حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

چند دنوں بعد ایک رات اسے ایک گاڑی میں ایمبیسی کے باہر ایک بلڈنگ میں لے جایا گیا تھا۔ وہ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کے لیے کرائے پر لی گئی عمارت تھی۔اسے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کورٹ میں اس کے بھائی کے خلاف چلنے والے کیس کی صورت حال کیاہے۔
اگلے کئی ہفتے اسے وہیں رکھا گیا تھا اوراسی عرصہ کے دوران ہیومن رائٹس کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کی کچھ پاکستانی عہدے داران اس کے پاس آتی رہی تھیں اوراس سے بہت سی باتیں پوچھتی رہی تھیں۔ اس کے پاس بیٹھ کر وہ گھنٹوں اسے اس کے حقوق کے بارے میں بتاتی رہتی تھیں۔
اس کی دلیری کی داد دیتی تھیں اوراسے بتاتی تھیں کہ اس کے اس قدم سے پاکستانی لڑکیوں میں کتنا”شعور” اور ”بیداری” پیدا ہوگی۔ وہ اخبارات کا مطالعہ نہیں کرتی تھی مگر ان ان لوگوں کی باتوں سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ اس کے کیس کو انٹر نیشنل اورنیشنل میڈیا کس طرح ہائی لائٹ کررہا تھا۔
”ایک مسلمان لڑکی جس نے محبت کی خاطر اپنے مذہب اور خاندان کی پروا نہ کی۔” مگر اس وقت اس جملے میں چھپی ہوئی ذلت کو وہ سمجھنے کے قابل نہیں تھی۔ اس وقت اس کے ذہن میں صرف ایک ہی بات تھی کہ اس کے خاندان نے ڈیوڈ کو اس سے جدا کردیا ہے۔
وہ اس کی زندگی کے ہولناک ترین دن تھے۔ گھر سے بے گھر اوربے نام ہونا اگر تکلیف دہ تھا تو مذہب سے بالکل کٹ کر رہ جانا بھی ایک عذاب تھا۔ مگر ان دنوں اسے احساس نہیں تھا کہ وہ کسی تکلیف سے ہی نہیں، عذاب سے گزر رہی تھی۔ تب وہ کچھ سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہیں تھی۔ وہ وہی سوچتی تھی جو اس سے کہا جاتا تھا اوراسے ہی ٹھیک سمجھتی تھی۔ وہ ان باتوں کوجج نہیں کر پاتی تھی۔
سب کچھ ٹھیک نہیں ہورہاتھا۔ اس بات کا احساس اسے پہلی بار تب ہوا تھا جب اس سے ملنے آنے والی کچھ غیر ملکی ننز نے اسے بائبل کے حوالے سے کچھ مذہبی مواد پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ وہ اس مواد کو پڑھنے کے بعد یکدم بے چین ہوگئی تھی۔ اسے احساس ہونے لگا تھا کہ وہ ”کون ہے”اور” کیا”کر رہی ہے۔ اسے یاد آیا تھا کہ بچپن میں وہ قرآن پڑھتی رہی تھی۔ ترجمے سے اپنی کتاب کو نہ پڑھنے کے باوجود اس کتاب سے محبت تھی، انس تھا، عقیدت تھی، اوراب… اب وہ لوگ اس سے کیا چاہتے تھے۔ پہلی بار اسے ان لوگوں کے درمیان خوف آنے لگا تھا۔
پھر اسے مذہبی لٹریچر باقاعدگی سے دیا جانے لگا تھا۔ اسے احساس ہونے لگا تھا کہ وہ کسی ایسے گرداب میں پھنس گئی ہے جہاں سے نکلنے کے بعد بھی اس کے ارد گرد پانی ہی ہوگا، زمین نہیں۔ ہر بار ان ننزسے وہ کتابیں لینے کے بعد اس کے دل میں اپنی کتاب کو ایک بار پھر سے دیکھنے، ایک بار پھر سے چھونے، ایک بار پھر سے پڑھنے کی خواہش اور شدید ہوجاتی۔
وہ کتابوں کو لینے کے بعد رکھ دیتی۔ وہ انہیں پڑھنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ پڑھنا چاہتی بھی تو اس کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ سارا میٹریل اس کے لیے نامانوس تھا، اجنبی تھا۔ وہ لفظ سمجھنا اس کے لیے مشکل تھا۔ وہ ساری رات جاگ جاگ کر ان چھوٹی چھوٹی آیات اوردعاؤں کو یاد کرنے کی کوشش کرتی رہتی جو بچپن میں کبھی اس کی امی نے اسے سکھائی تھیں۔ مگر کچھ بھی یاد نہیں آتا تھا۔
