موتیا فجر کی اذان پر اُٹھ کر وضو کرنے باہر صحن میں آئی تھی جب اُس نے اللہ وسائی کو مشک اُٹھاتے دیکھا۔
”امّاں! آج آپ کیوں اُٹھا رہی ہیں مشک؟ ”وہ حیران ہوئی تھی۔
”تیرے ابّا کو بڑا تیز بخار ہے پھر بھی کہہ رہا تھا میں جاتا ہوں پانی بھرنے۔ میں نے کہا لیٹا رہ، میں دے آتی ہوں پانی حویلی میں۔ پنڈوالوں کی خیر ہے ۔”اللہ وسائی نے اسے بتایا تو موتیا نے اُس کے ہاتھ سے مشک لے لی۔
” میں بھرتی ہوں مشک اور دے آتی ہوں پانی۔ ”
”ارے تو کہاں کرے گی اتنا سخت کام۔ تجھ سے کہاں اُٹھایا جانا ہے اتنا وزن۔ مجھے پکڑا۔” اللہ وسائی نے اُس سے مشک واپس لینے کی کوشش کی پر موتیا نہیں مانی تھی۔
”اُٹھانے دے امّاں! اتنا نازک نہ بنا مجھے۔” وہ کہہ کر گھر سے نکل گئی تھی اور اللہ وسائی بڑبڑاتی ہی رہ گئی۔
”مجال ہے جو ماں کی سُن لے۔ ارے! اس لئے تھوڑا ڈاکٹرنی بنا رہے ہیں کہ تو پانی کی مشکیں ڈھوتی پھیرے۔”
وہ اُس کے پیچھے گھر کے دروازے میں کھڑی آوازیں لگاتی رہی تھی پر موتیا نے مڑ کر نہیں دیکھا۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کنویں میں مشک گرا کر وہ بڑے انہماک سے چرخی لپیٹ رہی تھی جب کسی نے اُس کے عقب میں یک دم کہا تھا۔
” اتنے نازک ہاتھ اور اتنی بھاری مشک… کلائیوں میں موچ آ گئی تو کیا ہوگا؟” وہ ٹھٹکی تھی مگر پھر پلٹے بغیر ہنس دی۔ وہ مراد تھا۔
”اتنی نازک کلائیاں نہیں ہیں۔ کئی بار بھری ہے یہ مشک۔”
موتیا نے بغیر دیکھے کہا تھا۔ پیچھے مُڑے بغیر بھی گھوڑے کی ہنہناہٹ سے اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اپنے گھوڑے پر تھا مگر کنویں تک آتے ہوئے موتیا نے ہلکی سی چاپ بھی نہیں سنی گھوڑے کے قدموں کی۔
”پلٹ کر نہیں دیکھو گی؟ اتنا غرور ہے؟” مراد نے اُسے چھیڑا تھا۔
”ہاں ہے! کرلو جو کرنا ہے۔ ” موتیا نے اس بار بھی پلٹے بغیر مشک کا منہ بند کرتے ہوئے کہا تھا۔
”مراد نے کیا کرنا ہے، وہ تو غلام ہے تمہارا۔”
موتیا نے اس بار پلٹ کر اُسے دیکھا تھا۔ سورج نکلنے والا تھا اور وہ اس طرح دلیری سے وہاں کھڑا تھا جیسے اُسے پروا ہی نہیں تھی کہ کوئی اُسے وہاں دیکھ لے گا تو کیا کہے گا۔
”آج سورج نہ بھی نکلانا تو کوئی بات نہیں۔ میری صبح روشن ہوگئی ہے۔ پانی پلا دو مجھے۔”
وہ اب گھوڑے سے اُتر گیا تھا۔ موتیا کا چہرہ لال ہوا پر اُس نے کچھ کہا نہیں۔ وہ اُس کے سامنے جھکا اور اُس نے ہاتھوں کی اوک بنائی۔ موتیامشک پکڑے اُس کی اوک میں پانی گرانے لگی۔ مراد پانی پیتا رہا اور جب اُس نے پانی پی لیا تو اُس نے موتیا سے سیدھا ہوتے ہوئے کہا:
”تمہارے ایک کان میں موتیا کا پھول ہے دوسرا گر گیا ہے۔”
موتیا نے بے اختیار اپنے کان کی لو باری باری چھوئی پھر اُس نے کہا:
”کہیں گر گیا ہوگا۔” وہ اُس کے اتنے قریب کھڑا تھا کہ موتیا نے دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے کہا تھا۔
”یہ مت پہنا کرو۔” مراد نے عجیب سے انداز میں کہا۔ اُس نے سوچا تھا موتیا اب اُس سے پوچھے گی کہ کیوں لیکن اُس نے کچھ بھی کہے بغیر اپنے کان کی لو سے موتیے کا وہ پھول نکال کر پھینک دیا تھا۔ مراد گنگ ہوا تھا۔
