حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

”ٹھیک ہے کیرل کو چھوڑنے مت جانامگر آج میرے ساتھ ثانیہ کو تو چھوڑنے جانا ہی ہوگا۔” ربیکا نے اس کی بات کے جواب میں کہا تھا۔
” ویسے کیرل کے دادا اتنے بھی برے نہیں ہیں۔ مجھے تو بہت اچھے لگتے ہیں۔”
”میں نے کب کہا کہ وہ برے ہیں۔ پندرہ منٹ میں، میں کیرل کو گھرچھوڑتا ہوں اوراس کے دادا سے جان چھڑانے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ میں شاید دسویں بار کیرل کو چھوڑنے گیا تھا مگر وہ ہر بارانٹرویو کا آغاز میرے نام سے کرتے ہیں اورپھرپورا بائیو ڈیٹا لینے بیٹھ جاتے ہیں۔ باپ اور ماں کا نام، بہن بھائیوں کی تعداد اوران کے نام، تعلیم اور ہابیز، میرا نام، کوالیفکیشن اور ہابیز۔ حتیٰ کہ دوستوں کے نام بھی۔”
وہ منہ بناتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”میں سوچ رہاہوں، اگلی بار اگر کبھی کیرل کو ڈراپ کرنا پڑا تو میں ایک فولڈر بنا کر ساتھ لے جاؤں گا۔ان سے کہوں گا کہ ان کے سارے سوالوں کے جواب اس میں ہیں۔ وہ بعد میں آرام سے اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں مگر فی الحال مجھے جانے دیں۔”
بات ختم کرکے وہ خاموش ہوا تھا اورپھر اچانک اس نے ثانیہ سے پوچھا تھا۔
”آپ کے گھر میں تو ایسے کوئی دادا نہیں ہیں؟”
وہ اس اچانک سوال پر یک دم گڑبڑائی تھی۔
” نہیں،ثانیہ کے گھر کوئی دادا نہیں ہیں اوراگر ہوتے بھی تو تمہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں خودتمہارے ساتھ اسے ڈراپ کرنے جاؤں گی اورظاہر ہے ، میں ہی گھر کے اندر جاؤں گی۔”
ربیکا نے سلاد کھاتے ہوئے کہا تھا۔
لنچ کے بعد ربیکا کے ڈیڈی واپس آفس چلے گئے تھے۔ ربیکا کی ممی اور چھوٹی بہن مارکیٹ چلی گئی تھیں۔ ثانیہ ربیکا کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی گئی۔ صرف چند منٹ گزرے تھے جب اچانک اسٹیریو پروٹنی ہوسٹن کاBody Guard بجایا جا نے لگا تھا۔ والیم اتنا بلند تھا کہ وہ دونوں بات کرتے کرتے چپ ہو گئیں۔ ربیکا نے چائے کا مگ رکھ دیا تھا۔
”یہ ڈیوی ہے۔ اسے اتنے مینرز نہیں ہیں کہ گھر میں کوئی آیا ہے تو والیم ہی تھوڑا کم رکھ لے۔ دن میں چھتیس بار ہم یہ نمبر سنتے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ وٹنی نے یہ نمبر اس کے لیے ریکارڈ کیا ہے۔”





ربیکا ترشی سے کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔ چند منٹوں بعد اسٹیرئیر کا والیم کم ہوگیا تھا۔ ربیکا دوبارہ کمرے میں آگئی تھی۔
”والیم کم کردیا؟” ثانیہ نے اس کے اندر آتے ہی پوچھا تھا۔
”ہاں، میں نے اسے وٹنی کی قسم دی تھی۔”
ثانیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔” تمہارا بھائی وٹنی کا بہت بڑا فین لگتا ہے۔” اس نے ہنستے ہوئے ربیکا سے کہا تھا۔
”یہ بات کبھی اس کے سامنے مت کہہ دینا۔ وہ خود کو فین نہیں ، وٹنی کالور سمجھتا ہے۔”
” اوہ گاڈ! دنیامیں اب بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں۔”
”دنیا میں تو پتا نہیں مگر ہمارے گھر میں ایسے ہی لوگ ہیں۔ ڈیوڈ وٹنی پہ مرتا ہے اورانتیاٹام کروز پر۔” اس نے چھوٹی بہن کا نام لیتے ہوئے کہا تھا۔
