دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

”اچھا اور تم تو بڑی فرمانبردار اولاد ہو ماں باپ کی کہ فوراً گردن ہلاتے ہوئے ان کی خواہش پوری کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہو۔”
”یار میں اکلوتی اولاد ہوں اپنے ماں باپ کی ان کے بڑے ارمان ہیں میرے لیے۔” میں نے کہا۔
”ان کے ہمیشہ سے ہی بڑے ارمان تھے تیرے لیے جن پر تو نے ہمیشہ پانی پھیرا ہے پھر آخر اب کیا تکلیف ہو گئی ہے تجھے کہ سعادت مندی کا ڈرامہ کر رہا ہے۔” وہ متاثر ہوئے بغیر بولا۔
”ڈرامہ نہیں کر رہا… بتایا تو ہے تجھے کہ مجھے محبت ہو گئی ہے۔”
”نقلی والی تو تجھے پہلے ہی سینکڑوں بار ہوئی ہے اور اصلی والی کے تو قابل نہیں ہے۔” اس نے میری بات کاٹ کر کہا۔
”تو مان یا نہ مان بہرحال اس بار مجھے واقعی اصلی محبت ہو گئی ہے۔”
”اچھا… اور وہ کون سی لڑکی ہے جس کی زندگی برباد کرنے کا فیصلہ کیا ہے تم نے۔”
”اس کا نام مہر ہے۔” میں نے اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”یہ نام تو نے خود رکھا ہے؟” وہ مشکوک ہوا۔
”نہیں یار… اس کا نام واقعی مہر ہے۔” میں نے جلدی سے کہا۔
”میں نے اسے لبرٹی بکس میں دیکھا تھا۔” میں نے بتانا شروع کیا۔
”سمجھو Love at first sight ہوا۔”
”ہمیشہ کی طرح۔” اس نے لقمہ دیا۔
میں نے اس کی بات کو نظر انداز کیا۔ ”اور اتفاق دیکھو کہ ممی پچھلے تین سال سے اسی ایک لڑکی کے ساتھ میری منگنی کرنے کی کوشش کر رہی تھیں اور میں مان نہیں رہا تھا۔” میں نے ایکسائیٹڈ ہوتے ہوئے بتایا۔
”اور اب تین سال کے بعد ممی زبردستی مجھے اس لڑکی کے گھر اسے دکھانے کے لیے لے گئیں اور میں تو وہاں جا کر ہکا بکا ہو گیا۔ میرے تو خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ مجھے وہاں ملے گی۔”
”پھر۔” مومی نے تھوڑی سی دلچسپی لی۔
”پھر بس اب شادی ہو رہی ہے۔”
”یقینا خوبصورت لڑکی ہوگی۔” اس نے تبصرہ کیا۔
”وہ تو ظاہر ہے۔”
”اور فیشن ایبل بھی۔”
”ہاں یار… تجھے پتہ تو ہے میری پسند کا۔” میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”وہ بالکل ویسی ہی ہے جیسی بیوی ہمیشہ سے میری آئیڈیل رہی ہے۔”
”چل پھر عیش کر۔” اس نے کہا۔
”وہ تو میں کروں گا مگر تو پاکستان آنا۔”
”یار تیری سوئی بس میرے پاکستان آنے پر ہی کیوں اٹک گئی ہے؟” وہ جھلاّیا۔
”ٹھیک ہے اگر میری شادی پر نہیں آؤ گے تو کل کو میں تمہاری شادی پر بھی نہیں آؤں گا۔” میں نے اسے دھمکایا۔
”یہ ابھی بہت دور کی بات ہے اس لیے اس دھمکی کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔” مومی نے اطمینان سے کہا۔
”ویسے میں کوشش کروں گا کہ تمہاری شادی پر پاکستان آ ہی جاؤں اور اگر اس سال نہ آ سکا تو پھر اگلے سال ہی آ سکوں گا۔”
”تو کوشش تو کر ہو سکتا ہے چھٹی مل ہی جائے۔” میں نے ایک بار پھر اصرار کیا۔
”ہاں کوشش تو میں کروں گا ہی مگر مجھے کچھ زیادہ امید نہیں ہے۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”تم اپنی شادی کی تصویریں مجھے بھجوانا… اگر میں نہ آ سکا تو۔”
”فی الحال تو میں صرف تمھارے آنے کا ہی انتظار کروں گا… تصویروں کی بات مت کرو۔” میں نے اسے ٹوکا۔ وہ ہنسنے لگا۔
……***……





