جو جان سے گیا، وہ جان تھا میری

”آپ نے اپنے شوہر کو ان کے نامناسب رویہ کا احساس دلانے کی کوشش تو کی ہو گی؟“
”احساس اگر دلانے سے آتا تو دنیا میں کوئی بے حس رہتا کیا؟“
فورتھ سیشن میں میرے سوال کے جواب میں آیا اس کا سوال مجھے لاجواب کر گیا۔
”ماں بننے کے مرحلے سے گزرنا اور پھر اسی حالت میں گھریلو ذمہ داریوں اور دو چھوٹے بچوں کو سنبھالنا کسی طور سہل نہیں تھا۔ “
”گو کہ دو کنال کے گھر میں ہر کام کے لیے نوکر موجود ہیں۔ میرے شوہر اور سسرال والوں کو لگتا ہے کہ میں سارا دن بظاہر کرتی ہی کیا ہوں، ہر کام کے لیے تو نوکر ہیں مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ان تمام نوکروں سے کام کروانا، انہیں سپروائز کرنا سراسر میری ذمہ داری ہے۔“
”غلطی کسی نوکر سے ہوتی تو الزام میرے سر پہ آتا کہ میں ہی انہیں ڈھنگ سے مینج نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ اگر صفائی والی نہ آتی تو یہ بھی میرا قصور نکلتا اور پھر مجھے پورے گھر کی صفائی کرنی پڑتی اور وہ میں نے پریگینسی اور بیماری کی حالت میں کی بھی ہے۔“
”کیا مطلب؟“میں نے اچنبھے سے پوچھا۔
”میں پورے گھر کو واش کرتی اور وائپر لگاتی رہی ہوں۔ نوکروں والے سارے کام میں نے اپنی پریگنینسی میں کیے ہیں۔“
سر جھکا کر کہتے ہوئے وہ اک کرب سے گز ری تھی۔
”یہاں تک کہ اگر میرے بچوں میں سے کوئی بیمار ہو جاتا تو کوئی میری مدد نہیں کرتا تھا شوہر بھی نہیں۔“
”اتنی بے حسی، مگر کیوں؟“
”میں آپ کو بتاﺅں کہ میرا سیون منتھ تھا جب میرا چھوٹا بیٹا بیمار پڑ گیا۔ میں نے ایسی حالت میں کچھ کھائے پیے بنا بیٹے کو لے کر ہاسپٹل کے دھکے کھائے۔ اس کی ایک انتہائی ضروری میڈیسن نہیں مل رہی تھی تو یقین مانیے سات میڈیکل سٹورز پہ میں جلے پیر کی بلی کی طرح پھری اور تب میرے شوہر میرے ساتھ نہیں تھے۔“ کئی منہ زور آنسو اس کی پلکوں کی باڑ توڑنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
میرے دل کو کچھ ہوا۔ وہ تن تنہا کئی محاذوں پہ لڑ کے آبلہ پا ہو کر میرے سامنے پہنچی تھی۔
”آپ سمجھ سکتی ہیں کہ بے بسی کی انتہا کیا ہوتی ہے جب آپ بے حسی کی انتہا دیکھیں تو؟“
میں نے اس کے ایسے کہنے پہ اسے گہری نظروں سے دیکھا۔
”رات گیارہ بچے اپنے دو سال کے بیٹے کی دوائی لے کر جب میں گھر آئی تو میرے شوہر سمیت سب سسرال والے سو چکے تھے۔ بیمار بچہ بے سدھ اور بڑے والا رو رو کے ہلکان ہو گیا تھا۔ چھوٹے کو دوا پلا کے بڑے بیٹے کو کھانا کھلا کے سلانے کے بعد جب میں نے خود کھانا کھایا تو رات کا ایک بج رہا تھا۔“
”ایک میں تھی جو مکمل بیدار تھی جب کہ انسانیت، ہمدردی اور احساس نام کی چیزیں گہری اور ابدی نیند سو چکی تھیں۔“
”بحیثیت ایک مجبور ماں اور ایک بے کس بیوی میرے کرب کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔ وہ تمام پل اور تکلیف میری روح کو اب تک کچوکے لگاتے ہیں۔ “
”جی میں سب سمجھ سکتی ہوں۔“ میں نے دھیرے سے کہا۔
”ایجوکیٹڈ، اسڑونگ اور اچھی فیملی سے بیلونگ کرنے کے باوجود میں سب خاموشی سے سہنے اور اپنے آنسو پینے پہ مجبور تھی کہ میرے شوہر میرے ساتھ نہیں کھڑے تھے اور نہ ہی انہیں بولنے کی اجازت تھی۔ بلکہ وہ تو شاید اپنی مرضی سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم تھے۔“
