تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

برقع میں ملبوس وہ عورت اس دروازے کے سامنے کھڑی اسے کھٹکھٹا رہی تھی۔ اس نے برقع کے نقاب کے ساتھ اپنا آدھا چہرہ چھپایا ہوا تھا۔ چہرے کا جو حصہ نقاب سے نظر آ رہا تھا’ وہ اس کی عمر ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا۔ وہ ادھیڑ عمر قدرے بھاری جسم کی سانولی عورت تھی جس کی آنکھیں بے حد خوبصورت تھیں۔ عمر کے اس حصے میں بھی اس کی آنکھوں کو نظر انداز کرنا ناممکن تھا۔
اس کے ساتھ موجود دوسری عورت خاصی عمر رسیدہ تھی اور اس نے چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ دستک دینے کے بعد اگلے کئی منٹوں تک کوئی باہر نہیں آیا تو برقع والی عورت نے دوبارہ دروازے پر دستک دی۔ اس بار بہت جلد قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔ اس بوسیدہ سے مکان کی حالت خاصی مخدوش تھی اور اگر اس زمانے میں بھی وہاں کال بیل نہیں تھی تو وہاں کے مکینوں کی مالی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔
دروازہ یک دم کھل گیا۔ سامنے ملگجے حلیے میں ایک نوجوان لڑکی کھڑی تھی۔
٭٭٭
”یہ تو اب یقینا کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ثانی کہ تم دونوں مجھ سے جھوٹ بول رہے تھے۔” ثمر کے قدم آگے بڑھاتے ہی شہیر نے ثانی سے کہا وہ بے حد سنجیدہ تھا۔ ”اب سچ کیا تھا میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں یہ توقع کرتے ہوئے کہ اس بار بات کا آغاز جھوٹ سے نہیں ہو گا۔”
”میں نے تو پہلے بھی کوئی جھوٹ نہیں بولا شہیر بھائی! صرف ثومی کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ جھوٹ تو وہ بول رہا تھا۔” ثانی نے بے حد ندامت سے کہا۔
”تم نے اس کے جھوٹ کی تصدیق جھوٹ سے ہی کی ہے۔ بہر حال اب اس بات کو چھوڑ کر مجھے صرف یہ بتاؤ کہ تمہیں یہاں کیوں لے کر آیا ہے وہ؟” شہیر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”اور اس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے ہیں؟”
ثانی اس بار کچھ بھی نہیں چھپا سکی۔ اس نے شہیر کو وہاں کھڑے کھڑے ثمر کی ماڈلنگ سے لے کر نایاب کی فیملی اور پھر ثمر کے وہاں لانے کی وجہ تک سب کچھ بتا دیا۔ شہیر کے ماتھے پر کچھ بل آ گئے تھے۔ وہ چیخنے چلانے والا آدمی نہیں تھا۔ اس کے باوجود ثمر اور ثانی اس سے ڈرتے تھے اور اس کے ماتھے پر آنے والے بل ہی ان دونوں کو خائف کرنے کے لیے کافی ہوتے تھے اور اس وقت بھی اس کے ماتھے پر نمودار ہونے والے وہ بل ثانی کو نروس کر رہے تھے۔ شہیر نے اس تمام گفتگو کے دوران ایک بار بھی اسے ٹوکا تھا نہ ہی کوئی سوال کیا تھا۔ اس کے خاموش ہو جانے پر بھی اس نے کچھ نہیں کہا۔
”گھر چلیں دیر ہو رہی ہے۔” ثانی کی تمام بات سن لینے کے بعد اس نے بیرونی گیٹ کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ثانی سے کہا۔
٭٭٭




”مگر امی آپ اسے کس طرح شوبز میں جانے کی اجازت دے سکتی ہیں؟” شہیر نے بے حد ناراضی سے فاطمہ سے کہا۔
وہ دونوں رات کے اس پہر صحن میں بیٹھے ثمر کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ شہیر کے گھر پہنچنے پر فاطمہ نے اس وقت اسے ثمر کو مزید کچھ بھی کہنے سے روک دیا تھا۔
”میں پہلے ہی اسے بہت ڈانٹ چکی ہوں۔” اس نے شہیر سے کہا۔
”یہ دوبارہ کبھی اس طرح بغیر بتائے ثانی کو لے کر … کہیں نہیں جائے گا۔” شہیر فاطمہ کی بات پر دنگ رہ گیا۔ مگر میں پی سی جانے پر تو اس سے ناراض نہیں ہو رہا ہوں۔ میں تو ماڈلنگ کرنے پر ناراض ہوں۔ اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے اس نے آپ کو بتانا یا پوچھنا تک ضروری نہیں سمجھا۔”
