تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

”صبغہ چند لمحے خاموش بیٹھی لفظوں کا انتخاب کرتی رہی پھر اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
”پاپا!امبر گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے۔”منصور کو جیسے جھٹکا لگا۔
”تم یہ بتانے کے لیے میرے پاس آئی ہو کہ وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے۔”وہ تلملایا۔ ”یہ میرا مسئلہ کس طرح ہے’یہ صرف تم لوگوں کا مسئلہ ہے۔”صبغہ کو اس سے یہی توقع تھی۔ اس کے باوجود اسے ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید وہ…
”میری ساری زندگی’ میرا گھر یہاں تباہ ہو رہا ہے اور تم مجھے بتانے آئی ہو کہ امبر گھر سے چلی گئی ہے۔”منصور تلخی سے کہہ رہا تھا۔ ”وہ چلی گئی ہے تو میں کیا کروں ؟”
صبغہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ منصور کی زندگی اور گھر اب کیسے تباہ ہو رہا ہے۔ وہ تو رخشی کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے تو پھر…
”پاپا!آپ ہم لوگوں سے ناراض سہی مگر وہ آپ کی بیٹی ہے…”منصور نے درشتی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”میرے ساتھ اس طرح کے ڈائیلاگز مت بولو۔میرے اپنے بکھیڑے کافی ہیں میرے لیے کہ میں انہیں سمیٹوں ۔تم لوگوں کی ذمہ داری میں نہیں لے سکتا۔ ”
”آپ اس کی ذمہ داری مت لیں مگر آپ ایک بار ہارون کمال سے تو بات کر سکتے ہیں ۔”منصور اس کی بات پر چونک گیا۔
”ہارون کمال …؟امبر کے معاملے سے ہارون کا کیا تعلق ہے؟”منصور نے قدرے حیرانی کے عالم میں کہا۔
”پاپا !وہ ہارون کے ساتھ انوالو ہے اور اسی کے پاس گئی ہے۔ ”منصور کو جیسے کسی بچھو نے کاٹاتھا۔
”ہارون کمال کے پاس …”
”ہاں’ وہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ ہمارے منع کرنے پر وہ ناراض ہو کر ہمارا گھر چھوڑ گئی۔ اب تک تو اس نے ہارون سے شادی کر بھی لی ہوگی۔ ”منصور پلکیں جھپکائے بغیر صبغہ کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے ذہن نے اس سادہ سے معمہ کو یک دم حل کر لیا تھا۔ اس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا’کیوں ہو رہا تھا اور کس کے کہنے پر ہو رہا تھا’وہ جان گیا تھا۔
”میں چاہتی ہوں’آپ امبر سے بات کریں ۔ اسے سمجھائیں ‘وہ آپ کی بات مان جائے گی۔ وہ آپ کے کہنے پر ہارون کو چھوڑ دے گی۔”صبغہ کو بات کرتے کرتے منصور کی عجیب سی نظروں کا احساس ہوا تھا۔ وہ بولتے بولتے رک گئی۔




”یہ سب کچھ میرے ساتھ امبر ہی تو کروارہی ہے۔ وہ کیوں میرے کہنے پر ہارون کو چھوڑے گی؟” منصور بدگمانی کی انتہا پر پہنچا ہوا تھا۔ صبغہ چند لمحے کچھ بول نہ سکی۔ ”وہ مجھ سے انتقام لے رہی ہے۔ اس نے ہارون سے شادی اس لیے کی ہو گی کہ وہ مجھے میرے ہی کاروبار سے بے دخل کر دے۔ رخشی نے بھی ہارون کے دباؤ پر مجھ سے طلاق لی ہو گی۔ یہ سب کچھ امبر کر رہی ہے’ اسی نے کیا ہے یہ سب کچھ ۔”منصور شدید طیش کے عالم میں بولتے ہوئے صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ صبغہ اب وہاں آنے پر پچھتا رہی تھی۔ منصور کے حوالے سے اسے کوئی خاص امید پہلے بھی نہیں تھی مگر وہ یہ بھی سوچ کر وہاں نہیں آئی تھی کہ منصور ہر چیز کاالزام امبر کے سر پر رکھ دے گا۔
