حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

اگلے چند ہفتوں میں وہ ڈیوڈ کے ڈیڈی کے ساتھ دو تین باراپنے پیپرز کے سلسلے میں امریکن ایمبیسی جاتی رہی تھی۔ ہر کام بہت تیز رفتاری سے ہو رہا تھا۔ امریکن ایمبیسی کے ایک سینئر آفیسر نے اپنی زندگی میں اتنے اہم فیصلے پر اس طرح” جرات اور بہادری” دکھانے پر اس کی تعریف کی تھی۔
”تم دوسری پاکستانی لڑکیوں کے لیے ایک مثال ہو۔”ا س وقت ان کلمات پر بے تحاشا فخرمحسوس ہوا تھا۔
”ہاں واقعی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ میں اپنے والدین کو کیوں کرنے دیتی، خود کیوں نہ کرتی۔ میںجو کر رہی ہوں، ٹھیک کررہی ہوں۔” اسے مزیداطمینان ہوگیاتھا۔
گھر میں کسی کو بھی اس کی سرگرمیوں پر کوئی شبہ نہیں ہوا تھا۔ وہ بہت نارمل طریقے سے گھر میں رہتی تھی۔ اپنی امی اوربھابھی کے ساتھ اپنی شادی کے لیے چیزوں کی خریداری کے لیے بھی بازار جاتی رہتی مگر دوسری طرف اس نے اپنی بہت سی چیزیں آہستہ آہستہ ربیکا کے گھر منتقل کر دی تھیں۔ اپنے پاس موجود سارا زیور اور بینک اکاؤنٹ میں موجود سارا روپیہ وہ ڈیوڈ کے والدین کے حوالے کر چکی تھی۔ چند دن تک اسے امریکہ کا ویزا ملنے والا تھا۔ اورپھر وہ ہمیشہ کے لیے اپنا گھر چھوڑنے پر تیار تھی۔
اس دن وہ کالج سے ڈیوڈ کے ساتھ چلی گئی تھی۔ اس کے ساتھ لنچ کرنے کے بعدجب وہ چار بجے کے قریب گھر آئی تو گھر میں اس کے لیے ایک ہنگامہ تیارتھا۔ اس کے سب سے چھوٹے بھائی نے اسے ڈیوڈ کے ساتھ ریسٹورنٹ میں لنچ کرتے دیکھ لیا تھا اوراس نے گھر آکر یہ بات سب کو بتا دی تھی۔
ثانیہ صبح اپنی امی سے یہ کہہ کرگئی تھی کہ وہ کالج سے ربیکا کے گھرجائے گی مگر جب اس کے بھائی نے گھر آکر اس کی امی کو بتایا انہوں نے ربیکا کے گھر فون کیا۔ ربیکا نے انہیں بتادیا کہ وہ ان کے ہاں نہیں ہے۔
ثانیہ کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔ اپنی امی کے پوچھنے پر اس نے یہی کہاکہ وہ ربیکا کے گھر سے آرہی ہے۔ اس کے بھائی کو بھڑ کانے کے لیے اس کایہی جملہ کافی تھا۔ اس نے ثانیہ پر تھپڑوں کی بارش کردی تھی۔ اس کی امی نے اسے بچانے کی کوشش کی تھی، نہ ہی بھابھی نے۔ آدھ گھنٹہ بھر وہ بری طرح اپنے بھائی سے پٹتی رہی تھی لیکن اس نے یہ نہیں مانا تھا کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ لنچ کرنے گئی تھی۔
رات کواس کے ابو اوربڑے بھائی گھر آئے تھے اورنئے سرے سے عدالت لگ گئی تھی۔ اس کے صبر کی حد ختم ہوگئی تھی۔
”ہاں گئی تھی کسی لڑکے کے ساتھ لنچ کرنے پھر… کیاتم نہیں جاتے نئی نئی لڑکیوں کے ساتھ لنچ کرنے۔” وہ پہلی بار اپنے چھوٹے بھائی پر چلائی تھی۔
بلال نے جواباً اس کے منہ پر زور کا تھپڑ مارا تھا اوراس بار خاموشی سے پٹنے کے بجائے اس نے بلال کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی اس حرکت نے اس کے بھائی کو اورمشتعل کیا تھا۔ اس نے اس کے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارا تھا۔ثانیہ نے تھپڑ کھانے کے بعد کارنس پر رکھا ہوا ایک گلدان اٹھایا اور اشتعال میں پوری قوت سے بلال کو دے مارا تھا۔ اس نے گلدان بلال کے ماتھے پر لگتے اور پھر خون کی ایک لکیر نکلتے دیکھی تھی۔ باقی سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے،یکدم جیسے ان میں حرکت پیدا ہوگئی تھی۔ اس کے ابو اس بار اس کی طرف آئے تھے اور ان کے ہاتھ میں جو چیز آئی تھی۔انہوں نے ثانیہ کو اس سے مارا تھا۔ وہ جواباً چلاتی رہی تھی۔
