تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

”ہم لوگ وہاں سے جلدی واپس آ جائیں گے۔” ہارون کمال نے صلح جو انداز میں کہا۔” مگر میں وہاں جانا ہی نہیں چاہتی… تم آخر میرا پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔”
شائستہ نے اس بار بہت تیز آواز میں کہا۔ وہ یک دم اٹھ کر بیٹھ گئی اور سائیڈ ٹیبل پر پڑے سگریٹ کیس سے ایک سگریٹ نکال کر اسے سلگانے لگی۔ ہارون ماتھے پر بل لیے اسے دیکھتا رہا۔ ”میں تمہارے رویہ کو سمجھ نہیں پا رہا۔”
”تمہیں میرے رویے کو سمجھنے کی کوشش میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ڈنر میں جانے کی تیاری کرنی چاہیے۔” شائستہ نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے تلخی سے کہا۔
”اور تم کہہ رہی ہو کہ تم rude نہیں ہو رہیں۔” ہارون کمال نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”اچھا لو’ میں ہو رہی ہوں پھر …” شائستہ نے انگلیوں میں دبے سگریٹ کو اپنے ہونٹوں سے دور کرتے ہوئے کہا۔ ”انسان ہوں میں’ چوبیس گھنٹوں اور سال کے بارہ مہینے چہرے پر مسکراہٹ پینٹ کر کے نہیں پھر سکتی۔”
”مت پھرو… مگر بات کرنے کا انداز ضرور بہتر کرو … میں تمہارا شوہر ہوں … گھر میں کام کرنے والا ملازم نہیں ہوں۔” اس بار ہارون کی آواز بھی اونچی تھی۔
”ہاں’ ملازم تم نہیں ہو سکتے وہ فرمانبردار اور وفادار ہوتے ہیں۔” شائستہ نے سلگانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”اس ساری فضول بکواس کا مقصد کیا ہے؟” ہارون حسب توقع بری طرح تپا۔
”کوئی مقصد نہیں ہے … ایک بات تم نے کہی … ایک میں نے … بس۔”
”پچھلے کچھ سالوں میں تمہاری بحث کرنے کی عادت میں کچھ اضافہ نہیں ہو گیا؟” ہارون کمال کا لہجہ جھلسانے والا تھا ”اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑھاپے کی علامت ہوتی ہے۔”




شائستہ نے تیز نظروں سے ہارون کمال کو دیکھا۔ ”ہاں’ میں اور تم اب بوڑھے ہو رہے ہیں۔”
اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”میں نہیں صرف تم…” ہارون نے اس کی بات کاٹی۔ ”مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا … سنا ہو گا تم نے؟”
”سنا تو میں نے اور بھی بہت کچھ ہے … مگر شاید تم وہ سب کچھ اس وقت سننا پسند نہیں کرو گے … تمہیں ڈنر سے دیر ہو رہی ہے۔” شائستہ اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
”اور تم … تمہیں دیرنہیں ہو رہی؟” ہارون نے اپنے انداز کو بدلتے ہوئے کہا۔
”میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ میں ڈنر پر نہیں جا رہی۔” شائستہ نے جیسے بلند آواز میں اعلان کیا۔
”اور اس کی وجہ یقینا سر درد نہیں ہے۔” ہارون کمال نے تلخی سے کہا۔ ”کیونکہ یہ سردرد اتنا شدید ہوتا تو پچھلے دس منٹ سے تم میرے ساتھ اس جھگڑے میں مصروف نہ ہوتیں۔”
”اوکے ۔ تم یہی سمجھ لو کہ میرے سر میں درد نہیں ہے۔ میں جھوٹ بول رہی ہوں۔”
”اور میں یہی جاننا چاہتا ہوں کہ کیوں؟… اب باہر کے ڈنر سے یک دم تمہیں الرجی کیوں ہونے لگی ہے؟”
