ثانیہ اس سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ پھر وہ اتنے ہفتوں سے اسے نظر انداز کیوں کر رہا ہے مگر وہ پوچھ نہیں سکی تھی۔ ربیکا لاؤنج میں آچکی تھی۔ وہ ربیکا کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی آئی تھی مگر آج وہ بہت خوش تھی اوراس کے مزاج میں یکدم آنے والی اس تبدیلی کو ربیکا نے بھی محسوس کیا تھا۔
اس دن گھر واپس آکر بھی اسکا موڈ بہت خوشگوار رہا تھا۔ زندگی میں پہلی بار وہ لاشعوری طور پر کسی لڑکے سے اس طرح متاثر ہو رہی تھی اوروہ لڑکا کون تھا اس وقت اسے اس بات کی پروا نہیں تھی۔ ربیکا کی گفتگو میں اکثر اس کے بھائی کا ذکر ہوتا تھا۔ آج ڈیوڈ نے یہ کیا، آج ڈیوڈ نے یہ کہا۔ بعض دفعہ وہ ثانیہ کے بارے میں اس کا تبصرہ بھی اسے بتا دیتی اوران تبصروں نے اسے ڈیوڈ کی جانب کچھ اورمائل کردیا تھا۔
جس دن ربیکا ڈیوڈ کا ذکر کرنا بھول جاتی، اس دن ثانیہ خود اس کا ذکر چھیڑ دیتی۔ ان دنوں اس کے بارے میں بات کرنے سے زیادہ دلچسپ چیز اس کے لیے کوئی اور نہیں تھی۔
*…*…*
اس دن کالج میں ربیکا نے ایک کارڈ تھما دیا تھا۔ ” ڈیوڈ کی برتھ ڈے ہے پرسوں اورمیں تمہیں انوائٹ کر رہی ہوں۔گھر میں ہی ایک چھوٹا سا فنکشن ہے۔”ربیکا اسے تفصیلات بتا رہی تھی۔
”میرا آنا توشاید کچھ مشکل…۔”
” مجھے تمہاری مشکل میں دلچسپی نہیں ہے۔ بس تمہیں آنا ہے۔” ربیکا نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی تھی۔
تیسری شام ثانیہ کا بڑا بھائی اسے ربیکا کے گھر ڈراپ کرگیا تھا۔ گیٹ کے باہر گاڑیوں کی قطار اوراندر ہونے والی چہل پہل سے ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کوئی چھوٹا فنکشن نہیں ہے۔ لان میں لائٹنگ کی گئی تھی اور وہاں لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ ربیکا اسی کی منتظر تھی اوراسے دیکھتے ہی اس نے گرم جوشی سے اسے گلے لگا لیا تھا۔
” آؤ، میں تمہیں اپنے کزنز سے ملواتی ہوں۔”
ہیلو ہائے کے بعد اس نے ثانیہ کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے ہوئے کہا تھا۔ پھر وہ اسے لے کر لان کی مختلف ٹیبلز پر جاتی اور مختلف لڑکیوں اورلڑکوں سے متعارف کرواتی رہی۔
”ربیکا! یہ گفٹ تم لے لو۔” اس نے ربیکاکے ساتھ چلتے چلتے کہا تھا۔
”بھئی، یہ میں کیوں لوں جس کے لیے تم لائی ہو، اسی کو دینا۔ آؤ ڈیوی کے پاس چلتے ہیں۔”
ربیکا اسے لے کر گھرکے اندر آگئی تھی۔ ڈیوڈ اپنے کمرے سے باہر نکل رہا تھا۔ ثانیہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ وہ بے اختیار نروس ہوگئی تھی۔
”تھینک یو فاربینگ ہیر۔” وہ خود ہی ثانیہ اور ربیکا کے پاس آگیا تھا۔
”ہیپی برتھ ڈے۔”ثانیہ نے گفٹ اس کی طرف بڑھادیا تھا۔
”تھینک یو۔” اس نے مسکراتے ہوئے گفٹ لے لیا تھا۔
”آپ گفٹ کے بغیر آتیں تو مجھے خوشی ہوتی لیکن گفٹ کے ساتھ آئی ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔”
ربیکا نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا تھا۔ وہ کھکھلا کر ہنسا تھا۔