”ہاں مجھے اسی لڑکے سے شادی کرنی ہے جسے میں چاہتی ہوں۔ میں مر جاؤں گی لیکن کبھی وہاں شادی نہیں کروں گی، جہاں آپ چاہتے ہیں۔”
”کس سے شادی کرو گی؟ بتاؤ،کس سے شادی کرو گی؟” اس کی امی ہذیانی انداز میں چیخنے لگی تھیں۔
”ڈیوڈ سے شادی کروں گی،ڈیوڈ سے۔”





وہ پاگلوں کی طرح چلائی تھی۔ اس کے ابو یکدم ساکت ہوگئے تھے۔ ہرشخص اپنی جگہ جیسے پتھر کا مجسمہ بن گیاتھا۔وہ اپنے ہونٹوں سے نکلتا ہوا خون ہاتھ سے پونچھتے ہوئے بڑی بے خوفی سے ہر ایک کودیکھتی رہی۔
”ربیکا کے بھائی سے؟” اس کی امی کی آواز کسی گہری کھائی سے آتی ہوئی سنائی دی تھی۔
”ہاں ربیکا کے بھائی سے۔”
وہ آج جتنی نڈر تھی، پہلے کبھی نہیں تھی۔بلال کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔
” اور میں نے تم دونوں کو زندہ رہنے دیا تو پھر کہنا۔ اسے تو میں دیکھ لوں گالیکن تم آج کے بعد اس گھر سے قدم باہر نکالنا اورپھر دیکھنا۔ میں تمہارا کیا حشر کروں گا۔”
”ثانیہ! تمہارا دماغ کیوں خراب ہوگیا ہے؟ تمہیں پتا ہے تم کیا کر رہی ہو؟ تم مسلمان ہو اور وہ کرسچین ہے۔ہمارے مذہب میں یہ شادی جائز نہیں ہوسکتی۔ تم دوزخ سے…” آمنہ بھابھی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”میں اب دوزخ میں ہوں۔ یہ گھر دوزخ ہے میرے لیے۔اور آپ جو کہہ رہی ہیں، غلط کہہ رہی ہیں۔ محبت میں کوئی مسلمان اور کرسچین نہیں ہوتا اور میں محبت کرتی ہوں اُس سے۔” وہ بلا جھجک بولتی گئی تھی۔
بلال چیل کی طرح اس پر جھپٹا تھا اوراس نے اس کا گلا دبانا شروع کردیا تھا۔ثانیہ سانس نہیں لے پارہی تھی۔ وہ کوشش کے باوجود اس کے ہاتھوں سے اپنی گردن نہیں چھڑاپارہی تھی۔ تب ہی اس کے بڑے بھائی نے زبردستی بلال کو پیچھے دھکیلا تھا۔ اس کا دوسرا بھائی بلال کو کمرے سے لے گیا تھا،جواب اسے گالیاں بک رہا تھا۔
”امی!آئندہ یہ گھر سے باہر نہیں جائے گی۔ کالج بھی نہیں۔” اس کے بڑے بھائی نے فیصلہ سنا دیا تھا۔
اگلے کئی دن وہ گھر میں قید رہی تھی۔ وہ کوشش کے باوجود ڈیوڈ سے رابطہ نہیں کرسکی۔ اس شام اس کی امی اور بھابھی اسے اپنے ساتھ لے کر جیولر کے پاس گئی تھیں۔ اورثانیہ نے طے کرلیا تھا کہ گھر سے نکلنے کے لیے اس کے پاس شاید دوسرا موقع دوبارہ نہیں آئے۔ جیولر کی دکان میں داخل ہوتے ہوئے اس کی امی اوربھابھی اس کے آگے تھیں۔ وہ جیولر کی دکان میں داخل ہوگئی تھیں لیکن ثانیہ اندر نہیں گئی تھی۔وہ دائیں جانب بھاگنا شروع ہوگئی تھی۔ اپنے پیچھے اس نے بھابھی کی آواز سنی تھی اور اس کے بعد پاگلوں کی طرح بے تحاشا دوڑتے ہوئے اس نے ایک ٹیکسی روک لی تھی۔ اس کے پاس جانے کے لیے صرف ایک ہی جگہ تھی، ڈیوڈ کا گھر۔
*…*…*