اس کے ذہن سے جیسے سب کچھ مٹ چکا تھا۔ اس کا خوف اور وحشت بڑھتی جارہی تھی۔ اسے چھوٹے سے چھوٹا درود پاک دہرانے میں بھی مشکل ہوتی۔ وہ رات کو کئی کئی گھنٹے درود کے اگلے لفظ کو یاد کرنے کے لیے پاگلوں کی طرح کمرے کے چکر کاٹتی رہتی۔ بعض دفعہ یاد آجاتا۔ اسے کچھ سکون مل جاتا۔ جب اگلا لفظ یاد نہ آتا تو وہ تکیے میں منہ چھپا کر کتنی کتنی دیر روتی رہتی۔





کچھ عرصے کے بعد اسے ایک چرچ کے ساتھ منسلک کانونٹ میں منتقل کر دیا گیاتھا۔ وہ پہلی رات وہاں آنے کے بعد سو نہیں سکی تھی۔”یہاں سے جب میں نکلوں گی تو میں کیاہوں گی۔ کیا میں کبھی یہاں سے نکل سکوں گی یا نہیں۔” وہ ساری رات ایک ہی جگہ بیٹھی سوچتی رہتی تھی پھر یہ سب کئی راتوں تک ہوتا رہا تھا۔ وہ ان لوگوں کو یہ بتانے کی ہمت نہیں رکھتی تھی کہ وہ ان کے مذہب میں دلچسپی نہیںرکھتی۔ اسے ان کی کتابیں نہیں پڑھنا ہیں۔ اسے ان کی باتوں سے بھی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ان کے ساتھ رہنا بھی نہیںچاہتی۔
مگر پھر… پھر وہ کہاںجائے گی۔ یہ سب کچھ بتانے اور کہنے کے بعد وہ لوگ اگر اسے چھوڑ دیں تو وہ کیا کرے گی۔ باہر اس کے خاندان والے تھے، وہ ان سے چھپ نہیں سکتی۔ وہ ان کے پاس جا بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ مکڑی کے ایک ایسے جال میں پھنس چکی تھی جہاں ہر روز اس کے گرد ایک تار کا اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اوراس جال میں وہ اپنی مرضی سے آئی تھی۔
صبح ناشتے، لنچ اور ڈنر سے پہلے ڈائننگ ٹیبل کے اردگرد تمام سسٹرز کھڑی ہو کر کھانے سے پہلے کی دعا کرتیں۔جس میںوہ اس کھانے کو ان تک پہنچانے کا ذمہ دار گاڈ اور یسوع مسیح کو قرار دیتیں اور اس کے لیے کھانا کھانامشکل ہوجاتا ۔ ان سب کے ساتھ آنکھیں بند کیے وہ وحشت کے عالم میں دہراتی رہتی۔
”یسوع مسیح! میں آپ کی عزت کرتی ہوں۔ میں آپ کا احترام کرتی ہوں۔ کیونکہ آپ بھی پیغمبر ہیں مگر یہ کھانا مجھے اللہ دے رہاہے۔ اللہ کے سواکوئی نہیں اور میرے پیغمبر محمد ۖ ہیں اور میں ان ہی کی پیرو کار ہوں۔”
یہ سب کہنے کے باوجود اس کی وحشت میں کمی نہیں ہوتی تھی۔
”کتنی دیر، آخر کتنی دیر میں مزاحمت کرپاؤں گی۔ صرف زندہ رہنے کے لیے میں آخر خود کو کتنا گراؤں گی۔ صرف موت سے بچنے کے لیے میں کیا کیا کروں گی۔ کیا مذہب بھی بدل… بدل لوں گی۔”
وہ سوچتی اوراس کی ذہنی ابتری کچھ اور بڑھ جاتی۔
اورپھر اس رات کے پچھلے پہر مایوسی کی انتہا پر پہنچ کراس نے خود کشی کا فیصلہ کر لیاتھا۔”میں جانتی ہوں،میں جو کر رہی ہوں وہ سب سے غلط کام ہے مگر میرے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہا۔ صرف اپنا دین رہ گیاہے اور میں اسے کھونا نہیں چاہتی۔ میں اب تک ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ کرتی آرہی ہوں اوراب میں سب سے بڑا گناہ کرنے جارہی ہوں مگر یہ گناہ کم ازکم مجھے ایک مسلمان کے طور پر ہی مرنے تو دے گا، چاہے یہ موت حرام ہی سہی۔ جوکچھ بھی کر چکی ہوں وہ سب کرنے کے بعد، میں اس کی مستحق نہیں ہوں کہ مجھے معاف کردیا جائے مگر پھر بھی میں تم سے ریکویسٹ کرتی ہوں کہ تم مجھے معاف کر دو۔” وہ اس رات کے آخری پہر بہت دیر تک اللہ سے باتیں کرتے ہوئے روتی رہی تھی۔
