جو جان سے گیا، وہ میری جان تھا
(افسانہ)
تنزیلہ احمد
”کیا آپ کو اندازہ ہے کہ کسی جان سے پیارے کو اپنے وجود کے اندر دم توڑتے ہوئے محسوس کرنا کتنی بڑی اذیت ہے؟ “
اس کا آج میرے ساتھ دوسرا سیشن ہے اور یہ پہلا مکمل سوالیہ نما جملہ ہے جو اس نے بنا روئے اور بنا اٹکے بولا ہے۔ جتنی مخدوش حالت اس کی پہلے تھی اس کے برعکس اب وہ کافی بہتر لگ رہی ہے۔
اس کی باتوں، بظاہری وجود اور حلیے میں کافی ٹھہراﺅ آگیا ہے۔
پہلے سیشن میں تو وہ اجڑی حالت میں میرے سامنے بیٹھی روتی رہی تھی۔ آپ بیتی بیان کرنے کی جستجو میں اس کے بہتے آنسوﺅں کی جھڑی مزید شدت اختیار کر لیتی۔ نا میں نے اسے چپ کروانے کی کوشش کی تھی اور نا ہی بے ربط الفاظ پہ روکنے ٹوکنے کی۔
اس کا غم دل سے نکالنا اور ہلکا کرنا تب ہی ممکن ہوتا جب وہ اپنا آپ میرے سامنے بنا جھجکے کھول کے رکھ دیتی اور اس کے لیے ابھی وقت درکار تھا۔
نفسیاتی درد جسمانی درد سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے اور وہ تو بیک وقت دونوں درد سہ رہی تھی۔
”کسے کھو دیا آپ نے؟“ میں نے نرمی سے گفتگو کا آغاز کیا۔
”سب کچھ! میں نے اپنا لخت جگر کھو دیا، میرا دکھ کتنا بڑا ہے۔‘ ‘
”آپ کو پتا ہے میرے اندر جب اس نے اپنی آخری سانس بھری تو میں نے محسوس کی، اس کی آخری موومنٹ، اس کی خاموشی، اس کی تکلیف۔ “
”اوہ! ویری سیڈ۔“
”افسوس تو یہ ہے کہ اس کی زندگی کے ساتھ اور بھی بہت سے احساسات تھے جنہوں نے میرے تن میں خاموشی سے دم توڑ دیا۔“ جذبات سے رندھی آواز میں ٹھہر ٹھہر کر مزید کہتے ہوئے اس نے تکلیف سے آنکھیں موند لیں اور دو آنسو اس کے گالوں پر تیزی سے لڑھکتے چلے گئے جنہیں اس نے صاف کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
”میں ابھی تک رات کو سوتے ہوئے نیند سے ڈر کے جاگتی ہوں اور اپنے پیٹ پہ بے ساختہ دایاں ہاتھ رکھ کر دعا کرتی ہوں کہ میرے بیٹے، میری جان کو کچھ نا ہو۔“
”جو پہلے ہی مجھے چھوڑ کے جا چکا ہے۔ اس کے کھونے کا ڈر اب بھی مجھے خوابوں میں ڈراتا ہے، مجھے سونے نہیں دیتا۔“
”مجھے ایک پل سکون نہیں ملتا، میں کیا کروں؟“ اس کے مزید آنسو گالوں پہ لڑھکتے چلے گئے۔
”میں سمجھ سکتی ہوں۔ یقینا آپ کا دکھ بہت بڑا ہے۔“ کہتے ساتھ ہی میں نے نامحسوس طریقے سے پانی سے بھرا گلاس اس کے نزدیک سرکایا جسے اس نے خاموشی سے تھام کے کچھ گھونٹ بمشکل حلق سے نیچے اتارے اور پھر میکانکی انداز میں گلاس ٹیبل کے کنارے دھر دیا۔
اس کی انگلیوں کی کپکپاہٹ بہت واضح تھی۔
”مجھے یقین ہی نہیں آتا۔“
”میرا بیٹا، میرے جسم کا حصہ، میری سانسوں میں سانسیں تھیں اس کی، وہ میرے اتنے پاس تھا پھر بھی موت کا فرشتہ کیسے اسے مجھ سے چھین کے لے گیا۔“
اس نے ایک بار پھر مجھ سے سوال کیا، مگر ہمیشہ کی طرح اسے جواب کی خواہش نا تھی۔
بات بہ مشکل ختم کر کے وہ ہچکیوں سے زارو قطار رونے لگی تھی۔ اس سیشن میں اس سے مزید بات کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔
میں نے اسے رونے دیا۔ جتنا وہ کہہ چکی تھی آج کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔
ہمارے پاس لوگ تب ہی آتے ہیں جب انہیں لگتا ہے کہ وہ اپنے درد پہ خود مرحم نہیں رکھ سکتے اور اب انہیں کسی مسیحا کی ضرورت ہے۔
بطور سائیکاٹرسٹ اپنے دس سالہ کیرئیر میں آئے دن ٹوٹے دلوں، بکھرے خوابوں اور الجھے ذہنوں سے میرا واسطہ پڑتا رہا ہے۔
مگر مسیحا بھی گوشت پوست کا ایک انسان ہی ہوتا ہے اور اس کے بہت سے دکھ ایسے ہوتے ہیں جو جب دوسروں کی زبان سے بیان ہوتے ہیں تو مسیحا کے اندر بہت کچھ سلگا جاتے ہیں۔
اپنے آنسو پونچھ کے بوجھل قدموں سے چل کر میرے آفس سے باہر جاتی ہوئی ایک دکھیاری ماں میرے جل کے راکھ ہوئے کچھ دکھ انجانے میں سلگا گئی ہے۔
٭….٭….٭