جو جان سے گیا، وہ جان تھا میری

”میرا بچہ، میرا ننھا وجود مجھے چپکے سے چھوڑ کے چلا گیا اور میں نجانے کتنے دن بے ہوشی کی حالت میں وینٹی لیٹر پہ پڑی رہی۔“
تیسرے سیشن میں سلام دعا کے بعد حسب معمول اس نے کچھ دیر کا وقفہ لیا اور پھر گویا ہوئی۔
مجھے واضح محسوس ہوا کہ بولنے کے لیے اب اسے اکسانے کی ضرورت ہرگز نا تھی۔ اسے یاد تھا کہ پچھلی بار بات کہاں تک بیان ہوئی تھی اور اب کہاں سے شروع کرنی تھی۔
”میں نے ہوش میں آتے ہی جب آنکھیں کھولیں تو معمول کے مطابق پیٹ پر ہاتھ رکھ کے قرآنی آیات اور وہ سب دعائیں پڑھیں جو میں اپنی ننھی قیمتی جان کی حفاظت کے پیش نظر روزانہ پڑھتی تھی۔“
”لیکن آپ کو پتا ہے کہ میری گود بھی خالی تھی اور بچے کا کاٹ بھی۔“
”بے بسی اور تکلیف کی انتہا سے گزری ہوں میں۔“ وہ اپنی خالی گود میں ہاتھ رکھے سر جھکائے بول رہی تھی۔
میں نے محسوس کیا کہ جیسے وہ زبردستی اپنے آنسو پینے کی کوشش کر رہی ہے۔
”میں آپ کی تکلیف اور بے بسی سمجھ رہی ہوں۔ آپ کا غم تازہ اور گھاﺅ گہرا ہے۔ آپ کو بچے کی یاد آئے تو رو لیا کریں۔ آپ نے اپنے دل یہ جبر نہیں کرنا۔ خود پہ جبر کریں گی تو آپ کا دل غم سے پھٹ جائے گا۔“
میرے رسان سے کہنے پر اس کی آنکھوں سے موتیوں کے مانند کئی آنسو ٹوٹ کے گرے جو اس کی خالی گود نے فراخ دلی سے اپنے اندر جذب کر لیے۔
”اسے کیا ہوا تھا؟ “
”آئی مین وہ سروائیو کیوں نہیں کر سکا؟“ میں نے جان بوجھ کر اس کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا کہ یہ جاننا بہت ضروری تھا۔
میرے منہ سے نکلا جملہ اس کی چہرے کی رنگت متغیر کر گیا تھا۔ وہ کرب چھپانے کے لیے اپنا نچلا ہونٹ چبانے لگی۔ میں نے اسے نارمل ہونے اور جواب دینے کی ہمت جمع کرنے کے لیے وافر وقت دیا تھا۔
”اسے میں نے جب کنسیو کیا تب گھریلو حالات عجیب نہج پہ تھے بلکہ بہت الجھے ہوئے اور ان کی وجہ سے میں بہت ڈسٹرب تھی”۔
”ایکچلی پریگینسی میں مجھے ابنارمل ہارمونل ایشیوز فیس کرنے پڑے۔“ دھیمے لہجے میں بتا کر اس نے لمبا وقفہ لیا۔
”گھریلو ٹینشنز سر پر سوار رہتیں۔ اسی دوران مجھے پتا چلا کہ میں ایکسپیکٹ کر رہی ہوں۔ میں بہت جلدی ہائپر ہو جاتی اور بہت روتی تھی یوں کہہ لیں کہ زیادہ وقت میرا رونے میں گزرتا۔“
”بس میرا رونا ہی میری ننھی جان کو لے ڈوبا۔ ورنہ میرا بچہ تو ہر لحاظ سے مکمل، خوبصورت اور ہیلتھی تھا۔“
”میرا بی پی شوٹ کر گیا میں اسے ڈیلیور ہی نہیں کر سکی۔ آپریٹ کرنا پڑا، مگر تب تک وہ اس بے حس دنیا سے منہ موڑ کے جا چکا تھا۔ اس کی آخری سانس میں نے محسوس کی تھی۔“ اس کے لہجے میں بہت کچھ چٹخا تھا۔
”سو سوری ٹو ہیئر ڈیٹ۔“ میں بمشکل کہہ پائی تھی۔
”میرا کلیجا کٹ کے رہ گیا جب ہوش میں آنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ وہ نہیں رہا، تو میری دلخراش چیخوں سے پورا ہاسپٹل گونج اٹھا تھا۔ مجھے پرسکون رکھنے کے لیے خواب آور دوائیوں کے زیر اثر ہی رکھا گیا، لیکن جب بھی مجھے ذرا سا ہوش آتا تو میں یہ ہی دہراتی کہ میری وجہ سے میرے بچے کی جان گئی، میری ٹینشنیں اس کی سانسیں روک گئیں۔“
طویل بات کے اختتام پر وہ بری طرح ہانپ رہی تھی۔ دکھ بیان کرنا سہل ہرگز نہیں ہوتا۔
”آپ کو کس قسم کی گھریلو ٹینشنز فیس کرنا پڑیں؟ “
