دانہ پانی — قسط نمبر ۴

”چوہدرائن جی! آپ کو تو بتایا تھا میں نے سعید اور بتول کے رشتے کی بات تو کب سے چل رہی ہے۔ اب تو رشتہ تقریبا ً طے ہونے والا تھا اور سعید تو بتول کو بڑا پسند کرتا ہے۔ میری بتول کی بھی وہیں مرضی ہے۔” شکوراں نے اٹک اٹک کر اپنا کیس پیش کیا تھا جسے تاجور نے دو جملوں میں نپٹا دیا تھا۔
”بتول کا رشتہ میں کسی بڑی اچھی جگہ کرواؤں گی۔ ابھی تو حویلی کو مسئلہ پڑا ہے، وہ حل ہونے دو۔ پرویز کی مرضی نہ ہوتی تو وہ کہہ دیتا کہ اس نے بتول کے ساتھ بیاہنا ہے بیٹا پر اس نے تو کچھ کہا ہی نہیں۔ بس آج ان شاء اللہ جائے گا گامو کے گھر اور بات طے ہوجائے گی۔ یہ اندر رکھو گلاس۔”
تاجور نے آخری جملہ عجیب سے انداز میں کہا۔ اس نے حویلی کے دروازے سے موتیا کو مشک کے ساتھ آتے دیکھا تھا اور اُسے بتول اور شکوراں بھول گئیں تھیں۔ وہ اُٹھ کر صحن میں چلی گئی تھی اور بتول نے بے حد خفگی سے دبی آواز میں ماں سے احتجاج کیا تھا۔
”امّاں تو نے میرے لئے بس اتنا ہی کہنا تھا؟”
شکوراں نے ہونٹوں پرانگلی رکھ کر جیسے اُسے چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا۔ اُن دونوں نے موتیا کو نہیں دیکھا تھا۔ بتول پاؤں پٹختے ہوئے بڑی ناراضی سے اندر چلی گئی تھی اور شکوراں وہیں کھڑی رہی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ چوہدرائن سے اکیلے میں ایک بار پھر بات کرے گی اور تب ہی اس نے بھی موتیا کو حویلی کے صحن میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا ۔ تاجور تب تک موتیا کے قریب پہنچ چکی تھی۔
”السلام علیکم چوہدرائن جی!” اس نے تاجور کو دیکھتے ہی کہا تھا۔
”تو یہاں کیا لینے آئی ہے؟” تاجور نے کسی چوٹ کھائے سانپ کی طرح پھنکارتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
”ابّا کو بخار ہے ۔ وہ آج پانی دینے نہیں آسکتے تھے۔ اس لئے میں آئی ہوں پانی ڈالنے۔”
موتیا نے تاجور سے نظر نہیں ملائی تھی۔ اس کو اب احساس تھا کہ وہ اگر اس سے ناراض تھی تو کس وجہ سے ناراض تھی۔
”گامو! سے کہنا چوہدرائن نے اس کی مشک کا پانی پینا چھوڑ دیا ۔ اب نہ وہ یہاں کبھی پانی لے کر آئے نہ تیری ماں یہاں سے دانے لینے آئے۔” موتیا ہل نہیں سکی۔
ہتک کا عجیب سا احساس تھا جو چوہدرائن کے لفظوں نے اُسے دیا تھا۔
”تو نے سنا نہیں، میں کیا کہہ رہی ہوں؟” تاجور اس کے ساکت ہونے پر دھاڑی تھی۔