” اورتم… تم کس پر مرتی ہو؟” ثانیہ نے شرارت سے پوچھا تھا۔
”ظاہر ہے بھئی روبن پہ۔” اس نے اپنے فیانسی کا نام لیتے ہوئے کہا تھا۔ ”میں ہمیشہ پکا کام کرتی ہوں۔” اس نے کھلکھلاتے ہوئے ثانیہ سے کہا تھا۔
” مجھے تمہاری فیملی بہت اچھی لگی ہے۔” ثانیہ نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا تھا۔
”تمہاری فیملی بھی بہت اچھی ہے۔”
”ہاں تمہاری فیملی جتنی نہیں۔ ہم لوگ ایک دوسرے سے اتنے کلوز نہیں ہیں۔” اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
”تم آجایا کرو ہمارے گھر۔ مجھے بہت اچھا لگے گا۔”ربیکا نے بڑے خلوص سے اسے آفر کی تھی۔
”ہاں، اب میں آتی رہوں گی۔ یہاں آکر بہت اچھا وقت گزارا ہے میں نے۔”
اس نے چائے کا مگ خالی کرتے ہوئے کہا تھا پھر گفتگو کا موضوع بدل گیا تھا۔ چاربجے تک وہ دونو ں باتیں کرتی رہیں پھر ثانیہ گھڑی دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
”میں ڈیوڈ کو بلاتی ہوں۔” وہ اسے لاؤنج میں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ چند منٹوں بعد ربیکا اس کے کمرے سے نکل آئی تھی۔
” آؤ باہر پورچ میں چلتے ہیں۔ وہ سورہا تھا۔ میں نے جگادیا ہے چند منٹوں میں باہر آجائے گا۔”
ربیکا نے اسے بتایا تھا۔ وہ اس کے ساتھ باہر پورچ میں آگئی تھی۔ چند منٹوں بعد وہ جمائیاں لیتے ہوئے باہر نکلا تھا۔ پھر گاڑی میں بیٹھ کر اس نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول دیا تھا۔ ربیکا ثانیہ کے ساتھ اندر بیٹھ گئی۔
گاڑی سڑک پر لاتے ہی اس نے کیسٹ پلیئر آن کردیا تھا۔ گاڑی میں وٹنی کاBody Guard گونجنے لگا تھا اور ثانیہ نے بے اختیار قہقہہ لگایا تھا۔ اسے چندگھنٹے پہلے ربیکا کے کہے گئے جملے یاد آگئے تھے۔ڈیوڈ نے حیرانی سے مڑ کر دیکھا تھا۔
”کیا ہوا؟” ثانیہ کو اور ہنسی آگئی تھی۔ ربیکا بھی اس کے ساتھ ہنسنے لگی تھی۔ شاید وہ بھی ثانیہ کی ہنسی کی وجہ جان چکی تھی۔ ڈیوڈ کچھ دیر بیک ویو مرر سے انہیں حیرانی سے دیکھتے ہوئے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا پھر اس کے ماتھے پر بل پڑنے لگے تھے۔ ناراضگی کے عالم میں اس نے گاڑی سڑک کے کنارے روک دی۔” پہلے تم لوگ مجھے اپنے ہنسنے کی وجہ بتاؤ یا پھر ہنسنا بند کرو، پھر میں گاڑی چلاؤں گا۔”
اس نے پیچھے مڑ کر ان دونوں سے کہا تھا مگر ان دونوں کی ہنسی کی رفتار میں یکدم اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ بالکل پاگلوں کی طرح ہنس رہی تھیں۔ پھر ربیکا نے خود پر کچھ قابو پاتے ہوئے کہا۔
”اچھاٹھیک ہے۔ تم گاڑی چلاؤ، ہم خاموش ہوجاتے ہیں۔”
بات ختم کرتے کرتے اس نے ثانیہ کی طرف دیکھا تھا اور وہ ایک بار پھر ہنسنے لگی تھی۔
”نہیں، اب تو میں بالکل گاڑی نہیں چلاؤں گا۔” وہ کچھ بگڑ گیا تھا۔
” پلیز آپ گاڑی چلائیں۔ آپ کو وٹنی کی قسم۔”
