تاجور اس دن مراد کے لئے ناشتے کی میز سجا کر بیٹھی رہی تھی اور وہ کمرے سے ہی نہیں نکلا تھا۔ وہ بھوک برداشت نہیں کرسکتا تھا اور تاجو رکو یہ خیال ہی نہیں گزرا تھا کہ وہ کھانا چھوڑ دے گا۔ کئی بار ملازم بھیجنے کے بعد بھی جب وہ ناشتہ کرنے نہیں آیا تو تاجور خود اس کے کمرے میں چلی گئی تھی۔ وہ بستر پر چت لیٹا ہوا تھا۔ ماں کو دیکھاتو اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔
”کیا ہوا بیٹا! تم ناشتے کے لئے نہیں آرہے، میں انتظار میں بیٹھی ہوں۔” تاجور نے اپنا لہجہ حتی المقدور نارمل رکھتے ہوئے کہا تھا، یوں جیسے کل کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
”ناشتہ نہیں کرنا مجھے۔” اس نے جواباً بے حد سرد مہری کے ساتھ ماں سے کہا۔
”کیوں؟” تاجور نے جانتے بوجھتے انجان بننے کی کوشش کی۔
”میں اب تب تک اس گھر سے کچھ بھی نہیں کھاؤں گا جب تک آپ اپنی ضد چھوڑ نہیں دیتیں۔” مراد نے کسی لگی لپٹی کے بغیر ماں سے کہا تھا اور تاجور اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی تھی۔
”میں ضد چھوڑ دوں پر تو ضد پر ڈٹا رہے؟ میری ضد کی تو پروا ہی نہ کر تو۔ میں نے کہا تو ہے تجھ سے میں زہر کھالیتی ہوں۔ تو جاکر بیاہ لا اُسے۔”
اس نے مراد سے اسی سرد مہری سے بات کرنا شروع کردی تھی جو اس کے لہجے میں تھی۔ وہ جواباً ماں کا چہرہ دیکھتا رہا۔ جانتا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہی تھی کرنے کی ہمت رکھتی تھی۔ تاجور بھی اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ یوں جیسے اس کے چہرے پر کسی بے چینی، کسی اضطراب کو کھوجنے کی کوشش کررہی ہو چند لمحے اُسے اسی طرح دیکھنے کے بعد مراد نے اپنے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کی دراز کھولی تھی اور اس میں سے ایک ریوالور نکال کر سائیڈ ٹیبل کے اوپر رکھ دیا۔ تاجور کی جان جیسے ہوا ہوئی تھی۔
”میں آپ کو موتیا سے شادی پر مجبور کروں گا تو آپ زہر کھالیں گی۔ آپ مجھے ماہ نور سے شادی پر مجبور کریں گی تو میں خود کو گولی مارلوں گا۔” تاجور ضدی تھی پر ماں تھی۔ وہ تڑپ اُٹھی تھی۔
”تو میرا اکلوتا بیٹا ہے مراد! کتنی منتوں مُرادوں اور چاؤ والا، تو ایک لڑکی کے لئے ماں کی نافرمانی کررہا ہے۔” تاجور نہ چاہتے ہوئے بھی روپڑی تھی۔
”اس میں آخر ایسی کیا چیز ہے کہ یوں پاگل ہوگیا ہے تو؟”
”پتا نہیں! میں نے کبھی بیٹھ کر یہ نہیں سوچا کہ اس میں ایسی کیا خاص بات ہے ۔ یہ سوچنے آپ بیٹھی ہوں گی۔ میں نے تو بس ایک فیصلہ کیا ہے اور آپ کو بتادیا ہے۔ نہ میں موتیا سے شادی کروں گا نہ کسی اور سے۔ آپ کی نسل مجھ سے شروع ہوکر مجھ پر ہی ختم ہوجائے گی۔ پر کم از کم آپ کی نافرمانی تو نہیں ہوگی اور نہ میں پیار میں جھوٹا پڑوں گا۔”
وہ تاجور کو کہہ کر وہاں رُکا نہیں تھا، نکل گیا تھا اور جاتے ہوئے وہ ریوالور بھی ساتھ لے گیا تھا۔ تاجور برف کا بُت بنی تھی اور بنی ہی رہی تھی۔ اس نے مراد کو پیدا کرتے ہوئے اتنی تکلیف نہیں اٹھائی تھی جتنی تکلیف مراد کایہ انداز اسے دے رہا تھا۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بتول کو لگ رہا تھا یا وہ پاگل ہے یا پھر موتیا جسے وہ پچھلے آدھ گھنٹے سے حویلی میں ہونے والے واقعات سنارہی تھی اور وہ جواباً ہوں ہاں کرتے ہوئے گود میں دوپٹے کے دامن سے بیر اُٹھا اُٹھاکر کھا رہی تھی جنہیں وہ چن کر لائی تھی۔ بتول نے ایک بار بھی اس کے چہرے اور آنکھوں میں کوئی تشویش، کوئی پریشانی نہیں دیکھی تھی۔ نہ اس نے ماہ نور کے بارے میں پوچھا تھا نہ شگن کے بارے میں کریدا تھا۔
