حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

میں نہیں جانتی، میں نے یہ سب کیوں کیا۔
مجھے یہ سب کرنا چاہیے تھا یا نہیں۔
لیکن شاید ان دنوں میں اتنے پچھتاووں کا شکار تھی کہ بس کسی طرح… کسی بھی وقت پر وہ سب حاصل کر لینا چاہتی تھی جومیں نے کھو دیا تھا۔
ایک دن میں مسلم تھی۔
اگلے دن میں کچھ بھی نہیں تھی۔
کچھ ہونے سے کچھ نہ ہونے تک کاسفر میں نے اپنی مرضی سے طے کیا تھا۔ کہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔
واپسی کا سفر میں نے کانٹوں پر طے کیا ہے۔
واپس وہیں تک پہنچنے کے لیے مجھے کئی سال لگ گئے اور میں پھر بھی یہ نہیں جانتی کہ خدا کے نزدیک میں کہاں کھڑی ہوں۔
جب میں نے تم کو بھی اپنا مذہب چھوڑنے کا ارادہ کرتے دیکھاتو میں نے سوچا۔ اگر میں تمہیں اس کام سے روک لوں تو شاید اللہ میرے گناہ معاف کر دے۔ شاید وہ میری زندگی میں سکون کردے۔ شاید وہ…
میں مانتی ہوں اس وقت میں نے خود غرضی دکھائی تھی۔
میں نے سوچا تھا اللہ نیکی کا اجر ضرور دیتا ہے۔یہاں بھی…اور وہاں بھی۔
میں نے سوچا اگر میں نیکی کروں تو…
میں مانتی ہوں میں نے اس وقت بھی صرف اپنا سوچا تھا۔ میں یہ سب اپنے لیے کرنا چاہتی تھی،تمہارے لیے نہیں۔
اپنا مذہب چھوڑ کر میں جنت سے نکل آئی تھی۔ واپس جنت میں جانے کے لیے مجھے نیکیوں کے سہارے کی ضرورت تھی۔
میں نے تم سے محبت کا اظہار اس لیے کیا تھا۔ تاکہ تم مجھ پر اعتمادکرنے لگو،تاکہ تم یہ سمجھ لو کہ میں تمہاری محبت میں گرفتار ہوں اور اس لیے تمہیں اپنے مذہب پر قائم دیکھنا چاہتی ہوں۔
مجھے اس وقت تم سے محبت نہیں تھی۔ میں اس وقت محبت کرنے کے قابل ہی نہیں تھی۔
پارک میں پھیلتی ہوئی تاریکی میں حدید نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے کی کوشش کی تھی۔
وہ کیا تھی؟ باغی، گناہ گار، معصوم… یا مسیحا۔
اس نے اندازہ لگانا چاہا تھا۔
”جب ڈیوڈ میرے سامنے ختم ہوا۔ میرے لیے ساری دنیا ختم ہوگئی۔” وہ کہہ رہی تھی۔”میں نے سوچ لیا تھا۔ مجھے اب زندگی میں کچھ نہیں کرنا۔ مجھے بس رونا ہے۔ مجھے یوں لگتا تھاجیسے دنیا میں کہیں کچھ ہے ہی نہیں۔
نہ کوئی خدا، نہ پیغمبر، نہ مذہب، نہ رشتہ۔ اگر کچھ ہے تو صرف خود غرضی۔
مجھے ہر چیز سے نفر ت ہوگئی تھی،ہرچیز سے۔ میری فیملی مجھے ماردینا چاہتی تھی۔
جب انہوں نے ڈیوڈ کو مار دیا تو بہت دنوں تک میں سو نہیں سکی تھی۔ کمرہ بند ہونے پر بھی مجھے یونہی لگتا تھا جیسے ابھی کہیں سے گولی چلے گی اور میں مر جاؤں گی۔انہوں نے ڈیوڈ کو میری وجہ سے مارا تھا اور میں جانتی تھی وہ ہراس شخص کو ماردیں گے جو میرے قریب آنے کی کوشش کرے گا۔
تب میں نے سوچا تھا اب مجھے کسی سے کبھی بھی محبت نہیں کرنی ہے۔ میں کسی اور کا خون اپنے سر پر نہیں لینا چاہتی تھی۔ جب میں تم سے ملنے لگی تب میں نے سوچا ۔
اگر وہ لوگ تمہارے بارے میں جان گئے تو…؟ میں خوفزدہ ہوگئی۔
پھر میں نے سوچا تھا۔ میں بہت جلد تم سے ملنا چھوڑ دوں گی ہمیشہ کے لیے اور میں نے ایسا ہی کیا۔
تب تک تم میرے لیے صرف ایک نیکی تھے اور کچھ نہیں۔





لیکن ان چھ سالوں میں سب کچھ بدل گیا۔ میرا خیال تھا محبت صرف ایک بار ہوتی ہے۔ میرا خیال تھا مجھے ڈیوڈ کے بعد دوبارہ کسی سے محبت نہیں ہوگی۔”