اگلے دن صبح سب کے ساتھ ڈائننگ روم میں ناشتہ کرنے کے بعد وہ کچن میں گئی تھی اور وہاں سے چوری چھپے ایک چھری اپنے کمرے میں لے آئی تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں کی کلائیوں کی رگیں کاٹنا چاہتی تھی مگر دن کے وقت کوئی نہ کوئی اس کے کمرے میں آتا رہتا تھا۔ اوروہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ قدم اٹھانے کے بعدبھی وہ بچ جائے۔ اس لیے یہ سب کچھ رات کو کرنا چاہتی تھی۔
اسی دن سہ پہر کو اسے کانونٹ میں موجود لائبریری میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں ریکس پر کتابوں کے ڈھیر موجود تھے۔ اس کے ساتھ ایک دو دوسری سسٹرز بھی تھیں۔ وہ خالی الذہنی کے عالم میں ان کے ساتھ ان کتابوں کے ریکس اور شیلف کے سامنے سے گزرتی رہی اورپھر اچانک اس کی نظر ایک شیلف پر پڑی تھی اوراس کادل ایک لمحے کے لیے جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا۔
وہاں چند دوسرے مذاہب کی کتابوں کے ساتھ قرآن پاک کا ایک انگلش ترجمہ بھی موجودتھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں لرزش محسوس کی تھی۔ وہ وہاں سے ہلنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ کہیں جائے گی تو اس کی اپنی کتاب اسے دوبارہ نظر نہیں آسکے گی۔ دوسری سسٹرز نے کچھ کتابیں نکال لی تھیں اوروہاں سے چلی گئی تھیں۔ اس نے ان سے کچھ دیر بعد آنے کا بہانا لگایاتھا۔ ان کے جانے کے بعد بے اختیار وہ اس شیلف کی طرف آئی تھیں اور اس نے کانپتے ہاتھوں سے قرآن پاک کو نکال لیاتھا۔
اسے پہلی بار احساس ہوا تھا کہ لوگوں کو جب خزانے ملتے ہیں تو ان کا کیا حال ہوتا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے قرآن پاک سینے سے لگائے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے وہ بے تحاشا روتی رہی تھی۔ یہ وہ کتاب تھی جس کو دیکھنے کے لیے، جسے چھونے کے لیے وہ پچھلے کئی ماہ سے ترس رہی تھی۔ بہت دیر بعدبرستی آنکھوں کے ساتھ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے قرآن پاک کو کھول لیا تھا اورلرزتی ہوئی آواز میں تلاوت کرنے لگی تھی۔ دھند چھٹنے لگی تھی۔ اس کے پیروں کے نیچے گردش کرنے والی زمین تھم گئی تھی۔ ہر چیز ایک بار پھر جیسے اپنی جگہ پر آنے لگی تھی۔
”مجھے مرنا نہیں ہے، زندہ رہنا ہے۔ اگر گناہ کیا ہے تو اس کی سزا پانی ہے مگر خود کشی نہیں کرنی ۔”
اس رات اپنے کمرے میں چھری کوہاتھ میں لے کر اس نے سوچا تھا۔ ”اور اب…اب مجھے انکار کرنا سیکھنا ہے۔ ہر اس چیز سے جو میرے اللہ کو پسند نہیں ہے۔ مجھے ایک بار پھر اس رستے کو ڈھونڈنا ہے جس سے میں بھٹک گئی ہوں۔”اس رات اس نے اپنی زندگی کے نئے ضابطے طے کیے تھے۔
اس رات تہجد پڑھتے وقت اسے وہ ساری آیات یادآنے لگی تھی جنہیںیاد کرتے ہوئے پہلے اسے گھنٹوں لگ جاتے تھے۔ اس رات اسے ان آیات میں سے کوئی آیت بھی نہیں بھولی تھی۔
”مجھے اب صرف ایک چیز چاہیے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔میں چاہتی ہوں میرا ایمان باقی رہے۔ میں مرتے وقت بھی مسلمان رہوں اور اس ایک چیز کے لیے باقی ہر چیز چھوڑنے کو تیار ہوں۔ تم چاہو تو مجھے زندگی میں اور کچھ مت دو مگر مسلمان رہنے دو۔”
اس رات دعا کرتے ہوئے اس نے اللہ سے دعا بھی کی تھی۔
اگلے کئی دن وہ خاموشی سے لائبریری میں چلی جاتی اور وہاں قرآن پاک کو ترجمے سے پڑھتی رہتی، اس کے وجود پرچھایا ہوا جنون اور وحشت آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی تھی۔
