”یہ مٹھائی لے کر آئی تھی۔” خالا گرم جوشی سے بولیں۔
”ہاں ہاں! جہانگیر آ رہا ہو گا ناں۔۔ چھٹی منظور ہو گئی ہو گی اس کی۔” ماں نے کہا۔
”ہاں جی آپا۔۔ آرہا ہے بیس تاریخ کو۔” خالا نے اس کی تاکید کی ۔
”کہہ رہا تھا بھائی اکبر کی چھٹی برسی ہے ۔ شریک ہو نا چاہتا ہوں اس میں ، میں نے کہا آئو۔۔ سو بسم اللہ ۔۔ آپا کو اچھا لگے گا ۔ اور بھئی رشتہ دار تو وہی ہوتے ہیں جو دُکھ سُکھ میں ساتھ دیں۔” خالا اماں کو تفصیل بتانے لگیں۔
”کیوں نہیں، بے شک ایسا ہی ہے۔” ماں نے جواب دیا۔
”خواب لے لو خواب۔۔” وہ گُنگنا رہی تھی ۔ جہانگیر کے آنے کی خبر اس کے کانوں تک پہنچ چکی تھی ۔وہ خالی آنکھوں سے بیٹھی زمین گھُور رہی تھی اور پھر مٹی کی ٹھیکر سے زمین پر نقش و نگار بنانے لگی ۔
”وہ ایک لڑکی تھی ، جو بچپن سے لڑکپن میں چھلانگ لگا رہی تھی ۔ ہنستا مُسکراتا چہرہ اور آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے ۔ سر پر گٹھڑی تھی جو بندھی ہوتی، نظر نہیں آرہا تھا کہ اس گٹھڑی میں کیا ہے۔ لڑکی کے پیچھے ایک دیوار بنا دی ، جس کے ساتھ وہ ٹیک لگائے بیٹھی تھی ۔ اب وہ دیوار میں رنگ بھر رہی تھی۔
علینا گھر میں داخل ہوئی۔
”السلام و علیکم! یہ کیا کر رہی ہو؟ فرش گندا ہو رہا ہے سارا۔۔” علینا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”تصویر بنا رہی ہو؟ اور یہ لڑکی ہنس رہی ہے یا رو رہی ہے؟” علینا نے تصویر پر غور کرتے ہوئے پُوچھا۔
”ہنس۔۔۔ نہیں رہی۔۔ رو رہی ہو گی۔۔’ ‘ پری نے کہا۔
”اس کا سر اتنا بڑا کیوں ہے؟” علینا نے تجسّس سے پوچھا۔
”یہ سر بڑا نہیں ہے۔ یہ گٹھڑی ہے ۔ ‘ پری نے جواب دیا۔
”یہ کچھ بیچ رہی ہے؟” علینا اس کے پاس بیٹھ گئی۔
‘ہاں!”
”مجھے بھی لے دو ۔۔ کتنا کا ہے؟ اور ہے کیا ؟” علینا نے ہنستے ہوئے کہا۔
”خواب۔۔۔۔ کتنے والا چاہئے ؟” پری سپاٹ لہجے میں ہی کہہ رہی تھی۔
علینا کے چہرے کی مُسکراہٹ فوراً غائب ہو گئی۔
”تُم کب آئیں؟؟ مجھے لگا پری خود سے باتیں کر رہی ہے، پگلی۔۔۔” خالا ہنستے ہوئے وہاں آئی تھیں۔
”خود سے باتیں نہیں کر رہی۔۔ میں پاگل ہوں تو آپ کی نظر کون سا ٹھیک ہے؟ یہ سامنے بیٹھی ہے ۔ ‘ پری نے جواب دیا اور غصے سے کچن میں چلی گئی۔
”ارے تمہیں ہی آوازیں دے رہی تھی، کھانا کھا لو اور وہ اس دن تم خالو کا پوچھ رہی تھی ناں، جہانگیر آرہا ہے بیس کو۔۔” اماں نے آلو والا پراٹھا اس کے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
وہ خاموشی سے پراٹھا کھانے لگی۔
دو چار نوالے کھانے کے بعد اماں سے پوچھا: ”کیا زارا بھی خواب بیچتی ہے ؟”
”کیا؟” اماں نے حیرانی سے پوچھا۔
