”بیٹھیں…” اس نے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔ دونوں عورتوں نے بلاتامل اس کی دعوت قبول کی اور آگے بڑھ کر صوفے پر بیٹھ گئیں۔ وہ عورت خود ان دونوں سے قدرے فاصلے پر چارپائی پر بیٹھ گئی۔
”جی کہیے!” اس نے جیسے انہیں بات شروع کرنے کا اشارہ دیا۔
دونوں عورتوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کو دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ بات کا آغاز کرتیں۔ چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت نے یک دم برقع میں ملبوس عورت کو مخاطب کیا۔
”آپ بے شک نقاب ہٹا دیں۔ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے۔”
”جی شکریہ۔” برقع والی عورت نے کہا مگر اس نے نقاب نہیں ہٹایا۔
”آپ اس محلے میں کب سے رہ رہی ہیں؟” دوسری عورت نے مزید کسی تاخیر کے بغیر گفتگو کا آغاز کیا۔
چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت نے چونک کر اسے دیکھا۔ اس کے سوال نے جیسے اسے حیران کیا۔
”ہم تو کافی سالوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔”
”اٹھارہ ‘ انیس سال سے؟” اس عورت نے دوبارہ پوچھا۔
”ا س سے بھی زیادہ وقت گزر گیا ہے۔ ” اس نے جواب دیا۔
دونوں عورتوں کے درمیان ایک بار پھر نظروں کا تبادلہ ہوا۔ اس بار اگلا سوال قدرے دھیمی آواز میں آیا۔
”اٹھارہ سال پہلے اس محلے میں کسی نے کوڑے کے ڈھیر پر دو بچے پھینکے تھے۔ میں ان بچوں کے بارے میں پوچھنا چاہتی ہیں۔” چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت یک دم سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
”دو بچے۔؟”
”ہاں دو نوزائیدہ بچے۔” اس عورت نے دہرایا۔
اس بار چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت کے تاثرات اور انداز میں یک دم تبدیلی آ گئی۔ اس نے باری باری ان دونوں عورتوں کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اور آدھے چہرے کو نقاب میں چھپائی ہوئی عورت کو زیادہ غور سے دیکھا۔
”آپ کون ہیں؟” اس نے اس بار قدرے ترشی سے پوچھا۔ ”اور اس بارے میں کیوں پوچھ رہی ہیں؟”
برقع میں ملبوس عورت نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔ یعنی وہ ٹھیک جگہ آئی تھیں اور وہ عورت ان بچوں کے بارے میں جانتی تھی۔ مگر کیا۔؟
”آپ ان بچوں کے بارے میں جانتی ہیں؟” اس عورت نے برقع میں ملبوس عورت کو دیکھتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔
”میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ پہلے آپ مجھے اپنے بارے میں بتائیں۔” چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت نے اس بار تیز آواز میں ان سے کہا۔ وہ دونوں عورتیں اس کے لیے اب بہت مشکوک ہو گئی تھیں’ اور ان دونوں کے ہاتھوں کے زیورات اب اسے کسی اور طرف لے جا رہے تھے۔
”آخر آپ ان بچوں کے بارے میں کیا جاننے آئی ہیں اور کیوں؟”
”اگر ہم آپ کے سوال کا جواب دے دیں تو کیا آپ ہمیں ان بچوں کے بارے میں بتائیں گی؟” برقع میں ملبوس عورت نے اس بار چارپائی پر بیٹھی عورت کو مخاطب کیا۔