وہ رک گئی تھی۔حدید نے اسے چہرہ موڑتے ہوئے دیکھا تھا۔
”ڈیوڈ سے میں نے خود محبت کی تھی۔
تم سے اللہ نے کروائی ہے۔
ان چھ سالوں میں ہر بار نماز پڑھنے کے بعد میں نے ایک ہی دعا کی تھی۔ میں تمہیں کبھی نہ دیکھوں،تم سے کبھی نہ ملوں۔
میں نے اللہ سے کہا تھا وہ تمہارے سامنے میرے عیبوں کو چھپا رہنے دے۔
وہ تمہارے سامنے میرا پردہ رہنے دے۔
چھ سال میری دعا قبول ہوتی رہی۔ میں نے تمہیں نہیں دیکھا۔
آج پہلی بار میں نماز میں یہ دعا کرنا بھول گئی اور…
اورتم میرے سامنے آکھڑے ہوئے اور… اور وہ بھی ہر راز جانتے ہوئے۔
تمہیں یاد ہے جب تم پہلی بار مجھ سے ملے تھے تو تم نے کہا تھا کہ دنیا میں تمہارا کوئی نہیں ہے۔ تب میں تمہیں بتانا چاہتی تھی کہ دنیا میں بہت سے لوگ میرے ہیں مگر میرے لیے کوئی نہیں۔
تمہیں خدا نے بہت سے رشتوں سے محروم رکھا اورجو رشتے چھینے، وہ اللہ نے چھینے۔
مجھے اللہ نے ہر رشتے سے نوازا اور میں نے ہر رشتہ خود گنوایا، اپنے ہاتھوں سے۔
آج دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو میرے لیے روتا ہوگا۔ مجھے یاد کرتا ہوگا اورپچھلے چھ سالوں میں، میں ہررات یہ سوچ کرسویا کرتی تھی کہ تم…تم کبھی نہ کبھی مجھے ضرور یاد کرتے ہوگے۔
دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ محبت کرتے ہیں۔
ان سے بھی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آپ سے محبت کرتے ہیں۔ میراخیال تھا تمہیں مجھ سے محبت تھی۔
اب نہیں ہے میں یہ بھی جانتی ہوں۔”
وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا تھا۔ پارک میں خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔بعض دفعہ سناٹا صرف باہر ہی نہیں، بلکہ انسان کے اندر بھی محسوس ہوتا ہے۔
میں بہت سے لوگوں کی مجرم ہوں۔
بہت سے لوگوں نے میری وجہ سے بہت کچھ سہا ہے۔
میں نے اپنے ماں باپ کے اعتماد کی دھجیاں اڑادیں۔
میں نے اپنے خاندان کی عزت کو نیلام کردیا۔ میری وجہ سے ڈیوڈ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
میری وجہ سے ڈیوڈ کے گھر والوں کو اس سے ہمیشہ کے لیے محروم ہونا پڑا۔
مگرحدید! میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ میں نے کم از کم تمہارے لیے کچھ برا نہیں کیا۔
میں نے تم سے جھوٹ ضرور بولا۔ تم سے قطع تعلق ضرور کیا لیکن تمہیں نقصان نہیں پہنچایا۔ پھر بھی میری وجہ سے تمہیں جوتکلیف پہنچی، میں اس کے لیے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی ہوں۔”
حدید نے اپنے سامنے اس کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا تھا۔ وہ بے یقینی سے اسے دیکھتا رہا تھا۔ پھر کچھ کہے بغیرایک جھٹکے سے وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا، چند لمحے وہ کچھ کہنے کی کوشش کرتا رہا پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔
فضا میں خنکی بہت بڑھ گئی تھی۔ ثانیہ اپنا بیگ اٹھا کر کھڑی ہوگئی۔ وہ اندھیرے میں غائب ہوچکا تھا۔ اس نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ جانتی تھی حدید اب دوبارہ اسے کبھی نظر نہیں آئے گا۔
”حدید کی زندگی، حدیدکی زندگی ہے۔ اس میں کہیں بھی کسی ثانیہ شفیق کو نہیں ہونا چاہیے۔”
