خوبصورت آنکھیں


میں نے بہ دستور مسکراتے ہوئے کہا اور آنکھوں کے مخصوص اشارے سے اسے وہاں سے چلے جانے کو کہہ دیا۔
اس کے جانے کے بعد میں میڈم کی طرف متوجہ ہوا تو اس کی آنکھوں نے جیسے پھرسے مجھے اپنے اندر اتار لیا۔وہ جب تک میرے کمرے میں رہی، میں مختلف حیلوں بہانوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ہی گھومتا رہا۔ ایک بار تو دل میں اس حسرت نے بھی انگڑائی لی کہ کاش یہی آنکھیں میری بیوی کے چہرے پر ہوتیں تومیں ہمیشہ اس کی آنکھوں میں ہی بسارہتا۔
میڈم کو ہفتہ وار سٹیٹمنٹ ہر پیر کو اپنے دفتر میں جمع کروانا تھی۔ میں نے اسے کہا: ”یہ ایک پیچیدہ سٹیٹمنٹ ہے، جس کے لئے کچھ وقت درکار ہو گا۔اس لئے وہ ایک دن پہلے یعنی ہر جمعے کو آ کر پرفارما دے دیا کرے تواسے سہولت کے ساتھ دوسرے دن تیار سٹیٹمنٹ مل جایا کرے گی۔“
میڈم نے ہامی بھر لی تھی،مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔کام اتنا زیادہ نہیں تھا، وہ تومیں نے اس کی خوب صورت آنکھوں کے چکر میں مختصر کام کو چالاکی سے دو دنوں پر محیط کر لیا تھا۔مجھے تو بس اس کی قربت چاہیے تھی۔
اب مجھے ہر جمعہ اورپیر کا شدت سے انتظار رہنے لگا، وہ جب آتی تو بس میں ہوتا اور اس کی کلام کرتی آنکھیں ہوتیں۔ مگر میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ مجھ سے زیادہ انتظار میرے دفتر والوں کورہتا۔ میڈم کے آنے سے جیسے دفتر کی دنیا ہی بدل جاتی۔ ہر بندہ کسی نہ کسی بہانے سے رال ٹپکاتا میرے کمرے میں آنکلتااور اس سے بات کرنے کا خواہاں ہوتا۔ میڈم کو متاثر کرنے کے چکروں میں تقریباً سبھی بن ٹھن کر آتے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔اپنی ان حرکتوں سے وہ سب دفتر بھر میں مذاق کا خوب نشانہ بھی بنے رہتے۔
مگر خوب صورت آنکھوں والی میڈم ان سب باتوں سے انجان بس اپنے کام کے لئے آتی اور چپ چاپ چلی جاتی۔ البتہ میرے ساتھ اس کی کافی گپ شپ رہتی۔ اس کی باتیں بھی اس کی آنکھوں کی طرح ہی خوب صورت تھیں۔وہ بہت نکتہ دان واقع ہوئی تھی اورہر موضوع پرمنطقی گفت گو کر کے لاجواب کرنے کا ہنر خوب جانتی تھی۔میں تو اس کی آنکھوں کا شیدائی تھا مگر مجھے احساس ہوا کہ اس کے دل کی دنیا بھی بہت روشن تھی۔
ایک دن میں نے اس کے سامنے اس کی آنکھوں کی تعریف کر دی۔میری بات سُن کر وہ ہنسنے لگی اور بولی:
”عجیب بات کرتے ہیں آپ بھی۔سادہ سی آنکھیں ہیں میری، بھلا کیسے خوب صورتی ڈھونڈ لی آپ نے؟“
”آپ چھوٹی چھوٹی باتوں میں خوب صورتی ڈھونڈ لیتی ہیں کہ جس کا ایک عام آدمی کو شعور تک نہیں ہوتااورایسا کمال خوبصورت آنکھیں ہی کر سکتی ہیں۔“ میں اس کی آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر بولا۔

