حوّا کی بیٹی — سارہ عمر

”بس یہیں روک دیں۔” وہ ڈرائیور کے پیچھے سے بولی تھی۔ پرس سنبھالتی وہ اپنے اسٹاپ پر اتر گئی۔
ایک لمحے کے لیے نظر سڑک کے پار اُٹھی اور پلٹ کر واپس آنا بھول گئی۔
”یہ تو…” وہ زیر لب بَڑبَڑائی۔
”یہ یہاں کیسے؟یہ تو گوجرانوالہ ہے …” اس نے اپنی چادر کا پلو کھینچ کر منہ کے آگے کیا۔ سوائے ایک آنکھ کے اس کا سارا چہرا چادر میں چھپ گیا تھا۔
”یااللہ! بس گھر کا راستہ نظر آجائے جلدی سے۔” اس نے گھر کی طرف دوڑ لگا دی تھی جیسے کوئی بھوت نظر آگیا ہو۔
گھر پہنچتے پہنچتے سارا جسم پسینے میں بھیگ چکا تھااور سانس بری طرح اُکھڑ رہی تھی۔
”آ گئی نگہت؟ جلدی سے روٹی ڈال دے۔ بچے بھی بھوکے ہیں۔” اسے ہاتھ دھوتا دیکھ کر ساس نے کہا تو وہ کچن میں چلی آئی۔
اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور ہونٹ خشک تھے،اس سے روٹیاں ٹیڑھی پک رہی تھیں۔ کچھ کچی اور کچھ جل رہی تھیں۔ چولہے کے آگے پسینہ تو آتا ہی ہے مگر اس کو ٹھنڈے پسینے آرہے تھے۔
”اگر وہ واقعی ولید ہوا اور اس نے مجھے پہچان لیا تو کیا ہوگا؟ میں تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گی۔”
٭…٭…٭