”وہ اس بارے میں مجھ سے پہلے ہی معذرت کر چکا ہے۔”
”امی! آپ معذرت کی بات کر رہی ہیں۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ اس نے کتنی بڑی حماقت کی ہے۔”
”ہاں میں جانتی ہوں اس نے حماقت کی ہے مگر میں اس بارے میں تم سے بعد میں بات کروں گی۔ ابھی تم کپڑے تبدیل کرو اور کھانے کے لیے آ جاؤ۔ میں کھانا لگا رہی ہوں۔”
فاطمہ نے گفتگو کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ شہیر کو فاطمہ کا اس طرح موضوع تبدیل کرنا بے حد ناگوار گزرا مگر وہ ہمیشہ کی طرح خاموش ہو گیا۔ ثمر اس سے نظریں چراتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اور اب رات گئے جب ثمر اور ثانی دونوں سونے کے لیے جا چکے تھے۔ وہ دونوں ثمر کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ فاطمہ نے اسے ثمر کے فیصلے کے بارے میں بتایا شہیر کی ناراضی میں اضافہ ہو گیا۔
”اپنی تعلیم چھوڑ کر وہ بے وقوفوں کی لائن میں جا کر کھڑا ہو جائے گا۔” شہیر نے لگی لپٹی کے بغیر تبصرہ کیا۔
”وہ کہتا ہے اسے کچھ اور کمرشلز مل رہے ہیں۔” فاطمہ نے جیسے ثمر کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔
”دو چار کمرشلز سے کسی کا کیریئر نہیں بن جاتا۔ اور پھر تعلیم کتنی ضروری ہے۔ آپ نے اسے بتایا؟”
”وہ اپنی تعلیم تو نہیں چھوڑ رہا۔” فاطمہ نے فوراً کہا۔” میں نے اس سے وعدہ لیا ہے کہ وہ تعلیم کو نہ صرف ساتھ جاری رکھے گا بلکہ بہت اچھے گریڈز میں پاس ہوتا رہے گا۔”
”امی! ایسا کبھی نہیں ہوتا۔” شہیر نے سر کو جھٹکتے ہوئے کہا۔ ”شوبز میں اتنے دھکے کھانے پڑتے ہیں کہ آپ کو کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔ اور پھر کوئی پروفیشنل ڈگری اچھے گریڈز کے ساتھ۔ یہ صرف خواب ہی ہو سکتا ہے۔”
”مگر اس نے وعدہ کیا ہے۔”
”وہ اس لیے کیونکہ ابھی … اس کو آپ کی اجازت کی ضرورت ہے جب نہیں ہو گی تب وہ آپ کو بتائے بغیر تعلیم بھی چھوڑ دے گا۔” شہیر نے برہم لہجے میں کہا۔
”تمہیں اس کے جنون کا اندازہ ہے۔ ہم جتنا اسے سمجھانا چاہیں سمجھا لیں۔ وہ کرتا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے۔ تم اس کمرشل کو دیکھ لو۔ اس کو آفر ہوئی اور اس نے ہم سب کی ناراضی کے ڈر سے ہمیں بتائے بغیر اس میں کام کرنا شروع کر دیا۔”
فاطمہ نے شہیر کا چہرہ دیکھا’ جس کے چہرے پر ابھی بھی ناراضی تھی۔
”اگر اسے روکیں گے تو وہ آئندہ بھی چوری چھپے اسی طرح کے کام کرتا رہے گا۔ اسے اجازت دے دیں گے تو کم از کم ہمیں پتا تو ہو گا کہ وہ کیا کام کر رہا ہے۔”
”مگر امی شوبز۔ آپ سمجھ نہیں سکتیں وہاں کا ماحول کس طرح انسان کو خراب کرتا ہے۔”
”ثمر بہت سمجھ دار ہے۔ میں نہیں سمجھتی وہ ایسی کوئی حرکت کرے گا جو نامناسب یا غیر اخلاقی ہو۔ کم از کم اس معاملے میں مجھے اس کی طرف سے کوئی خدشہ نہیں ہے۔ اور پھر اب تو بہت اچھی اچھی فیملیز سے لوگ شوبز سے منسلک ہو رہے ہیں۔ ماحول تبدیل ہو رہا ہے۔” فاطمہ نے ثمر کے کہے گئے کلمات شہیر کے سامنے دہرائے۔
”ہم جس جگہ پر رہتے ہیں وہاں پر لوگ کبھی بھی شوبز میں کام کرنے والے کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ ثمر کمرشلز یا ڈراموں میں کام کرنا شروع کرے گا تو لوگ صرف اسی پر انگلیاں نہیں اٹھائیں گے۔” شہیر بے حد سنجیدہ تھا۔ ”آپ کی اور میری بھی بات کریں گے۔ ثانی کے حوالے سے بھی بہت کچھ کہیں گے۔ آپ نے اس کے بارے میں سوچا ہے؟ کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور پھر اگر وہ شوبز میں اپنی جگہ نہ بنا سکا تو کیا ہو گا۔” اس نے بڑی رسانیت سے فاطمہ کو سمجھایا۔