”یہ تو احساس کی باتیں ہیں جناب!جس کے اندر احساس زندہ ہو اسے بدصورت انسان بھی خوب صورت لگتا ہے۔ اس میں آنکھوں کا کیا کمال؟“
گویا اس نے مجھے لاجواب کرتے ہوئے کہا۔
”بہر حال آپ جو کچھ بھی کہیں، مجھے تو آپ کی آنکھیں بہت اچھی لگتی ہیں، جہاں ہر وقت خوب صورتی ہی پلتی رہتی ہے۔“ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
”چلیں جی ٹھیک ہے۔ آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں، ورنہ یہ میری آنکھوں کے ساتھ زیادتی ہے۔“
اس نے کھلکھلا تے ہوئے کہا اور میں بھی اس کی بات پر ہنس پڑا۔
سچ تو یہ ہے کہ میری زندگی شروع ہی سے عجیب الجھنوں کا شکاررہی تھی۔گھر والوں سے میری کبھی نہیں بن پائی تھی۔جب کبھی تو تکار کی نوبت آ تی تو کڑواہٹ لیے دفتر کا رخ کرتا۔تلخیوں سے فرار چاہا تو شادی رچا لی، مگر بعد میں پچھتایا کہ یہ کیا روگ پال لیا؟ شادی کے بغیر بھی گزر ہی جاتی۔ میرے مزاج میں جھنجھلاہٹ بہت بڑھ چکی تھی کہ اچانک یہ آنکھیں سکھ کا موسم بن کر میرے دل کے آنگن میں اترآئیں۔اندر سے آواز آئی کہ ان ہی کا ہو کے رہ جاؤ۔ویسے تو مجھے این جی اوز کی دنیا بالکل فضول لگتی لیکن ان آنکھوں میں رہنے کا خواب جاگا تو میں بات بے بات میڈم اور اس کے کام کی دل کھول کر تعریف کرنے لگا۔جس پر اس کی خوشی دیدنی ہوتی۔
اگلی بار جب وہ دفتر آئی تومعمول سے زیادہ خوش تھی اور اس کی آنکھوں کی غیر معمولی چمک نے اس میں نئے رنگ بھر دیئے تھے۔ میں اس تبدیلی پرخوش گوار حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ پھر باتوں باتوں میں پتا چلا کہ اگلے دن اس کے گھر میں مدر ڈے کے حوالے سے ایک تقریب تھی، جس کے لئے وہ مجھے بہ طورِ خاص مدعو کرنے آئی تھی۔ میں اس کایہ خوب صورت پہلو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ واقعی وہ دنیا کی خوب صورت ترین آنکھیں تھیں۔
میں اُس دن مقررہ وقت پرہی اس کے گھر پہنچ گیا۔ جہاں ایک الگ دنیا آباد تھی۔ بھر پور گہما گہمی میں اس کا سجا ہوا گھر مہمانوں اور بچوں سے بھرا پڑا تھا۔میڈم نے اپنے خاوندکے ساتھ مل کر خوش دلی سے میرا استقبال کیا۔ میں پہلی بار میڈم کو بغیر نقاب کے دیکھ رہا تھا۔وہ سفید ساڑھی میں اتنی حسین لگ رہی تھی کہ میں پہلی نظر میں اسے بالکل پہچان ہی نہیں پایا۔اس کے دمکتے چہرے پر خوشیاں جیسے بسیرا کر چکی تھیں۔ سرمے سے بھری ہوئی اس کی چمکتی آنکھیں معمول سے زیادہ خوب صورت لگ رہی تھیں۔میڈم مجھے دیگر مہمانوں کے ساتھ لان میں رکھی کرسیوں پربٹھا کر خود آنے والوں کے استقبال میں مصروف ہو گئی۔ لان میں ایک بڑا سا سٹیج بنایا گیا تھا، جہاں پندرہ بیس بڑی بڑی آرام دہ کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ جن کے پیچھے ہیپی مدرز ڈے کا ایک بڑا سا بینر لگاکر اس کے ساتھ ہی جھریوں بھرے چہرے والی مدر ٹریسا کی ایک بڑی سی تصویر بھی لگائی گئی تھی۔ ہوا کے دوش پر اُڑتی رنگی بہ رنگی جھنڈیاں ایک عجیب سی سرسراہٹ پیدا کر رہی تھیں، جیسے وہ آج کے دن پر تالیاں بجا رہی ہوں۔ سفیداور سُرخ رنگ کے اُڑتے غباروں نے منظر میں اور بھی خوب صورتی بھر دی تھی۔ عورتوں اور مردوں کے لئے الگ الگ کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ عورتوں کی قطار میں ہر طرف میک اپ زدہ، خوش شکل اور مسرور چہرے موجود تھے، جو خوش لباسی میں ایک دوسرے کو مات دے رہے تھے۔مردوں میں اکثر تھری پیس سوٹ پہن کر آئے تھے، جو اِدھر اُدھر تانک جھانک کرتے ہوئے آپس میں باتوں میں مصروف تھے اور بچے رنگ بہ رنگے کپڑے پہنے ایک دوسرے میں گھسے خوب ہلہ گلہ کر رہے تھے۔ لان کے ایک طرف سجی ہوئی میز کے درمیان میں گلاب کی پتیوں سے بھری ایک بڑی سی ٹوکری رکھی تھی، جس کے ارد گرد دائرے کی صورت میں کافی ساری تھالیاں سلیقے سے رکھی تھیں،جو گلاب کی سُرخ پتیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ خوشبو ؤں سے پورا لان معطر تھا۔مدرز ڈے کے حوالے سے ایسا اہتمام میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کبھی کبھی میں رشک بھری نظروں سے میڈم کی طرف بھی دیکھ لیتا جو بڑی گرم جوشی کے ساتھ مہمانوں کے استقبال میں مصروف تھی۔