”جا یہاں سے اور اب دوبارہ کبھی اپنی شکل نہ دکھانا۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تاجور کی آواز اتنی بلند تھی کہ حویلی میں کام کرتے کئی ملازم متوجہ ہوئے تھے۔ موتیا کے ہاتھ اور پاؤں کپکپانے لگے تھے۔ اس سے پہلے اس نے کبھی ایسی بے عزتی نہیں دیکھی تھی۔ اس نے محبت ، چاہت ، قدر اور عزت کے علاوہ بچپن سے آج تک کچھ دیکھا ہی نہیں تھا ۔ نفرت کا چہرہ اس نے آج دیکھا تھا اور اس کی ہیبت سے وہ وحشت زدہ ہوگئی تھی۔ اس نے بمشکل سانس لیا اور پلٹ کر جانے لگی جب تاجور نے کہا:
”باپ ماشکی ، دادا ماشکی، سات نسلیں ماشکی، پانی بھرنے والے، اور خواب دیکھ رہے ہیں زمینوں کے مالک بننے کے، انا ج اُگانے کے، حویلی والے کہلانے کے ۔” موتیا کے قدموں کو جیسے اس کے جملوں نے زنجیر ڈال دی تھی۔
اس نے پلٹ کر تاجور کو دیکھا۔ وہ حویلی کے صحن کے بیچوں بیچ کسی سلطنت کی بے رحم ملکہ کی طرح کھڑی تھی، پورے کروفر اور جاہ و جلال کے ساتھ۔
”پانی بھی اُس کا، دانہ بھی اُس کا، وہ چاہے تو پانی والوں کو دانے والا کردے اور چاہے تو دانے والوں کو پانی کے لئے ترسا دے۔” موتیا کی آواز اونچی تھی نہ لہجہ سخت پر ان جملوں نے تاجور کو ہولایا تھا اور پھر غضب ناک کیا تھا۔ وہ آگے بڑھی اور اس نے کھینچ کر موتیا کے گال پر چانٹا مارا۔
”یہ ہے تیری اس بات کا جواب پیراں دتی، آج جاکر ماں باپ سے پوچھنا کس کی دُعاؤں کے طفیل آئی ہے تو اس دنیا میں اور کس کے احسانوں پر پلی ہے تو۔”
موتیا کے گال پر تاجور کی پانچ انگلیوں کے نشان تھے پر اس نے گال پر ہاتھ نہیں رکھا تھا۔ نہ اس چانٹے کے درد سے آنکھوں میں آجانے والے آنسوؤں کو پیا تھا۔ وہ بس تاجور کو دیکھتی رہی، پلٹی اور پھر تقریباً بھاگتے ہوئے حویلی سے نکل گئی تھی۔ اس حویلی سے نکلتے ہوئے موتیا نے ایک بار پھر سورج کو غروب ہوتے دیکھا ۔ وہ سب جیسے زوال کے وقت ہوا تھا اور پتا نہیں وہ کس کا زوال تھا۔
…٭…
”تیری عقل بھی کبھی کبھی گھاس ہی چرنے چلی جاتی ہے اللہ وسائی! موتیا کو کیوں بھیجا ہے تو نے حویلی میں پانی دینے؟ اتنا وزن اُٹھاکے کیسے اتنا چلے گی میری دھی اور پھر حویلی والے کیا سوچیں گے کہ ڈاکٹر بیٹی کو کن کاموں میں لگایا ہوا ہے گامو اور اللہ وسائی نے۔”
گامو نے بہت ناراضی سے اللہ وسائی کو کہنا شروع کیا تھا جو اس کے لئے دلیہ بناکر لائی تھی اور ناشتہ کرنے کے لئے اس نے اسے نیند سے جگایا تھا۔ گامو نے اُٹھتے ہی سب سے پہلے موتیا کا پوچھا تھا اور اب وہ ناشتہ بھول بھال کے پریشان ہورہا تھا۔
”میں نے تو روکا تھا گامو پر تجھے موتیا کا پتہ تو ہے۔ ضد کرنے لگی کہ بس میں ہی دے کے آؤں گی اور ابّا کے جاگنے تک آجاؤں گی پھر ابّا کو دوائی دوں گی، تو یخنی بناابّا کے لئے۔ وہ بخار میں ہمیشہ یخنی پیتا ہے۔” اللہ وسائی نے گامو سے کہا تھا۔ اس سے پہلے کہ گامو کچھ کہتا باہر کا دروازہ کسی نے زور سے بجایا تھا۔
