پرویز ہنسا تھا۔ موتیا دہلیز سے اندر آگئی اور گامو کے کچھ کہنے سے پہلے اس نے پرویز سے کہا تھا۔
”چاچا! میں نے سعید سے شادی نہیں کرنی۔” پرویز اس کے جملے پر جیسے حیران ہوا تھا۔ اس نے گامو کا منہ دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”رشتوں کی باتوں میں دھیاں نہیں بولتیں موتیا۔ میرا تو سعید بھی چپ بیٹھا رہا میری بات سن کر۔” پرویز نے جیسے گامو کو کچھ کہنے کے لئے اُکسانے کی کوشش کی تھی۔
”سعید کا رشتہ بتول سے کردیں آپ کیونکہ وہ بتول کو پسند کرتا ہے۔” موتیا نے ایک بار پھر گامو کے کچھ کہنے سے پہلے پرویز سے کہا تھا اور پرویز کو جیسے مرچیں لگ گئی تھیں۔
”تیرے مشورے کی ضرورت نہیں ہے مجھے۔ میرا بیٹا ہے اور فرماں بردار بیٹا جہاں دل کرے گا اس کی شادی کروں گا میں۔ اور گامو تو منہ سے کچھ پھوٹ یا ساری باتیں تیری بیٹی ہی کرے گی مجھ سے۔” پرویز اب تپا ہوا تھا۔
”میرا بھی وہی جواب ہے جو موتیا کا ہے پرویز!”
پرویز کو کم از کم گامو سے یہ جملہ سننے کی توقع نہیں تھی! جو اس نے سنا تھا۔ اس کا خیال تھا بیٹی کچھ بھی کہہ رہی ہو، کم از کم گامو سوچنے کے لئے وقت ضرورمانگے گا۔
”اور چوہدری صاحب !ان کو کیا کہوں جاکے؟” پرویز بھی یک دم ہتھے سے اکھڑا تھا۔
”ان کو بھی جاکے میرا انکار پہنچادے اور تو کیوں جائے، میں خود بات کرلوں گا ان سے ۔” گامو نے کہا تھا اور پرویز ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔
”مجھے بھی کوئی شوق نہیں تیری عیبوں والی بیٹی کو ڈھکنے کا جس پر پورا گاوؑں تھوتھو کررہا ہے۔ یہ تو میں چوہدری صاحب کے کہنے پر لحاظ میں آگیا تھا ۔ حالانکہ تیری بیٹی اور چوہدری مراد کا نام توگاؤں کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔”
پرویز نے بے حد حقارت سے اگلے جملے بولے تھے اور اس سے پہلے کہ گامو یا اللہ وسائی کچھ کہتے، وہ ان کے گھر سے نکل گیا تھا مگر اس کے الفاظ پگھلے ہوئے سیسے کی طرح موتیا کے کانوں میں اترے تھے اور اس کے ماں باپ کی سماعتوں میں بھی۔
اس نے ساری عمر ماں باپ کو ہر ایک کے سامنے اپنی وجہ سے سر اٹھاتے ہی دیکھا تھا اور آج پہلی بار کوئی اس کے کردار پر انگلی اٹھا کر گیا تھا۔ موتیا کا دل پہلی بار ڈوب کے مرجانے کو چاہا تھا۔ وہ اپنے ماں باپ سے نظریں نہیں ملاپارہی تھی جو اسی کی طرح گم صم کھڑے تھے۔ وہ جملے ان پر بھی قیامت کی طرح بھاری تھے پر اس سے بڑا غم انہیں یہ تھا کہ وہ سب موتیا نے بھی سن لیا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
موتیا سرجھکائے اگلے کئی لمحے اسی طرح کھڑی رہی اور پھر اسی طرح سرجھکائے ہوئے وہ اندر کمرے میں چلی گئی تھی ۔ اس نے مشک اپنی پشت سے اتار کر وہیں رکھ دی تھی جہاں وہ کھڑی تھی۔ یک دم ہی وہ مشک اُسے منوں بھاری لگنے لگی تھی۔ گامو اور اللہ وسائی اُسے اندر جانے سے روک نہیں سکے تھے۔ جب وہ اندر چلی گئی توگامو نے بیوی سے کہا۔
”تجھے کہا تھا نا میں نے کہ چوہدرائن نہیں لائے گی رشتہ۔ موتیا کو جاکر کہہ دے کہ نہ روئے نہ غم کرے۔ اس کو کہنا اس کا باپ لاکر دے گا اسے وہ چیز جس سے وہ پیار کر بیٹھی ہے۔چاہے وہ چوہدری مراد ہی کیوں نہ ہو۔ بس وہ روئے نہ۔چوہدری شجاع نے مجھ سے کہا تھا تیر اایک احسان ہے مجھ پر گامو، تو نے چوہدری مراد کی جان بچائی ہے۔ جب بھی اس احسان کی قیمت لینی ہو تو آجانا۔ تو جو مانگے گا میں دوں گا۔ آج جاوؑں گا چوہدری شجاع کے سامنے اپنی جھولی پھیلاکے مانگوں گا اس سے اسی احسان کی قیمت۔”