مجھے بیٹھے ہوئے پندرہ بیس منٹ ہی گزرے تھے کہ اچانک مین گیٹ سے ”وہ آ گئے…وہ آ گئے…“ کا ہلکا سا شور بلند ہوااور اس کے ساتھ ہی گیٹ پر دوڑتے بھاگتے قدموں کی کئی آوازیں ابھریں۔
”چلو بچو! جلدی سے یہاں آ جاؤ میرے پاس…“
میڈم نے بلند آواز میں پکار کر بچوں کوہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔وہ لان کے داخلی راستے پر کھڑی تھی۔
سب بچے شور مچاتے ہوئے فوراً میڈم کی طرف لپکے۔ جہاں اس نے بچوں کو جھٹ پٹ دونوں طرف قطارمیں کھڑا کر دیااور ہدایات دیتی ہوئی گلاب کی پتیوں سے بھری تھالیاں ان کے ہاتھوں میں تھما دیں۔ اس دوران میں مین گیٹ کھول دیا گیااور سب کی نظریں اسی طرف ہی جم گئیں۔ ایک سفید رنگ کی بڑی سی وین اندرآکر رکی، جس پر سُرخ رنگ سے بڑا بڑا ”امید ویلفیئر ٹرسٹ“ لکھا ہوا تھا۔سب لوگ اپنی سیٹوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ میں بھی کھڑا ہو کر حیرت میں ڈوباسب کچھ دیکھ رہا تھا۔گاڑی کا دروازہ کھلاتواندر سے خمیدہ کمر والی ایک بوڑھی عورت نکلی، جسے میڈم نے دونوں ہاتھوں کا سہارا دے کر بڑی آہستگی سے نیچے اتارا۔ اس کے بعد دوسری بڑھیا نکلی…پھر تیسری… پھر چوتھی… پھر پانچویں…
برآمدگی کا یہ عجیب سلسلہ میں حیرت سے دیکھے جا رہا تھا کہ اچانک اگلا لمحہ مجھ پر قیامت بن کر ٹوٹا،جس نے میری آنکھوں سے روشنی نچوڑ کرانگارے بھر دیئے اور میں تکلیف کی شدت سے بلبلا اٹھا۔مجھے یوں لگا جیسے وہاں موجود سب لوگوں نے میرے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کر کے مجھے بھری محفل میں ننگا کر دیا ہو۔ میری آنکھوں کے سامنے کانپتی ہوئی میری ضعیف ماں گاڑی سے اتر رہی تھی۔

٭٭٭٭

Loading

Read Previous

جنت سے ایک خط

Read Next

مرد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!