”ندا کیا کررہی ہو؟” وہ لیپ ٹاپ پر کام کررہی تھی۔ جب وہ اس کے پیچھے آکر بیٹھ گیا۔ وہ ایک دم ڈر گئی تھی۔ نہ جانے کیوں شاید اُس کے اس دن کے روئیے کی وجہ سے۔
وہ کسی دوست کی تصویر پر کمنٹ کررہی تھی۔
”پیاری ہے تمہاری دوست” اس نے ماحول کو خوش گوار بنانے کے لیے کہا۔
نیچے چیٹ میں کوئی میسج بلنک ہوا تھا۔
”ندیم مغل اعوان”
”کون ہے یہ؟” فرقان سیدھا ہوکر بیٹھا تھا۔
”آپ نے جواب نہیں دیا۔” پھر میسج آیا تھا۔
ندا کی رنگت سفید پڑ گئی تھی۔ نہ جانے اب کون سے ناکردہ گناہوں کی سزا ملنی تھی۔
فرقان نے اس سے لیپ ٹاپ لے کر چیٹ کھولی تھی۔ سب اسی کے میسج تھے۔
بس ندا نے سلام کرکے پوچھا تھا کہ
” کون ہو اور آئی ڈی کہاں سے ملی؟”
مگر اتنا پوچھنا ہی قیامت ہوگیا تھا۔
”تمہیں کیا ضرورت پڑی ہے ان لفنگوں سے بات کرنے کی؟” وہ دھاڑا۔
”فرقان میں تو اسے جانتی بھی نہیں بس یہ پوچھا تھا کہ…” وہ ہکلائی۔
”تو جاننا چاہتی ہونا تب ہی پوچھا تھا۔” وہ اب بھی غصے میں سارے میسج کی لسٹ چیک کررہا تھا اور وہ سوکھے پتے کی طرح کانپ رہی تھی۔
”میں سمجھی کہ کیا پتا کوئی جانے والا ہو اور اسے کوئی کام…”
”کام ایک ہی ہوتا ہے ان لفنگوں کو جہاں کوئی لڑکی دیکھی …اور یہ کیا dp لگا رہی ہے۔”
”بس ہاتھ ہی تو ہیں میرے۔ شادی کی تصویر ہے۔” وہ عذر پیش کرنے لگی۔
”کیا ضرورت ہے اپنے ہاتھ بھی لوگوں کو دکھانے کی۔”
وہ حیران ہوئی تھی اس نے تو کبھی اپنی تصویر نہیں لگائی تھی۔ بس کبھی ہاتھ کبھی پاؤں۔ وہ بھی شادی کی تصویریں۔
اس کی دوستوں نے تو اپنی تصویریں لگائی رکھی تھیں۔
”میں تمہارا اکاؤنٹ deactiveateکررہا ہوں۔ دوستوں کو گھر کا نمبر دو تاکہ مجھے بھی معلوم ہوکہ تم کس سے بات کررہی ہو۔”
”مگر فرقان!”
