جو جان سے گیا، وہ جان تھا میری

”میں نے اپنے بچے کو جو دنیا میں آیا بھی نہیں تھا دکھ ہی بہت دیے۔ وہ صرف اپنی ماں کا رونا دیکھ کے ہی اس دنیا سے منہ موڑ کے چلا گیا۔“ اس نے یاسیت سے دل کی بات دہرائی۔
”ایسا نہ سوچا کریں۔ کوئی ماں اپنی اولاد کو دکھ نہیں دینا چاہتی۔ آپ تو بہت اچھی اور نرم دل ماں ہیں۔“
”سوچیں تو خود ہی آ جاتی ہیں۔ دل میں اٹھتی ٹیسوں کا میں کیا کروں؟“
”دیکھیں مسئلے مسائل تو ہر گھر میں ہوتے ہیں، مگر زندگی نہیں رکتی، رکنی بھی نہیں چاہیے۔“ میں نے سمجھایا۔
”مسئلے مسائل زندگی کا روگ بن جائیں تو؟ “
”وہ لوگ جنہیں آپ روز گھر میں دیکھتے ہیں۔ جب وہی آپ کے دکھوں اور محرومیوں کا وسیلہ بنتے ہیں تو انھیں معاف کرنا، ان کی طرف سے دل صاف کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر جب وہ شرمندہ بھی نہ ہوں اور نہ ہی انہیں اپنے ظلم و ستم کا کوئی احساس ہو۔“
”انہیں روز روز اپنی آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا دیکھنا بھی کسی آزمائش سے کم نہیں۔ ہمارا معاشرہ کتنا بدصورت ہے نا۔“ وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی میں بخوبی سمجھ گئی تھی۔
”اللہ نے آپ کو نئی زندگی سے نوازا ہے۔ آپ کے بچوں کو آپ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔“ میں نے اسے کرب سے نکالنے کے لیے روشنی کی جھلک دکھائی۔
”جی بالکل میں اللہ کا بہت شکر ادا کرتی ہوں کہ اللہ پاک نے مجھے نئی زندگی دی میرے بچوں کے لیے۔ پتا نہیں کیسے ہمت ملی مجھے دوبارہ زندگی شروع کرنے کی۔“
”میں یہ سوچ کے پوری جان سے کانپ جاتی ہوں کہ اگر خدانخواستہ ابوبکر کے ساتھ مجھے بھی کچھ ہو جاتا، تو میرے دونوں بچوں کا کیا بنتا؟“
”اللہ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ جو ہیں انہیں اپنی بھرپور توجہ اور محبت دیں۔“
”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میرے لیے دعا کیا کریں کہ اللہ مجھے صبر، ہمت اور طاقت دے۔ اللہ صاف دل والوں کی سنتا ہے۔“ وہ روانی میں بولے گئی۔
اس کی بات پر میرے دل نے ایک بات محسوس کی کہ بے شک اللہ ہی عزت اور پردہ رکھنے والا ہے۔
”گو کہ میں تیسرے بچے کی ماں بننے والی تھی، مگر سچ بتاﺅں تو مجھے لگتا تھا جیسے میں اپنے پورے ہوش و حواس میں پہلی مرتبہ ماں بننے جا رہی تھی۔“ اس نے مزید کہا۔
”یوں تو ہر ماں اپنے جگر گوشوں پر جان چھڑکتی ہے، مگر جتنی اٹیچمنٹ مجھے ابوبکر سے تھی اتنی تو ڈیورنگ پریگنینسی بڑے والوں سے بھی فیل نہیں ہوئی۔“
”رئیلی؟“
”جی۔ جب وہ ہونے والا تھا تو میں نے بہت سے ایسے کام کیے جو پہلے دو بچوں کی مرتبہ نہیں کیے تھے۔“
”جیسا کہ؟“
”جیسے کہ ڈیورنگ پریگنینسی میں نے سات قرآن پاک مکمل کیے۔ پچاس ہزار مرتبہ پہلا کلمہ شریف پڑھا۔ وہ جب میرے وجود کا حصہ بننے لگا، تو میں اللہ کے بے حد قریب ہو گئی تھی۔“
”ماشااللہ! آپ کا ننھا فرشتہ ابوبکر بہت نیک روح تھا۔ اللہ آپ کو صبر دے۔“
”آمین۔ جی بالکل۔ اسی لیے اس کی قبر پر بھی بہت سکون ہے۔“ رسان سے کہتے ہوئے اس کی نظر اپنے موبائل سکرین پر پڑی اور وہ چونک گئی۔
”ارے ایک بج رہا ہے۔ حسان کا سکول آف ہو گیا ہوگا۔“ اس نے اپنے پانچ سالہ بڑے بیٹے کا نام لیا۔
”’شیور۔“ میرے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ رینگ گئی۔ وہ خوشگوار زندگی کی طرف لوٹ رہی تھی۔
سیشن ختم ہو چکا تھا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Next

فیصلہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!