”مجھے اس وقت ہر چیز سے الرجی ہو رہی ہے … بابر سلیم جیسے گدھوں سے۔” وہ زہریلے انداز میں کہہ رہی تھی۔ ”چہروں پر ماسک چڑھا کر ان ڈنرز میں خوش گپیاں کرنے والے جانوروں کے ہجوم سے۔” وہ ایک اور کش لگانے کے لیے رکی پھر اس نے کہا۔ ”تم سے … اس گھر سے … ہر چیز سے۔”
ہارون کمال کے ماتھے کی شکنیں بڑھ گئیں۔ ”بعض دفعہ یہ جو دورے تمہیں پڑتے ہیں۔ تمہیں اندازہ ہے کہ یہ تمہاری پرسنالٹی کو میری نظروں میں کس طرح گرا دیتے ہیں۔” ہارون کمال نے تیز آواز میں کہا۔
”مجھے فرق نہیں پڑتا۔” شائستہ نے سرجھٹکا۔ ”تمہارے ساتھ اتنے سال گزارنے کے بعد اب مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مجھے کیا سمجھتے ہو یا کس نظر سے دیکھ رہے ہو۔”
”فرق پڑنا چاہیے تمہیں۔” ہارون کمال کی آواز سرد ہو گئی ‘ہتم نے ابھی زندگی کے اور بہت سے سال میرے ساتھ گزارنے ہیں۔”
”بدقسمتی سے۔” شائستہ بڑبڑائی۔
ہارون نے اس کی بڑبڑاہٹ سن لی۔ ”میں اگر تمہیں طلاق دے کر اس گھر سے نکال دوں تو تمہیں پتا چلے گا کہ میرے ساتھ رہنا تمہاری بدقسمتی تھی یا میرے بغیر۔” ہارون کا لہجہ کاٹ دار تھا۔
”پہلی بات تو یہ ہارون کمال صاحب۔” شائستہ نے سگریٹ کی راکھ سائیڈ ٹیبل پر پڑی ایش ٹرے میں جھٹکی۔ ”کہ یہ گھر آپ کا نہیں ہے … میرے نام ہے … اس لیے یہاں سے آپ کو میں تو نکال سکتی ہوں … آپ مجھے نہیں نکال سکتے۔”
ہارون پلکیں جھپکائے بغیر ہونٹ بھینچے اسے دیکھ رہا تھا۔
”اور دوسری بات یہ کہ آپ طلاق کی دھمکی کم از کم مجھے مت دیں … میں کوئی مجبور’ بے بس’ گھریلو عورت نہیں ہوں کہ اس دھمکی پر کانپنا شروع ہو جاؤں گی۔” اس نے ایک اور کش لیا۔
”اور آپ کے پیروں میں گر کر گڑ گڑاؤں گی کہ سرتاج مجھے معاف کر دیں۔”
وہ رکی۔ اس کی نظریں ہارون کمال پر جمی ہوئی تھیں۔ ”تم نے مجھے دنیا کے ہر فن میں طاق کر دیا ہے۔ اب اگر تم میری زندگی سے نکل جاتے ہو تو مجھے تمہارے جیسے ہزاروں مل جائیں گے … شائستہ تم کو بوڑھی لگتی ہو گی … باہر دنیا کو نہیں۔”
ہارون ایک لفظ کہے بغیر تیز قدموں سے پلٹ کر ڈریسنگ روم میں گھس گیا۔ ڈریسنگ روم کا دروازہ اس نے پوری قوت سے بند کیا تھا۔ شائستہ کے ہونٹوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ آئی۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا سگریٹ کا ٹکڑا ایش ٹرے میں اچھال دیا اور سگریٹ کیس سے ایک اور سگریٹ نکالنے لگی۔ وہ سگریٹ نکالتے ہوئے کچھ بڑبڑابھی رہی تھی۔
٭٭٭
فاطمہ نے دروازہ کھولا۔ ثمر سلام کر کے نظریں چراتے ہوئے اندر آ گیا۔ فاطمہ نے متلاشی نظروں سے پیچھے دیکھا۔
”اتنی دیر کر دی تم دونوں نے … میں پریشان ہو رہی تھی … اور یہ ثانی کہاں ہے؟” فاطمہ نے دروازہ بند کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں ثمر کو دیکھا ۔ جو صحن کے تخت پر بیٹھتے ہوئے اپنے جوتے کھول رہا تھا۔
”ثانی’ شہیر بھائی کے ساتھ ہے۔” ثمر نے جوتے کھولتے ہوئے اسی انداز میں کہا۔
”شہیر … یہ شہیر کہاں سے مل گیا تم دونوں کو؟” فاطمہ قدرے حیران ہوئی۔
”وہ … وہ رستے میں مل گئے تھے۔” ثمر نے مختصر جواب دیا۔