‘میں پوچھ رہی ہوں، جہانگیر کی بیٹی زارا جہانگیر بھی کیا خواب بیچتی ہے؟” وہ الفاظ پر زور دیتے ہوئے بولی۔
”خواب بیچنے کا تو پتا نہیں، ہاں دیکھتی ضرور ہو گی۔” اماں نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
”خواب تو سب ہی دیکھتے ہیں ۔ کوئی خوابوں کی بھری پٹاری کو ٹھوکر مار کے چل دے ناں تو پھر وہ پٹاری آنکھوں میں یا کمرے میں سجانے کا دِل نہیں کرتا ۔ پھر وہ پٹاری سر پر اُٹھا کر خواب بیچنے کو دِ ل کرتا ہے ۔ بعض دفعہ میرا دِ ل کرتا ہے کہ میں آواز لگائوں ، خواب لے لو۔۔۔ خواب لے لو ۔۔ اور مفت میں لے لو۔” وہ ہنسنے لگی یہاں تک کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
کھانا ٹیبل پر ہی چھوڑ کر وہ کمرے میں چلی گئی لیکن اس کی ماں حیرانی سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔
٭…٭…٭
”السلام و علیکم!” بیس تاریخ کی شام۔ خالا اور زارا اندر داخل ہوئے۔ ہاتھ میں ڈھیر سارے تھیلے لئے اور صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ پیچھے پیچھے دراز قد کا ایک آدمی، چہرے پر لمبی سی ڈاڑھی، ہاتھ میں تسبیح پکڑے، سفید شلوار قمیص پہنے اندر داخل ہوا، شلوار ٹخنوں سے اوپر، پائوں میں سادہ سی چپل پہنے وہ آہستہ آہستہ اندر داخل ہوا۔
”آئو جی آئو۔۔۔ السلام و علیکم۔” اماں کمرے سے باہر آتی ہیں۔
”ارے یہ کیا، زارا نے بڑا دوپٹہ لپیٹا ہوا ہے اور تُم نسرین، واہ واہ۔۔ اتنی بڑی چادر؟” اماں ہنسنے لگی۔
‘بس آپا، یہ ہیں ناں ۔۔ انہوں نے کہا اب شوہر کا حکم ہی سب کچھ ہوتا ہے۔” نسرین نے ہنستے ہوئے کہنے لگی۔
”خود بھی تو دیکھیں کتنا بدل گئے ہیں اور تو اور اپنی عمر سے دس سال بڑے لگتے ہیں۔” نسرین ہنستے ہنستے جملہ مکمل کیا۔
”خالو جان آپ آ گئے۔ آپ ہی کا تو انتظار تھا صبح سے۔۔۔” علینا آئی اور سب سے ملنے لگی۔
خالو نے علینا کا ماتھا چوما اور کاندھے پر بازو پھیلا کر اس کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
”اور یہ اتنے سارے تحفے۔۔ کس کے لئے۔” علینا نے وہاں ڈھیروں شاپروں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ارے علینا آپی ۔ آپ کے لئے ، خالا جان کے لئے اور پری کے لئے۔” زارا بتانے لگی ۔
”ارے پری کہاں ہے؟ وہ نظر نہیں آئی” جہانگیر نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”وہ تو دو ہفتے پہلے صبح صبح بھاگی ہوئی آئی۔” آکر کہنے لگی۔ اماں اماں۔۔ کیا خالو آئے تھے؟ میں نے کہا نہیں بیٹی ، مگر آنا ضرور ہے اور جس دن تمہارے آنے کی تاریخ طے ہوئی، اس دن بھی کہہ رہی تھی ۔ ابا کے چالیسویں پر گئے تھے خالو۔۔ جب آئیں گے وہی تاریخ ہو گی ، پورے چھے برس ہو گئے۔” اس نے تو جیسے گِن گِن کے وقت گزارا ہے۔” اماں بات بڑھا چڑھا کر بتانے لگی۔