بیل بجانے پر دروازہ کھولنے ڈیوڈ ہی آیا تھا۔ثانیہ کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا تھا۔
”ثانیہ! تم اتنے دن کہاں تھیں۔تم جانتی ہو،تمہاری سیٹ کنفرم ہوگئی ہے۔ پرسوں تمہاری فلائٹ ہے۔ میں پریشان تھا…۔”
ڈیوڈ کہہ رہا تھا۔وہ اس کے ساتھ اندر آگئی تھی اورپھر اس نے ڈیوڈ کو سارا قصہ سنا دیا تھا۔ اس کا رنگ اڑ گیا تھا۔
”اب کیا ہوگا؟” اس نے بے چارگی سے ڈیوڈ سے پوچھا تھا۔
”آؤ ڈیڈی سے بات کرتے ہیں۔”
وہ اسے لے کر اندر چلا گیا تھا اوراندر جا کر اس نے سارا قصہ اپنے ڈیڈی کو بتا دیا تھا۔ ڈیوڈ کے تمام گھر والے یکدم پریشان ہوگئے تھے۔
”ثانیہ! تمہیںیہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔تمہارے گھر والے اب یہیں آئیں گے۔” ڈیوڈ کے ڈیڈی بہت فکر مند تھے۔
”انکل! میں اورکہاں جا سکتی تھی؟”
”پھر بھی تمہیں یہاں نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمہارے گھروالے پولیس لے کر آگئے تو معاملہ بہت خراب ہو جائے گا۔ تم میرے ساتھ آؤ، میں تمہیں اپنے کسی دوست کے ہاں چھوڑ آتا ہوں۔”
انہوں نے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔ وہ ڈیوڈ اوراس کے والدین کے ساتھ باہر پورچ میں نکل آئی تھی۔”
”تم پریشان مت ہونا، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
ڈیوڈ نے اس کے لیے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا تھا۔ وہ ممنون انداز میں مسکرائی تھی۔ڈیوڈ گیٹ کھولنے کے لیے گیٹ کی طرف بڑھ گیا تھا۔وہ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ ڈیوڈ کے ڈیڈی گاڑی اسٹارٹ کر رہے تھے اور ڈیوڈ گیٹ کھول کر پلٹ رہا تھا۔ جب ثانیہ نے اس کے بالکل پیچھے گیٹ کے باہر کسی وجود کو نمودار ہوتے دیکھا تھا۔ وہ بجلی کی رفتار سے گاڑی سے نکل آئی تھی۔ ڈیوڈ اپنے پیچھے ابھرنے والی قدموں کی چاپ پر پلٹا تھا۔ ثانیہ نے اس شخص کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیز کو دیکھ کر چیخ ماری تھی۔
”بلال! ڈیوڈ کو کچھ مت کہنا۔” اس نے بلال کو اپنی طرف دیکھتے اور ہاتھ سیدھا کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اگلے لمحے فائر کی ایک آواز کے ساتھ اس نے ڈیوڈ کو گرتے دیکھا تھا۔ ڈیوڈ کی ممی چیخ کر ڈیوڈ کی طرف بھاگی تھیں۔ اس نے زمین پر گرے ہوئے ڈیوڈ پر بلال کا ایک اور فائرکرتے دیکھا تھا۔ ڈیوڈ کے جسم کو ایک اورجھٹکا لگا تھا۔ اس کا وجود خوف سے سرد ہوگیا۔ اس نے بلال کو ریوالوراپنی طرف سیدھا کرتے دیکھا تھا، وہ بے حس و حرکت تھی۔ کسی نے اسے دھکا دیاتھا پھر اس نے فائر کی ایک اور آواز سنی تھی پھر کچھ اور چیخیں سنائی دی تھیں۔
اس نے ربیکا اور انتیا کو چیختے ہوئے ڈیوڈ کی طرف لپکتے دیکھا تھا۔ اس نے فرش سے اٹھنے کی کوشش کی تھی۔ فائر کی ایک اورآواز سنائی دی تھی۔ وہ کھڑی ہوگئی تھی۔ اس نے بلال کو کچھ لوگوں کی گرفت میں دیکھا تھا۔ ڈیوڈ کے ڈیڈ ی ملازموں سے کچھ کہہ رہے تھے۔ وہ کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی۔ بلال کو کھینچتے ہوئے کہیں لے جایا گیا تھا۔ انکل ایک ملاز م کے ساتھ مل کرڈیوڈ کو اٹھا رہے تھے۔
