میں نے اس سے سکون اور سہارا مانگا تھا۔
میں نے اس سے آسانی اور محبت مانگی تھی۔
میں نے اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی تھی۔
اس رات پتا نہیں کیوں مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ اللہ نے میری دعا قبول کر لی ہے۔
مجھے یوں لگا تھا جیسے اگلے دن میری ساری مشکلات ختم ہوجائیں گی۔ٹینا مجھے مل جائے گی۔”
وہ کافی کے مگ کو دیکھتے ہوئے اس کے کناروں پر انگلی پھیر رہا تھا۔
”ٹینا نہیں ملی مگر اگلے دن مجھے تم مل گئیں۔پارک میں، میں نے تمہیں نہیں دیکھا مگر تم نے مجھے دیکھا۔اس رات وہ جو احساس ہوا تھا نا کہ میری دعا قبول ہو گئی ہے۔ وہ غلط نہیں تھا۔ میری دعا واقعی قبول ہوئی تھی۔
تم سے بڑھ کر سہارا اور سکون مجھے کوئی نہیں دے سکتا تھا۔
تم سے زیادہ محبت مجھے کہیں سے نہیں مل سکتی تھی۔
تمہیں پتا ہے، تب تم نے میرے لیے کیا کیا؟”
تم نے میرے جسم میں سے ایک ایک کانٹا نکال دیا اور اورپھر ہر زخم کوسی دیا۔
میں سوچتاہوں۔ اس دن اگر مجھے ٹینا مل جاتی تم نہ ملتیں تو کیاہوتا۔ ٹینا اورمیں شادی کرتے ویسا ہی گھر بناتے جیسا اس کے پیرنٹس یا میرے پیرنٹس نے بنایا تھا۔ اسی طرح لڑتے جیسے وہ دونوں لڑتے تھے۔ہمارے بچے ویسی ہی زندگی گزارتے جیسے میں یا ٹینا اپنے پیرنٹس کے پاس گزار رہے تھے مصنوعی اور خالی زندگی، میں ساری عمر خدا کے وجود سے اتنا ہی بے نیاز رہتا، جتنا تب تھا۔ میں ٹینا کو خوش رکھنے کے لیے مکمل طور پر میٹریلزم کا شکار ہوجاتا۔ میرا دین، میرا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، میرا اللہ مجھے… مجھے تو کسی کے بارے میں بھی کچھ خبر نہ ہوتی۔
میں بے کار چیزوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے زندگی ختم کر لیتا۔
چھ سال میں، میں نے اللہ کا اتنی بار شکر ادا کیا ہے کہ اس دن مجھے ٹینانہیں ملی تم ملیں۔ چاہے جس مقصد کے لیے بھی کی مگر تم نے میرے ساتھ نیکی کی۔
اس وقت دنیا میں صرف ایک شخص ایسا ہے جس کا احسان میں چاہوں بھی تو نہیں اتار سکتا اور وہ… وہ تم ہو۔”
تم مجھے تاریکی سے روشنی کی طرف لے کر آئی تھیں۔ مجھے مسلمان میرے ماں باپ نے نہیں، تم نے بنایا۔
کان میں اترنے والی آواز سے کوئی مسلمان نہیں ہوتا۔ دل میں اترنے والی آواز سے مسلمان ہوتا ہے اور میرے دل میں تمہاری آواز اتری تھی۔ میں نے اپنے اللہ، اپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، اپنے دین کو تمہارے ذریعے پہچانا۔
جب پہچان لیا تو زمین پر کھڑے ہونے کا طریقہ آگیا ۔زندگی کے رستے نظر آنے لگے۔ میں ایک بار پھرسے دنیا کو دیکھنے کے قابل ہوگیا۔ حتیٰ کہ تمہارے مرنے کی خبر پر بھی پہلے کی طرح میں زندگی اور دنیا سے مایوس نہیں ہوا۔ میں نے پہلے کی طرح خدا کے سامنے شکووں کی قطاریں کھڑی نہیں کیں۔ میں نے صبر کیا۔ میں نے ان چیزوں کو یاد رکھنے کی کوشش کی جو اللہ مجھے دے رہاتھا۔
