تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

”آپ لوگوں سے مل کر خوشی ہوئی۔” ہارون نے یک دم گفتگو اور ملاقات کو ختم کرتے ہوئے کہا۔ اس نے ایک بار پھر باری باری ثمر اور شہیر سے ہاتھ ملایا۔ ”ہم لوگوں کو کہیں پہنچنا ہے۔ دیر ہو رہی ہے۔”
نایاب نے بھی ثانی سے ہاتھ ملایا۔
ثمر کا ذہن تیزی سے کچھ وضاحتیں ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔ آج کا دن یقینا اس کی زندگی کے بُرے ترین دونوں میں سے ایک تھا۔ اسے اگر معمولی سا شبہ بھی ہوتا کہ اس کی اور ثانی کی ملاقات وہاں شہیر سے ہو سکتی تھی تو وہ کسی قیمت پر وہاں نہ آتا مگر اب خلاف توقع وہ سب کچھ ہو چکا تھا جو اس کے خوابوں اور خیالوں میں بھی نہیں آیا تھا۔
ہارون کمال ‘ شائستہ اور نایاب کے ساتھ ہوٹل کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا اور ان کے وہاں سے جاتے ہی شہیر نے ثمر سے کہا۔
”تم دونوں ہوٹل کے دروازے کے باہر میرا انتظار کرو۔ میں دس منٹ تک آتا ہوں۔”
وہ مزید کچھ کہے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ ثمر اور ثانی آہستہ قدموں سے کسی روبوٹ کی طرح چلتے ہوئے ہوٹل سے باہر نکل کر دروازے سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو گئے۔
”میری تو قسمت ہی خراب ہے۔” تقریباً دو منٹ کے بعد بالآخر ثمر نے کہا ۔ وہ دونوں لان کے سامنے دروازے پر نظریں جمائے کھڑے تھے۔ لوگ اندر اور باہر جا رہے تھے۔
”مجال ہے کبھی کوئی چیز صحیح طریقہ سے ہو جائے۔ ہر جگہ بے عزتی کروانا تو فرض ہے مجھ پر” وہ بڑبڑا رہا تھا۔
”یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا” ثانی چند لمحے خاموشی سے اس کی بڑبڑاہٹ سنتی رہی پھر برداشت نہیں کر سکی تو بول پڑی۔
ثمر بے یقینی سے منہ کھولے اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ ”میری وجہ سے کیا ہوا؟”
”میں نے منع کیا تھا تمہیں۔”
”یہاں آنے سے ؟” وہ حیران ہوا۔
”ماڈلنگ کرنے سے۔”
”ماڈلنگ سے اس سب کا کیا تعلق ہے؟”




نہ تمہارے پاس پیسے آتے نہ تم مجھے یہاں لاتے۔” ثانی روہانسی ہو گئی۔
”میں لایا ہوں تمہیں یہاں۔” ثمر کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
”زبردستی۔”
”میرے خدا … ثانی! تم دوزخ میں جاؤ گی … میں تمہیں زبردستی لایا ہوں یہاں؟”
”میں دوزخ میں جاؤں گی تو تمہیں بھی جنت میں کوئی بنگلہ نہیں ملے گا۔ تم بھی میرے ساتھ وہیں جاؤ گے … وہاں’ زبردستی لائے ہو تم مجھے … میں نے تو انکار کر دیا تھا۔”
ثمر نے بے اختیار اپنے سر پر دونوں ہاتھ رکھ لیے۔” میں تمہیں زبردستی یہاں لایا… تم نے ایک بار بھی انکار نہیں کیا۔”
”کیا تھا … میں نے تو تمہیں بھی منع کیا تھا۔” وہ اپنا غصہ اب اس پر اتار رہی تھی۔ کہا نہیں تھا تم سے کہ کسی نے دیکھ لیا تو؟”
”کہا تھا مگر یہ انکار نہیں تھا۔”
”انکار نہیں تھا تو اور کیا تھا؟۔ وہ غرائی۔
”تم نے مجھ سے کہا تھا کہ ہمیں نہیں جانا چاہیے؟” ثمر کو بھی اب غصہ آنے لگا۔
”اف میرے خدا … میں نے نہیں کہا تھا؟” اس بار ثانی نے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لیے۔
”نہیں کہا تھا … ایک بار بھی نہیں کہا تھا … تم میرے ساتھ آنے پر تیار نہ ہوتیں تو میں کبھی یہاں نہیں آتا … بتایا تھا تمہیں میں نے۔”
”کتنے جھوٹے ہو تم … ” وہ تقریباً چلائی۔ ”تم خود کہہ رہے تھے کہ میں یہاں آؤں گا … یہ جھوٹ بولوں گا … وہ جھوٹ بولوں گا … میں بار بار تمہیں منع کر رہی تھی کہ اگر کسی نے دیکھ لیا … اگر امی کو پتہ چل گیا تو … اور تم … تم سن ہی نہیں رہے تھے۔ تم نے کہا نہیں تھا کہ میں پی سی جانے کے لیے سو جھوٹ بولوں گا۔” ثمر نے ملامت بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
