جو جان سے گیا، وہ جان تھا میری

”کیسی ہیں آپ۔ بیٹے کیسے ہیں آپ کے؟“
سیشن شروع ہوتے ہی میں نے اس سے جاننا چاہا۔
“الحمدللہ! میں بالکل ٹھیک ہوں۔ دونوں بھی ماشااللہ بالکل ٹھیک ہیں۔“
”میرے ساتھ میرے بچوں نے بھی بہت تکلیفیں دیکھیں۔ ابھی ہاسپٹل یا کلینک کا نام بھی لوں تو میرے بڑے بیٹے کا رنگ اڑ جاتا ہے وہ بہت سینسیٹو ہے۔ وہ ڈر جاتا ہے اور پوچھتا ہے ماما آپ ٹھیک ہیں۔“
”آپ کی طبیعت ٹھیک ہے۔“
”آپ کو کچھ ہوا تو نہیں۔“ اس نے دھیمے سے مسکراتے ہوئے مجھے آگاہ کیا۔
”اس نے مجھے سارے حادثے سے گزرتے دیکھا ہے، میری دگرگوں اور ہوش و حواس سے بیگانہ حالت دیکھی ہے۔“
”ماں باپ کے ساتھ ہونے والے ہر حادثے کا بچوں پر گہرا اثر پڑتا ہے اور یقین مانیے یہ بچے ہی ہوتے ہیں جو ماں یا باپ کو ٹراما سے باہر نکالنے کا سبب بنتے ہیں۔“ میں نے کہا۔
”بالکل ایسا ہی ہے۔ میرے بیٹوں نے ایک طرح سے مجھے جینے کی ہمت دی، زندگی کو پھر سے جینے کا سامان فراہم کیا۔“
”میری بیماری میں میرا چھوٹا بیٹا میرے ساتھ لیٹ جاتا تھا۔ اپنے ننھے ہاتھوں سے میرے چہرے کو تھپتھپاتا کہ ماما اٹھو مجھ سے بات کرو۔ پیار کرتا تھا، میرے لاڈ اٹھاتا تھا۔“
”حادثے کے بعد آپ کے شوہر نے کیسے ہینڈل کیا سارے معاملے کو؟ “
”میرے شوہر بظاہر بہت اسٹرونگ رہے۔ ان کی زیادتیوں کے پیش نظر میں ڈفرنٹ اسٹیٹ آف مائنڈ میں تھی۔ جانے انجانے میں نے انہیں بہت ٹف ٹائم دیا۔ میں رو رو کے ہلکان ہو جاتی، چیختی چلاتی، بیمار پڑی رہی مگر انہوں نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔“
”ان کا فرض تھا یہ سب۔ ویسے بھی اتنی حسین بیوی ہو تو شوہر کا سب برداشت کرنا بنتا ہے۔“ میرے کہنے پہ وہ بے ساختہ ہنسی اور اس کے چہرے سے اداسی کا تاثر یکلخت غائب ہوا۔
”وہی تو۔ انہوں نے سب کچھ خود ہی برداشت کیا، صبر کیا اور نہ ہی کسی سے کوئی بات ڈسکس کی کہ وہ کس تکلیف سے گزر رہے ہیں۔ کیونکہ بحیثیت باپ نقصان سے تو وہ بھی دوچار ہوئے تھے۔“
”بالکل! ناقابل تلافی نقصان سے دو چار تو آپ کے شوہر بھی ہوئے ہیں۔“
”کاش وہ اس وقت رہتے میرا ساتھ دیتے اور میرے ساتھ کھڑے ہوتے۔“
”یہ ہی تو سمجھنے کی بات ہے۔ جو سمجھ جاتا ہے وہ بڑے نقصان سے بچ جاتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ جتنی مرضی تدبیریں کر لیں ہونی ہو کر رہتی ہے۔“ میں نے دھیمے لہجے میں اسے سمجھایا۔
”شاید ایسا ہی ہے۔ انسان چاہے جتنا مرضی مضبوط اعصاب کا مالک ہو، جتنا مرضی برداشت کر لے مگر کہیں نہ کہیں ایسا موقع ضرور آتا ہے کہ وہ ٹوٹ جاتا ہے۔ میں نے بہت صبر سے کام لیا، بہت سال برداشت کیا مگر ابوبکر کی موت نے مجھے پوری جان سے ہلا کے رکھ دیا۔“
”یہ ہی زندگی ہے۔ اللہ نے آپ پہ بہت احسان کیا ہے۔ آپ کی فیملی آپ کے بغیر ادھوری ہے۔“
”جی بالکل! میں بہت شکر ادا کرتی ہوں۔ اللہ نے مجھے بہت نوازا ہے۔ میرے شوہر یوں تو لونگ اینڈ کئیرنگ ہیں مگر انسان کو صحیح وقت پہ اسٹینڈ لینا بھی آنا چاہیے۔“
”ہمیں بہت سے فیصلے وقت اور موقع کے حساب سے لینے پڑتے ہیں۔ کوئی اورچیونیٹی ملے تو انسان کو اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے، کامیابی ملے نہ ملے مگر ذہنی سکون تو ہوتا ہے کہ ہم نے نیک نیتی سے کوشش کی ورنہ بعد میں تو بس پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے اور دل میں خلش بھی۔“