ان آٹھ سالوں میں، میں نے بہت کچھ حاصل کیا۔ اپنا ایم سی ایس مکمل کیا۔ ایک کمپیوٹر فرم میں بہت اچھی جاب مل گئی۔ اچھی زندگی گزارنے کے لیے جتنی آسائشیں ضروری ہوتی ہیں، وہ سب میرے پاس ہیں اوراب میں پہلے کی طرح زندگی سے ناخوش بھی نہیں ہوں۔ اپنی ہر بے چینی اور پریشانی کا علاج میں نے قرآن پاک میں ڈھونڈا ہے۔ چھ سال اکیلے گزارنے کے بعد اس سال میں شادی کرنا چاہتاتھا۔ زندگی میں کسی نہ کسی اسٹیج پر آپ کو رشتوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ چھ سالوں میں بہت سی لڑکیوں سے ملتارہا ہوں لیکن ہر بار شادی کاسوچتے ہی میرے سامنے تم آکر کھڑی ہو جاتی تھیں۔
اس نے ثانیہ کو گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹتے اور پھر ان میں چہرہ چھپاتے ہوئے دیکھا تھا۔
میں ہر لڑکی کا موازنہ تم سے کرتا تھا۔
میں چاہتا تھا۔ جو بھی میری زندگی میں آئے، وہ تمہارے جیسی ہو۔
میں اپنے پیرنٹس جیسا گھر بنانا نہیں چاہتا تھا۔
میں گھر جیسا گھر چاہتا تھا۔
میں چاہتا تھا۔ وہ میری اولاد کومیری طرح اللہ سے بے نیاز نہ رکھے۔ جیسے میرے پیرنٹس نے مجھے رکھا۔
میں چاہتا تھا۔ وہ میری اولاد کو اچھا مسلمان بنائے۔ وہ مجھے صرف یہ نہ بتاتی رہے کہ دنیا کی ترقی کتنی ضروری ہے۔
وہ مجھے باہر سے نہیں، اندرسے سمجھے۔ آٹھ سال میں، میں کسی ایسی لڑکی سے نہیں ملا جو یہ سب کرسکتی ہو۔
جب سے یہاں سیٹل ہوا ہوں، تب سے میں اسلامک سینٹر جاتا رہا ہوں۔ پروفیسر عبد الکریم سے میں نے ایک بار اپنی شادی کی خواہش ظاہر کی ۔
” میں نے انہیں بتایا کہ مجھے ایسی لڑکی کی ضرورت ہے جو صرف مسلمان نہ ہو بلکہ دین کو سمجھتی بھی ہو، جو دنیا کے پیچھے بھاگنے والی نہ ہو، جوہر اچھے اوربرے وقت میں میرے ساتھ رہے، مجھ سے وفا دار ہو، جو میری اولاد کی اچھی پرورش کر سکے۔ میں نے اور کوئی شرط نہیں رکھی تھی۔میرا دھیان اور کسی بات کی طرف گیا ہی نہیں۔ انہوں نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا۔ وہ سب کچھ جو وہ جانتے تھے۔ جو تم نے انہیں بتایا تھا۔ انہوں نے پوچھا تھا کہ میں تمہاری مرضی کے ساتھ تم کو قبول کرسکتا ہوں؟۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ وہ تمہیں ثانی کہتے تھے۔ مجھے کبھی شک نہیں ہوا کہ یہ تم تھیں۔ ہاں ہربار ثانی کہنے پر مجھے تمہارا نام ضرور یاد آجاتا تھا۔ اس دن میں ثانی سے ملنے گیا تھا اورسامنے آنے والی ثانیہ تھی۔”
وہ خاموش ہوگیا تھا۔ اس نے گھٹنوں میں سر چھپائے اس کے لرزتے ہوئے وجود کو دیکھا تھا۔ اس باربولتے ہوئے اس کی آوازبہت مدھم تھی۔
”میں تمہیں نہیں بتا سکتا، مجھے تم پر کتنا غصہ آیا تھا۔
مجھے لگا میں نے اتنے سال ایک جھوٹ کی محبت میں گزار دیے۔
ایک فراڈ کی چاہ میں۔
پھر تم نے سب کچھ مجھے بتا دیا۔
اگر مجھے تھوڑی بہت کوئی خوش فہمی تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔ تم سے ملنے کے بعد گھر جاکر میں سوچتا رہا تھا کہ میں کس قدر بے وقوف اور احمق تھا کہ ایک لڑکی… بہت دن میں اسی صدمے اور غصے میں رہا تھا پھر آہستہ آہستہ غصہ ختم ہونے لگا تھا۔
آہستہ آہستہ تمہاری ساری باتیں ایک بار پھر سے یاد آنے لگی تھیں۔
میں نے سوچا کہ تم نے مجھ سے کیا مانگا۔ کیالیا۔ تم نے نیکی اپنی غرض کے لیے کی تھی مگر میرے ساتھ کی تھی۔
جس دلدل میں اترنے کے لیے میں کھڑا تھا، وہاں مجھے تم نہیں لے کر گئی تھی۔ میں خود گیا تھا۔ تم تو مجھے وہاں سے واپس لائی تھیں۔
دلدل تک جانے کے لیے اگر میں خود سے نفرت نہیں کرسکا تو وہاں سے واپس لانے کے لیے تم سے کیسے کرسکتا ہوں۔
