دانہ پانی — قسط نمبر ۴

وہ سیدھا آگے آیا تھا اور چوہدری شجاع کے پیروں میں ان کے پیر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔
”ایک بار چوہدری مراد کی جان بچائی تھی میں نے اور آپ نے کہا تھا، بڑا احسان کیا ہے میں نے آپ پر اور جب چاہوں اُس احسان کا بدلہ مانگنے آسکتا ہوں اور جو بھی مانگوں گا آپ انکار نہیں کریں گے تو آج اسی احسان کا بدلہ مانگنے آیا ہے گامو۔ موتیا کو اپنی بیٹی بنالیں، چوہدری مراد کے ساتھ اس کی شادی کردیں۔”
گامو نے چوہدری شجاع کے پیروں میں بیٹھ کر روتے ہوئے جو کہا تھا اُس نے چوہدری شجاع کو باندھ کر رکھ دیا تھا۔ وہ سارے جملے اور لفظ بھک سے اس کے دماغ سے غائب ہوگئے تھے جو اس نے گامو کو سمجھانے کے لئے سوچ کر رکھے ہوئے تھے۔
حقّے کی نے گڑگڑاتے ہوئے چوہدری شجاع جیسے کوئی جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرنے میں لگے رہے اور اپنے پیروں پر وہ گامو کے آنسووؑں کی نمی محسوس کرتے رہے۔
ایک لمبی خاموشی کے بعد چوہدری شجاع نے حقّے کی نے ہونٹوں سے ہٹائی تھی۔
”ٹھیک ہے گامو ! تجھ کو جو زبان دی تھی اس سے پھروں گا نہیں میں۔ آئیں گے موتیا کا رشتہ لینے اور بس دنوں میں شادی کرکے لے جائیں گے۔”
گامو نے سراٹھا کر چوہدری شجاع کا چہرہ دیکھا تھا اور اس پر جیسے شادیٔ مرگ طاری ہوگئی تھی۔ وہ کچھ بولنا چاہتا تھا اس سے بولا نہیں گیا۔ ہنسنا چاہتا تھا پر ہنسا نہیں گیا ۔ رونا چاہتا تھا پر رویا بھی نہیں گیا۔ چوہدری شجاع شاید اس کی کیفیت جان گئے تھے، وہ نرمی سے اُسے تھپک کر اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مراد کو بتول کی بات سمجھ میں ہی نہیں آئی تھی۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ کس کا رشتہ گیا ہے موتیا کے لئے؟”
وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے باہر سے اپنے کمرے میں آیا تھا جب بتول اس کے کمرے کا دروازہ بجاکر اندر آگئی تھی اور مراد حیران ہوا تھا۔ حویلی میں کسی مرد کی موجودگی میں کوئی بھی ملازمہ اس کے کمرے میں نہیں جاتی تھی اور یہاں وہ دن دیہاڑے آکر اس کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی اور پھر اُس نے چوہدری مراد کو جو بتانا شروع کیا تھا اس نے اسے کنفیوز کردیا تھا۔
”چوہدرائن اور چوہدری صاحب جی نے میرے چاچے کے بیٹے کا رشتہ موتیا کے گھر بھیجا ہے۔ سعید سے میں پیار کرتی ہوں چوہدری جی اور بچپن سے کرتی ہوں۔ میرے ساتھ ظلم نہ ہونے دیں۔”
وہ بتول کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے کہا:
”کچھ نہیں ہوگا۔ تو جا یہاں سے۔” بتول نے اس کے ساتھ مراد کو دیکھا تھا۔
”آپ مجھے زبان دے رہے ہیں نا چوہدری جی؟”
”ہاں! زبان دے رہا ہوں۔ تیرے چاچے کے بیٹے کے ساتھ نہیں ہوگا موتیا کا رشتہ۔ تیرے ساتھ ہی ہوگا۔ ” بتول کو لگا جیسے کسی نے اس کے سینے سے ایک پتھر ہٹالیا تھا پر اسے اندازہ نہیں تھا وہ پتھر اب مراد کے سینے پر آگیا تھا۔ وہ بتول کے جانے کے بعد سیدھا تاجور کے کمرے میں پہنچ گیا تھا۔