ثانیہ نہیں جانتی کس طرح بے اختیار اس کے منہ سے یہ جملہ نکلا تھا۔ اس نے ڈیوڈ کے چہرے پر بے تحاشا حیرت دیکھی تھی پھر اس نے اس کا چہرہ سرخ ہوتے دیکھا تھا۔ کچھ کہے بغیر وہ مڑا تھا۔ اس نے کیسٹ پلیئر آف کیا تھا اورگاڑی سڑک پر لے آیا تھا وہ دونوں کچھ دیر مزید ہنستی رہی تھیں اورپھر آہستہ آہستہ ان کی ہنسی تھم گئی تھی اور ہنسی تھمتے ہی ثانیہ کو اپنی حرکت پر خجالت کا احساس ہونے لگا تھا۔ اس نے بیک ویو مرر سے ڈیوڈ کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ بڑی سنجیدگی سے ماتھے پر بل ڈالے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ اس کے چہرے پر دوپہر والی خوش مزاجی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ ثانیہ کو شرمندگی ہونے لگی تھی۔ پتا نہیں وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا کہ میں کیسی لڑکی ہوں۔ اسے خیال آیا تھا۔ ربیکا اب اس سے باتیں کر رہی تھی مگر اس کاذہن اب بھی وہیں اٹکا ہوا تھا۔ ربیکا گیٹ پر اس کے ساتھ اتر کر اسے گھر کے اندر تک چھوڑنے گئی تھی۔ اس کے ذہن میں تب بھی ڈیوڈ کے چہرے کے تاثرات تھے۔
”کل تمہیں ڈراپ کرنے کے بعد میرا اور ڈیوڈ کا زبردست جھگڑا ہوا۔” اگلے دن کالج میںربیکا اسے بتا رہی تھی۔
”وہ مجھ سے اس بات پر لڑ رہا تھا کہ میں نے تمہیں وٹنی کے بارے میں کیوں بتایا۔”ربیکا مزے سے بتا رہی تھی۔
”پھر؟”
” پھر کیا۔ ایسے جھگڑے تو اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ اسے اصل میں جھگڑے کی عادت ہے۔ ”ربیکا بہت پر سکون تھی۔
” ویسے مجھے ہنسنا نہیں چاہیے تھااور پھر وہ بات جو میں نے اس سے …۔”
”چھوڑو یار! اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے۔ اے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔” ربیکا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا تھا۔ وہ خاموش ہوگئی تھی لیکن اس کی شرمندگی ختم نہیں ہوئی تھی۔
تین چاردن بعد اس نے شام کو ربیکا کو فون کیا تھا۔ فون ڈیوڈ نے ریسیو کیا تھا۔ ثانیہ نے اس کی آواز پہچان لی تھی۔
”میں ثانیہ ہوں۔ مجھے ربیکا سے بات کرناہے۔” اس نے کہا تھا۔
”اچھا میں اسے بلوا دیتا ہوں۔آپ ہولڈ کریں۔” دوسری طرف سے کہا گیا تھا۔
”ایک منٹ۔ مجھے آپ سے بھی ایک بات کرنی ہے۔” ثانیہ نے تیزی سے کہا تھا۔ معذرت کرنے کا یہ اچھا موقع اسے ملا تھا۔
”مجھ سے بات کرنی ہے؟ کیا بات کرنی ہے؟”
” مجھے آپ سے ایکسکیوز کرنی ہے۔”
” ایکسکیوز؟ کس چیز کے لیے؟” وہ حیران ہوا تھا۔
” وہ اس دن گاڑی میں… میں میرا مطلب ہے۔ میں نے آپ کو گاڑی چلانے کے لیے ونٹی کی قسم دی تھی۔” اس نے کچھ اٹکتے ہوئے وجہ بتائی۔
”ہاں تو میں نے گاڑی چلا دی تھی۔” دوسری طرف سے سنجیدگی سے کہا گیا تھا۔ ثانیہ کو اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ وہ کچھ دیر یہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ مذاق کر رہا ہے یاسنجیدہ ہے۔
” نہیں… لیکن مجھے ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی۔”
” چلیں ٹھیک ہے۔ دوبارہ مت کہیے گا۔”
” آپ ناراض تو نہیں ہیں؟”
” نہیں، فی الحال تو نہیں۔ کیا اب ربیکا سے بات کروا دوں۔”
وہ اس کی بات پر کچھ شرمندہ ہوگئی تھی۔” ہاں کروا دیں۔”
”ہیلو ثانیہ!” کچھ دیربعد ریسیور میں ربیکا کی چہکتی ہوئی آواز گونجی تھی۔
*…*…*