ان آٹھ سالوں میں، میں نے جو بھی حاصل کیا ہے، تمہاری وجہ سے کیا ہے، سکون، صبر،ایجوکیشن، جاب، دولت۔حتیٰ کہ…حتیٰ کہ ایمان بھی ۔
تم مجھے اللہ تک لے کرگئی تھیں۔تم نے مجھے تشخص دیا۔ تمہیں پتا ہے ثانیہ! تم کیاہو؟”
اس نے ایک بار پھر اپنے گھٹنوں پر سر چھپالیا تھا۔
”میلے دامن اور داغ دار دل والے لوگ ویسی زندگی نہیں گزارتے جیسے تم گزار رہی ہو۔
ویسے کام نہیں کرتے جیسے تم نے کیے۔
مجھے اور تمہیں دوبارہ ملانے والا اللہ ہے اور وہ ہمارے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔
میں بہت دنوں پہلے تمہارے پاس آنا چاہتاتھا مگر ہربار رک جاتا۔ لیکن آج جب تمہیں کمیونٹی سینٹر میں دیکھاتو پھر میں ٹھہر نہیں سکا۔ تم نے راستے میں لفٹ لینے سے انکار کر دیا اور میں یہاں چلا آیا۔
میں تمہارے پاس یہ جاننے نہیں آیا ہوں کہ تم نے کب کب،کہاں کہاں غلطی کی۔
مجھے ڈیوڈ کے قصے میں بھی دلچسپی نہیں ہے۔
مجھے اس بات کی پروا نہیں ہے کہ تم کسی کے لیے گھر سے بھاگ گئیں۔
میںیہ بھی جاننا نہیں چاہتاکہ تمہارے پیرنٹس تمہارے بارے میں کیا سوچتے ہیں یا کیا نہیں؟
میں اپنی زندگی میں سکون چاہتاہوں۔ میں تمہیں چاہتاہوں۔”
ثانیہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ اس کی بھیگی ہوئی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔
*…*…*
اسلامک سینٹر میں نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے اس نے حدید کو دیکھا تھا۔ وہ بے حد پر سکون نظر آرہا تھا۔ چند لمحے چپ چاپ اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے نکاح نامے پر سائن کردیے تھے۔
”میں کوشش کروں گا۔ ایک بار تمہارے پیرنٹس سے کانٹیکٹ کروں۔ تمہیں ان سے ملواؤں۔ہوسکتا ہے وہ تمہیں معاف کرچکے ہوں۔”
اسلامک سینٹر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے اس نے حدید کو کہتے سنا تھا۔
”یاد ہے، بہت سال پہلے تم نے ہی کہا تھا نا کبھی نہ کبھی سب کچھ ٹھیک ہوجاتاہے۔”
ثانیہ نے جواب دینے کی کوشش نہیں کی تھی۔اسے یاد آرہاتھا، اس کے ساتھ یہاں آنے سے پہلے اس نے حدید سے پوچھا تھا۔
”کیا تمہیں واقعی لگتا ہے کہ اپنے سارے گناہوں کے بعد بھی تمہارے لیے ویسی بیوی ثابت ہوسکتی ہوں،جیسی تم چاہتے ہو؟ کیا تم واقعی میرا ماضی بھول جاؤ گے؟”
”نہیں، میں تمہارا ماضی نہیں بھول سکتا۔ کیونکہ اس ماضی سے میری کچھ بہت اچھی یادیں وابستہ ہیں۔” حدید نے جواب دیا تھا۔
”کیاتم میرے جیسی گناہ گار عورت کے ساتھ رہ کر پچھتاؤ گے نہیں؟”
”وہ تمہارے لیے روشنی کردے گا جس میں تم چلو گے اور وہ تم کو بخش دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے ۔”
اس نے بہت نرم لہجے میں بہت سال پہلے ثانیہ کی سنائی ہوئی سورة حدید کی آیات دہرادی تھیں۔ بہت دیر تک نم آنکھوں سے وہ چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے سر جھکالیا تھا۔
*…*…*
”تمہیںیوں نہیں لگتا ثانیہ! جیسے آج سب کچھ مکمل ہے۔ کہیں بھی کچھ بھی مسنگ نہیں ہے؟” کارپارکنگ لاٹ سے باہر نکالتے ہوئے وہ اس سے کہہ رہا تھا۔ثانیہ نے اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔
”کم ازکم مجھے تویہی لگ رہا ہے جیسے سب کچھ یکدم مجھے مل گیا ہے۔”