”اور تم یہ بات اسی طرح شہیر بھائی اور امی سے کہہ دو گی؟”
”ہاں بالکل ایسے ہی کہہ دوں گی…” ثانی نے تیزی سے کہا۔
”پھر میں بھی ان سے کہوں گا کہ میں تمہارے کہنے پر ہی تمہیں پی سی لے کر آیا ہوں۔”
”جھوٹ بولو گے تم ؟” ثانی نے بے اختیار دانت پیسے۔
”ہاں۔ جہاں اتنے جھوٹ بولے ہیں وہاں ایک اور سہی … تم مجھے ڈبوؤگی تو میں بھی تمہیں ڈبودوں گا۔”
”پھر میں ساری زندگی تم سے بات نہیں کروں گی۔”
”نہیں کرنا … مجھے بھی ضرورت نہیں ہے تم سے کوئی بات کرنے کی۔”
ثانی نے اس بار کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ ناراضی کے عالم میں منہ دوسری طرف پھیر کر کھڑی ہو گئی۔ ثمر کچھ دیر دانتوں سے ناخن کترتا دروازے کو دیکھتا رہا پھر اس نے قدرے مصالحانہ انداز میں ثانی کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”اچھا معاف کر دو مجھے … ابھی تو یہ سوچو کہ شہیر بھائی سے کیا کہنا ہے۔”
ثانی نے بے رخی سے اس کا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹکا۔ ”تم ہی سوچو’ تم نے کیا کہنا ہے۔ میں تو سب کچھ سچ سچ بتا دوں گی۔”
”میری ماڈلنگ کے بارے میں بھی؟”
”ہاں ہر چیز کے بارے میں۔”
”ایک دفعہ سوچ لو ثانی۔”
”سوچ لیا ہے۔”
”پلیز۔”
”نہیں ۔ مجھے اب کوئی جھوٹ نہیں بولنا۔”
”تم کچھ بھی مت کہنا … میں خود سب کچھ کہہ لیتا ہوں۔” اس نے جلدی سے ثانی سے کہا۔
”اور بعد میں تم مجھے بلیک میل کرتے رہو گے۔ بالکل نہیں۔” ثانی نے قطعی انداز میں کہا۔
”میں تمہیں کبھی … کبھی … کبھی بلیک میل نہیں کروں گا … بس ایک آخری بار میری بات مان لو۔” وہ گڑگڑایا۔
”نہیں تم ایک انتہائی جھوٹے انسان ہو۔ میں تمہاری کوئی بات نہیں مانوں گی۔” ثانی نے گردن نفی میں ہلائی مگر دل ہی دل میں وہ چاہ رہی تھی کہ اسے فوری طور پر اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی راستہ سوجھ جائے۔
”دیکھو … پلیز … میں ہاتھ جوڑ رہا ہوں … اب اس سے زیادہ اور کیا کروں … پلیز ثانی۔”
ثمر نے ہوٹل کے دروازے کی طرف پشت کرتے ہوئے ثانی کے بہت قریب ہو کر آس پاس کے لوگوں سے چھپاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سامنے باندھے’ ثانی نے چند لمحے ماتھے پر بل ڈال کر اسے گھورا پھر جیسے ہتھیار ڈال دیے۔
”یہ آخری بار ہے۔”
”بالکل آخری بار … دوبارہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔”
”شہیر بھائی کو کیا کہیں گے؟۔”
”میں کہوں گا۔ ہم دونوں یہاں باہر سے گزر رہے تھے تو اچانک میں تمہیں ہوٹل دکھانے اندر لے آیا۔”
”اور وہ نایاب اور اس کے والدین … اس کے بارے میں کیا کہو گے؟”
”میں کہوں گا کہ نایاب میرے دوست کی بہن ہے … میں ان لوگوں کے گھر آتا جاتا رہتا ہوں۔ اس لیے وہ مجھے جانتے ہیں۔
”انہوں نے دوست کا نام پوچھ لیا تو؟”
”میں کوئی بھی نام لے دوں گا۔”
”اور انہوں نے دوست سے ملنا چاہا تو؟”
”میں لے آؤں گا کسی کلاس فیلو کو دوست بنا کے۔”
”مجھے نہیں لگتا’ شہیر بھائی کو تمہاری باتوں پر یقین آئے گا۔” ثانی نے چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتے رہنے کے بعد قدرے مایوسی سے کہا۔
”انہوں نے شوبز کی بات کی تھی اگر شہیر بھائی نے بھی اس کے بارے میں پوچھا تو؟”
”میں کہوں گا کہ نایاب ماڈلنگ کر رہی ہے اور انہوں نے اسی حوالے سے پوچھا تھا کہ کیا آپ بھی شوبز سے منسلک ہیں؟ ثمر اب یک دم کچھ مطمئن نظر آنے لگا۔
”اور کل کو جب انہوں نے وہ کمرشل دیکھ لیا تو؟”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!