اس کے ساتھ پارک میں آتے ہوئے اس نے سوچا تھا۔
”مجھے اسے سب کچھ بتا دینا ہے ،سب کچھ۔ مجھے آج اس سے کچھ بھی نہیں چھپانا۔”
اس نے طے کیا تھا اورپھر اس نے یہی کیا تھا۔ اس نے حدید کو ہربات بتا دی تھی۔ کچھ بھی راز نہیںرکھا تھا۔ وہ جانتی تھی اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔
”ہر کہانی کے انجام پر کچھ کردار کھوتے ہیں، کچھ کردار پاتے ہیں۔ میں کھونے والے کرداروں میں سے ہوں۔”
اس نے پارک کے گیٹ سے نکلتے ہوئے سوچاتھا۔
اس دن کے بعد وہ دوبارہ کبھی اسلامک سینٹر نہیں گئی۔ وہ اب کسی کے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتی تھی اور پروفیسر عبد الکریم… وہ دوبارہ ان کا سامنا کرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ کسی کا سامنا کرنا نہیں چاہتی تھی۔
*…*…*
کمیونٹی سینٹر میں عید کے اجتماع میں شرکت کر کے وہ باہر نکلی تو ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی۔ ہال کے اندر اورباہر لوگوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ گروپس میں کھڑے ہوئے لوگوں کے قہقہوں اورآوازوں نے ماحول پر ہمیشہ چھائی رہنے والی خاموشی کو ختم کردیا تھا۔ اس کے شناسا وہاں صرف چندلوگ تھے اوران کے پاس اس کے لیے زیادہ وقت نہیں تھا۔ وہ سب وہاں اپنی فیملیز کے ساتھ آئے ہوئے تھے اور فیملیز آپس میں گھل مل کر خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ اس کے لیے کچھ بھی نیا اور مختلف نہیں تھا۔پچھلے کئی سالوں سے وہ ایسے ہی عیدیں مناتی آرہی تھی۔
لوگوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے اس نے اوور کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال لیے تھے۔ خنکی میں غیر معمولی حدتک اضافہ ہوگیا تھا۔ کمیونٹی سینٹر سے نکلنے کے بعد وہ سڑک پر آگئی تھی۔ اوور کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے وہ فٹ پاتھ پر چلتی رہی۔
”اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو ڈراپ کرسکتا ہوں؟”
اس نے اپنے قریب ایک گاڑی کو رکتے دیکھا تھا اور پھر آواز آئی تھی۔ اس نے بے اختیار مڑ کر دیکھا۔ چند لمحے خاموشی سے دیکھنے کے بعد اس نے کہا تھا۔
”نہیں، شکریہ۔”
”بارش تیز ہوسکتی ہے۔” بڑی ہمدردی سے ایک بار پھر کہا گیا تھا۔
”اٹس آل رائٹ۔”
وہ ایک بار پھر چلنے لگی تھی۔ اس کے پاس رکنے والی گاڑی فراٹے کے ساتھ اس کے پاس سے گزر گئی تھی۔ اس کی اداسی یکدم بے حد گہری ہوگئی تھی۔ سڑک کے کنارے لگے ہوئے درخت کی نچلی شاخ پر اس نے پرندوں کا ایک جوڑابیٹھے دیکھا تھا۔
“One for Sorrow two for joy”
اس نے زیر لب کہاتھا۔
”Joy؟” ایک تلخ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ابھری تھی۔ بارش یکدم تیز ہوگئی تھی۔وہ مین روڈ پر پہنچنے کے لیے تیزی سے چلنے لگی۔
بس شیلٹر کے نیچے پہنچ کر وہ سوچنے لگی تھی کہ اسے اس وقت کہاں جانا چاہیے۔ وہ گھر جانا نہیںچاہتی تھی۔ کم از کم آج کے دن وہ گھر جا کر کمرے میں قید ہونا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے دور سے بس کو آتا دیکھ لیا تھا۔