”آؤثانیہ! باہر چلتے ہیں۔”
ربیکا اس کا ہاتھ تھام کر واپس مڑ گئی تھی۔ لاؤنج کے دروازے سے نکلتے ہوئے اس نے غیر محسوس طور پر پیچھے مڑ کردیکھا تھا۔ وہ اس کاگفٹ ہاتھ میں تھامے وہیں کھڑا سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ثانیہ نے تیزی سے گردن موڑلی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن بے اختیار تیز ہوگئی تھی۔
برتھ ڈے کا کیک کاٹنے کے بعد ربیکا اوراس کے کزنز نے گٹار اور کی بورڈ پر بہت سے گانے گائے تھے۔ ڈیوڈ نے بھی گٹار پر ایک دھن بجائی تھی۔ وہ حیران کن حد تک اچھا گٹار بجا رہا تھا۔ثانیہ اس پر سے اپنی نظریں نہیں ہٹا سکی۔
ربیکا اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ ”ثانیہ! ذرا اس لڑکی کو دیکھو جس نے رائل بلو کلر کا سلک کا چوڑی پاجامہ پہنا ہوا ہے۔”
ثانیہ نے اس سمت دیکھا جس طرف وہ اشارہ کر رہی تھی۔ وہ لڑکی ابھی کچھ دیر پہلے ہی آئی تھی۔
”کیسی ہے؟” ثانیہ نے حیرانی سے اس کو دیکھا تھا۔
”بہت خوبصورت ہے مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو ؟” اس نے ربیکا سے پوچھا تھا۔
”ممی کی بہت نظر ہے اس لڑکی پر ،ڈیوڈ کے لیے؟”
ثانیہ کا سانس رُک گیا تھا۔” ڈیوڈ کے لیے؟”
”ہاں ڈیوڈ کے لیے ۔شیبا بہت اچھی لڑکی ہے۔ ڈیڈی کے دوست کی بیٹی ہے۔ کینیڈا سے آئی ہے، چند ہفتے یہاں گزارنے۔ ممی سوچ رہی ہیں۔اس کا ہاتھ مانگنے کے لیے۔”
ربیکا سرگوشی میں اسے تفصیل بتا رہی تھی اور ثانیہ کی نظر اس لڑکی کے چہرے پر جمی ہوئی تھی۔
” ڈیوڈ انٹر سٹڈ ہے؟” اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”ابھی ممی نے اس سے بات نہیں کی مگر شیبا ایسی لڑکی ہے جسے کوئی ناپسند نہیں کر سکتا۔”
اس نے ربیکا کو کہتے سنا تھا۔ یکدم فنکشن سے اس کا جی اچاٹ ہوگیا تھا۔ ڈیوڈ ابھی بھی گٹار پر کوئی دھن بجا رہا تھا۔ مگر وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔
”مجھے اب بھائی کو فون کرنا چاہیے، بہت دیرہوگئی ہے۔”
اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے ربیکا سے کہا تھا۔
”یار! یکدم تمہیں گھر جانے کیا پڑگئی ہے؟” ربیکا کچھ ناراض ہوئی تھی۔
”نہیں، امی نے اسی شرط پر آنے دیا تھا کہ میں نو بجے تک آجاؤں گی۔”
اس نے جھوٹ بولا تھا اورپھر اندر لاؤنج میں آکر گھر فون کردیا تھا۔
گھر آنے کے بعد وہ بے حد ٹینس تھی۔” آخر مجھے ہوکیا رہا ہے؟ اگر وہ شیبا سے ڈیوڈ کی منگنی کرنا چاہتے ہیں تو میں کیوں پریشان ہو ں؟ مجھے ڈیوڈ میں اتنی دلچسپی لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟”
وہ بے دلی سے جیولری اتارتے ہوئے سوچتی رہی۔
”میں نے آخر ڈیوڈ کو اس قدر ذہن پر سوار کیوں کرلیا ہے؟ آخر میں چاہتی کیا ہوں؟” اس نے رنجیدگی سے سوچا تھا اورپھر کپڑے تبدیل کیے بغیر بیڈ پر لیٹ گئی تھی۔ ایک بار پھر ڈیوڈ کا چہرہ اس کے سامنے تھا اور پھر یکدم شیبا بھی اس کے ساتھ آگئی تھی۔ وہ بے قرار ہو کر اٹھ گئی۔ اسے پتا نہیں چلا، کس وقت وہ رونے لگی تھی۔