”آپ نے سعید کا رشتہ موتیا کے گھر بھیجا ہے؟” اس نے آتے ہی ماں سے کہا جو اپنی الماری کھولے اپنے کپڑے نکال رہی تھی۔ تاجور نے پلٹ کر بیٹے کو دیکھا پھر بڑے اطمینان سے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے اس نے کہا:
”تجھے کس نے بتایا؟”
”مجھے بتول نے بتایا ہے ۔ وہ سعید سے پیارکرتی ہے اور آپ نے سعید کا رشتہ موتیا کے لئے بھجوادیا۔” وہ بے حدخفگی سے تاجور سے بات کررہا تھا اور تاجور بڑے اطمینان کے ساتھ اپنا کام کرتے ہوئے اس کی بات سنتی رہی۔ جب اس نے اپنی بات مکمل کرلی تو اس نے کہا:
”تجھے بتول نے کہا کہ سعید کا رشتہ ہم نے بھجوایا ہے تو تو ماں سے پوچھنے آکھڑا ہوا ہے حالانکہ یہ سوال تجھے موتیا سے کرنا چاہیے تھا۔” مراد ماں کی بات اور انداز پر اُلجھا تھا۔
”اس سے پوچھنا چاہیے تھا کہ تمہارے ساتھ چکر چلا کر وہ سعید کے رشتے پر غور کیوں کررہی ہے؟”
”امّی! میں سمجھ نہیں رہا آپ کی بات کو۔” مراد کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ تاجور سے کیا پوچھے۔
”جب بتول سعید سے پیا ر کرتی ہے تو موتیا کو بھی پتہ ہوگا پھر اس نے کیوں آنے دیا سعید کے ماں باپ کو اپنے گھر؟” تاجور نے تیکھے انداز میں اس سے کہا۔
”آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟”
”میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ موتیا تجھے بے وقوف بناسکتی ہے تو سعید کو کیوں نہیں بناسکتی؟اختر کو نہیں بناسکتی؟ شریف کو نہیں بناسکتی؟” ایک لمحے کے لئے ان جملوں پرمراد بول ہی نہیں سکا۔
”امّاں آپ موتیا کے کردار پر کیچڑ اچھال رہی ہیں۔ ایسا مت کریں۔” اس نے ماں کو سختی سے ٹوکا تھا اور اس کی ماں ہنسی تھی۔
”مجھے کیا ضرورت ہے موتیا پر کیچڑ اُچھالنے کی۔ اس کام کے لئے وہ خود کافی ہے۔ چار دنوں میں تجھے پاگل کردیا۔ لندن میں پڑھنے لکھنے والے بیرسٹر کو تو سوچ گاوؑں کے سیدھے سادے لڑکے تو اس کے سامنے پانی بھرتے ہوں گے۔ اور میں نہیں کہتی کہ بس موتیا ہی خراب ہے۔ گاوؑں کی کمی کمینوں کی لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں مراد۔ درجنوں لڑکوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے ان کا اسی لئے تو دو منٹ لگتے ہیں انہیں کسی بھی لڑکے کو پھنسانے کے لئے۔ تو جاکر موتیا سے پوچھ کہ سعید کون ہے اور اُسے کیسے جرأت ہوئی اس کے لئے رشتہ بھیجنے کی۔ اور بتول کو تو پتہ ہی اب چلا ہوگا کہ اس کی سہیلی اسے بھی دھوکہ دے رہی تھی۔”
تاجور کو بیٹے کے چہرے پر کئی رنگ آتے نظر آئے تھے اور جب اُس کی خاموشی سے اسے یقین ہوگیا تھا کہ وہ اس کی باتوں میں آگیا تھا تب مراد نے کہا تھا:
”امّاں ساری دُنیا کی لڑکیوں کا کردار ایک طرف اور موتیا ایک طرف۔ آپ میری ماں نہ ہوتیں تو میں یہ سب کہنے والے کی زبان کھینچ لیتا یا دوبارہ اس کی شکل ہی نہ دیکھتا۔ پر آپ ماں ہیں آپ کے سامنے میں صرف ہاتھ جوڑ سکتا ہوں کہ آپ یہ نہ کہیں۔ آپ جو بھی کہہ لیں جو بھی کرلیں وہ میرے دل سے نہیں نکلے گی۔ ”
