خوبصورت آنکھیں
منیر احمد فردوس
”سر جی…!“ اچانک میرے کانوں سے مانوس سی آواز ٹکرائی۔
میں جو کافی دیر سے اپنے سامنے رکھی فائل میں سر دیئے کمپیوٹر پر ماہانہ اعداد و شمار بنانے میں بُری طرح سے اُلجھا ہواتھا، چونک اُٹھا۔ سراُٹھا کے دیکھا تو سامنے دفتر کانوجوان چپڑاسی شاکر تھا،جس کے ساتھ نقاب اوڑھے ایک خاتون کھڑی تھی اور اس کی نگاہوں نے میرے چہرے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ یک دم میرے ذہن سے تمام اعداد و شمار جھڑ سے گئے۔میں نے کی بورڈ پر جلدی جلدی انگلیاں چلائیں اور بجلی جانے کے ڈر سے اب تک کا کیا ہوا کام محفوظ کیا۔پھر اس خاتون پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالتے ہوئے سوالیہ نظروں سے میں شاکر کی طرف دیکھنے لگا۔اس نے بھی شاید حیرت سے پھیلتی میری آنکھوں میں تیرتا سوال پڑھ لیا تھا۔
”سر جی!ہیڈ کلرک صاحب نے میڈم کو آپ کے پاس بھیجا ہے اور کہا ہے کہ ان کو کوئی سٹیٹمنٹ چاہئے۔“
شاکر نے میڈم کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”اچھا…ٹھیک ہے،میں دیکھتا ہوں۔“ میں نے آنکھوں سے حیرت جھاڑتے ہوئے خوش دلی سے کہا۔ میری بات سن کرشاکرچلا گیا۔
میں نے طائرانہ نظروں سے خاتون کا لمحے بھر کے لئے جائزہ لیا، جس نے سفید چادراوڑھ رکھی تھی اور دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ڈھیلے ڈھالے نقاب کو اپنے گالوں سے چپکا رکھا تھا۔کالے رنگ کا ایک بڑا سا پرس بھی ا س کے دائیں کاندھے پر لٹک رہا تھا۔
”میڈم! آپ بیٹھئے نا… کھڑی کیوں ہیں؟“
میں نے اپنے دائیں جانب کونے میں رکھی ایک اکلوتی کرسی کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے پُرتکلف انداز میں کہا-
”جی بہت شکریہ۔“ اس نے ملائمت سے کہا اور کسی تابع دار شاگرد کی طرح کرسی پربیٹھ گئی۔
وہ درمیانے قد کی ایک نفیس خاتون تھی،جسے جوانی خیر باد کہنے کے لیے پر تول رہی تھی۔اس کا سڈول اور بھرا بھرا جسم چادر سے باہر بھی اپنے خطوط واضح کر رہا تھا۔ ہلکے پیلے سوٹ میں وہ بہت نکھری ہوئی لگ رہی تھی۔اس کے گھٹنوں سے لٹکتی قمیص کے گھیرے پر کسی ماہر کشیدہ کار کا فن بول رہا تھا۔اس کے بیٹھتے ہی میرے نتھنوں میں بھینی بھینی خوشبو کے قافلے سے اترنے لگے۔ اس نے بہت ہی عمدہ خوشبو لگا رکھی تھی۔ میں دل ہی دل میں اس کے اعلیٰ ذوق اور خوش لباسی کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔
”جی میڈم…! فرمائیے کون سی سٹیٹمنٹ چاہئے آپ کو؟“
میں نے اپنے سامنے رکھی فائل میں فلیگ لگا کر اسے بند کیا اور ویل چیئر پر گھوم کر اس کی طرف دل جمعی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”جی اصل میں‘ میں ایک این جی او سے منسلک ہوں اور مجھے ایک ہفتہ وار سٹیٹمنٹ اپنے دفتر میں جمع کروانی ہے اور یہ سٹیٹمنٹ اس پر فارمے پر بنا کر دینی ہے۔“ اس نے ایک تہ کیا ہوا پرفارما اپنی گود میں رکھے پرس سے نکال کر مجھے تھماتے ہوئے کہا۔
اچانک دائیں طرف سے اس کا نقاب ڈھلک کر اس کے سرخ گالوں کی مکمل کہانی سنا گیا، جسے اس نے فوراً ہی دُرست کیا اور اس پر دوبارہ انگلیاں جما کرجھینپتی ہوئی مجھے یوں دیکھنے لگی جیسے اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔
میں نے پرفارما لیتے ہوئے نقاب سے باہر جھانکتی اس کی آنکھوں کو نظر بھر کے دیکھا۔ سرمے سے دھلی ہوئی اس کی روشن آنکھیں میری آنکھوں میں جیسے ٹھہر سی گئیں۔مجھے ان میں ایک عجیب سی کشش محسوس ہوئی اور اس کی آنکھیں مجھے خوب صورت لگنے لگیں۔ اس کے دیئے ہوئے پرفارمے پر نظریں گاڑے میں اس پر لگے کالمز کو غور سے دیکھنے لگا مگر پتا نہیں کہاں سے میرے دل میں اس کی آنکھوں کو پھر سے دیکھنے کی خواہش مچل اٹھی، جو پل بھر میں شدت اختیار کر گئی۔میں انہیں دوبارہ دیکھنے کے لئے دل ہی دل میں بات کرنے کا کوئی بہانہ تراشنے لگا۔ شاید میں اپنی آنکھوں کی تصدیق چاہتا تھا کہ واقعی وہ آنکھیں خوب صورت ہیں یا مجھے دھوکا ہوا ہے۔