”آپ کے شوہر کا رویہ کیسا تھا آپ کے ساتھ؟“
میرے سوالوں پر اس کے افسردہ چہرے پہ اک سایہ سا لہرایا تھا۔ لمبے وقفے کے بعد اس نے ایک ٹھنڈی گہری سانس بھر کر خود کو جواب دینے کے لیے تیار کیا۔
”میرے شوہر کا کردار ایک کٹھ پتلی کے سوا کچھ نہ تھا۔ انہوں نے کسی بھی معاملے میں مجھے سپورٹ نہیں کیا اور میری نظر میں یہ ہی ان کا سب سے بڑا اور ناقابل تلافی گناہ ہے۔“
”جب لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے، تو اس کی زندگی شوہر اور ان کے نام نہاد خونی رشتوں تک محدود ہو کے رہ جاتی ہے۔ سسرال والے ہماری زندگیوں کے مالک اور مفت کی ٹینشینز کی وجہ بن بیٹھتے ہیں۔“
”اوہ! آپ کے شوہر نے کیوں سپورٹ نہیں کیا؟“
میرے سوال پر اس نے مجھے عجیب درزیدہ نظروں سے دیکھا تھا۔
“میرے شوہر اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ گھر میں چھوٹے ہونے کے ناتے نا انہیں اپنے لیے بولنے کا حق ملا اور نا ہی ان کی بیوی ہونے کے ناتے یہ حق کبھی مجھے مل سکا۔ “
”ہمارا فرض بس یہ ہے کہ گھر کے بڑوں کے اشاروں پر چلیں۔ ان کی ہر جائز ناجائز بات اور فیصلے کو سر آنکھوں پہ بٹھائیں اور اف تک نہ کریں۔ “
گلاس ٹیبل کی صاف شفاف سطح پہ شہادت کی انگی سے ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچتے ہوئے اس نے گہری سانس خارج کی۔
”میرے لیے یہ سب سہنا اور ایسے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنا بہت مشکل تھا۔ سسرال میں میری اپنی کوئی زندگی رہی اور نہ ہی مرضی۔ مگر وہی ہوتا ہے کہ جب اولاد ہو جاتی ہے تو ماں کی صورت میں لڑکی صبر کے گھونٹ پینے اور من مارنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔“
”اوہ آئی سی۔ یہ تو انتہائی نامناسب بات ہے۔“
”جی ہاں، ہے تو۔ میرے شوہر اپنی ماں اور گھر والوں کے سامنے مجھے ویسی عزت، تحفظ اور سپورٹ نہیں دے پائے جس کی اس وقت ان کی بیوی اور بچوں کی ماں ہونے کے ناتے مجھے شدید ضرورت تھی اور جو ان کا عین فرض بھی تھا۔“
”کیا آپ کے سسرال والے پڑھے لکھے لوگ نہیں۔ عموماً ایسے حالات وہاں ہوتے ہیں جہاں تعلیم کا فقدان ہوتا ہے۔“
”جی نہیں میرا پورا سسرال کافی پڑھا لکھا ہے۔ دراصل ایسے حالات وہاں بھی ہوتے ہیں جہاں تعلیم تو ہو مگر تربیت اور عمل کا فقدان پایا جاتا ہو۔“ اس کی بات پر میں چونکی۔ وہ صد فیصد ٹھیک کہہ رہی تھی۔
”ایسی ویل آف اینڈ ایجوکیٹڈ فیملی کا کوئی کیا کرے جس میں آپ کے شوہر سمیت کوئی احساس، عزت و قدر کرنے والا اور آپ کو سمجھنے والا ہی نا ہو؟“
”سسرال میں بیوی کو اشوہر کا ہی آسرا ہوتا ہے جب وہ بھی ساتھ نا کھڑا ہو تو اس لڑکی کی سسرال میں کیا ویلیو ہو سکتی ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔“ وہ دھیمے لہجے سے بولے گئی۔
”لوگوں کو لگتا ہے جوائنٹ فیملی سسٹم کے بہت فائدے ہیں، مگر مجھے تو بس نقصان ہی اٹھانے پڑے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میری زندگی کا سب سے بڑا حادثہ رونما کرنے کا باعث بنا۔“
شکست خوردہ لہجے میں حتمی طور پر کہہ کر اس نے اپنے اداسی بھرے وجود پہ چپ کی گہری چادر تان لی تھی۔
٭….٭….٭

Loading

Read Next

فیصلہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!