گامو نے اللہ وسائی سے کہا تھا اور پھر وہاں رُکے بغیر باہر نکل گیا تھا۔ اللہ وسائی نے ایک نظر باہر جاتے ہوئے گامو کو دیکھا، ایک نظر اندر اُس کمرے کے دروازے کو جہاں سے موتیا گئی تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ کیا کرے۔ گامو کا انتظار کرے یا موتیا کو جاکر روتا ہوا دیکھے۔ دونوں ہی کام مشکل تھے۔ دونوں ہی کام جان جوکھوں والے تھے۔
…٭…
موتیا کے گال پر پڑتا ہوا تھپڑ شکوراں نے دیکھا تھا اور جیسے اُسی لمحے اُس نے سعید کے لئے دوبارہ بات کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا تھا۔ بتول اندر باورچی خانے میں ایک پیڑھی پر اس کے انتظار میں بیٹھی تھی اور جب شکوراں اندر آئی تو اس نے ماں کو دیکھا تھا۔
”دیکھ بتول جانے دے سعید کو، میں تیرا رشتہ کسی بہت اچھی جگہ کرواؤں گی۔ سعید کی تو کوئی اوقات ہی نہیں ہے۔” اس نے دوسری پیڑھی پر بتول کے پاس بیٹھ کر اسے مدھم آواز میں پچکارتے ہوئے سمجھانا شروع کیا تھا اور بتول نے اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی تھی۔
”یعنی چوہدرائن نے پھر انکار کردیا ہے؟” شکوراں نے اس کا چہرہ دیکھا پھر کچھ شکست خوردہ انداز میں کہا۔
”میں نے بات ہی نہیں کی دوبارہ ان کے ساتھ وہ بڑے غصّے میں ہیں۔” بتول نے یک دم ماں سے کہا۔
”ٹھیک ہے امّاں تو پھر اس مسئلے کو بتول کو حل کرنے دے۔ تیری بزدلی اور لحاظ مجھے ڈبو دے گی۔” وہ کہہ کر وہاں سے جانے لگی تھی۔
”نہ نہ بتول! چوہدرائن سے بات نہ کرنا۔ انہوں نے تو ابھی موتیا کے چہرے پر تھپڑ مارا ہے۔ وہ تم سے بھی بدتمیزی کریں گی۔” شکوراں کی جان نکل گئی تھی۔
”امّاں! میں چوہدرائن کے پاس نہیں جارہی۔ اس مسئلے کا حل ان کے پاس نہیں ہے بلکہ چوہدری مراد کے پاس ہے۔” اس نے دروازے میں کھڑے ہوکر کہا تھا اور پھر برق رفتاری سے وہاں سے چلی گئی تھی۔ شکوراں کو لگا تھا حویلی کی چھت بس اب اس کے سر پر گرنے ہی والی تھی۔
…٭…
”چوہدری صاحب میں تو آپ کے حکم پر سر کے بل دوڑتا ہوا گیا تھا گامو کے گھر پر اس کا اور اس کی بیٹی کا دماغ بڑا خراب ہے۔”
پرویز گامو کے گھر سے سیدھا حویلی آیا تھا اور اس نے چوہدری شجاع سے اکیلے میں ملنے کی درخواست کی تھی اور اب وہ اسے سب کچھ سنا رہا تھا۔
”صاف انکار کردیا دونوں نے اور گامو نے تو مجھے یہ بھی کہا کہ میں اس کا انکار آپ تک بھی پہنچاوؑں۔ میں تو اس کمی کمین کے تیور دیکھ کے حیران ہوا ہوں چوہدری صاحب۔گامو ایسے بھی بات کرسکتا ہے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ”
پرویز چوہدری شجاع سے کہہ رہا تھا اور چوہدری شجاع حقّہ ہونٹوں سے لگائے ہوئے اس کی باتوں پر کچھ سوچتے ہوئے حقے کے کش لگاتے رہے۔ انہوں نے اس مسئلے کا ضرورت سے زیادہ آسان اور سیدھا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ چوہدری شجاع نے دل ہی دل میں اعتراف کیا تھا۔
”چوہدری صاحب وہ گامو آیا ہے کہہ رہا ہے آپ سے ملنا ہے۔”
بالکل اُسی لمحے ملازم نے اندر آکر چوہدری صاحب کو گامو کے آنے کی اطلاع دی تھی اور چوہدری شجاع اور پرویز دونوں چونکے تھے۔
”ٹھیک ہے، بلاؤ اُسے اندر اور پرویز تو اب جا، تجھ سے میں بعد میں بات کروں گا۔” چوہدری شجاع نے ساتھ ہی پرویز کو جانے کا اشارہ بھی کردیا تھا۔
”چوہدری صاحب! آپ نے ٹکا کے اس کی بے عزتی کرنی ہے ۔اس نے اپنے آپ کو سمجھ کیا لیا ہے؟” پرویز نے اٹھتے ہوئے جیسے چوہدری شجاع کو اکسایا۔ وہ حقّے کی نے ہونٹوں میں دبائے اُسی طرح بیٹھے رہے، انہوں نے پرویز کی بات پر نہ ہوں کی تھی نہ ہاں ۔
اندر آتے ہوئے گامو اور پرویز کا آمنا سامنا دروازے پر ہوا تھا۔ پرویز نے اُسے تنفّر سے دیکھا تھا اور گامو نے اُسے دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});