”اگر مگر چھوڑ میری بیوی رہنا ہے تو میرے حکم پہ چلنا ہوگا۔”
”میری بیوی رہنا ہے تو” آنسو اندر پیتے اس نے فرماں بردار بیویوں کی طرح سر ہلا دیا تھا۔
”شادی کے شروع کے دن ہی مشکل ہوتے ہیں۔ مرد بڑا بے اعتبار ہوتا ہے۔ ایک بار یقین کا کونڈا ڈل جائے گا تو ساری عمر اعتبار کرتا رہے گا۔ بس اس کا اعتماد کبھی نہیں توڑنا ورنہ وہ چھوڑنے میں دیر نہیں کرتا۔”
دادی کا قول اس کے کانوں میں سُنائی دیا تھا۔ کتنا کہتی تھیں دادی ایسی باتیں۔
”بھلا جب بھگتو نہیں تب تک پتا کہاں چلتی ہیں۔”
٭…٭…٭
”میں نے دوائیاں لکھ دی ہیں۔ کچھ ذہنی صدمہ ہے ٹھیک ہو جائیں گی۔ ان کا خیال رکھیں بس ان کو کوئی صدمہ نہ پہنچے۔”
ڈاکٹر نے پرچی تھمائی تو تیمور سلام کرکے باہر آگیا۔ نگہت کا ہاتھ پکڑے وہ باہر نکل رہا تھا جب کوئی سامنے آگیا۔
”مل ہی گئیں تم، کتنا ڈھونڈا تمہیں۔” ولید کی آواز نے صور پھونک دیا تھا دونوں ہی جم گئے۔
نگہت لٹھے کی طرح سفیدہوگئی تھی۔
”کون ہو راستہ چھوڑو” تیمور غصے ہوا۔
”راستہ ہی تو چھوڑ دیا آپ کی بیوی نے اپنے محبوب کا۔” وہ دھڑام سے فرش پہ گر گئی تھی۔
٭…٭…٭
”ہائے شکورن سنا تم نے۔” پڑوس کی خالہ نے دہائی دی۔
سبزی کاٹتی شکورفن نے سر اٹھایا۔
”کیا ہوا؟”
”ہائے نعیمہ کی لڑکی کو تیمور نے طلاق دے دی۔”
”ہائے…” شکورن چھری انگلی پہ چلا بیٹھی تھی۔
”نہ کر” وہ انگلی دبا کر خون روکنے لگی۔
”کیسا ظلم کیا تیمور نے۔ حیا نہ آئی تین بچے ہیں۔ کچھ تو خیال کرتا۔” وہ حیران ہوئی۔
”نہ کر شکورن نگہت کو کون سا حیا آئی منہ کالا کرتے۔ اس کا یار ٹکر گیا تھا تیمور کو سارا کچھا چٹھا کھول دیا لاہور میں کیا گل کھلا کر آئی ہے۔” خالہ نے ہاتھ نچا کر کہا۔
”ہائے اتنی تو معصوم سی لگتی ہے۔”
”نامت پوچھ کیا کیا بول کے اور خط اور تصویریںدکھا کر گیا ہے وہ لڑکا۔ ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکال دیا اس لڑکی نے اور پڑی ہے خود ہسپتال میں، ہوش نہیں آیا دو دن سے۔” خالہ بنا رکے اسے لعن طعن کررہی تھیں۔
”اور بھیجو لڑکیوں کو اتنی دور، سارے محلے نے کہا تھا مگر یہ نعیمہ اور اس کا شوہر سنتے کس کی ہیں اب دیکھ لیا انجام توبہ توبہ” شکورن نے ہاتھ ہٹا کر انگلی دیکھی خون خشک ہوکر رُک گیا تھا۔
٭…٭…٭
”ذوالفقار تمہیں رب کا واسطہ نہ کرو۔” وہ تڑپ تڑپ کر رو دی۔
”یہ تمہیں پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ امیر زادہ کیا ملا مجھے چھوڑ دیا۔” وہ حقارت سے بولا۔
کتنی مشکل سے اس امیر آسامی کو پھنسایا تھا دوستوں کو دن رات جتایا تھا کہ ثوبیہ اس کی ہے اور اس نے کیسے دودھ میں سے مکھی کی طرح اسے باہر پھینک دیا تھا۔ اس کی کلاس فیلوز کو کیڑے لگے تھے جو ثوبیہ کے پیچھے پھرتا رہا۔
”ذوالفقار دلاور مجھ سے شادی نہیں کرے گا۔ وہ میرا کزن ہے میں بدنام ہو جاؤں گی۔” رو کر ثوبیہ کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔
”ٹھیک ہے تمہیں قیمت ادا کرنا پڑے گی۔”
ذوالفقار بہت جلدی مان گیا تھا۔ لفافہ میز پر سے اُٹھا کر اس نے جیب میں ڈال لیا۔
”ٹھیک ہے میں ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔” ثوبیہ نے آنسو پونچھے۔
”مچھلی نے جال میں سے نکلنے کے لیے زور لگانا شروع کردیا تھا اور شکاری نے جال کھینچنا شروع کردیا تھا۔
”تڑپا تڑپا کر ماروں گا۔ جب تک قیمت وصول نہیں ہوگی چھوڑوں گا تو نہیں۔” وہ دل ہی دل میں مُسکرا دیا۔
”شبیر ابھی پہنچ فوراً چاچے کی دکان کے پیچھے” وہ تیزی سے بولا۔
”کیا بات ہے اسلم۔” شبیر پانچ منٹ میں ادھر تھا مگر اس کا حلیہ دیکھ کر گھبرا گیا۔
ہاتھوں اور قمیص پر لگا خون۔ دوسرے ہاتھ میں پکڑا پستول۔
”کیا کیا ہے اسلم؟” وہ گھبرایا۔
”یار میری مدد کر میں اپنی بہن کو گولی مار کر آیا ہوں، مجھے ادھر سے بھاگنا ہے۔”
اس کی بات پہ شبیر اچھلا تھا۔
”سیما کو مگر کیوں؟”
”آج وہ پھر اس سے ملنے گئی تھی۔ میں نے منع بھی کیا تھا۔ وہ لڑکا بھاگ گیا سیما کو میں نے موقع پر گولی ماردی۔”
”او آج لگا ہے نا میرا یار۔ صحیح ہے مرد کی شان ہے یہ۔” شبیر نے اسے تھپکی دی تھی اور ساتھ لئے چل پڑا۔
”نہ جانے باپ بھائی کی عزت کو بٹا لگا کر کیا مل جاتا ہے ان لڑکیوں کو” اسلم نے زمین پر تھوکا۔
٭…٭…٭
”چٹاخ ایک تھپڑ اس کے منہ پہ پڑا تھا اور پھر بارش ہی ہوگئی تھی۔”
”قاسم کیوں مار رہے ہیں۔” نیلم اپنے آپ کو بچا رہی تھی۔
”اتنے عرصے میں اس لیے رکا رہا کہ شاید تمہارے باپ کو رحم آجائے اور وہ جائیداد میں تمہارا حصہ دے دے۔ آخر کر ہی دیا نہ فیصلہ عاق کردیا تمہیں۔”
وہ غصّے سے چیخ رہا تھا۔
اس کی ایک سال کی بچی بلک بلک کر رونے لگی تھی اس چیخ و پکار سے۔
”اپنی بیٹی کا ہی خیال کرلیں۔”
”ہاں کروں گا خیال کہ تیرے جیسی نہ نکلے۔”
کبھی وہ اس کے قصیدے پڑھتا تھا اور کچھ سال میں وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی کہ وہ اس پہ تھوکتا بھی نہیں۔
”نیلم مت کرو اس سے شادی۔ اپنے ماں باپ کا ہی سوچ لو۔ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔” امی نے کتنا سمجھایا تھا مگر آنکھوں پہ تو محبت کی پٹی چڑھی تھی۔ جب تک اُترتی نہیں تب تک دکھائی کیسے دیتا۔
امیر کبیر نیلم نے شادی تو کرلی ہو جاتے صرف عورت ہی ہے جو پکڑ میں آتی ہے۔ کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتے کے لیے، بھٹی میں جلنے کے لیے، عزت کے نام پہ قربان ہونے کے لیے اور چپ چاپ ہر ظلم سہنے کے لیے۔ ندا نے مُسکرا کر کہا تھا۔
”کیا ہے امی آپ نے تو اس سے بھی مشکل مطلب بتا دیا۔” وہ منہ بنانے لگی۔
”تم نہیں سمجھو گی۔ بھلا یہ باتیں وقت سے پہلے سمجھ کسے آتی ہیں۔” وہ چاولوں کی ٹرے لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
”مجھے تو بالکل نہیں۔” نادیہ نے منہ بسورا۔
بستر پہ ہاتھ پاؤں پھیلائے تو موبائل چمکا اور اس نے مسکراتے ہوئے موبائل اُٹھا لیا۔
٭…٭…٭