تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

”میں کل پاپا کے پاس جاؤں گی ۔ ”صبغہ نے یک دم صحن سے کمرے میں آتے ہوئے منیزہ سے کہا ۔ منیزہ سونے کے لیے ابھی بستر پر لیٹی تھیں ۔
”اس کے پاس کس لیے جاؤ گی؟”انھوں نے کچھ چونک کر کہا۔
”میں انہیں امبر اور ہارون کے بارے میں سب کچھ بتا دوں گی۔ ”صبغہ نے تھکے ہوئے انداز میں منیزہ کے بیڈ پر بیٹھے ہوئے کہا۔
منیزہ اٹھ کر بیٹھ گئیں ۔”وہ کیا کر لے گا۔ ہارون اس کا بزنس پارٹنر ہے۔ وہ بیٹی کے لیے بزنس پارٹنر نہیں چھوڑے گا۔ ”منیزہ نے ترشی سے کہا۔
”اور اب تک تو دیسے بھی وہ دونوں شادی کر چکے ہوں گے۔ تمہیں اگر اپنے باپ کو کچھ بتانا تھا۔ تو پہلے بتا دیتیں ۔”
”ہاں ہم سے یہ غلطی ہوئی ۔ ہمیں ہارون کے بارے میں پہلے ہی پاپا کو سب کچھ بتا دیتا چاہیے تھا۔ شاید پاپا کچھ کر لیتے اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے ممی !کہ ان دونوں نے ابھی شادی نہ کی ہو۔ ‘صبغہ نے جیسے کسی امید پر کہا۔
منیزہ خاموش نظروں سے اسے دیکھتی رہیں ۔ صبغہ نے ان کی نظریں پڑھ لی تھیں۔ اس کے کندھے کچھ اور جھک گئے۔ اگر شادی نہیں کی تھی تو ان کے لیے یہ ایک زیادہ قابل شرم بات تھی۔ وہ شادی کے بغیر اس آدمی کے ساتھ رو رہی تھی۔ صبغہ کا دل ایک بار پھر گھبرانے لگا تھا۔
”ہو سکتا ہے وہ ہارون کے پاس گئی ہی نہ ہو۔ ”وہ بڑبڑائی۔
”اپنے آپ کو دھوکا مت دو صبغہ !”منیزہ نے کہا۔
”صبغہ یک دم اٹھ کر ایک بار پھر باہر صحن میں آگئی۔ رات کافی ڈھل چکی تھی۔ وہ دو دن سے امبر کا انتظار کر رہی تھی اس کی طرف سے کسی اطلاع کسی رابطے کا…مگر وہ یک دم کہیں غائب ہوگئی تھی۔ وہ دو دن سے گھر سے نہیں نکلی تھی۔پتہ نہیں کیوں اسے یہ امید تھی کہ وہ ہارون سے شادی نہیں کرے گی۔ …بالآخر اپنی حماقت پر پچھتا کر واپس آجائے گی۔ مگر وہ دو دن سے گھر نہیں آئی تھی۔ اور وہ سارا دن بیٹھی یہ سوچتی رہی کہ وہ کیا کرے ‘ کس سے مدد لے ۔
اور اب بالآخر اس نے منصور کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اسے یہ پچھتا وا ہو رہا تھا کہ وہ منصور کے پاس پہلے کیوں نہیں گئی۔ صرف وہی تھا جو امبر کو پہلے بچا سکتا تھا’ صرف وہی تھا ۔جو امبر کو اب بھی بچا سکتا تھا۔
٭٭٭




”اندر آنے کے لیے نہیں کہو گی؟”اس کے بھائی نے اس سے پوچھا فاطمہ دونوں ہاتھوں سے دروازے کے دونوں پٹوں کو تھامے راستہ روکے کھڑی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ چوکھٹ میںکھڑے اپنے بھائی اور بھابھی کو دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں اس وقت اسے انسان نہیں بھوت لگ رہے تھے ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ پوری قوت سے دروازہ بند کر دے اور بھاگ کر اندر چلی جائے۔
انہوں نے آخر اسے کیسے تلاش کیا تھا۔ وہ تو اتنے سالوں میں اپنے سارے سراغ ختم کر چکی تھی پھر کیسے اتنے سالوں کے بعد وہ دونوں اس کے دروازے پر آکھڑے ہوئے تھے۔ اتنے اطمینان اور سکون کے ساتھ ۔ یوں جیسے وہ ہمیشہ سے وہاں آتے جاتے رہے تھے۔