”موتیا! تو سمجھ رہی ہے کہ میں جھوٹی ہوں جو تجھے مراد اور ماہ نور کی بات طے ہوجانے کے بارے میں بتارہی ہوں اور تو کان تک نہیں دھر رہی۔” بتول نے بالآخر جیسے زچ ہوکر کہا تھا۔ موتیا نے اس کی بات پر پہلی بار سراٹھا کر دیکھا پھر ایک بیر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
”بات سن بتول! مراد مجھ سے کہہ کر گیا ہے کہ وہ رشتہ بھیجے گا تو وہ بھیجے گا اور میں نے تو خواب میں بھی چوہدرائن کو گھر آتے دیکھا ہے تو مجھے فکر نہیں، تو بیرکھا۔” اس کے انداز میں اتنا اطمینان تھا کہ بتول جھلس کر رہ گئی تھی۔
”کتنے دن ہوئے ہیں تجھے مراد سے ملے کہ ایسا اندھا اعتماد ہوگیا ہے ۔ لوگ سالوں محبت کرتے ہیں تب بھی وہمی رہتے ہیں۔ یہ تیری محبت ہے کیا موتیا؟” بتول واقعی کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔ اس نے اس کے خوابوں کی بات نہیں کی تھی کیونکہ وہ اس کے خوابوں کو کبھی جھوٹا نہیں کہہ سکتی تھی۔
موتیا نے جو ہنسنا شروع کیا تھا اس کی بات پر تو بس ہنستی ہی چلی گئی تھی اور اتنا ہنسی تھی کہ بتول کو بھی ہنسی آنے لگی تھی۔
”تجھ سے کس نے کہہ دیا بتول کہ محبت کو دہائیاں چاہیے سچا اور پکا ہونے کے لئے؟ محبت کا دھاگہ تو رب ڈالتا ہے دو دلوں میں اور رب ہی نکالتا ہے۔ مراد نے دھوکا دینا ہوتا تو بس پھر دھوکا ہی دیتا پیار تھوڑی کرتا مجھ سے۔ ” بتول اس کی شکل دیکھ کر رہ گئی تھی ۔
”اور اگر وہ تیرا نہ ہوا تو پھر؟ ” اس نے موتیا سے پوچھا تھا۔
”میرا نہ ہوا تو پھر کسی کا بھی نہیں رہنا اس نے بتول۔ اس لئے تو رب سے دُعا کیا کر کہ وہ مجھے مل جائے۔”
موتیا نے عجیب سے لہجے میں کہہ کر بیر کھا ل کے چلتے ہوئے پانی میں اُچھال دیے تھے۔ بتول اس جملے کو بھی سمجھ نہیں پائی تھی۔ اُسے کئی باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں اور کئی باتیں بعد میں سمجھ میں آتی تھیں۔ گامو اور اللہ وسائی کی اس اکلوتی بیٹی کی زبان میں کچھ تھا جو چونکاتا بھی تھا، ڈراتا بھی تھا اور آس بھی لگاتا تھا۔ بتول ہمیشہ کی طرح اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی تھی۔
…٭…
”سن پرویز! تجھ سے کام ہے ایک۔ ” چوہدری شجاع نے اگلے دن پرویز کو بلایا تھا جس کا خاندان اس کے گاؤں کے قدرے خوش حال گھرانوں میں سے ایک تھا۔
”چوہدری صاحب! آپ حکم کریں۔” پرویز تو چوہدری شجاع کی بات سن کر جیسے پریشان ہی ہوگیا تھا۔ وہ گاؤں کا چوہدری تھا۔ اُس نے کبھی کسی کو بلا کر یہ نہیں کہا تھا کہ اُسے کسی سے کام تھا پرانسان اپنی اولاد کے لئے کچھ بھی کرسکتا تھا، کسی بھی حد تک جاسکتا تھا۔
”تم گامو کے گھر اُس کی بیٹی موتیا کے لئے اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر جاؤ۔” اس کے اگلے جملے نے پرویز کو جیسے حیران ہی کردیا تھا۔
”گامو کے گھر؟” وہ اٹکا تھا۔
”تجھے اعتراض ہے کوئی؟” چوہدری شجاع نے اس بار بارعب آواز میں کہا تھا اور پرویز کو پتا چل گیا تھا کہ اسے یہ کام کرنا پڑے گا۔
”نہیں نہیں چوہدری صاحب! آپ کا حکم ہے مجھے کیا اعتراض ہوگا؟ میں چلا جاتا ہوں کل ہی۔” پرویز نے فوراً سے پیشتر ہامی بھری تھی۔
”او رشادی کے انتظامات کی فکر نہ کرنا، وہ سب میں دیکھوں گا۔ تمہیں گامو کی حیثیت کے مطابق جہیز نہیں ملے گا۔ تمہاری اپنی حیثیت کے مطابق جہیز ملے گا۔” چوہدری شجاع نے جیسے اس کے سارے اندیشوں اور اعتراضات کو پھونک مار کر اڑا دیا تھا۔ اسے پتا تھا پرویز لالچی ہے۔ وہ کسی صاحبِ حیثیت خاندان میں ہی بیٹا بیاہے گا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});