”آپ صحیح کہہ رہی ہیں، مگر بہت سے معاملات ہمارے تابع نہیں ہوتے۔ اگر ہمارے تمام معاملات درست ہو جائیں تو کیا ہم پرفیکٹ نہ ہو جائیں؟“
”یہ بھی ہے، مگر ہمارے اردگرد بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا چاہے کتنی ہی زندگیاں داﺅ پر کیوں نہ لگ جائیں۔ “
”ایسے لوگوں کو ہر ممکن حد تک اگنور کیا کریں۔ انہیں آپ کی خوشیوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔“
”نو ڈاﺅٹ۔ میری زندگی کا تجربہ ہی یہ ہے کہ جاہلوں کو بس اگنور کرو۔ انہیں اور ان کی جہالت کو جتنا سر پہ سوار کریں وہ اتنا ہی بڑا وبال جان بن جاتے ہیں۔ جاہلوں سے ڈیل کرتے ہوئے آپ کا پڑھا لکھا ہونا کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔“
”کتنا آسان ہوتا ہے لوگوں کے لیے کہنا کہ تم اتنی پڑھی لکھی ہو، یونیورسٹی کی ڈگری ہے پھر بھی تم سے چند افراد ہینڈل نہیں ہو سکے؟“
”میں انہیں کہتی ہوں کہ یہ سب تو کتابوں میں پڑھایا ہی نہیں گیا تھا۔ “
”واقعی جو سبق زندگی سکھاتی ہے وہ کتابوں میں کہاں ہوتے ہیں۔“میرے سادگی سے کہنے پہ وہ خوش دلی سے مسکرا دی۔
”آپ کے ساتھ آپ کے میکے کی سپورٹ تو رہی ہو گی؟“
“جی بہت۔ میری مدر اور سبلنگز نے بہت سپورٹ کیا۔ میرے سارے بہن بھائی ملک سے باہر سیٹل ہیں۔ میری خاطر سب اپنی مصروفیات چھوڑ کے میرے پاس بھاگے چلے آئے۔ لیکن سچ بتاﺅں تو مشکل وقت میں سب سے زیادہ میں نے اپنے فادر کو مس کیا کہ کاش وہ زندہ ہوتے تو میرے حالات مختلف ہوتے۔ باپ کے دم پہ بیٹی بہت سے مشکل فیصلے بڑی آسانی سے کر لیتی ہے۔ باپ کی بیٹیوں کے لیے کیا حیثیت اور مقام ہوتا ہے یہ صرف ایک بیٹی ہی جان سکتی ہے۔“
باپ کی یاد میں اس کی آنکھوں سے نمکین پانی روا ہوا۔
کچھ آنسو چپکے سے میرے اندر بھی گرے تھے۔ اپنے باپ کے زندہ نہ ہونے کا غم مجھے بھی بہت کھلتا تھا۔ بے شک بیٹی سے بڑھ کر کوئی باپ کو ویلیو نہی کر سکتا۔
”آپ کو پتا ہے کہ زندگی میں جب گھٹن حد سے زیادہ بڑھ جائے تو بہن بھائیوں کا وجود ہوا دار کھڑکیوں اور روشن دانوں کی طرح محسوس ہوتا ہے جو آپ کے اندر کی گھٹن کم کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں اور نیم تاریک وجود کو روشن کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔“
”ارے واہ۔ آپ تو فلاسفر بھی ہیں۔“ میں نے خوش دلی سے کہ کر اس کا اور اپنا موڈ بدلنے کی کوشش کی۔
وہ بے اختیار مسکرا دی۔
”زندگی سے بڑا استاد کوئی ہے کیا؟“
”فیملی سے بڑا سپورٹ سسٹم کوئی نہیں۔ کاش میرا سسرال بھی میری فیملی بنتا یا مجھے ہی اپنی فیملی کا حصہ سمجھ لیتا۔“
”میں ہاسپٹل سے امی کی طرف چلی گئی تھی۔ میں ان لوگوں کو فیس نہیں کر سکتی تھی جو ہر حساب سے میرے بچے کی موت کا باعث بنے اور مجھ پہ گھٹیا اور جھوٹے الزام لگانے سے بھی نہیں چونکے۔“
”مگر امی کے سمجھانے اور سوشل پریشر کے باعث آخر کار سسرال میں آنا پڑا۔ بہت سی دل کو کچوکے لگانے والی باتیں تھیں جو یکے بعد دیگرے میرے کانوں میں انڈیلی جاتی تھیں۔“
”لوگ کیا کہیں گے؟“
”ایسا تو ہوتا رہتا ہے۔“