”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ کم از کم آپ کے شوہر کو تو آپ کا احساس کرنا اور ساتھ دینا چاہیے تھا۔“
”وہی تو۔ گو کہ نقصان ہو جانے کے بعد اب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے اور شرمندگی بھی ہے مگر مجھے ان کے ساتھ نارمل بی ہیو کرنے اور انھیں دل سے معاف کرنے میں بہت دقت ہو رہی ہے۔“
”جو وقت گزر گیا آپ کو اسے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔“
”کوشش کرتی ہوں پر گزر چکے وقت کے دیے گئے مسلسل رستے زخموں کا کیا کروں؟“ پھیکا سا ہنس کے وہ گویا ہوئی تھی۔
”تیسرے بچے کو کنسیو کرنے کے بعد جب میری طبیعت ساتھ نہ دیتی تو اپنے بڑے بچوں کو سنبھالنا میرے لیے بہت مشکل ہو جاتا۔“
”اسی لیے میں نے اپنے شوہر سے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ذاتی ملازمہ رکھنے کی بات کی اور انہوں نے کچھ دنوں کے بعد یہ کہہ دیا کہ”میڈ نہیں رکھ سکتے امی نے منع کر دیا ہے کہ پہلے ہی سے گھر میں اتنے نوکر موجود ہیں۔“ مگر انہیں یہ نہیں دکھا کہ ان تمام نوکروں سے کام کروانے کی ذمہ داری میرے سر پر ہے اور ان میں سے ایک بھی نوکر میرے یا بچوں کے پرسنل کاموں کے لیے نہیں ہے۔“
”اوہ! پھر کیا ہوا؟“
”پھر یہ کہ مجھے باڈی میں دردیں رہنے لگیں اسپیشلی لیگ پینز۔ اتنی تکلیف ہوتی کہ چلنا پھرنا مشکل ہو جاتا۔ ڈاکٹر سے کنسلٹ کرنے کے بعد لیگ مساج کے لیے ایک ملازمہ کی مدد لیتی رہی اور جب میرا بچہ نہیں رہا تو میری ساس نے سارا الزام میرے سر دھر دیا کہ اس نے پیٹ ملوا ملوا کے خود ہی اپنا بچہ مار دیا۔ کیا کوئی ماں ایسا کر سکتی ہے؟“ اس نے آنسوﺅں سے رندھی آواز میں سوال پوچھا تھا۔
اس کی بات سن کے میں دنگ رہ گئی۔ واقعی بات تعلیم کی کمی کی نہیں بلکہ جہالت کی زیادتی کی تھی۔
شاید میں سمجھ سکتی ہوں کہ دو کنال کے گھر میں اس حالت میں جب وہ سب نوکروں سے کام کروانے، انہیں سپروائز کرنے جیسا اہم فریضہ بخوبی نبھانے کے چکر میں ان کے پیچھے پیچھے پھرتی، تو لیگ پینز نہیں ہوتی ہوں گی تو اور کیا ہو گا۔
ایک بیوی اور چھوٹی بہو ہونے کے ناتے جو اس نے سنا اور سہا وہ صرف باتیں نہیں بلکہ نشتر تھے جو اسے بار بار ارادتاً چبھوئے گئے تھے اور یہ ہمارے معاشرے کا کتنا بڑا المیہ ہے۔
”شوہر اور سسرال سے ملی تکلیف ایک طرف اور میرا ضیاع ایک طرف۔ اس کی آخری سانس، اس کی آخری حرکت میں آج بھی اپنے اندر کہیں اسی شدت سے محسوس کرتی ہوں بالکل ویسے ہی جیسے تب محسوس کرتی تھی جب وہ میرے وجود میں پل رہا تھا۔“
”مجھے اندازہ ہی نہ ہو سکا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے میری گود اجڑ گئی جس کا میں نے مہینوں انتظار کیا میں اسے اپنی گود، اپنی بانہوں میں بھر کے پیار بھی نہیں کر سکی۔ “
”مجھے یاد رہتا ہے کہ میرا ننھا فرشتہ، میرا ابوبکر میرے وجود میں ہی کہیں بستا ہے۔ وہ ہر پل میرے ساتھ رہتا ہے۔“ وہ جیسے دھیمے سے خود کلامی کر رہی تھی۔
”کیا وہ بلاکل نارمل تھا۔“کسی احساس کے تحت میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”جی وہ بالکل ہیلتھی اور نارمل تھا۔ اس کی آخری سانس میں نے محسوس کی تھی۔ صبح فجر کے وقت مجھے بچے کی موومنٹ سلو ہوتی محسوس ہوئی تو میں نے اپنے سوئے ہوئے شوہر کو نیند سے جگا کر بتایا، مگر انہوں سے کوئی توجہ نہیں دی اور بولے تمہارا وہم ہے، پتا نہیں کیا کیا سوار رہتا ہے تمہارے سر پر، مجھے سونے دو، ڈسٹرب نہ کرو۔ “