”میڈم! آپ یہ بتائیں کہ یہ ڈیٹا آپ کو کب تک چاہئے؟“
میں نے پرفارما میز پر رکھتے ہوئے اس سے پوچھا اور اس کی آنکھوں کوبڑے اہتمام سے دیکھنے لگا۔
بہ ظاہر وہ آنکھیں زیادہ خوب صورت نہیں کہی جا سکتی تھیں مگرانہیں عام سی آنکھیں کہنا بھی ناانصافی تھی۔ان میں کوئی بات ایسی ضرور تھی کہ کھلم کھلا باتیں کرتی اس کی چمک دار آنکھیں مجھے بار بار اپنی طرف بلا رہی تھیں۔ کوئی کچھ بھی کہتا مگر میری نظر میں وہ آنکھیں خوب صورت قرار پا چکی تھیں۔ عجیب اتفاق تھا کہ کچھ دن پہلے پڑھا ہوا سعادت حسن منٹو کا افسانہ”آنکھیں“میرے دماغ میں گھوم گیا۔ جس میں منٹو نے ایک معمولی لڑکی کی عام سی آنکھوں کا ذکرکچھ ایسے خاص اندازمیں کیا تھا کہ مجھے بھی اس لڑکی کی آنکھیں خوبصورت لگنے لگی تھیں۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ وہ آنکھیں تھیں جو منٹو کے افسانے سے نکل کر میرے روبرو تھیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اِن آنکھوں میں روشنیوں کے میلے تھے اور منٹو کے افسانے کی لڑکی نابینا تھی۔
اس سے پہلے کہ میڈم میری بات کا جواب دیتیں، اچانک میرا اکاؤنٹنٹ ارشد دندناتا ہوا میرے کمرے میں گھس آیا، جس کے ساتھ میری کافی بے تکلفی تھی۔ اس نے آتے ہی بھر پور انداز میں میڈم کاجائزہ لیا جو میری بات کا جواب دیتے دیتے رُک گئی تھی اورمتجسس نظروں سے ارشد کو دیکھنے لگی۔مگر مجھے یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی کہ وہ کمرے میں کیوں آیا ہے۔وہ داخل ہوتے ہی مجھ سے گویا ہوا:
”سوری شاہد صاحب! آپ کو ڈسٹرب کیا۔ میں صرف یہ بتانے کے لئے حاضرہوا تھا کہ آپ نے کرسیوں کے لئے جو ڈیمانڈ بھیجی تھی۔ آپ کے حکم کی تعمیل میں نئی کرسیاں آ گئی ہیں۔ اگر کہیں تو آپ کے کمرے میں بھجوا دوں…؟“
ارشد نے مجھے دیکھتے ہوئے بڑے ہی سنجیدہ انداز میں کہا۔مگر اس کی سنجیدگی کے پیچھے چھپی شرارت کو میں اس کی آنکھوں میں چمکتا ہوا واضح طور پر محسوس کر رہا تھا۔ کیوں کہ نہ تو میں نے کرسیوں کی کوئی ڈیمانڈ کی تھی اور نہ ہی نئی کرسیاں آئی تھیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ تھی کہ گذشتہ ہفتے میں نے اپنے کمرے میں اکلوتے بلب کی جگہ ایک ٹیوب لائٹ لگانے کو کہا تو اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا ”یار! بجٹ ہی نہیں ہے، کہاں سے لگوا کر دوں؟“
خیر ابھی مجھے اس سے جان چھڑا نا تھی۔ میں نے ایک نظر میڈم کو دیکھا جو اس ساری صورتِ حال میں خالی خالی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کا یوں معصومیت سے دیکھنا مجھے بہت اچھا لگااور میرے اندر انجانی مسرت کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔میں ارشد کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولا:
”بہت شکریہ جناب! آپ کی مستعدی کی داد دیتا ہوں۔ بس گذارش ہے کہ آپ فی الحال کرسیوں کو اپنے پاس رکھیں، میں فارغ ہو کر ابھی آپ سے رابطہ کرتا ہوں۔“
میری بات سُن کر ایک شریر سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر یوں ناچنے لگی، جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ کیوں بچہ جمورا! پکڑ لیا نا؟ اکیلے اکیلے گپیں لگاتے ہو؟
”ٹھیک ہے سر! ہم تو حکم کے غلام ہیں۔ آپ نے حکم کیا اور فوراً اس کی تعمیل ہوئی۔بس آپ بھی ہمارا خیال رکھا کریں۔“
ارشد نے دایاں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر تابع دارانہ انداز میں مُسکراتے ہوئے کہااورکن انکھیوں سے میڈم کی طرف دیکھا، جو اصل حقیقت سے انجان خاموشی سے ہماری فرضی گفت گو سن رہی تھی۔جب کہ میں دل ہی دل میں ارشد کی حرکتوں پر ہنس رہا تھا۔
”جی جی جناب!آپ کا احسان ہے، بس میں ابھی آپ سے رابطہ کرتا ہوں“