اس دن وہ اپنی بھابھی کے ساتھ شاپنگ کے لیے نکلی ہوئی تھی جب فیروز سنز کے باہر اس نے ڈیوڈ کو کچھ فارنرز کے ساتھ دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی چھوٹی بہن انیتا بھی تھی۔ انتیا نے ثانیہ کو دیکھ لیا تھا۔ وہ اس کے پاس آگئی تھی۔
”تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟”ثانیہ نے اس سے پوچھا تھا۔ ڈیوڈ ابھی بھی ان ہی لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا۔
” ڈیڈی کے کچھ دوست آئے ہوئے ہیں۔ رات کی فلائٹ ہے ان کی۔ اس لیے کچھ شاپنگ کروانے آئے ہیں۔”
”ربیکا بھی آئی ہے؟”
”نہیں، وہ نہیں آئی۔ بس میں اور ڈیوڈ ہی آئے ہیں۔”
انیتا کچھ دیر اس سے باتیں کرنے کے بعد واپس چلی گئی تھی۔ثانیہ کو بہت عجیب سا محسوس ہوا تھا۔ ڈیوڈ اسے دیکھنے کے باوجود بھی اس کی طرف نہیں آیا تھا۔ اس نے ثانیہ کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا تھا۔ اورثانیہ کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔
”کیا وہ اب بھی اس بات پر مجھ سے ناراض ہے؟” اسے خیال آیا تھا۔” مگر میں نے تو ایکسکیوز کرلی تھی۔”
اس کا دل یکدم شاپنگ سے اچاٹ ہوگیا تھا۔ بھابھی کے اصرار کے باوجود وہ واپس گاڑی کی طرف چلی گئی تھی۔
پھرثانیہ نے کئی دفعہ اسے بہت سی جگہوں پر دیکھا تھا۔ بعض دفعہ وہ اکیلا ہوتا، بعض دفعہ اس کا کوئی دوست ساتھ ہوتا مگر کبھی بھی اس نے ثانیہ کو مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ہربار اس طرح نظر انداز ہونا ثانیہ کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا تھا۔ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا وہ خود اس کے پاس جا کر ہیلو ہائے کرے۔” آخر پتا تو چلنا چاہیے کہ وہ اس طرح کیوں کر رہا ہے؟” اس کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔
ہربار اس کا سامنا کرنے کے بعد وہ گھنٹوں اس کے بارے میں سوچتی رہتی تھی اورہر سوچ اسے پہلے سے زیادہ الجھاتی تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اسے ڈیوڈ کی طرف کون سی چیز اس طرح کھینچ رہی تھی۔
وہ بلاشبہ بے حد ہینڈسم تھا۔ ا س کے چہرے کے نقوش بھی بہت تیکھے تھے مگر ثانیہ نے اس سے بھی زیادہ ہینڈسم لڑکے دیکھے تھے اوروہ اس طرح کسی سے متاثر نہیں ہوئی تھی جس طرح وہ ڈیوڈ سے ہو رہی تھی۔ اس میں کوئی نہ کوئی ایسی چیز ضرور تھی جس سے سب ہی لڑکیاں اس کی طرف متوجہ ہو جاتی تھیں۔
اس دن وہ ربیکا کے گھر گئی ہوئی تھی اور وہاں ایک بار پھر ڈیوڈ سے اس کا سامنا ہوا تھا مگرخلافِ توقع اسے نظر انداز کرنے کے بجائے، وہ خوش دلی سے مسکرانے لگا تھا۔
”ہیلو، کیسی ہیں آپ؟”
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟” وہ بے اختیار خوش ہوئی تھی۔
”فائن۔ کافی دن بعد آئی ہیں آپ ہمارے گھر۔ کیا ابھی بھی آپ کی شرمندگی ختم نہیں ہوئی؟” وہ بڑی دلچسپی سے پوچھ رہا تھا۔
”میری شرمندگی تو ختم ہو گئی ہے مگر آپ شاید ابھی تک ناراض ہیں مجھ سے؟”
” نہیں ، میں نے آپ کو بتایا نا کہ میں اس طرح کی باتوں پر ناراض نہیں ہوتا۔”




Loading

Read Previous

حاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!