”اندر آنے کے لیے نہیں کہو گی فاطمہ !کیا یہیں دروازے پر کھڑا رکھو گی؟”اس بار یہ اس کی بھابھی کی ترم آواز اور مسگراہٹ بھرا چہرہ تھا۔ فاطمہ نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ اس نے یہ مسکراہٹ اور نرمی اس وقت کتنی دفعہ دیکھی تھی جب وہ خود ان کے گھر میں رہتی تھی…ایک دفعہ شاید ایک دفعہ بھی نہیں۔
دروازہ نہ چھوڑنے کی خواہش رکھنے کے باوجود اس نے دروازہ چھوڑ دیا اور پلٹ کر لڑکھڑاتے قدموں سے اندر آ گئی۔ اس کے بھائی نے دروازے کے پٹ بھیڑ دیے اور اس کی بھابھی کے ساتھ چلتے ہوئے اس کے تعاقب میںکمرے آگیا۔ اس کی بھابھی گھر کا جائزہ لیتی ہوئی اندر آئی تھی۔
فاطمہ نے انہیں بیٹھنے کے لیے نہیں کہا۔ وہ دونوں خود ہی کمرے میں پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے۔ فاطمہ کچھ فاصلے پر پڑے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ ان کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی۔ ماضی کسی فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ اپنے بھائی کے گھر میں گزارے ہوئے تکلیف دو لمحات اسے اب بھی چبھ رہے تھے۔ اسے کئی سالوں بعداپنی ماں یاد آئی۔ کیا اس کے لیے ان کی آواز اور لہجے کی تلخی اور ترشی اسی طرح برقرار تھی یا پھر اس میں اضافہ ہو گیا تھا…یقینا اضافہ ہو گیا ہو گا۔ اس نے گھر چھوڑ کر ان کر سر جھکا دیا تھا۔ شادی نہ کر کے انہیں دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ نافرمانی کے کے انہیں رسوا کر دیا تھا اوراپنی دوست کے توسط سے ایک بچہ لے کر…
اس کی سوچوں کا تسلسل یک دم ٹوٹا۔
”تم کیسی ہو؟”اس کا بھائی اس کا حال پوچھ رہا تھا۔ فاطمہ نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ اس کے گھر میںگزارے جانے والے سالوں میں اس نے کتنی بار اس سے اس کا حال پوچھا تھا’کبھی نہیں۔ اسے زیادہ سوچنا نہیں پڑا شاید اس کا بھائی جانتا تھا کہ اس کا صرف حال ہی نہیں ماضی اور مستقبل بھی خراب ہی تھے۔
”آپ یہاں کس لیے آئے ہیں؟”فاطمہ نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے کھردرے لہجے میں پوچھا۔
اسے اپنی آواز خود اجنبی لگی۔ اس کا لہجہ اتنے سالوں سے کھردرا کہاں رہا تھا۔ مگر اب ان دونوں کو سامنے دیکھ کر وہ جیسے کئی سال پہلے واپس ان کے گھر پہنچ گئی تھی۔ …وہ وہی فاطمہ بن گئی تھی جس کے لبوں سے ہر وقت انگارے نکلا کرتے تھے۔ اسے ایک دم اپنا ماضی یاد آیا تھا۔
”لو بھلا تمہارے بھائی بھابھی ہیں…خونی رشتہ ہے کبھی بھی آسکتے ہیں ۔”اس بار اس کی بھابھی نے کہا تھا۔
”تم نے اتنے سالوں میں ہم سے رابطہ نہیں رکھا ہمیں بھلا دیا تواس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بھی تمہیں بھلا دیتے۔”