”ارے بُلائو تو سہی یا میں خود جا کر دیکھ آئوں ۔۔’ ‘ جہانگیر نے کہا۔
”وہ اوپر والا کمرہ ہے اس کا ۔ اپنی مرضی سے سیٹ کیا ہے ۔ پتا نہیں کالا رنگ اتنا کیوں پسند ہے اُسے؟ اتنی بڑی ہو گئی ماشاء اللہ ، کبھی عجیب عجیب حرکتیں کرے گی، کبھی عجیب سوال ۔۔ ایک دِن میں نے کہا ، گھر کا دروازہ اندر سے بند کر لینا ، کہنے لگی ۔۔ اس گھر میں ہی کیا جو کوئی چرائے گا ؟ میں نے کہا اکیلی عورت کھلی تجوری کی مانند ہوتی ہے ، کہنے لگی اور بچی کے بارے میں کیا خیال ہے ۔لو بھلا ۔۔ بچی کو کسی نے کیا کہنا۔۔” ماں نے ہنستے ہوئے بتانے لگی۔
جہانگیر نے پری کے لئے لائے گئے تحفے اُٹھائے اور کمرے کی طرف جانے لگا ۔
پری دروازہ اندر سے بند کئے بیٹھی تھی ۔
”پری دروازہ کھولو ۔۔ دیکھو ۔۔ میں آ یا ہوں ۔۔ خالو۔۔” وہ دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا ۔
پری نے دروازہ نہیں کھولا ۔ اس کی ماں نے کہا:
”جہانگیر تُم آئو یہاں ، میں بلاتی ہوں۔” جہانگیرواپس آیا اور چارپائی پر بیٹھ گیا۔
اتنے میں پری نے دروازہ کھولا اور سیڑھیاں اُترنے لگی ۔
”یہ بھی ناں، ایسے ہی کرتی ہے ۔ کبھی سارا سارا دِن اندر بند رہے گی اور کبھی یہ پچھلی دیوار پر تصویریں بناتی رہے گی۔”
پری اب آکر صحن میں کھڑی ہو گئی۔
”ایک مہینے سے تمہیں خالو کا انتظار تھا۔ اب آیا ہے تو مل نہیں رہیں۔” اس کے ماں نے کہا۔
”ناراض ہو گی ناں۔۔ کہ پہلے اس سے کیوں نہیں ملا۔” جہانگیر نے تسبیح کا دانہ پھینکتے ہوئے کہا۔
”پیار لو بیٹا خالو سے۔” ماںنے اسے پیار کرتے ہوئے کہا۔
”بہت پیار دیا ہے خالونے مجھے۔ اب اور لیتے ہوئے شرمندہ ہوتی ہوں۔ اتنے احسان ہیں ان کے مجھ پر۔” وہ خود کلامی والے انداز میں بولی۔
”سر پر دوپٹہ تو لو۔۔” ماں نے پیار سے کہا۔
”دوپٹہ۔۔۔ سر پہ ۔۔ اب ان سے کیسا پردہ۔۔” پری نے بے ساختہ کہا۔
”کیسی باتیں کرتی ہوبیٹا؟ تُم جیسی پیاری لڑکی کو بھلا کون پیار نہیں کرے گا۔” جہانگیر اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے سر پر پیار دیا اور اس کا ماتھا چوما۔
”چلو آئو دونوں یہیں بیٹھتے ہیں۔ عرصہ ہوا باتیں بھی نہیں کیں۔ تم نے تو فون بھی نہیں کیا۔” وہ اس کے ساتھ کسی بھی احساس سے ماورا چارپائی پر بیٹھی تھی ۔ اس کے سر پر بندھی خوابوں کی گٹھڑی کھُلتی جارہی تھی۔
”میں کھانے کا بندوبست کرتی ہوں۔ تم لوگ بیٹھو۔” ماں نے کہا اور چلی گئی۔
”میں آتی ہوں آپ کا ہاتھ بٹانے کو۔” خالا نے کہا اور پیچھے چلی گئیں۔
وہ چاروں صحن میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔
”بس کر دو ، چھوڑ دو پیچھا خالو کا۔۔” ماں نے آواز دی۔