”پہلے آپ مجھے اپنے بارے میں بتائیں اس کے بعد ہی میں یہ طے کروں گی کہ مجھے آپ کو کچھ بتانا چاہیے یا نہیں۔”
چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت جیسے آدھے چہرے کو ڈھانپے ہوئے اس عورت کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ برقع میں ملبوس عورت کچھ دیر خاموش رہی’ پھر اس عورت کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ برقع میں ملبوس عورت کچھ دیر خاموش رہی’ پھر اس نے یک دم جیسے کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے کہا۔
”وہ دونوں میرے بچے ہیں۔”
چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ لاشعوری طور پر ان دونوں میں سے کسی کے منہ سے یہی سننے کی توقع رکھنے کے باوجود اسے یہ امید نہیں تھی کسی توقف کے بغیر ایک ہی سوال پر اتنے ڈائریکٹ انداز میں وہ ان بچوں کو اپنی اولاد تسلیم کر لے گی’ کچھ دیر تک وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکی کہ اسے کیا کہنا چاہیے یا اس کے بعد آگے کیا پوچھنا چاہیے۔
”اب تو آپ ان دونوں بچوں کے بارے میں مجھے بتا دیں گی؟” برقع والی عورت نے کچھ دیر اس کی طرف سے کسی ردعمل کا انتظار کیا اور پھر سوال کیا۔
”وہ تمہارے بچے تھے تو تم نے انہیں کوڑے پر کیوں پھینک دیا؟” اس سوال کا جواب جانتے ہوئے بھی چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت یہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
”آپ اندازہ لگا سکتی ہیں کہ میں نے ان کو کیوں پھینک دیا۔” برقع والی عورت کا اگلا جواب بھی اتنا ہی صاف تھا کہ چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت ایک بار پھر جیسے لاجواب ہو کرہ گئی۔
”ناجائز تھے؟” اس نے کچھ دیر تک پلکیں جھپکائے بغیر برقع والی عورت کی کاجل لگی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے جیسے بے یقینی سے پوچھا۔
”ہاں!” برقع والی عورت جیسے صاف گوئی کی انتہا پر پہنچ رہی تھی۔
”جب پھینک دیے تو پھر اب اتنے سالوں کے بعد ان کا خیال کیوں آ گیا؟” چارپائی والی عورت کی آواز میں اب ملامت جھلک رہی تھی۔ ”وہ تو اب بھی ناجائز ہی ہوں گے۔ اب اٹھارہ’ انیس سال کے بعد ان کی کیا ضرورت آن پڑی۔”
برقع والی عورت کی آنکھوں کا رنگ بدلا اس کی آنکھوں میں نمی آئی تھی یا پھر وہ مسکرائی تھی۔ دونوں میں سے کیا تھا’ وہ یہ طے نہیں کر پائی۔
”جائز ہو یا ناجائز۔ اپنی اولاد کا خیال تو آتا ہی ہے۔” برقع والی عورت مدھم آواز میں بولی۔ ”کتنا بھی وقت گزر جائے میں انہیں بھول تو نہیں سکتی۔ ماں ہوں۔”
چارپائی پر بیٹھی عورت کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سے کیا کہے۔ اسے دھتکارے’ ملامت کرے’ ہمدردی جتائے۔ یا پھر۔
”کسی نے انہیں گود لے لیا تھا۔ یا دارالامان بھجوا دیا تھا؟” برقع والی عورت نے اگلا سوال کیا۔
”پہلے تمہیں یہ پوچھنا چاہیے کہ وہ دونوں زندہ بچ گئے تھے؟”
چارپائی والی عورت نے طنزیہ انداز میں کہا۔ اس بار خاموش رہنے کی باری برقع والی عورت کی تھی۔ چند لمحے بالکل چپ رہنے کے بعد اس نے بے حد مدھم آواز میں کہا۔