تاجور کو لگا وہ اس وقت ریت کے مجسمے کی طرح بھربھراکر بکھری تھی۔ کیا تھی یہ موتیا کہ اس کا بیٹا ماں کو جھوٹا کہہ رہا تھا۔ کسی ثبوت اور گواہی کے بغیر بھی موتیا کو سچا مان رہاتھا۔
تاجور کا بس چلتا تو وہ اس لمحے کسی جن کی طرح موتیا کو مکھی بنادیتی اور مکھی بناکر بھی دیوار سے نہ چپکاتی اسے اپنے پاوؑں کے نیچے مسلتی۔
”آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ نے سعید کا رشتہ نہیں بھجوایا تو میں مان لیتا ہوں لیکن میں خود بات کروں گا سعید اور سعید کے باپ سے کہ وہ کیوں گئے ہیں موتیا کے گھر؟”
وہ کہہ کر وہاں سے نکل گیا تھا۔ اور تاجور کا دل چاہا وہ اس الماری کا ہر کپڑا نکال کر دوبارہ کھول کھول کرپھینکے جنہیں اس نے ابھی تہہ کرکرکے رکھا تھا۔ وہ اس کی اکلوتی اولاد تھی اور وہ اس کے سامنے موتیا کا کلمہ پڑھ کے گیا تھا۔
…٭…
اللہ وسائی بڑی ہمت کرکے موتیا کے کمرے میں آئی تھی اتنے سالوں میں بیٹی کی آنکھ میں آنسو اس نے کبھی آنے ہی نہیں دیئے تھے اور اب جس وجہ سے وہ آرہے تھے! اللہ وسائی کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
موتیا نے ماں کو چوکھٹ میں کھڑے دیکھا تھا اور اس نے دو پٹے سے اپنا چہرہ رگڑ کر صاف کیا تھا۔ اللہ وسائی پاس آکر بیٹھ گئی تھی۔
”گامو کہہ کر گیا ہے تو رو مت وہ چوہدری کو منالے گا۔” موتیا نے اپنی سادہ لوح اور سادہ دل ماں کو دیکھا جو پہاڑ سے نہر نکالنے کا خواب دکھا رہی تھی اُسے۔
”میں اس لئے نہیں رو رہی امّاں، میں اس لئے رو رہی ہوں کہ میری وجہ سے گاوؑں میں آپ دونوں کا سر نیچا ہوا۔ عزت پر حرف آیا۔ موتیا مرجاتی تو یہ نہ ہوتا۔”
وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی اور اللہ وسائی تڑپ اُٹھی تھی۔
”لے بھلا یہ کیا کہہ رہی ہے تو؟ تو تو ہماری سوہنی دھی ہے اللہ نہ کرے تجھے کبھی کچھ ہو۔ تجھے تو ہماری حیاتی لگ جائے۔ ارے جھلیے ہوجاتا ہے پیار، کوئی گناہ تھوڑی کردیا ہے تونے۔” اللہ وسائی پتہ نہیں کیا کیا لفظ اور توجیہات ڈھونڈ ڈھونڈ کر موتیا کو تسلی دے رہی تھی۔ اُس کا دل بہلارہی تھی، آنسو خشک کرنے کی کوشش کررہی تھی بالکل اسی طرح جس طرح وہ بچپن میں اُسے لوریاں دیا کرتی تھی اور لوریاں سن کر وہ یا ہنسنے لگتی یا سوجاتی پر اب وہ بس ماں کا چہرہ ہی دیکھتی رہی تھی۔
”تونے کیا سرنیچا کرنا ہے ہمارا موتیا، تو تو وہ وجہ ہے جو ہمارے جینے کا آسرا بنی ہے۔ تجھے سوغلطیاں، سو خون، سو گناہ معاف کرسکتے ہیں میں اور تیرا ابّا۔ تیرے لئے اللہ نے ہمارے سینوں میں دل نہیں سمندر ڈال دیاہے۔”
وہ اسے ساتھ لگا کر جیسے لوری دینے لگی تھی اور موتیا بچپن ہی کی طرح سنبھل رہی تھی، بہل رہی تھی، اس کے آنسو تھمنے لگے تھے۔
”امّاں میں اب کبھی مراد کا نام نہیں لوں گی۔”