”پاپا!میں …”کچھ کہنا چاہا مگر منصور نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تم یہاں سے دفع ہو جاؤ …میں تمہیں اور تمہاری بہن دونوں کو دیکھ لوں گا۔ رخشی ٹھیک کہتی تھی’ تم سب کسی رحم کسی رعایت کے حق دار نہیں ہو۔اولاد نہیں ‘میرے لیے سانپ ہو ۔”منصور زہر اگل رہا تھا۔ صبغہ چپ چاپ صوفہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ منصور کی باتوں سے کچھ سمجھی تھی’ کچھ نہیں ۔اس کے ہوٹل میں موجود ہونے کامطلب اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔ رخشی اور اس کی علیحدگی ہو چکی تھی مگر وہ کاروبار کے حوالے سے اس کی باتوں کو نہیں سمجھ پارہی تھی اور وہ کسی بھی طرح یہ ماننے پر تیار نہیں تھی کہ امبر نے منصور کے خلاف کوئی سازش کی ہو گی۔
منصور اب بھی بول رہا تھا۔ …بے تحاشا …سوچے سمجھے بغیر …اس کی سوئی اب بھی رخشی پر اٹکی ہوئی تھی۔ ایک عورت نے اس کو ہر خونی رشتہ کے حوالے سے اندھا کر دیا تھا۔ صبغہ کو لگا’ وہ پاگل ہو گیا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو اپنی حریف سمجھ رہا تھا۔ یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کی وجہ سے اس نے رخشی کو کھو یا تھا۔ اس کے وجود میں غیرت یاشرم نام کی کوئی شے باقی نہیں رہی تھی۔ اسے ہارون کمال کے ساتھ امبر کی شادی کا سن کر کوئی تکلیف نہیں پہنچی تھی’ کوئی ملال’کوئی پچھتاوا’ کوئی پشیمانی ‘ کوئی احساس جرم’ اس کے انداز میں کچھ بھی نہیں تھا۔
وہ غلط آدمی کے پاس آئی تھی’ وہ اس کا باپ نہیں تھا وہ کسی کا باپ نہیں تھا۔وہ ایک خود غرض عاشق تھا جس کی زندگی رخشی کے گرد گھومتی تھی اور گھوم رہی تھی پھر وہ اس سے کیا توقع رکھتے ہوئے یہاں آگئی تھی۔
بھیگی آنکھیں لیے وہ مزید کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر آگئی ۔اس کے عقب میں منصور کی بڑبڑاہٹ اب بھی جاری تھی۔
٭٭٭
”یہ کون لوگ تھے؟کیا کہہ رہے تھے آپ سے ؟”شہیر نے اپنے پاس سے گزرتے فاطمہ کے بھائی اور بھابھی کو دیکھا جو اس کو بڑی عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے گئے تھے۔ وہ ابھی چند لمحے پہلے ہی گھر کے کھلے دروازے سے اندر آیا تھا اور اس نے اندر آتے ہوئے اس مرد کو کہتے سنا۔
”سوچ لو فاطمہ !ہم دوبارہ آئیں گے ‘ ابھی تمہارے پاس وقت ہے۔”جواباً اس نے فاطمہ کو چلاتے سنا پھر ان دونوں کو کمرے سے نکلتے دیکھا۔
اور اب وہ فاطمہ کو زار و قطار روتے دیکھ رہا تھا۔
”بتائیں نا امی !کیا ہوا ہے؟یہ کون لوگ تھے؟کیا آپ کو دھمکا رہے تھے؟”شہیر اس کے بازو کو جھنجوڑتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا اور اس کے سوالات بتا رہے تھے کہ اس نے ان کی گفتگو نہیں سنی تھی یا پھر سنی بھی تھی تو سمجھی نہیں تھی مگر یہ کوئی معجزہ نہیں تھا ۔ وہ اس انکشاف سے آخر کب تک اور کہاں تک بھاگتی۔
”تم میرے بیٹے نہیں ہو شہیر!”شہیر کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹا تھا۔