سمندر کی لہریں بار بار اس کے پاؤں کو چھو کر جارہی تھیں۔ جب ریت پاؤں کے نیچے سے نکلتی تو ندا کھلکھلا کر ہنس پڑتی اور فرقان اسے دیکھ کر ہنس پڑتا۔
”ایسے پاگل ہورہی ہو جیسے پہلی بار پانی دیکھا ہے۔” اس نے ندا کا ہاتھ تھاما اور ساحل پر چلنے لگا۔
”ایسی بات نہیں! ہر مہینے آتے تھے ہم سمندر پہ، بس شادی کے بعد پہلی بار آئی ہوں۔”
وہ مُسکرا کر روٹھے انداز سے بال سلجھانے لگی جو ہوا سے اڑے جارہے تھے۔
”تبھی اتنا مزہ آرہا ہے؟” اس نے شوخی سے کہا تو وہ پھر ہنس دی۔
”سچی اسی لیے اتنا مزہ آرہا ہے۔” اس نے ہاں میں ہاں ملائی تو وہ اس کا ہاتھ گرم جوشی سے دباتا مُسکرا دیا۔
ندا نے فرقان کے کندھے پر سر رکھا اور آنکھیں بند کردیں۔
”کاش یہ پل اسی طرح رہیں اور فرقان ایسے ہی مجھے پیار کرتے رہیں۔” وہ دل ہی دل میں مُسکرا دی۔
٭…٭…٭
”راجو ایک اور پلیٹ لا۔” شبیر نے راجو کو آرڈر کیا اور آج کا اخبار نکال کر صفحے پلٹنے لگا۔
”لو یہ دیکھو۔” اسلم نے پانی کا گلاس رکھ کر اسے دیکھا۔
”ڈیرہ غازی خان: چار بچوں کی ماں نے زہر کھا کر خودکشی کرلی۔ وجۂ تنازع معلوم نہ ہوسکی۔” وہ خبر پڑھ کر سنا رہا تھا۔
”یہ اتنے چھوٹے چھوٹے شہر کی عورتیں اتنا بڑا کام کیسے کرلیتی ہیں۔ چار بچوں کا بھی خیال نہ آیا حد ہوگئی۔” اسلم بری طرح نالاں ہوا۔
”بھلا چار بچوں کے ساتھ ایسا کیا مسئلہ کھڑا ہوگیا جو خودکشی جیسا حرام کام کر بیٹھی؟” شبیر نے بھی لقمہ دیا۔
”صاحب یہ تیسری پلیٹ ہے۔” راجو نے چھولوں کی پلیٹ رکھی تھی۔
”ہاں ہاں آئے ہیں تو صحیح سے کھا کر جائیں گے۔ برنس روڈ کے چھولے۔ ایویں تو مشہور نہیں کیا ذائقہ ہے بھئی۔”
شبیر پھر سے کھانے میں جت گیا تھا۔ اسلم بھی ساتھ دینے کو موجود تھا۔
”کیا بنا تیری والی کا؟” شبیر نے پاس آکر آنکھ مار کے سرگوشی کی۔
”کہتی ہے مل نہیں سکتی۔ بس فون پہ بات کرو۔ بھائی ناراض ہو جائے گا۔” اسلم نے فکر مندی سے کہا۔
”چل تو لگا رہ کبھی تو آئے گا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔” وہ پانی کا گھونٹ بھر کر بولا۔
”سیما کو دوبارہ اس ایزی لوڈ والے نے تنگ تو نہیں کیا۔” شبیر کی بات پہ اسلم کی تیوریاں غصے سے چڑھ گئی تھیں۔
”آنکھ تو اٹھا کر دیکھے میری بہن کی طرف ہاتھ پاؤں توڑ کے چیل کوؤں کو ڈال دوں گا۔” وہ بھنا کر بولا۔
”ہاں ٹھیک ہے کھانا کھا کچھ بھی مدد چاہیے ہو یار کی تو بتانا۔”شبیر نے ٹھنڈا کیا تھا۔
٭…٭…٭
”اُف اسے بھی ابھی خراب ہونا تھا۔” گاڑی چلتے چلتے گرم ہوگئی تھی اور اب رک گئی۔ نئی نئی گاڑی چلانی سیکھی تھی نیلم نے۔کتنا منع کیا تھا ماما بابا نے اکیلے مت نکلنا مگر نیلم بھی ضد کی پکی تھی۔
”اب کیا کروں؟” وہ پریشان ہوئی۔ بونٹ کھول کر ساتھ خود کھڑی ہوگئی۔
پہلا بائیک والا ہی اسے دیکھ کر رک گیا۔
پینٹ شرٹ پہ گلاسز لگائے۔ وہ فوراً اس کی طرف آیا۔
”کیا ہوگیا آپ کی گاڑی کو؟”
”پتا نہیں مجھے سمجھ نہیں آرہی۔”
”جی میں دیکھتا ہوں۔”
سمجھ تو اسے بھی نہیں آنی تھی مگر تھوڑا ہاتھ مار کر ایکٹنگ کرنے میں کیا حرج تھا۔
نیا شکار پھنسنے والا تھا۔
نیلم بار بار کئی بار پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”بابا کو فون کرے گی تو ڈانٹ ہی پڑے گی۔” وہ خود سے سوچنے لگی۔
”موبائل ہے آپ کے پاس میں گھر بھول آیا ہوں یہاں میرے دوست کی ورک شاپ ہے وہ بندہ بھیج دے گا۔”
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں اور انہی دو آنکھوں نے اسے دوبارہ اندھا کردینا تھا۔
اس نے فوراً غائب دماغی سے موبائل پکڑایا۔
”بس ابھی آجاتا ہے۔”
دس منٹ بعد ہی بندہ آگیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی سٹارٹ ہوگئی۔ قصہ ختم، مگر نہیں ابھی تو قصہ شروع ہوا تھا۔
اگلے کئی دنوں میں نیلم کے موبائل پہ نامعلوم نمبر سے میسج آئے اور پھر اس محسن کا پتا لگا تو شناسائی دوستی اور دوستی محبت میں بدل گئی تھی اور یہ محبت جو دل لگی تھی دل کی لگی بننے والی تھی۔
٭…٭…٭