”زندہ بچ گئے تھے؟” چارپائی والی عورت نے اس کی آواز سے زیادہ اس کے ہونٹوں کی حرکت سے اس کے جملے کو سمجھا۔
”ہاں بدقسمتی سے۔” چارپائی والی عورت کا لہجہ طنزیہ تھا’ برقع والی عورت نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ چارپائی والی عورت نے اسے قدرے حیرانی سے دیکھا۔ کیا بے تابی تھی جو وہ عورت اتنے سالوں بعد دکھا رہی تھی۔ کیا اسے مامتا کہا جا سکتا تھا؟
”کس نے اٹھایا تھا انہیں؟” اس بار اس کی آواز میں تیزی تھی۔
”جس نے بھی اٹھایا تھا۔ بڑی بری حالت میں اٹھایا تھا مرنے والے ہو رہے تھے دونوں۔ لڑکے کو تو چوہوں نے اُدھیڑ ڈالا تھا۔”
برقع والی عورت کے منہ سے بے اختیار سسکی نکلی۔ ”پھر؟”
”پھر کیا ؟” چارپائی والی عورت کے انداز میں اب سردمہری آ گئی تھی۔ ”زندہ بچ گئے دونوں۔ بتا تو رہی ہوں تمہیں۔”
”کس کے پاس ہیں وہ دونوں؟”
”ایک بیوہ عورت نے گود لے لیا تھا ان دونوں کو۔” چارپائی والی عورت بتاتے بتاتے رکی۔” اسی نے جان بچائی اس لڑکے کی بے چاری اسے لے لے کر جگہ جگہ پھرتی رہی۔ پھر اس نے ان دونوں کو پالنے کا فیصلہ کر لیا۔”
چارپائی والی عورت بات کرتے کرتے ایک بار پھر رکی۔ اسے جیسے اب یاد آ رہا تھا کہ اسے اس عورت کو یہ ساری معلومات دینے کے بجائے صرف ملامت کرنا چاہیے تھی۔ ”ناجائز بچے اگر میرا شوہر سن لے تو ابھی ان دونوں عورتوں کو دھکے دیتے ہوئے گھر سے نکال دے۔” اس نے چند لمحوں کے لیے سوچا۔
”اور اس کے ساتھ ساتھ میری مرمت بھی کر دے کہ میں نے کس قسم کی عورتوں کو گھر میں بلا کر بٹھا رکھا ہے۔” اس کے خیال کی رواب کسی اور سمت جانے لگی تھی۔
”اور ذرا اس عورت کو دیکھو۔ یوں برقع لپیٹے بیٹھی ہے جیسے بڑی ستی ساوتری ہو۔”
”آپ مجھے میرے بچوں کے بارے میں بتا رہی تھیں؟” برقع والی عورت نے اسے مخاطب کیا شاید وہ اس کی خاموشی سے کچھ گھبرا گئی تھی۔
”ہاں۔ بتا رہی تھی۔ بلکہ بتا چکی ہوں۔” اس نے جواباً ترشی سے کہا۔
”آپ نے مجھے اس عورت کے بارے میں نہیں بتایا۔”
”بتا تو دیا ہے’ بیوہ عورت تھی۔”
”آپ مجھے اس عورت کا پتہ بتا دیں میں اس کے گھر جانا چاہتی ہوں۔”
”کیسے بتا دوں؟” اس کے انداز نے برقع والی عورت کو چونکایا۔
”کیا مطلب؟”
”اس کا پتہ میرے پاس ہو گا تو میں بتاؤں گی نا۔”
”تو کیا وہ اس محلہ میں نہیں رہتی۔”
”پہلے رہتی تھی۔ اب نہیں رہتی۔”
”اب کہاں ہیں؟”
”وہ ان بچوں کے ملنے کے کچھ عرصہ کے بعد ہی یہاں سے چلی گئی تھی۔”
”مگر کہاں؟”
”مجھے کیا پتا کہاں۔” وہ اس کے سوالوں سے بیزار ہو گئی تھی۔
”مگر آپ کو کچھ اندازہ تو ہو گا۔”
”پندرہ سولہ سال پہلے اگر کوئی محلہ چھوڑ کر چلا جائے تو اس کا کیسے پتہ رکھا جا سکتا ہے۔”
”پھر بھی آپ کچھ نہ کچھ تو مدد کر سکتی ہیں میری۔” برقع والی عورت اب گڑگڑانے لگی۔ ”اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات تو مجھے دے ہی سکتی ہیں۔”
”کیسی معلومات؟”
”اس عورت کا نام’ وہ کیا کرتی تھی’ اس کے کوئی رشتے دار یا جاننے والے۔”
”اور تم یہ سب کچھ جان کر کیا کرو گی۔ اس عورت کے پاس جاؤ گی؟”چارپائی والی عورت نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔”
”ہاں!”