”تم کو نظر لگ جائے گی اس لئے کہہ رہا تھا۔” اُس نے عجیب مجرمانہ انداز میں موتیا کو وضاحت دی۔ وہ مسکرائی تھی اور مشک اُٹھا کر چلنے لگی اور مراد نے سوچا وہ کس کس چیز سے منع کرے اُسے نظر سے بچنے کے لئے۔ آنکھیں کھولنے سے منع کرے جن میں ہیرے کی کنّیاں چمکتی تھیں اور دیکھنے والے کا قرار لوٹ لیتیں تھیں یا پلکیں جھکانے سے منع کرے جن کی جھالریں اُس کے گالوں پر جیسے سایہ کردیتیں تھیں، مسکرانے سے منع کرے جس سے بہار آتی تھی یا ہنسنے سے جس سے وقت تھمنے لگتا تھا۔
وہ اُس کے پاس سے مشک لے کر چلی گئی تھی اور وہ کھڑا مسحور زدہ سوچتا ہی رہ گیا تھا۔
”سُنو مراد! میرے لئے کبھی اپنی جان نہ دینا۔” وہ کرنٹ کھا کر پلٹا تھا۔ وہ اب اُس سے دور گاؤں جانے والی پگڈنڈی پر کھڑی تھی۔
”بتول نے مجھے بتایا ہے کہ ماہ نور سے شادی کرنا چاہتی ہیں تمہاری چوہدرائن جی اور تم نے اُنہیں اپنے آپ کو مار دینے کی دھمکی دی ہے۔ ایسا مت کرنا۔”
مراد کچھ بول ہی نہیں سکا۔ اُسے شرم آئی کہ اُس کے گھر ہونے والی بات موتیا تک پہنچی تھی۔
”خود کو کچھ نہ کروں اور تمہارے بغیر زندہ رہ لوں؟ تم رہ لوگی؟” مُراد نے عجیب سے انداز میں اُس سے کہا۔ موتیا بول نہیں سکی۔ وہ اُسے دیکھتی رہی پھر اُس نے کہا:
” تمہارے بغیر رہ لوں گی، تمہیں کچھ ہوگیا تو نہیں رہ سکوں گی۔”
مراد مذاق اُڑانے والے انداز میں ہنسا تھا۔
”پھر پیار کھوٹا ہے تمہارا اگر میرے بغیر رہ سکتی ہو تو۔ میں تو نہیں رہ سکتا اور نہ ہی رہوں گا اور یہ نہ سوچنا کہ میری ماں مجھے ماہ نور کا کرنا چاہتی ہے تو میں ہوجاؤں گا۔ میں نے تمہیں زبان دی ہے موتیا، میں اس جہاں میں بھی تمہارا ہوں، اگلے میں بھی تمہارا ہی رہوں گا۔”
اُس نے موتیا سے کہا تھا اور پھر وہاں رُکا نہیں بلکہ گھوڑے پر چڑھا اور وہاں سے گھوڑا دوڑاتا ہوا چلا گیا۔ موتیا اُس کو تب تک جاتا دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگیا تھا اور جہاں وہ اوجھل ہوا تھا، وہاں موتیا نے اُس دن سورج طلوع ہوتے دیکھا تھا۔
…٭…
شکوراں صبح سویرے ہی بتول کو ساتھ لئے تاجور کے پاس پہنچ گئی تھی۔ وہ فجر کے بعد ہی ہر روز تاجور کے پاس آتی تھی۔ بتول بعد میں آتی تھی مگر آج بتول بھی اس کے ساتھ تھی۔ فجر کی نماز پڑھ کر تاجور لسی پیتی تھی۔ شکوراں لسی تانبے کے گلاس میں ڈال کر بتول کے ساتھ اسے برآمدے میں دینے گئی تھی جہاں بیٹھ کر وہ تسبیح کرتی تھی۔
”آج بتول کیسے آگئی اتنی صبح ؟” تاجور نے گلاس لیتے ہوئے کچھ حیرانی سے بتول کو دیکھا تھا جس نے اُسے کچھ نروس انداز میں سلام کیا تھا۔
”بس چوہدرائن جی! ایک بری خبر سن لی ہے تو ساری رات سو نہیں سکے میں اور میری بیٹی۔”
شکوراں نے بات کا آغاز کیا تھا۔ اسے خدشہ تھا وہ خاموش رہی تو بتول خود بات شروع نہ کردے۔ تاجور نے منہ سے گلاس لگاتے لگاتے گلاس ہٹالیا۔
”خیر تو ہے کیسی بری خبر؟” تاجور کو جو بھی اندیشہ لاحق ہوا تھا، موتیا کے حوالے سے ہوا تھا۔
”پرویز کو چوہدری صاحب نے سعید کے لئے موتیا کا رشتہ مانگنے کے لئے کہا ہے۔” تاجور نے شکوراں کا جملہ سنا۔ بتول اور شکوراں کے چہرے دیکھے اور پھر دوبارہ لسی کا گلاس منہ سے لگالیا۔ شکوراں اور بتول نے بے قراری سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”ہاں!” لسی کا گلاس ختم کرکے رکھنے کے بعد تاجور نے بے حد مختصر جواب دیا اور ان دونوں کے پیروں کے نیچے جو باقی ماند ہ زمین تھی وہ بھی نکل گئی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});