”مجھے رونے کی کیا ضرورت ہے ؟ میں کیوں جیلس ہو رہی ہوں، میں کوئی احمق ہوں؟”
وہ جتنا خود کو دلاسا دینے کی کوشش کر رہی تھی، اس کا دل اتنا ہی بھر آرہا تھا۔ وہ بہت دیر روتی رہی تھی۔ اس رات اس پر یہ ہولناک انکشاف ہوا تھا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ڈیوڈ کی محبت میں گرفتار ہوچکی ہے۔
”کیا بات ہے ثانیہ؟ طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟”
صبح امی نے ناشتے کی میز پر اس کی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر پوچھا تھا۔ سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔
”سر میں درد ہو رہا تھا۔ اس لیے رات کو نیند نہیں آئی۔” اس نے بہانا گھڑا تھا۔
”تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔ میں تمہیں کوئی ٹیبلٹ دے دیتی۔”
اس کی بھابھی نے اس سے کہا تھا۔ وہ خاموشی سے چائے پیتی رہی تھی۔
”اب طبیعت کیسی ہے؟” اس کے سب سے بڑے بھائی نے پوچھا تھا۔
”اب ٹھیک ہوں۔” اسے اب سب کے سوالوں سے الجھن ہونے لگی تھی۔
” آج کالج مت جانا، آرام کر نا۔” اس کی امی نے کہا تھا۔
”ثانیہ! تم ابھی اپنی امی کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلی جانا۔” اس کے ابو نے کہا تھا۔ وہ کپ ٹیبل پر پٹخ کر کھڑی ہوگئی تھی۔
” سب پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں، سکون سے ناشتہ تک نہیں کرنے دیتے۔”
وہ روتے ہوئے ڈائننگ روم سے نکل گئی تھی۔ ڈائننگ روم میں یکدم خاموشی چھا گئی تھی۔ سب لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے تھے۔ ثانیہ نے کبھی اس طرح نہیں کیا تھا۔
”مجھے لگتا ہے کہ اس کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ تم جاؤ، جا کر دیکھواسے۔” اس کے ابو نے امی سے کہا تھا۔
”رات کو میں جب اِسے ربیکا کے گھر سے لے کر آیاتھا، تب تو بالکل ٹھیک تھی۔” اس کا بڑا بھائی حیران تھا۔ گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے وہ بہت لاڈلی تھی۔ ہر ایک کو ہر وقت اس کا خیال رہتا تھا۔ خود وہ بھی بھائیوں کے ساتھ بہت اٹیچ تھی۔ اسے خاصی حد تک آزادی بھی دی گئی تھی۔ وہ جس وقت جہاں جانا چاہتی، جاسکتی تھی۔ کوئی اسے منع نہیں کرتا تھا۔ اس کی غلطیوں کو بھی سب لوگ ہنس کر ٹال دیتے تھے اوراس لاڈ پیار نے اسے کسی حد تک خود سر بھی بنا دیا تھا۔
شام تک وہ خود پر قابو پاچکی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی کسی حرکت سے گھر میں کسی کوکوئی شک ہو۔
”میں اب ڈیوڈ سے کبھی نہیں ملوں گی۔ جب میں ربیکا کے گھر نہیں جاؤں گی تو اس سے میرا سامنا بھی نہیں ہوگا اورپھر وہ میرے ذہن سے نکل جائے گا۔” اس نے اس رات یہ طے کیا تھا۔
ایک ڈیڑھ ہفتہ وہ ربیکا کے گھر نہیں گئی تھی اورنہ ہی اس نے اسے اپنے گھر انوائٹ کیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ ڈیوڈ کو اپنے ذہن سے نکال نہیں پائی تھی ۔ وہ ان تمام دنوں میں اس کی نظروں کے سامنے رہا تھا اور وہ… وہ شیبا کو بھی اپنے ذہن سے نکال نہیں پائی تھی۔