”عورت کو کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔“
”اونچ نیچ زندگی کے ساتھ ہے۔ “
”گھر بسانے کے لیے من مارنا پڑتا ہے۔“
”شادی شدہ لڑکیاں سسرال میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ “
”ہم لڑکیاں جتنا مرضی پڑھی لکھی اور سمجھدار کیوں نہ ہوں شادی شدہ ہو جانے کے بعد سوشل پریشر میں آہی جاتی ہیں۔ “
”ہمیں کمپرومائز اور ایڈجسٹمنٹ کے نام پر وہ بھی کرنا پڑتا ہے جو سراسر سیکریفائز ہوتا ہے۔ ہماری خوشیوں، سکون، زندگی اور عزت نفس کا۔“
”زندگی سمجھوتے کا نام ہے کہنا آسان ہے اور کرنا مشکل۔ بلاشبہ آپ بہادر اور مضبوط خاتون ہیں۔“
”شاید یا پھر یہ کہہ لیں کہ ڈھیٹ ہو گئی ہوں۔ ہمارے معاشرے کی تمام شادی شدہ خواتین کی مانند“۔ وہ واضع طنز کر رہی تھی۔
”شادی کے شروع کے برس بہت مشکل تھے میرے لیے۔ ہر لڑکی کے شوہر اور سسرال کو لے کر کچھ خواب ہوتے ہیں اور جب رئیلٹی خوابوں سے بالکل مختلف نکلتی ہے تو جیسے ہم آسمان سے زمین پہ آ گرتی ہیں۔“
”اور سسرال میں ایڈجسٹ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے جاتے ہی جب لڑکی پریگننٹ ہو جاتی ہے، تو سچ پوچھیے وہ کسی مینٹل سٹریس سے کم نہیں ہوتا۔ نہ ہم اِدھر کی رہتی ہیں نہ ہم اُدھر کی۔“
”میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتی ہوں کہ جاتے ہی لڑکیوں کو بچے پیدا کرنے کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔ پہلے مکمل طور پہ شوہر اور سسرال کو سمجھیں اور ایڈجسٹ ہونے کے بعد ہی فیملی پلان کریں۔“ وہ بول رہی تھی اور اس کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے اس کی ہر بات ٹھیک لگ رہی تھی۔
میں دھیمے سے مسکرا دی۔
”میرے خیال سے اب آپ بالکل نارمل، مینٹلی ہیلتھی اینڈ فزیکلی سٹیبل ہیں۔ ایک سائیکاٹرسٹ کے طور پہ آپ کو اب میری ضرورت نہیں رہی مگر ایک دوست کی حیثیت سے آپ جب چاہیں مجھے ملنے آسکتی ہیں۔“ میں نے آخری سیشن میں اسے گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔
”اللہ کا بہت شکر ہے کہ اب میں واقعی سٹیبل ہوں مینٹلی اینڈ فزیکلی۔ پر کبھی کبھی ابوبکر کی یاد کا دورہ پڑ جاتا ہے اور یہ میرے دائرہ اختیار کی بات نہیں، خود پہ بس نہیں چلتا نا۔“ بات کہتے ہوئے وہ خود تو مسکرا رہی تھی، مگر اس کی آنکھوں میں نمی تھی، وہ کرب تھا جو ایک ماں ہی سمجھ سکتی تھی۔
٭….٭….٭
وہ اپنا دکھ بانٹنے اور غم ہلکا کرنے کے لیے میرے پاس آئی تھی۔ بطور ماں میں بھی اسی حادثے سے گزر چکی ہوں۔ میں نے بھی اپنے جگر گوشے کو کھویا تھا اور اپنا غم بھی خود ہی ڈھونا پڑا تھا۔“
میرے وہ آنسو جو میں پی گئی تھی اسے سیلاب کی صورت اس کی آنکھوں سے بہتا بھی دیکھا تھا۔
بلاشبہ وہ بھرپور زندگی کی طرف لوٹ رہی ہے اور اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ اچھی زندگی جیے گی بھی، مگر میں یہ بھی اچھے سے جانتی ہوں کہ دل میں دبی غم کی چنگاری دھیمے دھیمے سلگتی ضرور رہے گی اور یہ نارمل بات ہے۔
”اپنے وجود کے حصے کو، اپنی جان کے ٹکڑے کو یکسر بھلایا تو نہیں جا سکتا نا۔ میرا، اس کا اور ہم جیسی بے شمار ماﺅں کا یہ مشترکہ درد ہے۔“
٭….٭….٭

Loading

Read Next

فیصلہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!