”جہانگیر، اس علینا کی تو باتیں نہیں ختم ہوں گی۔ تُم تھوڑا انتظار کر لو بس آدھے گھنٹے تک کھانا تیار ہے ۔ یہ گوشت گَل ہی نہیں رہا۔” ماں نے کہا۔
”ایسا کریں اوپر پری کے کمرے میں آرام کر لیں ، یہاں شور ہو گا بہت ۔ میں چھوڑ آتی ہوں۔” علینا نے کہا۔
”نہیں بھئی ، پری کا کمرہ ہے، وہی چھوڑ کے آئے اور میں نے سُنا ہے کہ اس نے کمرہ بہت اچھا سیٹ کیا ہے پھر بتائے بھی تو سہی کیا سجاوٹ ہے۔” خالو نے کہا اور پری کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ لے جانے لگے۔
٭…٭…٭
پری کمرے کے دروازے سے واپس پلٹی۔
جہانگیر نے ہاتھ پکڑ کر اسے اندر کھینچا۔ ”کہاں جا رہی ہو۔ اچھا ایسا کرو یہاں بیٹھو میرے پاس۔” اُس نے پری کو زبردستی کھینچا۔
”تمہارے باپ کے مرنے کے بعد سے ہر مہینے تُم تینوں ماں بیٹی کا خرچہ الگ بھیجتا رہا ہوں تاکہ تمہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔” جہانگیر نے کہا۔
پھر وہ دروازے کی طرف بڑھا اور دروازہ بند کر دیا ۔
”یہ دیکھو، ابھی بھی سب سے مہنگی چیزیں تمہارے لئے لایا ہوں اور یہ فون بھی ۔۔ یہ لو۔” وہ ساری چیزیں نکال کر پری کی طرف بڑھانے لگا۔
”اب کبھی نخرہ نہ دکھانا ، پہلے تم ڈرتی تھی اور اب نخرہ خوب دکھاتی ہو۔” جہانگیر نے کہا اور ہنسنے لگا۔
پری کو اب کسی ہاتھ، کسی چہرے سے ڈر نہیں لگ رہا تھا کیوں کہ وہ کچھ بھی محسوس کرنے سے عاری تھی ۔ اس کے کانوں میں زور زور سے آواز گُونج رہی تھی ، ‘خواب لے لو ۔۔۔ خواب ۔۔۔”
وقت گزرتا جا رہا تھا۔ علینا صبح ناشتے کے برتن اُٹھانے پری کے کمرے کی طرف گئی ۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے اندر سے آوازیں آ رہی تھیں ۔ جہانگیر کے ہنسنے کی ۔ پری کی خاموش سسکیوں کی ۔
پری نے دروازہ کھولا ۔ اس کی آنکھوں میں سُوجن تھی ۔جہانگیر کے لائے ہوئے سارے شاپرز اس نے سر پر اُٹھائے اور کہنے لگی: ”خواب لے لو ۔۔۔ خواب ۔۔۔ خواب لے لو۔۔ یہ سستے والے بھی ہیں اور مہنگے والے بھی۔” وہ آوازیں لگاتی ہوئی سیڑھیاں اُتر رہی تھی ۔ علینا کی چیخ و پُکار سے گھر والے تو کیا آس پاس محلے والے بھی چھتوںپہ چڑھ آئے تھے ۔
پری اپنی دُھن میں مگن ، خوابوں کی گٹھڑی سر پر اٹھائے صحن کے چکر لگا رہی تھی۔
علینا نفرت بھری نگاہوں سے جہانگیر کو دیکھ رہی تھی ۔ زارا غصے سے بھر ی نظروں سے باپ کو دیکھ رہی تھی۔ وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی اور باپ کے سامنے پہنچ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگی۔ وہ رو رہی تھی، سسک رہی تھی۔ ہاتھوں سے ایک گٹھڑی بنائی، اس کو سمیٹ کر سر پر رکھا اور کہا: ‘خواب لے لو ۔۔ خواب ۔۔ میرے بھی لے لو۔۔ میرے بھی لے لو۔۔’
٭…٭…٭