ڈیوڈ کی ممی، ربیکا اورانیتا بلند آواز میں چیخیں مار رہی تھیں۔ اسے زمین پر خون کا ایک تالاب نظر آیا تھا۔ڈیوڈ کو گاڑی میں ڈال دیاگیا تھا۔
اس نے ڈیوڈ کا چہرہ دیکھا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اس کا جسم ساکت تھا۔ اس کی سفید شرٹ خون سے تر تھی۔ گاڑی ایک زناٹے کے ساتھ پورچ سے نکل گئی تھی۔ اس نے ڈیوڈ کے خون سے گاڑی کے ٹائروں کو لتھڑتے اور فرش پر نشان بناکر جاتے دیکھا تھا۔ڈیوڈ کی پوری فیملی اس کے ساتھ چلی گئی تھی۔ وہ وہاں اکیلی تھی۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ چند منٹ پہلے کیا ہوا تھا۔
ڈیوڈ کا خون گیٹ کے اوپر لگی ہوئی فلڈ لائٹس کی روشنی میں چمک رہاتھا۔ وہ اس جگہ پر آگئی تھی اورپھر… پھر جیسے سب کچھ اس کی سمجھ میں آنا شروع ہوگیا تھا۔
”بلال نے… بلال نے…۔”
غم و غصہ کی ایک لہر اس کے اندر اٹھی تھی۔”تم اگلی بار اس سے ملنا میں تم دونوں کو قبر میں اتار دوں گا۔”
اسے بلال کی دھمکی یاد آئی تھی مگر وہ دھمکی نہیں تھی۔ جس وقت وہ یہ بات جانی تھی، تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
اس نے اپنے آپ کو ہسٹریائی انداز میں چلاتے پایا تھا پھر اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا محسوس ہوا تھا۔
*…*…*
ہوش میں آنے کے بعد اس نے خود کو ایک کمرے میں پایا تھا مگروہ کمرہ ڈیوڈ کے گھر کا نہیں تھا۔
”تو اب تم ہوش میں آگئی ہو۔”
اس کے بیڈ کے قریب ایک سیاہ فام عورت نے اس سے کہا تھا۔ثانیہ اسے دیکھنے لگی تھی۔
”تم کیسا محسوس کر رہی ہو؟” اس عور ت نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے پوچھا تھا۔
ثانیہ کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا تھا۔’ ‘ڈیوڈ… ڈیوڈ کیسا ہے؟” وہ بے اختیار اٹھ کربیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔
وہ عورت خاموش رہی تھی۔” ڈیوڈ کیسا ہے؟” ثانیہ نے جیسے اپنے حواس میں نہیں تھی۔ اس نے چلا کر پوچھا تھا۔
”He is dead”(وہ مر چکا ہے۔) اس عورت نے کہا تھا۔
”ڈیڈ۔”
ثانیہ کی آواز جیسے کسی کھائی سے آئی تھی۔اس عورت نے اب نرمی سے اس کے کندھے تھپتھپانا شروع کردیے تھے۔
”میں جانتی ہوںیہ خبر تمہارے لیے شاکنگ ہے مگر یہی سچ ہے۔ ڈیوڈ کی فیملی ابھی اس کی آخری رسوم کی تیاری کر رہی ہے۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد وہ لوگ یہاں آئیں گے اورپھر تم سے کچھ ضروری باتیں ہوں گی۔”
وہ عورت اسے انگلش میں بتاتی جارہی تھی۔
”میں کہاں ہوں؟”
”امریکن ایمبیسی میں ہو۔تم نے امریکہ میں سیاسی پناہ کے لیے اپلائی کیا تھا۔ ان حالات میں ڈیوڈ کی فیملی کے کہنے پر ہم نے تمہیں اپنی تحویل میں لیا ہے۔ کیونکہ تمہاری زندگی کو خطرہ تھا۔”
وہ گم صم اس کے چہرے کو دیکھتی رہی تھی۔ زندگی کا ہر راستہ یکدم تاریک ہوگیا تھا۔ اس نے خود کو بند گلی کے آخری سرے پر کھڑا پایا تھا۔
