کے دوران میں نے ذہنی طور پر اپنے آپ کو اس بات کے لیے تیار کر لیا کہ مجھے وہیں شادی کرنا چاہیے جہاں آپ چاہتی ہیں۔” میں نے سعادت مندی کی انتہا کرتے ہوئے کہا۔ مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس سٹیج پر ایسی سعادت مندی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
”بس پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔” ممی نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”تم میری مرضی سے شادی کرو گے تو میں تمھارے لیے چاند سی بہو لاؤں گی۔” ممی نے خلابازوں جیسے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”مگر مجھے اسی زمینی مخلوق میں زیادہ دلچسپی ہے جسے ہم ابھی دیکھ کر آئے ہیں۔” میں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

دربارِدل — قسط نمبر ۱

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!