”اپنا کیریئر اور مستقبل دونوں خراب کر لے گا وہ۔ بہتر ہے کہ وہ وہی کرے جو اس کے اور ہم سب کے لیے بہتر ہے۔”
”مگر وہ ۔” فاطمہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن شہیر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنا کیریئر بنا لے۔ ماڈلنگ تو تب بھی کی جا سکتی ہے۔ آج کل تو لوگ کیریئر بنانے کے بعد بھی ماڈلنگ کرتے رہتے ہیں۔”
”مگر وہ کہتا ہے’ اسے ابھی چانس مل رہا ہے’ شاید کل چانس نہ ملے۔” فاطمہ نے ایک بار پھر ثمر کی حمایت کی۔
”اگر اس کی قسمت میں شوبز میں ہی جانا لکھا ہے تو اسے کل بھی چانس ملیں گے آپ اس سے بات تو کریں۔” اس نے سرجھٹکتے ہوئے فاطمہ سے کہا۔
”اگر بات قسمت ہی کی ہے تو پھر کل کے بجائے اسے آج قسمت آزمانے دو۔” شہیر’ فاطمہ کی بات پر قدرے ششدر سا اسے دیکھتا رہ گیا۔
٭٭٭
اندر سے آنے والی عورت نے دروازے پر کھڑی ان دو عورتوں کو بڑی حیرانی سے دیکھا۔ جن میں سے ایک برقعہ میں ملبوس تھی۔ ان دونوں کے چہرے اس کے لیے شناسا نہیں تھے۔
”السلام علیکم۔” اس عورت نے دروازہ کھلنے پر ان میں سے ایک کو کہتے سنا۔
”وعلیکم السلام… جی …” اس نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے قدرے مرعوب انداز میں کہا۔ کیونکہ سامنے کھڑی دونوں عورتیں اپنے حلیے سے اس محلے کے رہنے والے لوگوں میں سے نہیں لگ رہی تھیں۔
”ہم اندر آ کر چند منٹ آپ سے بات کر سکتے ہیں؟۔” اسی عورت نے جس نے پہلے اسے مخاطب کیا تھا’ کہا۔
”اندر آ کر؟” وہ یک دم ہچکچاہٹ کاشکار ہوئی۔ بالکل انجان عورتوں کو اندر بلاتے ہوئے یہ ہچکچاہٹ فطری تھی۔
”ہم آپ کا زیادہ وقت نہیں لیں گے صرف چند منٹ بات کرنا چاہتے ہیں۔” اس کو جھجکتے دیکھ کر اس عورت نے جلدی سے کہا۔
”وہ تو ٹھیک ہے مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔”
”آپ ہمیں پہچان نہیں سکتیں۔ ہم پہلے کبھی آپ سے نہیں ملے۔”
اس عورت کے تذبذب میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
”آپ کس سلسلے میں مجھ سے بات کرنا چاہتی ہیں؟”
”اگر آپ ہمیں اندر آنے کا موقع دیں تو ہم زیادہ اچھے طریقے سے آپ کو یہ بتا سکتے ہیں۔” اس بار برقع میں ملبوس عورت مخاطب ہوئی۔ کھلے دروازے میں کھڑی عورت نے بڑے غور سے اس برقعے والی عورت کو دیکھا جس کی آواز بے حد خوبصورت تھی اور پھر جیسے یک دم کسی فیصلہ پر پہنچتے ہوئے راستہ چھوڑ دیا’ ان دونوں عورتوں کے ہاتھوں اور انگلیوں میں موجود زیورات نے جیسے اسے یہ یقین دلا دیا تھا کہ وہ کم از کم وہاں اس چھوٹے سے ٹوٹے پھوٹے گھر میں ڈاکے کی نیت سے نہیں آ سکتیں۔
”آجائیں۔” دروازے سے باہر کھڑی عورتوں نے اس جملے پر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر یکے بعد دیگرے اندر داخل ہو گئیں۔ گھر سے نکلنے والی عورت نے ان کے پیچھے بڑھ کر دروازہ بند کر دیا اور پھر انہیں اپنی رہنمائی میں اندر ایک کمرے میں لے گئی’ جہاں موجود چیزیں اور فرنیچر یہ طے کرنے میں دقت کا باعث بن رہا تھا کہ وہ کمرہ سونے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یا مہمانوں کو بٹھانے کے لیے۔ اگر وہاں کرسیاں اور ایک ہلکا پھلکا سستا سا صوفہ تھا تو اس کے ساتھ ساتھ دو چارپائیاں بھی پڑی ہوئی تھیں۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!