نسبت طے ہونے کے چند ہفتوں کے اندر وہ میری بیوی بن کر میرے گھر پر تھی۔
وہ میری زندگی کا خوبصورت ترین دن تھا جس لڑکی کو لبرٹی بکس میں ایک نظر دیکھ کر میرا دل چاہا تھا کہ وہ میری ہو جائے وہ میری ہو گئی تھی اور اب جب وہ وہاں میرے سامنے بیڈ پر بیٹھی تھی تو مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ زندگی واقعی ناقابل یقین شے ہے۔
اس رات میں نے مہر سے جی بھر کر باتیں کیں اسے بتایا کہ میں نے اسے پہلی بار کہاں دیکھا تھا… کیسے اس کے گھر میں اسے دوبارہ دیکھ کر میں خوشی سے بے قابو ہو گیا تھا… اس سے شادی کے لیے مجھے کتنے جتن کرنے پڑے تھے… میں نے اسے سب کچھ بتایا… اپنے دل کی حالت… آئندہ آنے والی زندگی کے حوالے سے میرے منصوبے… میرے خواب، خواہشات سب کچھ…
پھر یک دم مجھے احساس ہوا کہ وہ بالکل خاموش ہے… خاموشی اتنی حیران کن بات نہیں تھی ظاہر ہے وہ پہلی ہی رات مجھ سے اس طرح باتیں تو نہیں کر سکتی تھی جیسے میں کر رہا تھا… مگر وہ تو مسکرا تک نہیں رہی تھی۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا… یا شاید جو تاثر اس کے چہرے پر تھا وہ میں پڑھنے سے قاصر تھا۔
میں نے اصرار کیا کہ وہ کچھ بولے اور اس نے جواباً جو کہا اس نے کچھ دیر کے لیے مجھے گونگا کر دیا۔ ”میرے پاس آپ کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے آپ پھر بھی کچھ جاننا چاہتے ہیں تو سوال کریں میں آپ کو جواب دے دوں گی۔” اس کی بات سے زیادہ اس کے انداز نے مجھے چونکایا کیا واقعی اس کے پاس مجھے خود سے بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا اور اگر نہیں تھا تو کیوں نہیں تھا۔
**…**…**
وہ حیرانگی سے میرا چہرہ دیکھ رہا تھا اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری بات اسے اتنا حیران کرے گی۔
کچھ دیر وہ اسی طرح مجھے دیکھتا رہا پھر اس نے کچھ اور کہنے کی بجائے ایک ڈائمنڈ رِنگ میرے ہاتھ میں پہنا دی۔ ”تمھیں یہ اچھی لگی؟” اس نے مجھے اس رِنگ پر نظر جمائے دیکھ کر پوچھا۔ ”ہاں۔” میں نے یک لفظی جواب دیا۔ وہ مسکرایا اور ایک بار پھر باتیں کرنے لگا۔ مجھے اس کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے اپنے حسن کے قصیدے سننے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور مجھے اس کے اظہار محبت میں بھی دلچسپی نہیں تھی۔
اسے اور مجھے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر کیے جانے والے دو دستخطوں نے اکٹھا کیا تھا اور میں نے اس کاغذ پر دستخط کر کے یہ قبول کیا تھا کہ وہ میرا شوہر ہے جس کے ساتھ میں زندگی گزاروں گی جسے میرے جسم پر اختیار ہوگا، اس جسم پر جسے اپنے گھر لانے کے لیے اس نے بھی اس کاغذ پر دستخط کیے۔ دل کے اندر لا بٹھانے کے لیے مجبور نہیں ہونا پڑے گا… کیونکہ اس کو میرے دل میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
……***……
اور زندگی کے 26 ویں سال مراد علی کو بالآخر عشق نام کی بیماری نے شکار کر ہی لیا تھا اور اس سے بھی مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی سے عشق کرنے والا دنیا کا پہلا مرد ہوگا… لیکن میں کرتا کیا… مہر نے مجھے اس قدر بے بس کر دیا تھا کہ اس کے علاوہ میرے ذہن میں کچھ آتا ہی نہیں تھا۔ لبرٹی بکس پر ایک بار دیکھے جانے کے بعد اگر وہ نہ ملتی تو شاید میں کچھ عرصہ کے بعد اسے بھول جاتا پر اب جب وہ میری زندگی میں شامل ہو گئی تھی تو میں 24 گھنٹے اس کے بارے میں سوچتا تھا… ہر بار جب میں اسے دیکھتا تو وہ مجھے پہلے سے زیادہ خوبصورت لگتی۔ ہر بار جب وہ ایک نیا لباس پہن کر میرے سامنے آتی تو نئے سرے سے میرے ہوش اڑا دیتی۔ پہلے مجھے لگتا تھا اس پر سیاہ رنگ ہی قیامت اٹھاتا ہوگا۔ مگر بعد میں مجھے احساس ہوا کہ اس پر ہر رنگ یونہی دو آتشہ ہوتا ہے… وہ ہر رنگ کو آگ لگا دیتی تھی۔