”تو ساتھ کیوں نہیں آئے تم لوگ … وہ دونوں کہاں رہ گئے؟” فاطمہ کو اب تشویش ہونے لگی۔
”آ رہے ہیں امی! مجھے ایک کام تھا اس لیے میں ثانی کو شہیر بھائی کے پاس چھوڑ کر آ گیا … ابھی آ جائیں گے وہ دونوں۔” ثمر نے جیسے اسے تسلی دی۔
فاطمہ نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ وہ پریشان نظر آ رہا تھا۔
”تمہیں کیا ہوا؟… کوئی پریشانی ہے۔”
”مجھے کیا پریشانی ہو گی۔ بس کچھ تھک گیا ہوں۔” ثمر نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”اچھا … میں ٹرے میں کھانا نکال کر دے رہی ہوں۔ ساتھ والوں کے گھر دے آؤ۔” فاطمہ نے کچن کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”کون سے ساتھ والوں کے گھر؟” ثمر نے فاطمہ کے پیچھے آتے ہوئے کہا۔
”صبغہ کے گھر۔” فاطمہ نے کہا۔
”آ گئے ہیں یہ لوگ؟” ثمر نے کہا۔
”ہاں۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی آئے ہیں۔” فاطمہ برتنوں میں کھانا نکالتے ہوئے بولی۔
”کیا کہوں میں جا کر ان سے؟” ثمر نے ایک ہاتھ سے سر کھجاتے ہوئے ٹرے پکڑی۔
”کیا کہنا ہے۔ بس دستک دے کر جو بھی آئے۔ اسے ٹرے پکڑا دینا۔” فاطمہ نے کہا۔ ”اتنی دیر میں تمہارے لیے کھانا نکالتی ہوں۔ آج بہت دیر ہو گئی ہے۔”
”ثمر نے جواب نہیں دیا۔ وہ ٹرے لے کر اپنے گھر سے باہر نکلا اور اس نے صبغہ کے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ چند منٹوں کے بعد کھلا۔ دروازے پر صبغہ تھی۔ ثمر کو فاطمہ کی جگہ پا کر وہ قدرے گڑبڑائی۔
”السلام علیکم … امی نے کھانا بھجوایا ہے۔”
ثمر نے اس کے دروازہ کھولتے ہی جلدی سے کہا اور ٹرے آگے کر دی۔ صبغہ نے ٹرے اس سے لے لی۔ ثمر سے وہ پچھلے چند ہفتوں میں چند بار مل چکی تھی … مگر اس وقت اس کے ہاتھ سے کھانا لیتے ہوئے اسے عجیب سی خجالت کا احساس ہوا تھا۔
”آپ کھانا کھانے کے بعد برتنوں کی ٹرے کو درمیان والی دیوار پر رکھ دیجئے گا۔ میں وہاں سے اٹھا لوں گا۔” ثمر نے برق رفتاری سے کہا اور ان ہی قدموں پلٹ کر اپنے گھر میں گھس گیا۔ صبغہ دروازہ بند کرتے ہوئے ٹرے ہاتھ میں لیے کمرے کی طرف جاتے جاتے صحن کے وسط میں رکی۔ اور اس نے مڑ کر اس دیوار کو دیکھا جو چھ فٹ سے زیادہ نہیں تھی اور اسی وقت اس نے دوسری طرف ثمر کو فاطمہ سے بات کرتے ہوئے سنا۔
”امی! میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔”
”کیوں؟” فاطمہ نے پوچھا۔
”میں نے اور ثانی نے باہر سے برگر کھا لیا ہے۔”
”تو جانے سے پہلے کم از کم مجھے بتا تو دیتے … میں ابھی تک انتظار میں بیٹھی تھی کہ تم لوگ آؤ تو کھانا کھاؤں۔”
کوئی بھی صحن میں کھڑے ہو کر ساتھ والے گھر کے صحن میں ہونے والی گفتگو سن سکتا تھا۔ صبغہ نے بے اختیار اپنے ہونٹ کاٹے۔ وہ پرائیویسی جس کی وہ اپنے گھر میں عادی تھی’ وہ ختم ہو چکی تھی۔ وہ اگر ساتھ والوں کے گھر میں ہونے والی گفتگو سن سکتی تھی تو وہ لوگ بھی ان کے ہاں ہونے والی گفتگو کو اسی آسانی کے ساتھ سن سکتے تھے’ سر جھٹک کر وہ ٹرے لیے کمرے میں چلی گئی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!