اس دن سہ پہر کو وہ سب سسٹرز کے ساتھ سیر کے لیے پارک میں گئی تھی۔ بہت عرصے بعد اس نے باہر کی دنیا کو دیکھا تھا اور وہیں اس نے حدید کو بھی دیکھا تھا۔ وہ اس کی بات سن کر خوفزدہ ہوگئی تھی۔ کیا یہ جانتا ہے کہ یہ کیا کرناچاہتاہے۔ کیا اس کے علاوہ بھی ایسے لوگ ہیں جو…؟
وہ اسے تلاش کرنے کے لیے پاگلوں کی طرح بھاگی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ اسے اس کام سے روک دے جو وہ کرنا چاہتا تھا اور وہ اسے تلاش نہیں کرپائی تھی۔
پاؤں میں آنے والے زخم کی وجہ سے کئی دن تک وہ ٹھیک سے چل نہیں سکی تھی مگر ہر بار پاؤں میں ٹیس اٹھنے پر اسے حدید ہی کا خیال آتا تھا۔
”میں اللہ کی نظروں میں اتنی گر گئی ہوں کہ وہ مجھے کوئی موقع بھی نہیں دینا چاہتا۔” وہ بار بار یہی سوچتی تھی۔
مگر پھر سال کی آخری رات کو چرچ میں اس نے ایک بار پھر حدید کو دیکھا تھا اور بے اختیار اس کی طرف گئی تھی۔
جب حدید نے اس کے پوچھنے پر اسے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا تو وہ جان گئی تھی اسے کس طرح حدید کو کنوینس کرنا ہے۔ اسے حدید سے محبت کا ڈرامہ کرنا تھا۔ تاکہ وہ اس کی بات سننے پر تیار ہو اور وہ اسے اپنا ہمدرد سمجھے اوراس نے حدید سے محبت کااظہار کیا تھا۔
حدید کو اس کی بات پر یقین آیا تھا یا نہیں، مگر وہ خاموشی سے اس کی ہر بات سنتا اور مانتارہا تھا۔ وہ جانتی تھی وہ اس سے جھوٹ بول رہی ہے۔ اسے ٹریپ کر رہی ہے مگر اس کے علاوہ اس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس وقت اسے یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ جب اس کایہ جھوٹ کھلے گا تو کیا ہوگا۔
وہ جھوٹ بول کر بہت دن حدید سے ملنے چرچ جاتی رہی تھی۔ اس وقت اسے یہ خوف نہیں آتا تھا کہ اگر اس کی فیملی میں سے کسی نے اسے دیکھ لیا تو کیا ہوگا۔ اس وقت اس کے دماغ پر بس ایک ہی دھن سوار تھی۔ اسے حدید کو گڑھے میں گرنے سے بچانا تھا۔ شاید یہ نیکی اس کے اپنے گناہ کو معاف کروا دے۔
*…*…*
پھر ایک دن حدید نے واپس جانے کافیصلہ کرلیا تھا اوروہ جانتی تھی کہ اب اسے کیا کرنا تھا۔ وہ حدید کو اب کسی انتظار میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ اس سے اپنے رابطے ختم کرنے لگی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اب وہ کسی بھی شاک کا سامناکرنے کے قابل ہوچکا ہے وہ اب پہلے کی طرح مایوسی کا شکار نہیں ہو گا۔
ان ہی دنوں میں اس کے بھائی کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی تھی اوراس کے کچھ عرصہ کے بعد ای سی ایل میں سے اس کا نام ہٹادیا گیا تھا۔ باہر جانے سے پہلے اس نے برادر مالکم کو حدید کے بارے میں بتا دیا تھا۔”اگر یہ میرے بارے میں اپ سے رابطہ قائم کرے تو آپ اس سے کہہ دیجئے گا کہ میں مر چکی ہوں۔”
برادر مالکم کواس نے حدید کے بارے میں صرف یہ بتایا تھا کہ وہ ایک دوست تھا جسے وہ بہت عرصے سے جانتی تھی مگر اب وہ اس سے کوئی رابطہ نہیںرکھناچاہتی۔
وہ یکدم حدید سے خط و کتابت ترک نہیں کرنا چاہتی تھی، کیونکہ اس صورت میں وہ پریشان ہوکر واپس آسکتا تھا۔ امریکہ جانے کے بعد بھی وہ وہاں سے اپنی ایک دوست کوحدید کے نام کبھی کبھار کوئی خط بھجوا دیتی اوراس کی وہ دوست اس خط کو پاکستان سے پوسٹ کر دیتی۔

*…*…*




Loading

Read Previous

حاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!