اس کی بھابھی کی آوازمیں بلا کی مٹھاس تھی اور اس سے بات کرتے کرتے وہ د یواروں پر لگی ہوئی اس کے بچوں کی تصویر پر بھی نظر دوڑا رہی تھیں۔
”میرا کوئی خونی رشتہ نہیں ہے۔ نہ ماں باپ نہ بہن بھائی…آپ یہاں سے چلے جائیں ۔ ”فاطمہ نے بے اختیار کہا۔
”اپنا خون ہی ہوتا ہے۔’آاس کے بھائی نے جیسے افسوس کرتے ہوئے کہا۔
”یہ بچے جنہیں تم پال کر اپنی اولاد بنائے بیٹھی ہو۔ اگر ہم نہیں تو کیا یہ تمہارا خون ہیں؟”
فاطمہ کاجسم پل بھر کے لیے سن ہو گیا۔ تو وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ تصویریں اس کے لے پالک بچوں کی ہیں…اور وہ یہ کیسے جانتے تھے؟اور اگر یہ جانتے تھے تو کیا پھر کچھ اور بھی جانتے تھے اس کے بارے میں ؟اس کے بچوں کے بارے میں؟… ان بچوں کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں؟
”میں آپ سے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتی اس نے اپنے بھائی کو ٹوک دیا۔”آپ یہاں سے چلے جائیں اور دوبارہ یہاں کبھی مت آئیں ۔ آپ کے گھر سے نکلتے ہوئے آپ نے مجھے کہا تھا کہمیں آپ کے لیے اور آپ میرے لیے مر گئے…میں دوبارہ کبھی زندگی میں آپ کو اپنی شکل نہ دکھاؤں پھر آپ آج میرے پاس کیوں آئے ہیں؟”
”غصے میں انسان بہت کچھ کہہ جاتا ہے۔”اس کی بھابھی فورا اس کے بھائی کی مدد کو آئیں ۔”اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انسان واقعی اپنوں سے رشتہ توڑ لے …جو کچھ ہو ااسے ہم بھول چلے تم بھی بھول جاؤ۔”انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا۔میں سب کچھ پہلے بھول چکی ہوں مجھے کچھ یاد نہیں ہے یہاں تک کہ آپ لوگ بھی مجھے یاد نہیں ہیں ۔ ”
”اس طرح کی باتیں جانے دو فاطمہ ۔”اس کے بھائی نے پھر کہا۔ ”ہم لو گ تمہیں واپس لے جانے کے لیے آئے ہیں۔”
اس کے بھائی نے بڑی رسانیت سے کہا۔ فاطمہ کواپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ان کی بات پر ہنسے یا روئے ۔ وہ اتنے سالوں کے بعد اس پر کتنا بڑا احسان کرنے آئے تھے کہ اسے واپس اپنے گھر لے جانا چاہتے تھے…اب جب وہ اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ معاشرے میں ایک مقام ایک عزت بنا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ اسے سہارا دینے کے لیے آگئے تھے۔
واقعی خونی رشتے خونی ہی ہوتے ہیں اور خون پانی سے واقعی گاڑھا ہوتا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس زمانے میں بھائیوں کے دل پتھر کے ہوگئے ہیں جو کہتے ہیں وہ جھوٹ کہتے ہیں اس کا بڑا بھائی اور بھابھی صرف ٢٢سال کے بعد اسے ایک بار پھر واپس گھر لے جانے کے لیے آگئے تھے۔ صرف ٢٢سال کے بعد… ٢٢سال مدت ہی کتنی ہوئی ہے۔ اس عرصہ میں اس کا چہرہ صرف جھریوں سے بھر گیا تھا اور اس کے سر کے صرف آدھے بال سفید ہوئے تھے…لوگ اسے آپا سے بس خالہ جی ہی کہنے لگے تھے کچھ اور تو نہیں بدلا تھا…٢٢سال عرصہ ہی کتنا ہوتا ہے۔ اس کا دل چاہا وہ بے اختیار قہقہہ مار کر ہنسے اور پھر ہنستی جائے۔ وہ دونوں واقعی مذاق کر رہے تھے۔