”تم لوگوں نے شیبا کے والدین سے بات کی؟” اس دن اس نے ہمت کر کے ربیکا سے پوچھا تھا۔
”ہاں، ممی نے بات کی تھی۔ وہ لوگ تو پہلے ہی یہ چاہتے تھے۔ اگلے سال چھٹیوں میں جب وہ لوگ پاکستان آئیں گے تو ہم باقاعدہ ان دونوں کی انگیجمنٹ کر دیں گے۔ شادی تو خیر ابھی چار پانچ سال بعد ہی ہوگی۔ کیونکہ ڈیوڈ کو اپنی انجینئرنگ مکمل کرنا ہے۔
ثانیہ کا دل جیسے ڈوب گیا تھا۔
” ڈیوڈ بہت خوش ہوگا؟”وہ پتا نہیں کیا جاننا چاہتی تھی۔
”ابھی کون سی انگیجمنٹ ہوگئی ہے جو وہ خوش ہوتا پھرے۔ ابھی تو صرف بات ہوئی ہے۔ ممی نے اس سے پوچھا تھا تو اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ میں نے تمہیں بتایا تھا ناکہ شیبا کو کوئی بھی ناپسند نہیں کرسکتا۔”
وہ اسے بتا رہی تھی۔ ثانیہ نے اپنے اندر یکدم بہت سا سناٹا محسوس کیا تھا۔
ثانیہ اورربیکا کے پروموشن ٹیسٹ شروع ہونے والے تھے۔ اکنامکس کے ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہوئے کچھ سوالوں میں اسے پرابلم پیش آرہی تھی۔
”میرا خیال ہے، مجھے ربیکا سے مدد لینی چاہیے۔”
اس نے سوچا تھا لیکن ریسیور اٹھاتے ہوئے اسے یاد آیا تھا کہ ربیکا کا فون خراب ہے۔ کچھ دن پہلے بارش کی وجہ سے اس علاقے کی ایکسچینج میں کوئی خرابی ہوگئی تھی اور ربیکا نے اس سے ذکر بھی کیا تھا۔ وہ کچھ دیر سوچتی رہی تھی اورپھر امی کو بتا کر ڈرائیور کے ساتھ ربیکا کے گھر چلی گئی تھی۔ ملازم اسے اندر لے آیا تھا۔
”ربیکا بی بی انتیا بیبی کے ساتھ لائبریری گئی ہیں۔ کچھ دیر میں آتی ہی ہوں گی۔” ملازم نے اسے بتایا تھا۔
” گھر میں اورکوئی نہیں ہے؟” وہ کچھ مایوس ہوئی تھی۔
”صرف ڈیوڈ صاحب ہیں۔میں انہیں بلاتا ہوں”
ثانیہ کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی تھی۔ وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی اور وہ…
ڈیوڈ ملازم کے ساتھ ہی آگیا تھا۔
”ہیلو، کیسی ہیں اپ؟” اس نے ہمیشہ کی طرح خوش دلی سے ثانیہ سے پوچھا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔ میں دراصل ربیکا سے کچھ سوال سمجھنے آئی ہوں مگر وہ تو…۔” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔
”ہاں وہ لائبریری گئی ہے۔بس آتی ہی ہوگی۔ آپ بیٹھیں۔” وہ اس کے کہنے پر خاموشی سے بیٹھ گئی تھی۔
”آپ نے تو ہمارے گھر آنا ہی چھوڑ دیاہے۔”وہ کچھ دیر بعد بولا تھا۔
ثانیہ نے کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ڈیوڈ نے بھی اپنا سوال نہیں دہرایا تھا۔ کچھ دیر وہ دونوں خاموشی سے بیٹھے رہے۔
”لائیں، آپ کتاب دکھائیں۔ ہوسکتا ہے، میں آپ کی کچھ مدد کرسکوں؟” کچھ دیر بعد ڈیوڈ نے کہا تھا۔
ثانیہ نے ہچکچاتے ہوئے کتاب اس کی طرف بڑھادی تھی۔ وہ اس کا بتایا ہوا باب کھول کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر خاموشی سے وہ کتاب دیکھتا رہا پھر اس نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