ثانیہ نے مسکراتے ہوئے کچھ کہے بغیر سیٹ کی پشت سے سر ٹکا لیا تھا۔ سرد موسم سے گاڑی کے اندر کی حدت میں آکر اس کے جسم کو عجیب ساسکون مل رہا تھا۔ وہ کہتا جارہا تھا۔
”آج پہلی بار مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں اپنے فلیٹ نہیں،گھر جارہا ہوں اور میں اس فیلنگ(احساس) کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ یہ بتانا مشکل ہے۔ بالآخر میں نے ایک گھر بنالیا”حدید کی آواز دھیمی تھی مگر دھیمی آواز سے بھی اس کی خوشی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔ وہ خاموشی سے ونڈاسکرین کے پار نظر آنے والی سڑک دیکھتی رہی۔ بوجھل ہوتی ہوئی آنکھوں کو اس نے بندکرلیا تھا۔کار میں اس کی آواز گونج رہی تھی اور وہ سوچنے لگی تھی۔
”ہاں میں جانتی ہوں۔یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ گھر کیا ہوتا ہے اورزندگی میں ایک گھر کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ اتنے بہت سے سال تنہا خوار ہونے کے بعد اب میںجہاں رہوں گی، وہ گھر ہوگا۔ وہاں کم از کم ایک شخص ایساہوگا جو میرے بیمار ہونے پر میرے لیے پریشان ہوگا۔ جو مجھ سے دن میں تین بار یہ ضرور پوچھے گا کہ میں نے کھانا کھایا یا نہیں۔ جو میرا دل بہلانے کے لیے کسی بھی وقت کوئی بھی کام چھوڑ کر باہرلے جائے گا۔ جس کے سامنے روتے ہوئے مجھے کوئی خوف اور پریشانی ہوگی نہ ہی کوئی جھوٹا بہانا بنانا پڑے گا۔”
اس نے آنکھیں کھول کر ایک بار پھر اسے دیکھا تھا۔وہ سامنے سڑک پر نظریں جمائے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کچھ کہہ رہاتھا۔ ثانیہ نے ایک بار پھر آنکھیں بند کرلی تھیں۔
”گھر جا کرتمہیں تھوڑا شاک لگے گا۔ میں پچھلے بہت دنوں سے تمہاری وجہ سے اپ سیٹ تھا۔ کسی چیز پر توجہ نہیں دے سکا، گھرپر بھی نہیں۔ وہاں سب کچھ ادھر ادھر بکھرا ہوا ہے۔”
ثانیہ کو نیند آنا شروع ہوگئی تھی۔حدید کی آواز اب بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔
”لیکن تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جاتے ہی سب کچھ ٹھیک کر دوں گا۔”
آواز اب اور ہلکی ہوگئی تھی۔
”مجھے زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ لگے گا۔”
”ثانیہ کو اب اس کی باتیں سمجھ میں نہیں آرہی تھیں۔
”اور…پھرتم…گھر… کو دیکھنا… اب… مجھے… کچھ… نہیں…۔”
حدید نے بات کرتے کرتے گردن موڑ کر اسے دیکھاتھا اورخاموش ہوگیا تھا۔ نیند میں ثانیہ کا ایک ہاتھ گیئر اورہینڈ بریک کے پاس دھراہوا تھا۔ حدید نے بہت احتیاط سے اس کاہاتھ پکڑ کر اس کی گود میں رکھ دیا۔ لیور دبا کراس نے ثانیہ کی سیٹ کی بیک کو تھوڑا اورنیچے کردیا۔ حدید نے ثانیہ کی سیٹ بیلٹ کو آہستہ آہستہ چیک کیا تھا اورپھر مطمئن ہو کراس نے اپنی توجہ ایک بار پھر سڑک پر مرکوز کرلی تھی۔ کار میں اب بالکل خاموشی تھی۔
”بعض دفعہ خاموشی وجود پر نہیں، دل میں اترتی ہے۔پھر اس سے زیادہ مکمل، خوبصورت اوربامعنی گفتگو کوئی اورچیز نہیں کرسکتی اوریہ گفتگو انسان کی ساری زندگی کا حاصل ہوتی ہے اوراس گفتگو کے بعد ایک دوسرے سے کبھی دوبارہ کچھ کہنا نہیں پڑتا۔ کچھ کہنے کی ضرورت رہتی ہی نہیں۔”
وہ پر سکون انداز میں مسکراتے ہوئے سوچ رہا تھا۔
*…*…*