اس نے اپنے آنسو پونچھنے کے بعد جیسے ماں کو حلف دیا تھا۔ بالکل اس طرح جس طرح بچپن میں مراد کا سکول چھٹنے کے بعد اس نے دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ اللہ وسائی کچھ کہتی، باہر سے گامو کی اونچی اونچی آوازیں آنے لگی تھیں۔ وہ دونوں کو پکار رہا تھا اور پکارتا ہی جارہا تھا۔ اللہ وسائی کچھ گھبرائی ہوئی اُٹھ کر باہر بھاگی تھی اور موتیا بھی اس کے پیچھے لپکتی ہوئی گئی۔
”چوہدری صاحب مان گئے ہیں۔ کہہ رہے ہیں رشتہ لے کر آئیں گے چوہدرائن کے ساتھ اور بس پھر دنوں میں لے جائیں گے موتیا کو مراد کی دُلہن بناکر۔”
گامو نے اللہ وسائی کو دیکھتے ہی ایک ہی سانس میں اُسے جو خوشخبری سنائی تھی۔ اللہ وسائی کو اس پریقین آیا تھا نہ موتیا کو جس نے دم سادھے گامو کو دیکھا تھا جو اب صحن میں ناچتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”ڈھولک رکھ اللہ وسائی! مٹھائی منگوا، لوگوں کو بلا، دیکھ ہمارے گھر خوشیاں آرہی ہیں۔ شہزادہ آرہا ہے ہماری پریوں جیسی بیٹی کو بیاہ کر لے جانے کے لئے۔”
گامو ناچنا جارہا تھا اور کہتا جارہا تھا۔ اللہ وسائی اور موتیا ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔ بے یقینی کے ساتھ۔ یہ ہوگیا تھا تو کیسے ہوگیا تھا؟
…٭…
چوہدری شجاع کی بات پر تاجور کا دماغ جیسے گھوم کر رہ گیا تھا۔
”آپ نے گامو کو کہہ دیا کہ ہم رشتہ لے کر آئیں گے ۔ چوہدری صاحب آپ مذاق کررہے ہیں؟”
تاجور کو یقین تھا یہ مذاق کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ وہ تو ابھی کل تک اس کے ساتھ مل کر سعید سے موتیا کا رشتہ کروانے کے چکروں میں تھا اور اب اسے راتوں رات کیا ہوگیا تھا۔
”گامو نے مراد کی جان بچائی تھی اور میں نے تب زبان دی تھی اُسے کہ وہ اس احسان کا بدلہ جو بھی مانگے گا میں دوں گا اُسے اور آج وہ اسی احسان کا بدلہ مانگنے آیا تھا اور میں نہ نہیں کرسکا۔ نہ کردیتا تو پھر دوبارہ کوئی چوہدریوں کی زبان پر اعتبار نہ کرتا۔”
چوہدری شجاع نے اپنا کُھسہ اُتارتے ہوئے اُسے بتایا تھا۔ وہ گھر میں کھانا کھا کر آرام کرنے آیا تھا جب اُس نے تاجور پر یہ قیامت توڑی تھی۔
”آپ کی زبان ایک ماں کی مرضی سے زیادہ بڑی ہوگئی؟” تاجور نے صدمے کی کیفیت میں کہا تھا۔
”ہاں تاجور! زبان ہر چیز سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ تو اب بیٹے کی مرضی کے سامنے سرجھکا دے۔”
”وہ تو میں مرکر بھی نہ کروں ۔ زبان آپ نے دی ہوگی میں نے نہیں۔”تاجور نے اُکھڑے ہوئے لہجے میں چوہدری شجاع سے کہا تھا۔
”میں دو چار دن میں اس کا رشتہ مانگنے جارہا ہوں۔ مراد کو بتادیا ہے میں نے۔ تونے ساتھ چلنا ہے تو چل نہیں تو میں خود ہی اکیلا سب طے کرآوؑں گا۔ اب تو زہر کھا یا نہ کھا، دس تاریخ کو مراد کی بارات لے جاؤں گا میں موتیا کے گھر۔”
چوہدری شجاع نے دوٹوک انداز میں کہا اور چلے گئے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

کسک — حسنین انجم

Read Next

سوئٹو کا محافظ — عمارہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!