”گھر وں میں چھوٹی موٹی ناراضیاں ہوتی رہتی ہیں ۔”اس کی بھابھی ایک بار پھر اسی مٹھاس کے ساتھ کہہ رہی تھیں ۔ ”اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ گھر ہی چھوڑ دیا جائے۔”
فاطمہ کا دل چاہا وہ ان سے کہے وہ اس سے اس لہجے میں بات کرتیں تو وہ کبھی اپنے گھر سے نہ نکلتی۔ کوئی ہاتھ پکڑ کر بھی نکالتا تب بھی وہ گھر سے نہ جاتی۔
”تم شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں نہ کرتیں۔ ہم کون سا زبردستی کر رہے تھے تمہارے ساتھ۔ ”وہ ہونق بنی اپنی بھابھی کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ یہ وہی بھابھی تھیں جنہوں نے اس بوڑھے سے شادی نہ کرنے کی صورت میں گھر سے چلے جانے کی دھمکی دی تھی۔
میں اپنا گھر چھوڑ کر آپ کے گھر کیوں جاؤں گی؟ فاطمہ نے سرد لہجے میں کہا۔
”اچھا یہ گھر اپنا ہے؟ ۔”اس کی بھابھی کو جیسے جھٹکا لگا۔ یہ تو بڑی اچھی بات ہے اتنے سالوں میں تم نے اچھا کیا کہ ذاتی گھر خرید لیا ۔ کوئی بات نہیں ۔ اسے بے شک اپنے پاس ہی رہنے دینا’ کرائے پر چڑھا دینا یا بیچ دینا جیسا تمہارا جی چاہے۔ ”وہ بڑے اطمینان سے کہہ رہی تھیں یوں جیسے وہ وہاں اسے یہی مشورہ دینے آئی تھیں ۔
”آپ کو اس گھر کا پتہ کس نے دیا ہے؟”فاطمہ نے ان کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔ دونوں میاں بیوی نے بے اختیار چونک کرایک دوسرے کو دیکھا پھر فاطمہ کو۔ کچھ دیر تک اس کا بھائی خاموشی سے فاطمہ کو دیکھتا رہا پھراس نے کہا۔
”شہیر کی ماں نے۔”فاطمہ کا دل اچھل کر حلق میںآگیا۔
”کون شہیر کی… شہیر کی ماں ؟”اس نے بے اختیار لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا۔ ”تم بہت اچھی طرح جانتی ہو کہ شہیر کی ماں کون ہے اور اگر تم نہیں بھی جانتیں تو کم از کم وہ بہت اچھی طرح تمہیں جانتی ہے۔ ”اس کا بھائی اب بالکل سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”بیگم شائستہ کمال ۔”فاطمہ کے پورے جسم میں سوئیاں چھبنے لگیں ۔ وہ عورت کہاں تک جاپہنچی تھی اور وہ اس کے اور اس کے خاندان کے بارے میں کیا کچھ جانتی تھی… پھر کیا ثمر اور ثانی کے بارے میں بھی…فاطمہ کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے…تو کیا وہ واقعی شہیر کی ماں تھی؟…مگر میں نے شہیر کو کسی ہاسپٹل کسی کلینک سے نہیں اٹھا یا۔ میں نے اسے ایک یتیم خانے سے لیا تھا۔ اس نے خود کو کسی موہوم امید کے طور پر تسلی دینے کی کوشش کی’کوشش جوبے سود رہی۔
”ہم ان ہی کے کہنے پر یہاں آئے ہیں۔ وہ بہت اچھی عورت ہے۔ اس نے ہمیں کہا ہے کہ اس کا بیٹا واپس کرنے کی صورت میں وہ تمہیں منہ مانگی رقم دے گی۔ ”