”میرے سسرال میں پانچ گاڑیاں ہیں، مگر جب میری طبیعت زیادہ بگڑ گئی تو مجھے ہاسپٹل لے جانے کے لیے گھر میں ایک گاڑی بھی موجود نہیں تھی۔ سب اپنے اپنے کاموں پر جا چکے تھے میرے شوہر بھی۔“
”میرے غم کا ازالہ کون کرے گا؟ میرے جگر کا ٹکڑا میرے کلیجے میں ٹھنڈک ڈالے بغیر ہی چلا گیا۔ “
”اللہ آپ کے غم کا ازالہ کرے گا اور آپ کو صبر بھی دے گا۔ “
”جی مگر اللہ کے بندوں کو کوئی کیسے سمجھے؟ وقت گزرنے اور نقصان اٹھا لینے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے جو کیا وہ ہرگز مناسب نہ تھا۔ ان کی بزدلی کی وجہ سے جس اذیت اور کرب سے میں گزری ہوں وہ کسی طور پر قابل معافی نہیں ہے، مگر میں یہ بھی اچھے سے جانتی ہوں کہ اپنے بچوں کی خاطر ایک مشرقی عورت کی طرح مجھے ہی کمپرومائز کرنا پڑے گا۔“ وہ پھیکا سا ہنس دی۔
”وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ انسان بھی اور حالات بھی۔ “
”اللہ کرے میرے حق میں بدلیں۔“ اس نے یاسیت سے کہا۔
”آمین۔ انشااللہ!“ میں نے پرزور انداز میں کہا۔
”ثم آمین۔ آپ کو پتا ہے اس کا نام، اس کی اسیسریز، اس کے لیے خریدے گئے کپڑے۔ سب کچھ میں نے سنبھال کے رکھے ہوئے ہیں۔“
”ہر جمعہ کو میں اس کی قبر پر جاتی ہوں۔ یقین کریں جتنا سکون مجھے وہاں اس کے پاس جا کے ملتا ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا۔“ اس کی آنکھوں کا تاثر بدلا تھا اور مجھے وہ سکون خود میں اترتا محسوس ہوا۔
”کیا آپ دیکھنا چاہیں گی میرے ابوبکر کو؟“ اس نے اشتیاق سے پوچھا۔
”شیور آئی وڈ لو ٹو“۔ میں نے فوراً کہا۔
”وہ بہت خوبصورت تھا، میرے سب بچوں میں سب سے زیادہ پیارا، میرا شہزادہ۔“کہتے ہوئے اس نے بیگ سے موبائل نکال کر اس میں کچھ تلاشنے کی کوشش کی۔
میں نے اسے ستائشی نگاہوں سے دیکھا۔ گورا رنگ، تیکھے نقوش اور غم کے باعث مرجھایا چہرہ۔ یوں تو ہر ماں کو اپنے نیلے پیلے بھی لال اور شہزادے لگتے ہیں، مگر اس کو دیکھ کے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اس کے بچے کتنے خوبصورت ہوں گے۔
”اوہ! تصویر نہیں ہے۔ ان سے چھپ کر میں اس کی تصویریں موبائل میں ٹرانسفر کرتی ہوں، مگر پتا نہیں انہیں کیسے خبر ہو جاتی ہے۔“
”اس خیال سے کہ میں دیکھ کے ڈیپریس نہ ہوتی رہوں۔ میرے شوہر موبائل سے اس کی تصویریں ڈیلیٹ کر دیتے ہیں۔“
”اس کے گلابی ہونٹ، چھوٹی سی ستواں ناک، بھرے بھرے نرم گلابی گال اور بند آنکھیں۔ وہ سویا ہوا کتنا پرسکون لگ رہا تھا۔“ ایک ماں نے انتہائی پیار سے اپنے بچے کی صورت بیان کی تھی۔
”نیکسٹ وزٹ پر میں چپکے سے لیپ ٹاپ سے اس کی تصویر موبائل میں ٹرانسفر کر کے لاﺅں گی اور آپ کو ضرور دکھاﺅں گی۔“
اس کے یقین دلانے پر میں ہلکے سے مسکرا دی۔
وہ بہت کچھ بتا چکی تھی۔ میرے حساب سے دل کا غم کافی حد تک آنسوﺅں کی صورت اس کی آنکھوں کے رستے بہ چکا تھا۔ اب مجھے اسے زندگی کی طرف لانے جیسا اہم فریضہ نبھانا تھا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Next

فیصلہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!