”نگہت یہ پہن کر دکھاؤ۔” اس نے کانچ کی نازک سی چوڑیاں اس کے ہاتھ پر رکھ دیں۔ نگہت کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ جگمگ جگمگ کرتی چوڑیاں اس نے اپنے نازک ہاتھوں میں پہن لیں۔
کانچ سے دل والی لڑکیوں کو کانچ کی چوڑیاں پہنتے تو کچھ نہیں ہوتا۔ مگر جب وہ ٹوٹتی ہیں تو اس کے زخم ایک عرصے درد کرتے ہیں۔
”ولید بہت خوب صورت ہیں۔”
”تم سے زیادہ نہیں۔” وہ مُسکرایا۔
”کب بھیجو گے میرے گھر رشتہ؟” پھر وہی سوال لبوں پر مچل گیا۔
”پہلے کچھ بن تو جاؤں، کنگلے کو رشتہ کون دے گا۔” وہ اُداسی سے بولا۔
”تم بھیجو تو۔”
”گھر بھی تو گوجرانوالہ میں ہے تمہارا۔ پڑھائی ختم کرکے گھر جاؤ۔ امی کی بھی طبیعت بہتر ہوگی تو سفر کریں گی ناں۔” وہ پیروں میں پانی نہیں پڑنے دیتا تھا۔
وہ چوڑیوں سے کھیلنے لگی۔
”گھر والوں کو کیا کہو گی؟ چوڑیاں کس نے دیں؟”
”کہہ دوں گی دوست نے۔” وہ جواب دیتے ہنس پڑی تو وہ بھی ہنس پڑا۔
ان لڑکیوں کو بہلانا کتنا آسان ہے ناں۔” سو پچاس کا گفٹ دے کر سو سال ان کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ وہ سوچ کر رہ گیا۔
٭…٭…٭
ندا کیا کررہی ہو؟” فرقان کی آواز پہ وہ ڈر کر پیچھے ہٹی۔ ہاتھ میں پکڑا موبائل فرقان نے جھپٹ لیا تھا۔
”کیا دیکھ رہی تھی۔ موبائل چیک کررہی ہو؟”
”کال لوگ کیوں کھلی ہوئی ہے؟” وہ بری طرح دھاڑا تھا۔
”میں تو…” اس کی دھاڑ نے اس کے ہواس معطل کردیئے تھے۔
”مجھ پر شک کررہی ہو، اپنے شوہر پر ؟”وہ سخت ناراض تھا۔
”فرقان یقین کریں کال آرہی تھی میں نے۔”
”ضرورت کیا ہے تمہیں کال دیکھنے یا اٹھانے کی۔ میں تمہارا موبائل چیک کرتا ہوں۔ آئندہ اس کو ہاتھ مت لگانا سنا تم نے۔” وہ ڈر گئی تھی۔
٭…٭…٭
”ثوبیہ بہت بہت مبارک ہو۔” تانیہ نے بھی مبارک باد دی تھی۔
وہ بھی سب کو اترا اترا کر اپنی منگنی کی انگوٹھی دکھا رہی تھی۔
”کون ہے کیا کرتا ہے وہ؟” سب فرداً فرداً پوچھ رہی تھیں۔
”اور تمہارے پرانے عاشق کا کیا ہوا ثوبیہ جو جینے مرنے کی قسمیں کھا رہا تھا۔”
سمعینہ نے سب کے سامنے اس سے پوچھا تو اسے لگا بیچ چوراہے میں اس کا راز کھل گیا۔ حالاں کہ یہ راز تھا ہی کب۔ ہر روز کا قصہ تھا ڈیپارٹمنٹ والوں کے لیے۔
سینئر کے ذوالفقار کے ساتھ ثوبیہ کا افیئر زد عام تھا مگر دونوں کے گھر والوں کو کچھ معلوم نہ تھا کہ یونیورسٹی میں کیا ہورہا ہے۔
ذوالفقار گیا تو بات بھی دب گئی۔ سب کے سامنے یہ بھانڈا پھوٹے گا۔ اسے امید نہ تھی۔
”بھلا اس کنگلے ذوالفقار کے پاس سوائے ڈگری کے تھا ہی کیا؟ اچھے وقت پہ جان چھوٹ گئی تھی۔ ”ابو نے اپنے کزن کے بیٹے سے منگنی کیا کی کہ اب ثوبیہ ہواؤں میں تھی۔
”یار چھوڑ۔” تانیہ نے ثوبیہ کا منہ دیکھ کر کہا جہاں ایک رنگ آرہا تھا ایک جارہا تھا۔
چھوڑ تو ثوبیہ نے اسے دیا تھا مگر اب ذوالفقار نے اسے نہیں چھوڑنا تھا یہ اسے نہیں پتا تھا۔
٭…٭…٭
”نگہت تم اتنی ڈری ڈری کیوں رہتی ہو؟” تیمور سے اب نہ رہا گیا۔ نگہت کا یہ حال دیکھ کر انہیں کچھ عجیب لگا۔
شادی کے بعد اتنے سالوں میں کبھی وہ اتنی بدحواس نہ ہوئی۔ اب تو وہ باہر جانے سے ڈرتی، فون کی گھنٹی سے ڈرتی، دروازہ بجنے سے ڈرتی۔
اس کی دماغی حالت کافی سنجیدہ ہوگئی تھی۔
”مجھے کسی ڈاکٹر سے ہی بات کرنی پڑے گی۔”
وہ اسے سائیکاٹرسٹ کو دکھانا چاہ رہا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بارش کب ہوگی — مریم جہانگیر

Read Next

ہم نفس — شہرین اشرف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!