”اور ان بچوں کو اس سے چھین لو گی؟”
اس بار برقعے والی عورت کچھ ہچکچائی۔
”نہیں ۔ میں بچوں کو اس سے نہیں لوں گی۔ صرف انہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔”
”دیکھ کر کیا کرو گی؟” وہ اب جیسے بال کی کھال اتارنے پر تل گئی تھی۔
”ماں بچوں کو دیکھ کر کیا کرتی ہے؟” اس نے جواباً سوال کیا۔
”کوڑے پر بچوں کو پھینک دینے والی ماں کیا کرتی ہے۔ یہ میں کیسے بتا سکتی ہوں۔” اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”میری زندگی کی آخری خواہش ہے کہ میں ایک بار ان بچوں کو دیکھ لوں۔”
”اگر تمہاری زندگی کی یہ آخری خواہش ہے تو میں کیا کروں؟” چارپائی والی عورت متاثر ہوئے بغیر بولی۔ ”مجھے جتنا پتہ ہے تمہیں بتا چکی ہوں۔ اب تم دونوں یہاں سے جاؤ۔ میرا شوہر آنے والا ہے۔ تم دونوں کو دیکھے گا تو ناراض ہو گا کہ میں کیسی کیسی عورتوں کو گھر کے اندر بلا لیتی ہوں۔”
اس کے انداز میں رکھائی اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔
صوفے پر بیٹھی دونوں عورتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر برقع والی عورت نے کہا۔
”اگر آپ ہمیں معلومات فراہم کر سکیں تو ہم اس کے بدلے آپ کی مالی مدد کر سکتے ہیں۔”
چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت ایک بار پھر کچھ دیر کے لیے چپ کی چپ رہ گئی تھی۔ برقع والی عورت اب اپنے بیگ کی زپ کھول کر اندر سے کچھ بھاری مالیت کے کرنسی نوٹ نکال رہی تھی۔ چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت کے دل کی دھڑکن یک دم تیز ہو گئی۔ اس کی نظریں برقع والی عورت کے ہاتھوں کی حرکت کا تعاقب کر رہی تھیں۔ آج کا دن اس کے لیے اچھا ثابت ہو سکتا تھا۔ اس کے ذہن میں بے اختیار خیال آیا۔
”کیا جاننا چاہتی ہیں آپ؟” اب اس کی آواز میں ترشی یا تلخی کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ برقع والی عورت کے ہاتھ میں دس بارہ بھاری مالیت کے کرنسی نوٹ دبے ہوئے تھے اور چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت کی نظریں بار بار وہیں اٹکی ہوئی تھیں۔
”مجھے آپ اس عورت کے بارے میں جو کچھ بتا سکتی ہیں بتا دیں۔ اگر رابطہ کروا سکیں تو میں آپ کو اس کے علاوہ اور رقم بھی دوں گی۔”
برقع والی عورت نے بڑی خوش اخلاقی سے ان نوٹوں کو اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت کے ہاتھ کانپنے لگے۔
”معلومات ۔ معلومات۔” اب اس کا ذہن ان ہی دو لفظوں کے گرد گردش کر رہا تھا۔ وہ کس طرح ان کو زیادہ سے زیادہ معلومات دے سکتی تھی کہ اس بھاری رقم کی اہل ٹھہرتی اس نے اپنے ہاتھوں کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے برقع والی عورت کے ہاتھوں سے نوٹ لے لیے۔
”آپ کے لیے چائے یا شربت کچھ لاؤں؟” نوٹوں کے ساتھ ہی یک دم اس کو مہمان نوازی کے فرائض یاد آ گئے۔ برقع والی عورت اب ”تم” سے ”آپ” ہو گئی تھی۔
”نہیں ‘ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ برقع والی عورت نے جواباً کہا۔ ”آپ ہمیں صرف اس عورت کے بارے میں بتا دیں۔”
”اس عورت کا نام … ” چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت نے اپنے ذہن کو کئی سال پیچھے لوٹایا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے کچھ اور بھی طے کر لیا تھا۔ وہ جتنی جھوٹی معلومات ان دونوں عورتوں کو دے سکتی تھی’ دے گی۔ وہاں کون یہ طے کرنے والا تھا کہ وہ سچ کہہ رہی تھی یا جھوٹ اور اس کا جھوٹ اس کے ہاتھوں میں موجود کرنسی نوٹوں کی تعداد میں اضافہ کرنے والا تھا۔
برقع والی عورت اب بے تابی سے وہ سب کچھ سن رہی تھی جو وہ اسے بتا رہی تھی۔
٭٭٭