ایک سستے سے انڈین ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر اس نے کھاناکھایا تھا اورپھر پہلے کی طرح سڑکوں پر بے مقصد بارش میں بھیگنے کے بجائے وہ ایک شاپنگ مال میں گھس گئی تھی۔ مختلف چیزوں اورلوگوں پر نظر دوڑاتے ہوئے بہت دیر تک وہ ادھر ادھر پھرتی رہی تھی۔ اسے یاد آیا تھا۔ پچھلی عید پر بھی وہ یہاں اسی طرح پھرتی رہی تھی۔
”اگلے کتنے سال میں اپنی عیدیں اس طرح گزاروں گی؟” شاپنگ مال میں کافی پیتے ہوئے اس نے سوچا تھا۔” یہاں اس طرح اکیلے پاگلوں کی طرح پھرتے ہوئے۔”
اسے اندازہ نہیں ہوا۔ اس نے وہاں کتنے گھنٹے گزارے تھے۔ جب وہ شاپنگ مال سے نکلی تھی تو آسمان تاریک تھا۔ بارش اب بھی برس رہی تھی۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا تھا۔ شام کے چھ بج رہے تھے۔
جس وقت وہ بس سے اتری تھی، بارش تیز ہوچکی تھی۔ مین روڈ سے بائی روڈ کا فاصلہ اس نے تقریباً بھاگتے ہوئے طے کیا تھا۔ پانچ منٹ کے بعد وہ اپنے گھر کے سامنے تھی۔ گھر کے عقبی جانب آتے ہی اس نے سب سے اوپر والی سیڑھی پر کسی کو بیٹھے دیکھا تھا۔ وہ کچھ حیران ہوئی تھی۔ اس وقت اتنی بارش میں کون بیٹھا ہے؟ ا س نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی مگر دور سے کچھ پتا نہیں چل رہاتھا۔
”جولین کا کوئی بوائے فرینڈ ہوگا۔ شاید ابھی وہ نہیں آئی۔”
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے اور کوٹ کی جیب سے کمرے کی چابی نکال لی تھی۔
سیڑھی پر جو بھی بیٹھا تھا اسے آتا دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ثانیہ نے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے سرسری نظر اس کے چہرے پر ڈالی تھی۔ اس کے ذہن میں جیسے ایک جھما کا ہوا تھا۔ سیڑھی کے کونے میں لٹکے ہوئے بلب کی ہلکی سی روشنی بھی اس کا چہرہ شناخت کرنے کے لیے کافی تھی۔ وہ چند لمحے وہاں سے ہل نہیں سکی۔
اپنے کمرے کے دروازے کی طرف جاتے ہوئے اس نے اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنی تھی۔ دروازہ کھول کر اسے بند کیے بغیر وہ اندر کمرے میں چلی آئی تھی۔
”سٹرک پر لفٹ کی آفر دینے کے بعد وہ شاید سیدھا یہیں آیا تھا مگر کیوں؟”
”اس نے اپنا اور کوٹ دروازے کے پیچھے لٹکاتے ہوئے سوچا تھا۔ وہ اندر آنے کے بجائے دروازے کے باہر ہی رک گیا تھا۔ثانیہ نے خاموشی سے دروازہ کھول دیا تھا۔ وہ کچھ جھجکتے ہوئے اندر آیاتھا۔ وہ بری طرح بھیگا ہوا تھا۔
”اس طرح بھیگنے کی کیا ضرورت تھی تم بر آمدے میں انتظار کر سکتے تھے۔” دروازہ بند کرتے ہوئے ثانیہ نے مدھم آواز میں اس سے کہا تھا۔
”بھیگنے سے کیا ہوتا ہے؟” اس نے مڑ کر پوچھا تھا۔ ثانیہ نے دیکھا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔
وہ شاید سیڑھیوں پر بیٹھا روتا رہا تھا۔ سات سال پہلے بھی اس نے ایک بار اسے اسی طرح پارک میں…
وہ آگے بڑھ گئی تھی۔فین ہیٹر آن کرنے کے بعد اس نے ایک فلور کشن اس کے سامنے رکھ دیا تھا۔
”یہاں بیٹھ جاؤ۔”
وہ جوتے اتار چکا تھا۔ ثانیہ نے باتھ روم میں جا کر اپنا گیلا حجاب اتار کر دوسراحجاب اوڑھ لیا تھا۔ وہ واپس کمرے میں آئی تو وہ فلور کشن پر بیٹھا ہوا تھا۔
”اپنا سویٹر اتار دو۔” اس نے ایک تولیہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔
اس نے خاموشی سے تولیہ پکڑ کر اپنا سویٹر اتارنا شروع کردیا۔ ثانیہ نے کیتلی میں کافی کے لیے پانی گرم ہونے کے لیے رکھ دیا ۔حدید کے سویٹر کو سیدھا کر کے اس نے ہیٹر کے سامنے پھیلا دیا تھا۔وہ خاموشی سے اس کی سرگرمیاں دیکھ رہا تھا۔ وہ اسے ایک اونی شال تھمانے کے بعد واپس کونے میں جا کرکافی بنانے میں مصروف تھی جب اس نے حدید کی آواز سنی تھی۔
”کیا تم یہ سب کام میرے لیے ساری عمر نہیں کرسکتیں؟” وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوگئی تھی۔
”یہ کیا کہہ رہاہے؟” اس نے سوچا تھا۔
”کیا اب بھی یہ ممکن ہے؟” اس نے مڑ کر اسے دیکھا تھا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ ہیٹر پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔
”شاید مجھے کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔”ثانیہ نے سوچا تھا۔ کافی کی ٹرے اس نے حدید کے سامنے لا کر رکھ دی تھی۔
”تم جانتی ہو، آج کیا دن ہے؟” اس نے کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
ثانیہ نے اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔ وہاں ایک عجیب سی کیفیت تھی۔
”عید ہے۔”بہت مدھم آواز میں اس نے کہا تھا۔
”بس… بس عید ہے؟” اس کی آواز میں عجیب سی مایوسی تھی۔
”تمہیں کچھ یاد نہیں؟” اسے یاد تھا مگر وہ خاموشی سے دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے کپ کو گھورتی رہی۔
”کم از کم تمہیں تو یاد…۔”
اس نے سراٹھاتے ہوئے پر سکون انداز میں اس کی بات کاٹ دی تھی۔ ”ہیپی برتھ ڈے حدید!” اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک ابھر کر معدوم ہوگئی تھی۔
”تمہیں میرا ایڈریس کہاں سے ملا؟”
”پروفیسر عبد الکریم سے۔” وہ خاموش ہوگئی تھی۔
”ابھی بھی اسی طرح روتے ہو جیسے پہلے…؟” اس نے مسکرانے کی کوشش کی تھی۔
”نہیں،اب تو بہت عرصہ ہوگیا ہے میں نہیں رویا۔ آخری بار تب رویا تھا جب تمہارے مرنے کی اطلاع…
ان چھ سالو ں میں بہت بدل گیا ہوں۔ اب رونا بھی میرے لیے ممکن نہیں رہا۔ آج پتا نہیں کیا ہوا۔ میں تمہارا انتظار کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اورپتا نہیں کیاہوا۔سارا ماضی یاد آنے لگا۔
یوں لگا جیسے بیچ کے چھ سات سال غائب ہوگئے ہوں۔
مجھے لگا میں ویسے ہی تم سے ملنے آیا ہوں جیسے چھ سات سال پہلے کیتھڈرل میں ملنے آتا تھا۔ تمہیں یاد ہے ناتب میں بہت رویا کرتا تھا۔”
ثانیہ نے اس کے ہونٹوں پر ایک معصوم سی مسکراہٹ دیکھی تھی۔
”جتنا زار و قطار میں تمہارے سامنے رویا ہوں، کسی اورکے سامنے نہیں رویا۔” اس نے نظریں جھکالی تھیں۔ کمرے میں ایک بار پھرخاموشی چھا گئی تھی۔
تم سے جب میں پہلی بار ملا تھا تو انیس بیس سال کا تھا۔ جذباتی، بزدل، کم ہمت، چھوٹی چھوٹی باتوں پر رو پڑنے والا۔ ان دنوں مجھے سارے رستے بند نظر آتے تھے۔
مجھے یوں لگتا تھا جیسے میں کوئی جانور ہوں جسے شکار کرنے کے لیے چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہو۔
مجھے لوگوں سے خوف اور وحشت ہوتی تھی۔
میرے ہاتھ اوردل دونوں خالی تھے۔
میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ ٹینا سے آخری ملاقات سے پہلے ایک رات میں نے اللہ سے دعا کی تھی۔




Loading

Read Previous

حاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!