”چوہدری صاحب آپ کا حکم سرآنکھوں پر ۔ آپ نے کہہ دیا تو بس اب پرویز آنکھیں بند کرکے عمل کرے گا۔” چوہدری شجاع کے وعدے پر چوہدری پرویز کی رال بہنے لگی تھی۔ وہ کچھ دیر بیٹھ کر چلا گیا تھا اور چوہدری شجاع نے جیسے سکھ کا سانس لیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ گامو آنکھیں بند کرکے خوشی خوشی اس رشتہ پر تیار ہوجائے گا۔ وہ گاؤں کا سب سے اچھا اور صاحبِ حیثیت لڑکا تھا جو تھوڑا بہت پڑھا لکھا بھی تھا۔ چوہدری شجاع کا خیال تھا کہ موتیا کے ماں باپ اگر خود ہی اس کا رشتہ کہیں طے کردیتے تو مراد مجبور ہوجاتا۔ سانپ کو مار نے کے لئے تاجور کی طرح لاٹھی توڑنے کے علاوہ بھی بڑے طریقے ہوتے ہیں۔ اور شجاع ایسا ہی ایک طریقہ استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اُس کے گھر میں موتیا کی وجہ سے مراد اور تاجور میں جو سرد جنگ شروع ہوگئی تھی وہ اس کے لئے اعصاب شکن ثابت ہورہی تھی اور تاجور کے لئے جو بھی تھا، چوہدری شجاع بیوی کی محبت میں گرفتار تھا۔ وہ اُسے اس مشکل سے نکالنے کے لئے سب کچھ کرسکتا تھا۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
پرویز کا بس چلتا تو وہ اسی دن جاکر گامو سے موتیا کا رشتہ مانگ لیتا۔ اسے چوہدری شجاع کو خوش کرنے کی اتنی ہی جلدی تھی۔ پر حویلی سے واپسی پر وہ اپنے ایک پرانے دوست سے مشورہ کرنے رُک گیا تھا جس کے انکشاف نے پرویز کو پہلی بار وہم میں ڈالا۔
”میرا مشورہ مان تو اس سارے پھڈے میں نہ پڑ۔ گاؤں میں چوہدری مراد اور موتیا کے بارے میں باتیں ہورہی ہیں اور تو اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر چل پڑا ہے گامو کے گھر۔” پرویز کا منہ اس انکشاف پر کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔
”تجھے کس نے بتایا ہے حمید؟”
”لے مجھے کس نے بتانا تھا، پنڈ میں باتیں ہورہی ہیں دونوں کے بارے میں۔ وہ ولایت سے بیرسٹر بن رہا ہے۔ یہ شہر سے ڈاکٹر بن رہی ہے، جوڑ تو اچھا ہے دونوں کا اور آگ بھی عشق کی ہے تو کیوں اپنے بیٹے کو مروا رہا ہے چوہدری مراد کی پسند کے سامنے لاکر۔” حمیدنے اُسے سمجھایا تھا۔
”پر چوہدری شجاع نے تو مجھے کہا ہے کہ میں اپنے بیٹے کا رشتہ کروں گامو کے گھر کیا اُسے پتا نہیں ہے چوہدری مراد کی مرضی کا ؟” پرویز الجھا تھا۔
”پتا ہوگا اور اسی لئے تو تجھے ڈال رہا ہے اس سارے سیاپے میں، پر تو بہانا بناکر نکل جا اس سب میں سے۔” حمید نے اسے عقل کی بات سمجھائی تھی پر پرویز نے کان بند کرلئے تھے۔ وہ چوہدریوں سے بگاڑ نہیں سکتا تھا نہ اب اُسے جاکر انکار کرسکتا تھا۔ پر بیٹے سے بات کرنی اس نے ضروری سمجھی تھی۔ حالانکہ اسے پتا تھا اس کا بیٹا گھگھوگھوڑا تھا۔ جہاں اس کی مرضی ہوتی وہ چل پڑتا۔
…٭…
”سن بتول! ابّا کل گامو کے گھر میرا رشتہ مانگنے جارہا ہے۔ تو موتیا سے کہہ وہ انکار کردے۔”
سعید نے اسی شام کو بتول کے گھر جاکر اسے اپنے باپ کے ارادے کے بارے میں بتادیا تھا اور بتول کا دل جیسے چلنا بھول گیا تھا۔
”چاچا میرے بجائے تیرا رشتہ موتیا کے لئے لے کر جائے گا، اسے شرم نہیں آتی۔” وہ یک دم آگ بگولہ ہوکر سعید پر اُلٹ پڑی تھی۔
”وہ مجبور ہے۔ اسے چوہدری شجاع نے بلا کر رشتہ بھیجنے کے لئے کہا ہے۔”سعید نے باپ کا دفاع کرنے کی کوشش کی تھی اور بتول کو اس کی بات پر جیسے یقین ہی نہیں آیا تھا۔
”چوہدری صاحب اور چوہدرائن کیسے یہ کرسکتے ہیں۔ چوہدرائن کو تو پتا ہے میری ماں تجھ سے میر ا رشتہ کروانے کے لئے کیسے تیرے گھر کے چکر کاٹ رہی ہے اتنے سالوں سے۔ وہ کیسے یہ کرسکتی ہے۔”
بتول بڑبڑارہی تھی اور صحن میں چکر کاٹ رہی تھی۔ اس کی ماں ابھی تک حویلی سے نہیں آئی تھی۔ سعید بے حد فکر مند اس کے سامنے صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا۔