”دیکھ، کتنی لمبی عمر ہے، ابھی نام لیا۔ ابھی آبھی گئی۔” اللہ وسائی نے مطمئن سے انداز میں کہا اور باہر جانے لگی تو گامو نے اُسے روک دیا۔
”میں دیکھتا ہوں اسے جاکر ۔ طبیعت ٹھیک ہے اب میری۔” وہ کہتے ہوئے اٹھ کر باہر نکلا اور اس نے دروازہ کھول دیا۔
موتیا کے بجائے دروازے پر پرویز کو کھڑا دیکھ کے وہ حیران رہ گیا تھا۔
”سلام گامو!” پرویز بڑی گرم جوشی سے اس سے ملا تھا اور گامو بڑی حیرانی سے۔
”تجھ سے کچھ بات کرنی ہے۔ اندر چل کے بیٹھتے ہیں۔” پرویز کی اگلی بات پر وہ جیسے اور حیران ہوا تھا۔
”ہاں ہاں پرویز بھائی! آجائیں اندر۔”
وہ کہتے ہوئے اسے لے کر اندر آگیا تھا۔ صحن میں پڑی چارپائی کو سیدھا کرکے وہیں ڈالتے ہوئے گامو نے اللہ وسائی کو آواز دی اور لسی لانے کے لئے کہا۔
”نہ نہ گامو! میں ناشتہ کرکے آیاہوں اور لسی بھی پی کر آیا ہوں ۔ بس تو بیٹھ کر بات سن لے میری۔” پرویز نے فوراً سے پیشتر اسے منع کرتے ہوئے کہا تھا۔
”ہاں ہاں پرویز بھائی! تو کر بات ۔” گامو نے چارپائی پر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
”چوہدری شجاع نے مجھے بھیجا ہے تمہارے گھر سعید اور موتیا کے رشتے کے لئے۔ میں تو جی جان سے راضی ہوں ۔ تو بتا تیری کیا مرضی ہے؟ بیٹا میرا گبھرو جوان ہے۔ پڑھا لکھا بھی ہے تھوڑا بہت اور اتنی بڑی کمپنی میں کام کرتا ہے کویت میں۔ تیری دھی کو بڑا خوش رکھے گا۔”
پرویز بولتا ہی چلا گیا تھا ۔ اُس نے گامو کے چہرے کے تاثرات دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ یوں جیسے اُسے یقین تھا کہ گامو خوشی خوشی فوراً سے پہلے اسی بات پر ہاں کردے گا۔ پر گامو گم صم اسے نہیں دروازے کی دہلیز پر کھڑی موتیا کو دیکھ رہا تھا جو بالکل اُس ہی وقت گھر میں داخل ہوئی تھی اور اس نے دہلیز پر کھڑے کھڑے پرویز کی ساری باتیں سنی تھیں اور جیسے ہل ہی نہیں پارہی تھی۔ کچھ یہی حال اللہ وسائی کا بھی تھا جوبرآمدے میں کھڑی تھی۔ پرویز نے بھی بالکل اُسی وقت موتیا کو دیکھ لیا تھا اور اس نے بڑی خوش دلی سے ہنستے ہوئے کہا تھا:
”لو موتیا بھی آگئی۔ ماشاء اللہ میں نے تو آج بڑے سالوں بعد دیکھا ہے۔ ٹھیک کہہ رہی تھی تیری بھرجائی کہ ماشاء اللہ بڑے رنگ روپ والی ہے۔ میرے سعید کے ساتھ اس کی جوڑی بڑی سجے گی۔ ”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

کسک — حسنین انجم

Read Next

سوئٹو کا محافظ — عمارہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!