فاطمہ کو مذاق کرنے کی عادت ہوتی تو شہیر اسے مذاق سمجھتا’ مگر اس نے ساری زندگی ماں کو مذاق کرتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ ان کی چھوٹی موٹی باتوں اور حرکتوں سے محظوظ ہوتی تھی مگر خود اس نے کبھی اس طرح کی بات نہیں کی تھی۔
”شاید آج اتنے سالوں بعد پہلی بار امی مذاق کر رہی ہیں۔” شہیر نے خود کو چند لمحوں کے لیے بہلایا مگر مذاق کرنے والے اس طرح آنسوؤں سے رویا نہیں کرتے جس طرح فاطمہ’ اور پھر جو صورت حال وہ دیکھ رہا تھا۔ گھر سے نکلنے والے دو اجنبی جن کے چہرے’ تاثرات اور گفتگو سب عجیب تھے اور اب فاطمہ کے منہ سے نکلنے والا پہلا جملہ … ”تم میرے بیٹے نہیں ہو۔” تو کیا وہ غصہ میں اس سے یہ کہہ رہی ہے’ کسی قسم کی ناراضی کی وجہ سے اس نے ابھی بھی اس بات کے مفہوم پر غور کرنے کے بجائے ایسا کہے جانے کی وجہ کے بارے میں سوچنا چاہا۔
”آپ کیا کہہ رہی ہیں؟” اس نے بے اختیار جیسے ماں کو جتانا چاہا کہ اس نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو اسے نہیں کہنا چاہیے تھی۔ مگر فاطمہ کے ردعمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اب زاروقطار رو رہی تھی۔
”تم میرے بیٹے نہیں ہو شہیر! تم واقعی میرے بیٹے نہیں ہو۔”
شہیر کو لگا اس کا وجود یک دم جیسے پتھر کا ہو گیا تھا۔ پتھر کا یا پھر شاید برف کا یا پھر بے جان’ اس کی ماں کیا کہہ رہی تھی؟
”میں نے بہت سال پہلے تمہیں ایک یتیم خانے سے لیا تھا۔ اپنی ایک دوست کی مدد سے تم تب ڈھائی سال کے تھے۔”
وہ نظریں ملائے بغیر شکست خوردہ انداز میں اس سے کہنے لگی۔
”تم میرے بیٹے نہیں ہو’ نہ ہی ثمر اور ثانیہ میری اولاد ہیں’ کیونکہ میں نے کبھی شادی نہیں کی۔ جن لوگوں کو تم نے ابھی کچھ دیر پہلے دیکھا تھا۔ وہ میرے بھائی اور بھابھی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں میں واپس ان کے پاس چلی جاؤں’ وہ چاہتے ہیں میں’ میں تمہیں واپس تمہارے ماں باپ کے پاس بھیج دوں۔ لیکن میں نے تمہیں یتیم خانے سے لیا تھا۔ تب تمہارا کوئی وارث نہیں تھا پھر اب اتنے سالوں کے بعد میں کیسے تمہیں کسی دوسرے کے حوالے کر دوں۔” اس کے انداز میں بے چارگی تھی۔
”میں تمہاری ماں نہیں ہوں یہ مجھے آج احساس ہوا ہے۔ ورنہ اتنے سالوں میں’ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ تم میری اولاد’ میرے بیٹے نہیں ہو۔” فاطمہ نے شہیر کا چہرہ اس کی آنکھیں دیکھنے کی کوشش کی وہ بے حس و حرکت کمرے کے وسط میں کھڑا پلکیں جھپکائے بغیر فاطمہ کو دیکھ رہا تھا۔
فاطمہ کو اس کی آنکھوں سے زندگی میں پہلی بار خوف آیا۔ وہ اسے ان نظروں سے نہیں دیکھ رہا تھا’ جس طرح کوئی بیٹا ماں کو دیکھتا ہے۔ وہ اسے ایک اجنبی کی طرح دیکھ رہا تھا فاطمہ کو لگا یہ اس کا واہمہ ہے۔
رشتے اور تعلق چند سیکنڈز اور چند منٹوں میں نہیں ٹوٹتے’ انہیں چند گھنٹے تو لگتے ہی ہیں’ کوئی وضاحت لیے بغیر وہ کس طرح اسے مجرم قرار دے سکتا ہے۔