بلی تھیلے سے باہر آگئی تھی۔٢٢سال بعد اس کے بھائی اور بھابھی کو اس تک کیا چیز کھنیچ کر لائی تھی…خونی رشتہ؟یا پیسہ؟…جواب مشکل نہیں تھا۔ جو عورت اسے منہ مانگی رقم کی آفر دے رہی تھی اس نے اس کے بھائی اور بھابھی کو کتنا روپیہ دیا ہو گا۔ اندازہ لگانا آسان تھا۔
”میں نے ان بچوں کو فروخت کرنے کے لیے نہیں پالا…آپ دونوں یہاں سے چلے جائیں۔”فاطمہ یک دم اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔”یہ میری اولاد ہیں۔ میرا خون ہے نہ سہی مگر میری اولاد ہیں۔”
”کوڑے کے ڈھیر سے اٹھائے جانے والے بچے تمہارے بڑھاپے کی لاٹھی نہیں بن سکتے ۔ ”اس کے بھائی نے کہاتو وہ عورت یہ بھی جانتی تھی کہ ثمر اور ثانی کہاں سے آئے تھے۔ فاطمہ کو اب شبہ نہیں رہا تھا کہ شائستہ واقعی شہیر کی ماں تھی۔
”میں نے بڑھاپے کی لاٹھی بننے کے لیے ان کو نہیں پالا…میں نے ان کو سہارا دینے کے لیے پالا تھا۔ ”
”بڑی نیکی کمائی ہے…اب بس کرو…واپس اپنے گھر آجاؤ…وہ بڑے ہو چکے ہیں ۔ دوبارہ کسی کوڑے کے ڈھیر پر نہیں بیٹھیں گے۔ تم بیگم شائستہ کے …”اس نے اپنے بھائی کی بات کاٹ دی۔
”آپ برائے مہربانی یہاں سے چلے جائیں اور دوبارہ کبھی مت آئیں ۔”
اس کے بھائی بھابھی اٹھ کھڑے ہوئے ”اگر ہم نہیں آئے تو کوئی اور آئے گا پھر کوئی اور آئے گا پھر کوئی اور…تم کتنوں کو گھر سے نکالوگی؟کتنوں کے منہ بند کروگی۔ اس محلے کے لوگوں کو جب یہ پتہ چلے گا کہ تم لوگوں کے بچے پال کر بیوگی کا ڈرامہ رچائے بیٹھی ہو تو وہ کیا سمجھیں گے…اور خود یہ بچے تمہاری حقیقت جان کر تمہارا کیاحال کریں گے۔ خاص طور پر شہیر ۔”
اس کی بھابھی نے اپنے چہرے سے ماسک اتار دیا تھا۔
”آپ یہاں سے چلے جائیں۔”اس بار فاطمہ بے اختیار چلائی ۔
”سوچ لو فاطمہ!ہم دوبارہ آئیں گے۔ ابھی تمہارے پاس وقت ہے۔”
وہ دونوں کہتے ہوئے آگے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ فاطمہ مٹھیاں بھنیچتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ زندگی اس کے لیے واقعی ایک چورا ہا ثابت ہوئی تھی۔ وہ گھوم کر پچیس سال بعد پھر وہیں آن کھڑی ہوئی تھی۔ پچھلے کئی ماہ سے جن حقائق اور انکشافات واتفاقات کو وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے نظر انداز کر رہی تھی۔ وہ اب اس کے سامنے آن کھڑے ہوئے تھے۔ وہ آگے نہیں جاسکتی تھی’ وہ پیچھے نہیں جاسکتی تھی’ وہ دائیںنہیں مڑسکتی تھی وہ بائیںنہیں مڑسکتی تھی۔ وہ اپنی جگہ پر کھڑی نہیں رہ سکتی تھی۔ بے بسی سی بے بسی تھی۔ دنیا آخر ختم کیوں نہیں ہوتی۔ بائیس سال بعد اس نے ایک بار پھر اللہ سے شکوہ کیا تھا۔
اس نے آہٹ پر سر اٹھایا۔ آنسوؤں کی دھندلاہٹ میں پہلی نظر میں اسے کچھ نظر نہیں آیا…پھر جو چہرہ نظر آیا تھا۔ وہ اس وقت اسے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ کمرے کی چوکھٹ پر شہیر کھڑا تھا۔ وہ کس وقت گھر آیا تھا۔ فاطمہ کو اندازہ نہیں تھا۔ اندازے لگانے کا وقت گزر چکا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!