”نوپرابلم۔ یہ تو بہت آسان ہیں۔ میں آپ کو سمجھا دیتا ہوں۔”
وہ ایک کرسی اٹھا کر سینٹر ٹیبل کے سامنے لے آیا تھا۔” آپ یہاں آجائیں۔”
اس سے کہتے ہوئے خود وہ اس کے بالمقابل صوفہ پر بیٹھ گیا تھا۔ کتاب اور نوٹ بک سینٹر ٹیبل پر رکھنے کے بعد اس نے بڑی مہارت سے مختلف فارمولے استعمال کرتے ہوئے سوال حل کرنے شروع کردیے تھے۔ وہ آگے کو جھکی نوٹ بک پر روانی سے چلتے ہوئے اس کے ہاتھ کو دیکھتی رہی اس کے ناخن تراشیدہ اورہاتھ عام مردانہ ہاتھوں کے برعکس بہت خوبصورت تھے۔ وہ نوٹ بک پر لکھے ہوئے کسی لفظ کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔ اس کاذہن صرف ڈیوڈ میں الجھا ہوا تھا۔
”کیا اسے کبھی یہ احساس ہوا ہوگا کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں؟ کیا اس نے کبھی میرے بارے میں سوچا ہے؟”
وہ اس وقت صرف یہی سوچ رہی تھی۔ وہ مدھم آواز میں نوٹ بک پر سر جھکائے بڑے اچھے طریقے سے مختلف کیلکولیشن کر رہا تھا اورتب اچانک ہی نوٹ بک پر چلتا ہوا اس کا ہاتھ رک گیا تھا۔ نوٹ بک سے کچھ فاصلے پر سینٹر ٹیبل کے شیشے پر پانی کے کچھ قطرے گرے تھے۔ اس نے حیران ہو کر سر اٹھایا تھا۔
”کیا ہوا ثانیہ؟” وہ جیسے ہکا بکا تھا۔ وہ اب اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ چکی تھی۔ ڈیوڈ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے۔ اسے پہلے کبھی ایسی صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ وہ اب ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ پھرایک جھٹکے سے اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹالیے۔
“Do you know how much I love you?”
(تمہیں خبر ہے، میں تمہیں کتنا چاہتی ہوں؟) اس نے روتے ہوئے کہا تھا۔ وہ دم بخود ہوگیا تھا۔
”ثانیہ!”
”میں تمہارے بغیرزندہ نہیں رہ سکتی ہوں اورتم…تم شیبا کو اپنی زندگی میں شامل کرناچاہتے ہو۔”
”ثانیہ! تم ہوش میں تو ہو؟”
” نہیں، میں ہوش میں نہیں ہوں۔ میں نہیںجانتی ڈیوڈ! میں نہیں جانتی ۔ یہ سب کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ مگرمیں…۔”
وہ سانس روکے اسے بلکتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
”اگر تم کسی اور کے ہوگئے تو میں زندہ نہیں رہوں گی۔ میں خود کشی کر لوں گی۔ کیاتم کو کبھی اندازہ نہیں ہوا کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں؟ کیا تمہیں کبھی میرا خیال نہیں آیا ؟ کیا شیبا مجھ سے زیادہ اچھی ہے؟”
وہ اس کے سامنے سے اٹھ گیا تھا۔
” اندازہ تھا مگر… مگر یہ سب کچھ بے کار ہے۔ تمہارے اورمیرے درمیان اتنی دیواریں ہیں کہ صرف محبت سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اپنی اورمیری زندگی کو مشکل بنانے کی کوشش مت کرو ثانیہ۔”
ثانیہ نے بالآخر اسے کہتے سنا تھا۔ اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا۔
”تم مسلم ہو۔ میں عیسائی ہوں اور یہ فرق نہ تم ختم کرسکتی ہو، نہ میں۔”
” لیکن میں تم سے محبت کرتی ہوں۔”
” میں بھی محبت کرتا ہوں۔”