”تم خود اس یتیم خانے جا سکتے ہو’ وہاں پتہ کر سکتے ہو کہ تمہارے وارثوں میں سے کسی کا نام وہاں نہیں تھا۔” اس نے بے حد کمزور آواز اور مدافعانہ انداز میں کہا یوں جیسے کوئی بچہ کسی بڑے کو صفائی دے رہا ہو۔ شہیر اب بھی ساکت تھا مگر اس کی نظریں اسی پر جمی ہوئی تھیں۔
”مجھے اگر پتہ ہوتا کہ تمہارے ماں باپ ہیں تو میں تمہیں کیوں اپنے پاس لا کر رکھتی۔” فاطمہ نے بے چارگی کے عالم میں سوچنے کی کوشش کی کہ اسے اب اور کیا کہنا چاہیے۔ اسے زیادہ سوچنا نہیں پڑا شہیر نے اس کی مشکل آسان کر دی۔
”کون ہیں میرے ماں باپ ؟” سرد لہجے میں پوچھا گیا اس کا سوال فاطمہ کو چابک کی طرح لگا۔
”میرے ماں باپ؟” اتنے سال اس نے سامنے کھڑے جو ان بالغ مرد کو ماں باپ دونوں کی طرح پالا تھا۔ ماں کی طرح اسے گود میں اٹھا کر پھری تھی۔ باپ کی طرح اسے کما کر کھلایا تھا اور وہ صرف چند منٹوں میں سب کچھ بھول کر اس سے پوچھ رہا تھا کہ اس کے ماں باپ کہاں ہیں۔ زندگی نے ایک بار پھر اسے گونگا کر دیا تھا۔ وہ چوراہے میں کھڑی تھی یا کٹہرے میں’ اس نے اپنے وجود کو کئی سالوں کے بعد ایک بار پھر صفر میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ ایک بہت بڑے صفر میں۔
”میں۔” آواز اس کے حلق میں گھٹ گئی تھی۔
”مسز شائستہ ہارون کمال۔” اس نے ایک بار پھر کہا اس بار اس کے پاس سوال نہیں تھا جواب تھا۔ اور اس کے انداز میں بے پناہ بے یقینی تھی۔ فاطمہ نے خود کو بے بسی کی انتہا پر پایا۔ وہ اس سے کیا کہتی ہاں یا نہیں۔
”آپ نے مجھے ہاسپٹل سے چوری کیا تھا؟ انہوں نے اس دن جو کہانی مجھے سنائی وہ سچ تھی؟ میں آپ کا نہیں ان کا بیٹا ہوں؟ میرے خدا میرے خدا۔” وہ جیسے درد سے کراہا۔
”نہیں میں نے تمہیں کسی ہاسپٹل سے نہیں چرایا۔ میں قسم کھاتی ہوں شہیر! میں تمہاری قسم کھاتی ہوں”۔ فاطمہ نے بے اختیار کیا۔
”میری کیوں؟ میں کیا لگتا ہوں آپ کا؟” وہ جیسے غرایا۔ فاطمہ کا چہرہ سفید پڑ گیا۔
”مجھے’ مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ مجھے اس طرح یوں’ میرے ساتھ’ مجھ کو۔” اس سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔ پتہ نہیں غصہ زیادہ تھا یا غم یا پھر بے یقینی کہ وہ بات نہیں کر پا رہا تھا۔
”میری بات سنو شہیر!’ فاطمہ نے اس کی طرف بڑھنا چاہا۔ مگر وہ ناکام رہی’ وہ پلک جھپکنے میں پہلے کمرے اور پھر صحن سے باہر نکل گیا۔ فاطمہ بے اختیار بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے گئی۔
وہ تیز قدموں سے دور گلی میں جا رہا تھا۔ اس کا دل چاہا وہ ننگے پاؤں بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے جائے۔ وہ چلی جاتی اگر اسے یہ یقین ہوتا کہ وہ اس کے روکنے سے رک جائے گا۔ اس کی بات سنے گا۔ اس کی وضاحت تسلیم کر لے گا اور اس کے ساتھ لوٹ آئے گا۔
چوکھٹ میں اپنے دروازے کو پکڑے اس نے اشکبار نظروں سے اپنے گھر کی پہلی دیوار گرتی دیکھی’ وہ گلی کا موڑ مڑ کر اوجھل ہو گیا تھا۔ اپنے گھر کی چوکھٹ پر اسی طرح دروازے کا پٹ پکڑے اس نے اسی گلی میں باری باری ثمر اور ثانیہ کو بھی گلی کا موڑ مڑ کر اوجھل ہوتے دیکھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!