”تو چاچا کو صاف صاف انکار کرتا۔ بتا دیتا اُسے کہ تجھے نہیں کرنی میرے علاوہ کسی سے شادی۔” بتول نے یک دم اُس سے کہا تھا۔
”تجھے پتا ہے ابّا میری نہیں سنتا۔ وہ میری ٹانگیں توڑ دیتا۔” سعید نے سر جھکا کر کہا اور بتول جیسے غصّے میں بے قابو ہوگئی ۔
”تو کویت میں کام کرتا ہے۔ ہزاروں کماتا ہے اور تو چاچے کے سامنے ہاں کرکے آگیا اس ڈر سے کہ وہ تیری ٹانگیں توڑ دے گا اور اُدھر ایک چوہدری مراد ہے جس نے ماں کو خودکشی کی دھمکی دی ہے کہ موتیا کے علاوہ وہ کسی سے شادی نہیں کرے گا۔ اس کو کہتے ہیں پیار سعید، اس کو کہتے ہیں ہمت، جرأت، اس کو کہتے ہیں مرد۔” وہ دھاڑ دھاڑ کر بولتی ہی چلی گئی۔ سعید عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا:
”جب موتیا کو بیاہ کر حویلی لے جائے مراد تو مجھے سنانا اور بتانا کہ اسے کہتے ہیں مرد، ابھی تو اس کا باپ مجھ سے کروانا چاہتا ہے تیرے اس مرد کے بچے کی محبوبہ کی شادی۔ تجھے بتانے آیا ہوں کہ موتیا کو کہہ انکار کردے، میں نہیں کرسکوں گا۔”
وہ بے حد ناراض رُکے بغیر کہہ کر چلا گیا تھا۔ اُسے بتول کا مراد کے ساتھ اپنا موازنہ اچھا نہیں لگا تھا کیونکہ اُس موازنے میں وہ کہیں ٹھہر ہی نہیں پارہا تھا۔ یہ بتول بھی جانتی تھی پھر بھی آج وہ غصّے میں خود پر قابو نہیں رکھ پائی تھی۔ پتا نہیں غصّہ تھا کہ بے بسی۔ وہ بلا جو موتیا اور مراد کی زندگی میں آئی تھی، وہ اُن کے ساتھ ساتھ بتول اور سعید کی زندگی اُجاڑنے بھی آگئی تھی اور یہ بتول نے کبھی مر کے بھی نہیں سوچا تھا۔
بتول ماں کے انتظار میں اُس دن بھوکی شیرنی کی طرح پھرتی رہی تھی۔ اُس کی ماں تاجور کے ساتھ جہیز میں آئی تھی اور اُس نے تاجور کو اپنی زندگی دے دی تھی اور زندگی بھر کی خدمت کا صلہ اُسے یہ ملنے والا تھا کہ وہ اپنے گھر کی مصیبت کی بھینٹ اُس کا پیار چڑھا دیتے۔
شکوراں نے گھر کی دہلیز ابھی پار ہی کی تھی جب بتول نے انتظار کیئے بغیر اُسے سارا واقعہ سُنا دیا تھا اور شکوراں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی تھی۔
”یہ مجھے کیا سُنا رہی ہے بتول! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ چوہدرائن جی نے ایسا کچھ سوچا ہوتا تو مجھ سے پوچھتیں۔ مجھے بتاتیں۔ اُنہیں تو پتا تھا کہ تو پسند کرتی ہے سعید کو۔” شکوراں کو یقین نہیں آیا۔
”چوہدرائن کو صرف اپنی زندگی اور خوشیوں کی پروا ہے۔ موتیا کی طرح ہم بھی کمّی کمین ہیں اُس کے لئے، جنہیں جب چاہے وہ روند دے۔” بتول کا بس چلتا تو وہ تاجور اور چوہدری شجاع دونوں کا گلا دبا دیتی۔
”نہ نہ بتول! تو ایسا نہ سوچ، میں بات کروں گی صبح چوہدرائن جی سے۔ سعید کسی اور کا نہیں ہوسکتا اور اپنے چاچے کوبھی دیکھ نا، کتنی بے شرمی اور بدلحاظی ہے اُس میں کہ وہ تیار ہوگیا چوہدری جی کے کہنے پر۔ اُس کو بولنا چاہیے تھا، اُس کو کہنا چاہیے تھا کہ اُس نے رشتہ طے کردیا ہے۔ وہ سو لارے مجھے دیتا ہے اور پھرپیچھے چوہدری جی کے کہنے پر گامو کے گھر بھی چل پڑتا ہے۔” شکوراں اپنے دیور کو کوسنے بیٹھ گئی تھی۔
” امّاں! تو نے بات نہ کی نا چوہدرائن سے تو پھر میں بات کروں گی اور میں تو پھر سیدھا چوہدری مراد سے ہی کروں گی بات۔ میری طرف سے بھاڑ میں جائیں باقی سب لوگ اور سارے ادب لحاظ۔”
بتول، ماں کو کھری کھری سُناتے ہوئے اندر کمرے میں چلی گئی تھی۔ شکوراں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اندر کیسے جائے۔ اُس کا دل چاہا تھا وہ اُلٹے قدموں حویلی جاتی اور تاجور سے پوچھتی یہ کہ سب ہوا کیسے۔ پر رات ہوگئی تھی اور گاؤں کی اندھیری گلیوں اور آوارہ پھرتے کتوں سے اُس کو اُتنا ڈر نہیں لگتا تھا جتنا حویلی کے بند دروازوں کا لحاظ تھا۔ وہ رات گئے شکوراں کے لئے کہاں کھلنے تھے۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});