زندگی میں کبھی اسے اپنے خاندان سے اتنی نفرت محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اس دن ہوئی تھی۔ اسے یاد نہیں وہ اس دن کتنا چیخی تھی یا اس نے بلال کو کتنی بد دعائیں دی تھیں یا ڈیوڈ کو کتنی بار پکارا تھا۔ اسے صرف یہ یاد تھا کہ اس کے چلانے پر کمرے میں کچھ اور لوگ آئے تھے اوران میں سے ایک نے زبردستی اسے ایک انجیکشن لگا دیا تھا۔غنودگی کی حالت میں جوآخری چہرہ اس کے سامنے تھا، وہ ڈیوڈ کا چہرہ تھا۔
*…*…*
اگلے بہت سے دن اسی طرح گزر گئے تھے۔ وہ اسی کمرے میں بند رہی تھی۔ اسے نہیں پتا باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا تھا۔ اس کے والدین اسے کہاں اورکیسے تلاش کر رہے تھے۔بلال کے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔ ڈیوڈ کی فیملی پر کیا گزر رہی تھی اور…
اوراب خود اس کے ساتھ آگے کیا ہوگا۔ وہ جیسے چند ہفتوں کے لیے اپنی شناخت بھول گئی تھی۔ اسے اس کمرے سے باہر نکلنے کی خواہش ہی نہیں ہوتی تھی۔
پھر ایک دن اس نے اپنے بارے میں سوچنا شروع کیا تھا اور اسی دن اس عورت کے آنے پر اس سے ڈیوڈ کی فیملی کے بارے میں پوچھا تھا۔
”وہ امریکہ جا چکے ہیں۔ یہاں ان کی جان کو خطرہ تھا۔ کیونکہ تمہاری فیملی کے لوگ تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں اوران کا خیال تھا کہ تمہیں ڈیوڈ کی فیملی نے کہیں چھپایا ہے۔ اس لیے ان کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔”
اس عورت نے تفصیل سے اسے بتایا تھا۔ اسے ایک دھچکا لگا تھا۔
”وہ لوگ مجھ سے ملے بغیر باہرچلے گئے۔ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ مجھے تو ان سب کے ساتھ رہنا تھا۔ مجھے تو ان کے ساتھ باہر جانا تھا۔”
”تمہارا ان کے ساتھ جانا یا ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے۔”
”کیوں ممکن نہیں ہے؟”
”ابھی کوئی یہ نہیں جانتا کہ تم ہماری ایمبیسی میں ہو اور ہم یہ چاہتے بھی نہیں کہ یہ بات کسی کے علم میں آئے۔تمہارا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ہے۔ اس لیے تمہیں ابھی باہر نہیں بھجوایا جا سکتا۔ چند ماہ تک جب یہ معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو تمہیں باہر بھجوا دیا جائے گا۔ اس کے بعدتم اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کے لیے آزاد ہوگی۔” اس عورت نے اس سے کہا تھا۔
”بلال کے ساتھ کیا ہوا؟” اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد پوچھا تھا۔
”کیس کورٹ میں جا چکا ہے۔وہ پولیس کی حراست میں ہے۔” وہ ایک بار پھر چپ ہوگئی۔
”میں یہاں سے باہر نکلنا چاہتی ہوں۔”
”باہر نکلنا تمہارے لیے مناسب نہیں۔تمہاری یہاں موجودگی ایک راز ہے۔ یہاں سے باہر نکلو گی تو ایمبیسی کے پاکستانی ملازمین اور وہاں آنے والے لوگ تمہاری موجودگی کے بارے میں باخبر ہو سکتے ہیں۔تب تمہیں چھپانا بہت مشکل ہوجائے گا۔ تم چنددن یہاں صبر سے گزار لو پھر ہم تمہیں کہیں اورشفٹ کر دیں گے۔ وہاں تم زیادہ آسانی سے رہ سکو گی۔”
”میں ڈیوڈ کی قبرپہ جانا چاہتی ہوں۔”
”فی الحال یہ ممکن نہیں ہے۔”

*…*…*




Loading

Read Previous

حاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!