شادی کے شروع کے دنوں میں میں خود کو خوش قسمت ترین مرد سمجھتا تھا۔ اپنی مرضی اور پسند کی لڑکی سے شادی کے بعد ہر مرد انھیں احساسات سے گزرتا ہے۔
میں اسے ہنی مون کے لیے بھوربن لے کر گیا تھا اور وہاں اپنے دو ہفتے کے قیام کے دوران مجھے مہر کے بارے میں بہت عجیب سا احساس ہوا… اس سے گفتگو شروع کرنا جتنا مشکل کام ہوتا تھا اسے جاری رکھنا اس سے زیادہ مشکل کام تھا… وہ بعض دفعہ ایسا جواب دیتی تھی کہ میں اگلے کئی منٹ کچھ کہہ ہی نہیں پاتا تھا… یوں لگتا جیسے وہ ایک اچھے مہذب جملے میں لپیٹ کر مجھے کہہ رہی ہو… Shut up… اور میں منہ بند کر لیا کرتا تھا۔
PC بھوربن میں پہلی رات قیام کے دوران میں نے ڈنر کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔ ”تم نے جب اس شام مجھے اپنے گھر پر دیکھا تھا تو تمھیں کیا احساس ہوا تھا؟”
”کس شام؟”
”جب میں تمھیں دیکھنے آیا تھا؟”
”کوئی احساس نہیں ہوا تھا… آپ مہمان تھے۔” اس نے بہت سادہ سے لہجے میں کہا۔
”مگر میں تمھیں کیسا لگا تھا؟” میں نے اشتیاق سے اس سے پوچھا۔
”میں نے آپ پر غور نہیں کیا تھا۔” مجھے ایک دھچکہ سا لگا… میں اتنی عام سی شکل و صورت کا مالک تو نہیں تھا کہ مجھ پر غور ہی نہ کیا جاتا اور وہ بھی اس صورت میں جب ایک لڑکی یہ جانتی ہو کہ اس سے میری ملاقات اسی ”غور” کے لیے کروائی جا رہی تھی۔ مجھے مہر کی بات پر یقین نہیں آیا لیکن اگر وہ یہ کہہ رہی تھی کہ اس نے غور نہیں کیا تو میں اس سے یہ کیسے منواتا کہ اس نے غور کیا تھا۔
”اچھا… اور بعد میں جب میرے ہاں سے تمھارے لیے پروپزل آیا… تب؟” میں نے ہمت نہ ہارتے ہوئے کہا۔
”تب کیا؟” وہ کھانا کھاتے کھاتے رکی۔
”تب تمھیں کیا احساس ہوا تھا؟”
”کس بارے میں؟” اس نے اسی انداز میں پوچھا۔
”میرے بارے میں۔” مجھے لگا میں اپنے آپ کو کہیں نیلامی کے لیے پیش کر رہا تھا۔
”کوئی احساس نہیں ہوا تھا۔” اس کا لہجہ اور انداز اب بھی اتنا ہی بے تاثر تھا۔ وہ دوبارہ چاول کھا رہی تھی۔ میں بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا۔
”تب بھی کوئی احساس نہیں ہوا تھا جب تمھیں پتہ چل گیا تھا کہ تمہاری شادی مجھ سے ہو رہی ہے؟”
”نہیں۔” اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
یہ ہمارے ہنی مون کا ”فارمل آغاز” تھا۔ مگر اس بار میں برداشت نہیں کر سکا میری بھوک یک دم اڑنچھو ہو گئی۔ ”میں نہیں مانتا… کچھ نہ کچھ تو سوچا ہوگا تم نے میرے بارے میں؟… آخر کیا سوچ کر تم نے میرا پرپوزل قبول کیا تھا؟” ”میں نے نہیں کیا تھا… میرے پیرنٹس نے کیا تھا۔”
”مطلب… تم کہیں اور شادی کرنا چاہتی تھی؟” میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی۔
اس کے ایک جملے سے۔ ”میں نے یہ تو نہیں کہا۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔ ”پھر تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟” میری تشویش ابھی بھی کم نہیں ہوئی تھی۔
”میرے پیرنٹس نے کہیں نہ کہیں تو میری شادی کرنی تھی سو آپ سے کر دی۔” وہ جس بات کو اتنے عام سے انداز میں کہہ رہی تھی وہ اتنے عام سے انداز میں کہنے والی نہیں تھی۔ یعنی مجھ سے اس لیے شادی کی گئی کہ کہیں نہ کہیں شادی کرنی تھی۔ اور اس کہیں نہ کہیں میں ایک مراد علی کا گھر بھی تھا… اس سے پہلے کسی نے مراد علی کی اتنی بے قدری اور بے توقیری نہیں کی تھی۔
میں اگلے تین گھنٹے خاموش رہا تھا جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کرتا رہا مگر پھر مجھے احساس ہوا کہ میں اگر یہ توقع کر رہا تھا کہ وہ کوئی معذرت کرے گی یا مجھے منائے گی تو میں غلط توقع کر رہا تھا۔ اس نے تو شاید … محسوس نہیں کیا تھا کہ اس کی بات مجھے بری لگی تھی… اور میں کم از کم وہاں دو ہفتے صرف اس بات پر ناراض ہو کر خاموش رہنے کے لیے نہیں آیا تھا… آخر یہ ہمارا ہنی مون تھا۔
……***……




Loading

Read Previous

دربارِدل — قسط نمبر ۱

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!